وبا کے دنوں میں جنگ
طاقت کے مراکز کی اس منتقلی میں کئی دیرینہ اور تاریخی تنازعات ایک بارپھر سر اٹھائیں گے اور جنگوں میں بدلیں گے۔
کورونا وبا کی عالم گیر وبا کو ایک سال سے زائد کا عرصہ ہوچکا ہے اور اب اہم اس کی دوسری لہر سے گزر رہے ہیں۔ وبا کے اس گزرے برس میں ہمارے لیے سیکھنے کے بہت سے سبق ہیں۔
دنیا کو اس وبا کے باعث سب سے پہلے اس بات کا ادراک ہوا کہ ہماری زندگیاں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں اور صرف انسان، اشیا اور خیالات ہی سفر نہیں کرتے بلکہ انسانوں اور اشیا کے ذریعے بیماری کے جرثومے اور وائرس بھی پوری دنیا میں ایک سے دوسری جگہ منتقل ہوتے ہیں۔
ابتدا میں محسوس ہوتا تھا کہ وبا کے اس نئے چیلنج کے نتیجے میں ہماری دنیا اور عادات میں صحت مندانہ رویوں کو اختیارکرنے، ایک دوسرے سے ہم دردی اور ماحولیات سے متعلق مثبت تبدیلیاں آئیں گی اور اس وبا سے ہم یہ سوچنے پر مجبور ہوں گے کہ اپنی بہتری یا برائیوں کے لیے ہم سب ایک دوسرے پر کس قدر انحصار کرتے ہیں۔
لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ گزرا سال ایک خواب کی کیفیت کی طرح آیا اور گزر گیا۔ وبا کے بعد ہر ملک خود کو بچانے کی کوششوں میں مصروف دکھائی دیتا ہے۔ کورونا وبا سے پہلے ملکوں کی خود غرضی اور قوم پرستانہ جذبات ابھرنے کے جو آثار نمایاں ہونے لگے تھے، اس بحران میں ان کی شدت کم ہونے کے بجائے مزید بڑھ گئی۔ امریکا کے صدر ٹرمپ نے ''سب سے پہلے امریکا'' کا نعرہ لگایا اور اس پر عمل بھی کرکے دکھایا۔
تاہم جب وبا نے ٹرمپ حکومت کو ہلا کر رکھ دیا تو دیر سے سہی ٹرمپ نے اپنے سائنسدانوں اور ادویہ ساز کمپنیوں کو تیزی سے ویکسین کی تیاری کے واحد مقصد پر جمع کرلیا۔ ویکسین کی تیاری کے لیے شروع کی گئی کوششوں سے فائزر اور مرک جیسی بڑی کمپنیوں کے درمیان ویکسین کے حصول میں سبقت لے جانے کی دوڑ شروع ہوئی۔
اگرچہ آج ٹرمپ کی تعریف کرنا فیشن میں نہیں لیکن یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ اسی کے دور حکومت میں ویکسین کی تیاری کا کام مکمل بھی ہوا اور امریکا نے سب سے پہلے اپنی آبادی کی ضروریات سے بھی زائد ویکسین حاصل کرلی۔
مغربی میڈیا نے اپنے ہاں تیار ہونے والی ویکسین کی اثر پذیری اور محفوظ ہونے پر سوال اٹھانے سے زیادہ روس اور چین پر ''ویکسین ڈپلومیسی'' کا لیبل چسپاں کرنے میں اپنی توانائیاں کھپا دیں۔
مجموعی طور پر ایساماحول پیدا کردیا گیا کہ کون کس کی بنائی ہوئی ویکسین استعمال کرتا ہے؟ یہ سوال بھی اب عالمی سیاست کا حصہ بن گیا۔ یہ محض کہنے سننے کی بات نہیں۔ امریکا کے محکمہ صحت و انسانی خدمات نے تسلیم کیا کہ انھوں نے سفارتی تعلقات استعمال کرتے ہوئے کورونا سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں سر فہرست ملک برازیل کو اپنی ویکیسن خریدنے اور روس کی بنائی ہوئی ویکسین مسترد کرنے پر مجبور کیا۔
