جدید کرکٹ میں چالاکی اور عیاریاں
کاک، فخر واقعے نے کرکٹ کی دنیا میں طوفان برپا کردیا ہے اور ہمیشہ کی طرح کرکٹ قوانین کے بدلاؤ کا چرچا ہورہا ہے
''ارے، وہ دیکھو! وہ کیا ہے؟'' اور معصوم سا بھولا بھالا بچہ انگلی کی سمت دیکھنے لگتا تھا، جہاں 'کچھ نہیں' ہوتا تھا۔ اِس بیوقوف بنانے کے گیم میں بنانے والے کا قہقہ ہوتا تھا، اور بننے والے کی ندامت۔ بلکہ کئی بار لڑائی اور رونا دھونا۔
کون یقین کرسکتا ہے کہ یہ نادان ڈرامہ پیشہ ورانہ بین الاقوامی کرکٹ میں دیکھنے کو مل سکتا ہے، جب جنوبی افریقہ کے وکٹ کیپر ڈی کاک نے 'چالاکی' یا 'عیاری' سے پاکستانی اوپنر کی پویلین واپسی کو ممکن بنایا، جب بلے باز ون ڈے کرکٹ میں اپنی دوسری ڈبل سنچری سے صرف سات رنز دور تھے۔
31 رنز اور 6 گیندیں، بظاہر ٹارگٹ حاصل کرنا ناممکن تھا۔ گیم پاکستان کے ہاتھ سے جاچکا تھا۔ اگر کوئی چارم باقی تھا تو وہ بلے باز کی ممکنہ طور پر ہونے والی ڈبل سنچری تھی، جس کے انتظار میں پاکستانی شائقین اب بھی اسکرین پر نظریں جمائے بیٹھے تھے۔ (سوچیے اگر پاکستانی ٹیم جیتنے کی پوزیشن میں ہوتی تو ممکنہ طور پر اس صورت میں مظاہرے بھی ہوتے، جس میں ڈی کاک کا پتلا جلایا جاتا)۔
ڈبل سنچری تو نہیں ہوئی، لیکن ڈبل طوفان ضرور اٹھ گیا۔ شائقین تو کیا، سابق کھلاڑی بھی اپنا اپنا 'اسلحہ' لے کر میدان میں کود پڑے۔ اکثر نے ڈی کاک کو ہی آڑے ہاتھوں لیا۔ اس کے باوجود کہ میدان میں موجود امپائرز کا فیصلہ بلے باز کے خلاف تھا، ڈی کاک کی 'ہنرمندی' اور 'عیاری' کی ایک نہ ختم ہونے والی بحث جاری ہے۔ کسی نے ڈی کاک کو اپنی کارگزاری پر شاباش دی، جب کہ کسی نے اس کو عیار اور بے ایمان کہا۔
یہ بات حیران کن ہے کہ اپنے دائرے میں مقید لوگوں کےلیے ایک ہی عمل کےلیے مختلف نظریے ہیں۔ خاص طور پر 'سرحدوں کو عبور' کرتے ہوئے ہمارے ہیرو ولن اور ولن ہیرو بن جاتے ہیں۔ ایک کےلیے وکٹ کیپر کا عمل پیٹھ پر شاباش کا مستحق، تو دوسرے کےلیے لات۔
یہ بات ضرور ہے کہ جنوبی افریقہ جیسے ہمیشہ کے مضبوط بولنگ اٹیک کے سامنے ون ڈے میں ڈبل سنچری کرنا بلاشبہ ایک سنگِ میل ہے۔ فخر زمان کی یہی میچ وننگ صلاحیت اور غیر معمولی اننگز ہیں، جو اس کو باوجود کچھ عدم تسلسلی کے دوسرے 'اوپنرز' میں ممتاز کرتی ہیں۔ یقین نہیں آتا کہ ایسے کھلاڑی کو بھی باہر کیا گیا، جو آئی سی فائنل سمیت لازوال بلے بازی کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
