ذخیرہ اندوز خبردار۔۔۔۔

مصنوعی قحط اورمخلوق خداکوتنگ کرکے منافع خوری وقتی خوشحالی کاباعث توہوسکتی ہے مگرآخرت کی راحت کاسامان کبھی نہیں ہوسکتی

مصنوعی قحط اور مخلوق خدا کو تنگ کرکے منافع خوری وقتی خوش حالی کا باعث تو ہوسکتی ہے مگر آخرت کی راحت کا سامان کبھی نہیں ہوسکتی۔ فوٹو: فائل

اﷲ تعالیٰ نے انسان کو پیدا فرمانے سے پہلے اس کی غذا کا انتظام فرمایا۔ خوراک میں حلال چیزوں کو جائز اور حرام چیزوں کو ناجائز قرار دیا۔ مگر حلال اشیائے خور و نوش کو منافع خوری کے لیے ذخیرہ کرنے کو اسلام نے حرام قرار دیا ہے۔

حضرت ابن عمرؓ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ کے ارشاد مبارک کا مفہوم ہے کہ جو شخص لوگوں کی تنگی کے باوجود چالیس روز تک غلّہ روکے رکھتا ہے وہ اﷲ تعالیٰ سے کٹ گیا اور اﷲ تعالیٰ اس سے بَری ہے۔

حدیث مبارکہ کی رُو سے جالب سے مراد وہ شخص ہے جو غلّہ خرید کر شہر میں لاتا اور بیچتا ہے۔ سو ایسا شخص روزی پاتا ہے کہ لوگوں کو اس سے فائدہ ہوتا ہے اور اُسے مسلمانوں کی دعاؤں کی برکت نصیب ہوتی ہے اور محتکر ایسے شخص کو کہتے ہیں جو روک رکھنے کے لیے غلّہ خریدتا ہے کہ لوگوں کو تنگی پہنچے۔

ذخیرہ اندوزی کی صورتیں: فقیہؒ فرماتے ہیں کہ حکرہ یعنی ذخیرہ اندوزی جو منع ہے اس کی صورت یہ ہے کہ شہر سے غلّہ خرید کر بند کرے جب کہ شہریوں کو بھی ضرورت ہو اور تنگی محسوس کریں۔ ہاں اگر

کسی کی اپنی زمین کی فصل ہو یا دوسرے شہر سے خرید کر لایا ہو تو اسے جمع کرنا منع نہیں۔ تاہم افضل یہی ہے کہ اسے فروخت کر دے۔ روک رکھے گا تو بُرا کرے گا کہ اس کو مسلمانوں کے ساتھ کوئی ہم دردی

نہیں۔ ضروری ہے کہ ذخیرہ اندوز کو غلّے کی فروخت پر مجبور کیا جائے، نہ مانے تو تنبیہ اور تادیب کی جائے تاہم اسے کسی نرخ کا پابند نہ کیا جائے بل کہ بازار والے عام نرخ پر بیچنے کو کہا جائے۔


روایات میں آتا ہے کہ بنی اسرائیل کے عابدوں میں سے ایک عابد ریت کے ٹیلے پر سے گزرا۔ دل میں سوچنے لگا کہ اگر یہ ٹیلہ آٹے کا ہوتا تو میں بنی اسرائیل کو جو اس وقت قحط میں مبتلا ہیں خوب پیٹ بھر کر

کھلاتا۔ اﷲ تعالیٰ نے اس وقت کے نبیؑ پر وحی فرمائی کہ فلاں شخص سے کہہ دو کہ اﷲ تعالیٰ نے تیرے لیے وہ اجر لکھ دیا ہے جو تُو ٹیلے کی مقدار آٹا صدقہ کرکے حاصل کرتا۔ مطلب یہ کہ اس نے ایک اچھی نیّت کی تو اﷲ تعالیٰ نے اس کی اچھی نیّت پر مخلوق پر شفقت اور مہربانی کے جذبے پر اسے اجر عطا فرمایا۔ لہٰذا ہر مسلمان کو چاہیے کہ مسلمانوں کے لیے شفیق اور مہربان ہو کے رہے۔