اس لیے وبا سے دنیا تبدیل تو ہوئی لیکن اس کی سمت توقع کے برعکس ہے۔ نام نہاد انسانی پہلوؤں کو ان ہنگامی حالات میں نظر انداز کردیا گیا اور ہم دنیا کے جس حصے میں آباد ہیں اس نے ایک بار پھر یہ سبق حاصل کیا کہ دوست وہی ہے جو برے وقت میں کام آئے۔ روس اور چین میں تیار ہونے والی ویکسین کے خلاف پُرزور مہم کے باوجود کئی ممالک نے اپنی بقا کی خاطر یہ ویکسینز حاصل کیں۔ دوسال قبل ہائبرڈ وار فیئر سے متعلق اپنے ایک مضمون کا اقتباس یہاں نقل کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے؛''ہائبرڈ وار فیئر کو اکیسویں صدی میں اہمیت حاصل ہوئی۔
عالمگیریت کے اس عہد نے مواصلات اور حکمت عملی کے اعتبار سے کئی نئی راہیں پیدا کی ہیں اور کئی فاصلے سکڑ چکے ہیں۔ پروشیئن جنرل اور جنگی ماہر کار وان کلازوچ کے مطابق ''ہر عہدے کے اپنے ہی جنگی حربے ہوتے ہیں، اس کی اپنی محدودات اور حالات اور اپنے مسائل و خدشات ہوتے ہیں۔'' اس نئی طرز کے میدانِ جنگ میں امن اور جنگ کے درمیان امتیاز واضح نہیں اور ہر جانب سے شہری اور فوجی دونوں ہی اس لڑائی کا حصہ ہیں۔
امریکا کے نزدیک ہائبرڈ وار کی تعریف یہ ہے'' یہ روایتی اور غیر رسمی فورس، جرائم پیشہ عناصر یا ان سبھی قوتوں اور عناصر کا متنوع اور کثیر الجہت اشتراک کار ہے جس کا مقصد مشترکہ طور پر مفید اثرات برآمد کرنا ہوتا ہے۔'' روسی اسکال کرایبکو کے نزدیک ہائبرڈ وار فیر سے مراد شناخت کی بنیاد پر پیدا شدہ تنازعات، تاریخی، نسلی، مذہبی، سماجی و اقتصادی اختلافات کے ذریعے انقلابی تحریکیں اور غیرروایتی جنگوں سے حریفوں کو زیر کرنے کے ہتھ کنڈے اس وار فیئر کی ذیل میں آتے ہیں۔ اس تناظرمیں کورونا کی ویکسین اور اس کی بدلتی اقسام کی آڑ میں سیاسی و جغرافیائی سیاسی مفادات کے لیے ایسی ایک ہائبرڈ وار شروع ہوچکی ہے۔
ہائبرڈ وار فیئر میں روایتی فوج اور جنگی حربوں سے ہٹ کر دولت اسلامیہ، حماس اور حزب اﷲ جیسے غیر روایتی جنگ جو گروہوں کو استعمال کرکے دہشت گردانہ کارروائیاں کروائی جاتی ہیں۔ نسلی و مذہبی تفریق کو بڑھانے کے لیے سول اداروں کو بروئے کار لایا جاتا ہے۔ بائیکاٹ، اسمگلنگ اور لاقانونیت سے دشمن کو کمزور کرنے کے لیے مسلسل کوششیں کی جاتی ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ سائبر حملے، ڈیٹا کا استعمال اور اس کی چوری کے ذریعے بریگزیٹ کے ریفرنڈم اور امریکی انتخابات جیسے رائے شماری کے اہم مواقع پر سوشل میڈیا، ٹی وی اور اخبارات کے ذریعے پراپیگنڈے کے لیے استعمال بھی اب اس جنگ کے ہتھیاروںمیں شامل ہے۔سفارت کاری کے ساتھ جعلی خبریں بھی اس جنگ کا حربہ ہیں۔ اسی تناظر میں ویکسین کے خلاف عوام کو بھڑکانے اور اس سے دور رہنے کے لیے مذہبی عناصر کا استعمال ہونا بعید از قیاس نہیں۔
روسی فوج سمجھتی ہے کہ یوریشیائی تصور کو عمل میں آنے اور روس کے دوبارہ عالمی قوت بننے سے روکنے کے لیے ہائبرڈ وار کا آغاز ہوچکا ہے اور اس میں چین اور روس دونوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ دوہزار سال قبل سان زو نے کہا تھا '' خود کو اور اپنے دشمن کو پہچان کر تم بغیر کسی تباہی کے سیکڑوں جنگیں لڑ سکتے ہو۔''