اگرچہ ایک لحاظ سے ڈی کاک نے فخر زمان کو 'دھوکا' دیا اور موقع کی مناسبت اور فخر کی سستی اور عدم توجہی کو دیکھتے ہوئے ہاتھ سے غلط طرف اشارہ کیا۔ جس نے فخر زمان کی توجہ دوسری طرف کردی، جو آہستہ آہستہ اپنے ساتھی کا دھیان رکھتے ہوئے کریز میں واپس جارہے تھے۔ لیکن خود فخرزمان نے بھی اپنی غلطی کو قبول کیا اور وِکٹ کیپر کو بے قصور قرار دیا۔ اس کے علاوہ کھیل کے اب تک 'میدان میں بچے ہوئے قوانین' کے مطابق یہ فیلڈ امپائروں پر منحصر تھا کہ ڈی کاک کا ایکشن گیم کی اسپرٹ کے مطابق ہے یا نہیں۔
یہ ان بلے بازوں کی بھی سرزنش کا معاملہ ہے، جن کو لاپرواہ نہیں ہونا چاہیے اور اپنے پیروں پر ہونا چاہیے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ایسے واقعات کا رِواج نہیں بننا چاہیے۔ لیکن اگر اس کھیل پر اتنی زیادہ پابندیاں اور بے جا مباحث کیے جائیں گے تو وہ وقت دور نہیں، جب جعلی تھرو پر بھی پابندی لگ جائے گی، جو فیلڈر بلے باز کو ڈراوا دینے کےلیے کرتا ہے۔
چالیس سال قبل نیوزی لینڈ کے خلاف آسٹریلوی کپتان گریگ چپیل نے بولر (جوکہ ان کے اپنے چھوٹے بھائی تھے) کو 'انڈر آرم' گیند کرنے کی ہدایت کی، تاکہ گیند رینگتے ہوئے وکٹ تک جائے اور بلے باز چھکا نہ مار سکے۔ بیٹنگ ٹیم کو میچ برابر کرنے کےلیے چھکے کی ہی ضرورت تھی اور مخالف کپتان نے کمال 'ہوشیاری' سے بلے باز ٹیم کی ساری امید ختم کردی۔ اگرچہ یہ عمل اس وقت خلافِ قانون نہیں تھا، لیکن بلاشبہ کھیل کی روح کے سراسر منافی تھا، جس پر کپتان، بولر اور آسٹریلوی ٹیم کو تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ یاد رہے کہ یہ اس وقت کی بات ہے، جب گیم بڑے فارمیٹ سے چھوٹے فارمیٹ میں تبدیل اور مقبول ہونے جارہی تھی۔ یہ اس عشرے کا آغاز تھا، جس میں جینٹلمین گیم اب کمرشل ہونے جارہا تھا۔
چالیس سال میں کرکٹ کی دنیا میں ایک انقلاب آچکا ہے۔ کرکٹ کے مختصر فارمیٹ ٹی ٹوئنٹی اور ٹین ٹین ٹیسٹ کرکٹ کو محدود کرچکے ہیں۔ پانچ دن کا کھیل اب گھنٹوں میں ختم ہوجاتا ہے اور شائقین اب چوکوں چھکوں کی برسات دیکھنے کےلیے ہی اسٹیڈیم کا رخ کرتے ہیں یا اسکرینوں پر گیند کی پٹائی کے مزے لیتے ہیں۔ کرکٹ کا کھیل اب اپنا رخ بالکل بدل چکا ہے۔
اِس کاک، فخر کے بظاہر معمولی واقعے نے کرکٹ کی دنیا میں طوفان برپا کردیا ہے اور ہمیشہ کی طرح کرکٹ قوانین کے بدلاؤ کا چرچا ہورہا ہے۔ مگر یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ بہت زیادہ مداخلت اور امپائروں کا کردار محدود کرنا اس تبدیل شدہ گیم کا حسن اور بھی بگاڑ دیں گے۔