ایک آدمی حضرت عبداﷲ بن عباسؓ کے پاس آکر کہنے لگا کہ مجھے کچھ نصیحت فرمائیے۔ آپؓ نے فرمایا کہ میں تجھے چھے باتوں کی تاکید کرتا ہوں: ایک ان چیزوں کے متعلق قلبی یقین پیدا کرنا جن کے ضامن اﷲ تعالیٰ ہو چکے ہیں۔ دوسری یہ کہ فرائض کو ان کے وقت پر ادا کرنا۔ تیسری یہ کہ زبان کو اﷲ تعالیٰ کے ذکر سے تر رکھنا۔ چوتھی یہ کہ شیطان کی موافقت نہ کرنا کہ وہ مخلوق سے حسد کرتا ہے۔ پانچویں یہ کہ دنیا کو آباد نہ کرنا، یہ تیری آخرت برباد کر دے گی۔ چھٹی بات یہ ہے کہ مسلمان کے لیے ہمیشہ ہم درد اور خیر خواہ رہنا۔

حضرت فقیہ ؒ فرماتے ہیں کہ مسلمان کو مسلمانوں کا خیر خواہ ہونا چاہیے کہ یہ سعادت کی علامتوں میں سے ہے۔ بزرگ کہتے ہیں کہ سعادت کی گیارہ علامات یہ ہیں: آدمی دنیا سے بے رغبتی اور آخرت میں رغبت رکھتا ہے۔ عبادت و تلاوت قرآن اس کا اہم مقصد ہو۔ غیر ضروری بات بہت کم کرتا ہو۔ پانچوں نمازوں کا پابند ہو۔ حرام سے بہت بچنے والا ہو خواہ وہ تھوڑا ہو یا زیادہ۔ اس کی ہم نشینی نیک لوگوں کے ساتھ ہو۔ مسکین طبع ہو، متکبّر نہ ہو۔ بااخلاق سخی ہو۔ اﷲ تعالیٰ کی مخلوق سے ہم دردی رکھتا ہو۔ مخلوق کے لیے نفع رساں ہو۔ موت کو کثرت سے یاد کرتا ہو۔

شقاوت و بَدبختی کی بھی علامتیں ہیں: مال جمع کرنے پر حریص ہو۔ دنیاوی لذّات اور خواہشات میں منہمک ہو۔ گفت گُو میں بدزبان اور زیادہ بولنے والا ہو۔ نمازوں میں سستی کرتا ہو۔ حرام اور مشتبہ مال کھاتا ہو اور بُرے لوگوں سے ہم نشینی رکھتا ہو۔ بَدخلق ہو۔ متکبّر اور مغرور ہو۔ لوگوں کو نفع پہنچانے سے روکتا ہو۔ مسلمانوں سے ہم دردی نہ رکھتا ہو۔ بخیل ہو۔ موت سے یکسر غافل ہو۔

کسی زاہد کا واقعہ ہے کہ اس کے گھر میں کچھ گندم پڑی تھی، قحط پڑگیا تو سب بیچ ڈالی اور پھر لوگوں کی طرح خود بھی حسب ضرورت خریدنے لگا۔ کسی نے کہا کہ پہلے ہی اپنی ضرورت کو رکھ لی ہوتی۔ وہ کہنے لگا: میں نے چاہا کہ لوگوں کے قحط والے غم میں میں بھی شریک ہو جاؤں۔

مذکورہ تمام احادیث و حکایات اور اقوال بزرگان دین سے ثابت ہوتا ہے کہ ذخیرہ اندوزی سے اﷲ و رسول ﷺ کی ناراضی اور مخلوق خدا کی نفرت میسر آتی ہے۔ لہٰذا وہ کام جس سے اﷲ و رسول اکرم ﷺ ناراض ہوں وہ جہنم میں لے جاتے ہیں۔ تاجر برادری اور دکان داروں کو چاہیے کہ وہ اشیائے خور و نوش کی قیمتیں مستحکم رکھیں۔ ذخیرہ اندوزی کرکے مصنوعی قحط کی کیفیت پیدا کرکے مخلوق خدا کو تنگ کرکے منافع خوری وقتی خوش حالی کا باعث تو ہو سکتی ہے مگر آخرت کی راحت کا سامان کبھی نہیں ہوسکتی۔
Load Next Story