اس پس منظر کے ساتھ دیکھا جائے تو عالمی قوتوں کے باہمی تعلقات سے متعلق گزشتہ دو دہائیوں سے جاری کشیدگی وبا کے بعد ایک نیا رُخ اختیارکرتی نظر آرہی ہے۔ اکیسویں صدی کے بارے میں ہماری توقع تھی کہ یہ جنگوں کے خاتمے اور امن کی صدی ہوگی۔ لیکن اس صدی میں ترقی کے مراکز تبدیل ہوکر ماضی کے مغرب (امریکا اور یورپ) سے تبدیل ہو کر ایشیا اور یوریشیا منتقل ہو رہے ہیں۔ طاقت کے مراکز کی اس منتقلی میں کئی دیرینہ اور تاریخی تنازعات ایک بارپھر سر اٹھائیں گے اور جنگوں میں بدلیں گے۔
یوکرین، شام، یمن، نگورنو قرہ باخ اور دیگر تنازعات اس کا ثبوت ہیں۔ اس بار ویکسین اس جنگ کے ہتھیاروں میں شامل ہے۔ وبا نے ہمیں دکھا دیا کہ تبدیلی کا عمل جاری رہے گا البتہ نئے اتحاد مزید پختہ ہوں گے لیکن ان میں وقت لگے گا۔
(فاضل کالم نگار سیکیورٹی اور دفاعی امورکے تجزیہ کار ہیں)
دنیا کو اس وبا کے باعث سب سے پہلے اس بات کا ادراک ہوا کہ ہماری زندگیاں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں اور صرف انسان، اشیا اور خیالات ہی سفر نہیں کرتے بلکہ انسانوں اور اشیا کے ذریعے بیماری کے جرثومے اور وائرس بھی پوری دنیا میں ایک سے دوسری جگہ منتقل ہوتے ہیں۔
ابتدا میں محسوس ہوتا تھا کہ وبا کے اس نئے چیلنج کے نتیجے میں ہماری دنیا اور عادات میں صحت مندانہ رویوں کو اختیارکرنے، ایک دوسرے سے ہم دردی اور ماحولیات سے متعلق مثبت تبدیلیاں آئیں گی اور اس وبا سے ہم یہ سوچنے پر مجبور ہوں گے کہ اپنی بہتری یا برائیوں کے لیے ہم سب ایک دوسرے پر کس قدر انحصار کرتے ہیں۔
لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ گزرا سال ایک خواب کی کیفیت کی طرح آیا اور گزر گیا۔ وبا کے بعد ہر ملک خود کو بچانے کی کوششوں میں مصروف دکھائی دیتا ہے۔ کورونا وبا سے پہلے ملکوں کی خود غرضی اور قوم پرستانہ جذبات ابھرنے کے جو آثار نمایاں ہونے لگے تھے، اس بحران میں ان کی شدت کم ہونے کے بجائے مزید بڑھ گئی۔ امریکا کے صدر ٹرمپ نے ''سب سے پہلے امریکا'' کا نعرہ لگایا اور اس پر عمل بھی کرکے دکھایا۔
تاہم جب وبا نے ٹرمپ حکومت کو ہلا کر رکھ دیا تو دیر سے سہی ٹرمپ نے اپنے سائنسدانوں اور ادویہ ساز کمپنیوں کو تیزی سے ویکسین کی تیاری کے واحد مقصد پر جمع کرلیا۔ ویکسین کی تیاری کے لیے شروع کی گئی کوششوں سے فائزر اور مرک جیسی بڑی کمپنیوں کے درمیان ویکسین کے حصول میں سبقت لے جانے کی دوڑ شروع ہوئی۔
اگرچہ آج ٹرمپ کی تعریف کرنا فیشن میں نہیں لیکن یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ اسی کے دور حکومت میں ویکسین کی تیاری کا کام مکمل بھی ہوا اور امریکا نے سب سے پہلے اپنی آبادی کی ضروریات سے بھی زائد ویکسین حاصل کرلی۔
مغربی میڈیا نے اپنے ہاں تیار ہونے والی ویکسین کی اثر پذیری اور محفوظ ہونے پر سوال اٹھانے سے زیادہ روس اور چین پر ''ویکسین ڈپلومیسی'' کا لیبل چسپاں کرنے میں اپنی توانائیاں کھپا دیں۔
مجموعی طور پر ایساماحول پیدا کردیا گیا کہ کون کس کی بنائی ہوئی ویکسین استعمال کرتا ہے؟ یہ سوال بھی اب عالمی سیاست کا حصہ بن گیا۔ یہ محض کہنے سننے کی بات نہیں۔ امریکا کے محکمہ صحت و انسانی خدمات نے تسلیم کیا کہ انھوں نے سفارتی تعلقات استعمال کرتے ہوئے کورونا سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں سر فہرست ملک برازیل کو اپنی ویکیسن خریدنے اور روس کی بنائی ہوئی ویکسین مسترد کرنے پر مجبور کیا۔