آئی سی سی کا حد سے زیادہ عمل دخل، ٹیکنالوجی کا استعمال اور 'شریفانہ گیم' کی رٹ اور بیان بازی اس وقت کے ساتھ تبدیل ہوتے کھیل کے منافی ہے۔ یہ ممکن ہے کہ کھیل کی اسپرٹ کے قانون کو بھی میدان کے بجائے تھرڈ امپائر اور ٹیکنالوجی کے ماتحت کردیا جائے مگر غیر ضروری ٹیکنالوجی کا استعمال اور مداخلتیں کرکٹ کی خوبصورتی کو برباد کردیں گی۔ لگتا ہے مباحث اس کھیل سے بڑھ کر ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کون یقین کرسکتا ہے کہ یہ نادان ڈرامہ پیشہ ورانہ بین الاقوامی کرکٹ میں دیکھنے کو مل سکتا ہے، جب جنوبی افریقہ کے وکٹ کیپر ڈی کاک نے 'چالاکی' یا 'عیاری' سے پاکستانی اوپنر کی پویلین واپسی کو ممکن بنایا، جب بلے باز ون ڈے کرکٹ میں اپنی دوسری ڈبل سنچری سے صرف سات رنز دور تھے۔
31 رنز اور 6 گیندیں، بظاہر ٹارگٹ حاصل کرنا ناممکن تھا۔ گیم پاکستان کے ہاتھ سے جاچکا تھا۔ اگر کوئی چارم باقی تھا تو وہ بلے باز کی ممکنہ طور پر ہونے والی ڈبل سنچری تھی، جس کے انتظار میں پاکستانی شائقین اب بھی اسکرین پر نظریں جمائے بیٹھے تھے۔ (سوچیے اگر پاکستانی ٹیم جیتنے کی پوزیشن میں ہوتی تو ممکنہ طور پر اس صورت میں مظاہرے بھی ہوتے، جس میں ڈی کاک کا پتلا جلایا جاتا)۔
ڈبل سنچری تو نہیں ہوئی، لیکن ڈبل طوفان ضرور اٹھ گیا۔ شائقین تو کیا، سابق کھلاڑی بھی اپنا اپنا 'اسلحہ' لے کر میدان میں کود پڑے۔ اکثر نے ڈی کاک کو ہی آڑے ہاتھوں لیا۔ اس کے باوجود کہ میدان میں موجود امپائرز کا فیصلہ بلے باز کے خلاف تھا، ڈی کاک کی 'ہنرمندی' اور 'عیاری' کی ایک نہ ختم ہونے والی بحث جاری ہے۔ کسی نے ڈی کاک کو اپنی کارگزاری پر شاباش دی، جب کہ کسی نے اس کو عیار اور بے ایمان کہا۔
یہ بات حیران کن ہے کہ اپنے دائرے میں مقید لوگوں کےلیے ایک ہی عمل کےلیے مختلف نظریے ہیں۔ خاص طور پر 'سرحدوں کو عبور' کرتے ہوئے ہمارے ہیرو ولن اور ولن ہیرو بن جاتے ہیں۔ ایک کےلیے وکٹ کیپر کا عمل پیٹھ پر شاباش کا مستحق، تو دوسرے کےلیے لات۔
یہ بات ضرور ہے کہ جنوبی افریقہ جیسے ہمیشہ کے مضبوط بولنگ اٹیک کے سامنے ون ڈے میں ڈبل سنچری کرنا بلاشبہ ایک سنگِ میل ہے۔ فخر زمان کی یہی میچ وننگ صلاحیت اور غیر معمولی اننگز ہیں، جو اس کو باوجود کچھ عدم تسلسلی کے دوسرے 'اوپنرز' میں ممتاز کرتی ہیں۔ یقین نہیں آتا کہ ایسے کھلاڑی کو بھی باہر کیا گیا، جو آئی سی فائنل سمیت لازوال بلے بازی کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
اگرچہ ایک لحاظ سے ڈی کاک نے فخر زمان کو 'دھوکا' دیا اور موقع کی مناسبت اور فخر کی سستی اور عدم توجہی کو دیکھتے ہوئے ہاتھ سے غلط طرف اشارہ کیا۔ جس نے فخر زمان کی توجہ دوسری طرف کردی، جو آہستہ آہستہ اپنے ساتھی کا دھیان رکھتے ہوئے کریز میں واپس جارہے تھے۔ لیکن خود فخرزمان نے بھی اپنی غلطی کو قبول کیا اور وِکٹ کیپر کو بے قصور قرار دیا۔ اس کے علاوہ کھیل کے اب تک 'میدان میں بچے ہوئے قوانین' کے مطابق یہ فیلڈ امپائروں پر منحصر تھا کہ ڈی کاک کا ایکشن گیم کی اسپرٹ کے مطابق ہے یا نہیں۔
یہ ان بلے بازوں کی بھی سرزنش کا معاملہ ہے، جن کو لاپرواہ نہیں ہونا چاہیے اور اپنے پیروں پر ہونا چاہیے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ایسے واقعات کا رِواج نہیں بننا چاہیے۔ لیکن اگر اس کھیل پر اتنی زیادہ پابندیاں اور بے جا مباحث کیے جائیں گے تو وہ وقت دور نہیں، جب جعلی تھرو پر بھی پابندی لگ جائے گی، جو فیلڈر بلے باز کو ڈراوا دینے کےلیے کرتا ہے۔
چالیس سال قبل نیوزی لینڈ کے خلاف آسٹریلوی کپتان گریگ چپیل نے بولر (جوکہ ان کے اپنے چھوٹے بھائی تھے) کو 'انڈر آرم' گیند کرنے کی ہدایت کی، تاکہ گیند رینگتے ہوئے وکٹ تک جائے اور بلے باز چھکا نہ مار سکے۔ بیٹنگ ٹیم کو میچ برابر کرنے کےلیے چھکے کی ہی ضرورت تھی اور مخالف کپتان نے کمال 'ہوشیاری' سے بلے باز ٹیم کی ساری امید ختم کردی۔ اگرچہ یہ عمل اس وقت خلافِ قانون نہیں تھا، لیکن بلاشبہ کھیل کی روح کے سراسر منافی تھا، جس پر کپتان، بولر اور آسٹریلوی ٹیم کو تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ یاد رہے کہ یہ اس وقت کی بات ہے، جب گیم بڑے فارمیٹ سے چھوٹے فارمیٹ میں تبدیل اور مقبول ہونے جارہی تھی۔ یہ اس عشرے کا آغاز تھا، جس میں جینٹلمین گیم اب کمرشل ہونے جارہا تھا۔
چالیس سال میں کرکٹ کی دنیا میں ایک انقلاب آچکا ہے۔ کرکٹ کے مختصر فارمیٹ ٹی ٹوئنٹی اور ٹین ٹین ٹیسٹ کرکٹ کو محدود کرچکے ہیں۔ پانچ دن کا کھیل اب گھنٹوں میں ختم ہوجاتا ہے اور شائقین اب چوکوں چھکوں کی برسات دیکھنے کےلیے ہی اسٹیڈیم کا رخ کرتے ہیں یا اسکرینوں پر گیند کی پٹائی کے مزے لیتے ہیں۔ کرکٹ کا کھیل اب اپنا رخ بالکل بدل چکا ہے۔
اِس کاک، فخر کے بظاہر معمولی واقعے نے کرکٹ کی دنیا میں طوفان برپا کردیا ہے اور ہمیشہ کی طرح کرکٹ قوانین کے بدلاؤ کا چرچا ہورہا ہے۔ مگر یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ بہت زیادہ مداخلت اور امپائروں کا کردار محدود کرنا اس تبدیل شدہ گیم کا حسن اور بھی بگاڑ دیں گے۔
آئی سی سی کا حد سے زیادہ عمل دخل، ٹیکنالوجی کا استعمال اور 'شریفانہ گیم' کی رٹ اور بیان بازی اس وقت کے ساتھ تبدیل ہوتے کھیل کے منافی ہے۔ یہ ممکن ہے کہ کھیل کی اسپرٹ کے قانون کو بھی میدان کے بجائے تھرڈ امپائر اور ٹیکنالوجی کے ماتحت کردیا جائے مگر غیر ضروری ٹیکنالوجی کا استعمال اور مداخلتیں کرکٹ کی خوبصورتی کو برباد کردیں گی۔ لگتا ہے مباحث اس کھیل سے بڑھ کر ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