اس لیے وبا سے دنیا تبدیل تو ہوئی لیکن اس کی سمت توقع کے برعکس ہے۔ نام نہاد انسانی پہلوؤں کو ان ہنگامی حالات میں نظر انداز کردیا گیا اور ہم دنیا کے جس حصے میں آباد ہیں اس نے ایک بار پھر یہ سبق حاصل کیا کہ دوست وہی ہے جو برے وقت میں کام آئے۔ روس اور چین میں تیار ہونے والی ویکسین کے خلاف پُرزور مہم کے باوجود کئی ممالک نے اپنی بقا کی خاطر یہ ویکسینز حاصل کیں۔ دوسال قبل ہائبرڈ وار فیئر سے متعلق اپنے ایک مضمون کا اقتباس یہاں نقل کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے؛''ہائبرڈ وار فیئر کو اکیسویں صدی میں اہمیت حاصل ہوئی۔
عالمگیریت کے اس عہد نے مواصلات اور حکمت عملی کے اعتبار سے کئی نئی راہیں پیدا کی ہیں اور کئی فاصلے سکڑ چکے ہیں۔ پروشیئن جنرل اور جنگی ماہر کار وان کلازوچ کے مطابق ''ہر عہدے کے اپنے ہی جنگی حربے ہوتے ہیں، اس کی اپنی محدودات اور حالات اور اپنے مسائل و خدشات ہوتے ہیں۔'' اس نئی طرز کے میدانِ جنگ میں امن اور جنگ کے درمیان امتیاز واضح نہیں اور ہر جانب سے شہری اور فوجی دونوں ہی اس لڑائی کا حصہ ہیں۔
امریکا کے نزدیک ہائبرڈ وار کی تعریف یہ ہے'' یہ روایتی اور غیر رسمی فورس، جرائم پیشہ عناصر یا ان سبھی قوتوں اور عناصر کا متنوع اور کثیر الجہت اشتراک کار ہے جس کا مقصد مشترکہ طور پر مفید اثرات برآمد کرنا ہوتا ہے۔'' روسی اسکال کرایبکو کے نزدیک ہائبرڈ وار فیر سے مراد شناخت کی بنیاد پر پیدا شدہ تنازعات، تاریخی، نسلی، مذہبی، سماجی و اقتصادی اختلافات کے ذریعے انقلابی تحریکیں اور غیرروایتی جنگوں سے حریفوں کو زیر کرنے کے ہتھ کنڈے اس وار فیئر کی ذیل میں آتے ہیں۔ اس تناظرمیں کورونا کی ویکسین اور اس کی بدلتی اقسام کی آڑ میں سیاسی و جغرافیائی سیاسی مفادات کے لیے ایسی ایک ہائبرڈ وار شروع ہوچکی ہے۔
ہائبرڈ وار فیئر میں روایتی فوج اور جنگی حربوں سے ہٹ کر دولت اسلامیہ، حماس اور حزب اﷲ جیسے غیر روایتی جنگ جو گروہوں کو استعمال کرکے دہشت گردانہ کارروائیاں کروائی جاتی ہیں۔ نسلی و مذہبی تفریق کو بڑھانے کے لیے سول اداروں کو بروئے کار لایا جاتا ہے۔ بائیکاٹ، اسمگلنگ اور لاقانونیت سے دشمن کو کمزور کرنے کے لیے مسلسل کوششیں کی جاتی ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ سائبر حملے، ڈیٹا کا استعمال اور اس کی چوری کے ذریعے بریگزیٹ کے ریفرنڈم اور امریکی انتخابات جیسے رائے شماری کے اہم مواقع پر سوشل میڈیا، ٹی وی اور اخبارات کے ذریعے پراپیگنڈے کے لیے استعمال بھی اب اس جنگ کے ہتھیاروںمیں شامل ہے۔سفارت کاری کے ساتھ جعلی خبریں بھی اس جنگ کا حربہ ہیں۔ اسی تناظر میں ویکسین کے خلاف عوام کو بھڑکانے اور اس سے دور رہنے کے لیے مذہبی عناصر کا استعمال ہونا بعید از قیاس نہیں۔
روسی فوج سمجھتی ہے کہ یوریشیائی تصور کو عمل میں آنے اور روس کے دوبارہ عالمی قوت بننے سے روکنے کے لیے ہائبرڈ وار کا آغاز ہوچکا ہے اور اس میں چین اور روس دونوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ دوہزار سال قبل سان زو نے کہا تھا '' خود کو اور اپنے دشمن کو پہچان کر تم بغیر کسی تباہی کے سیکڑوں جنگیں لڑ سکتے ہو۔''
اس پس منظر کے ساتھ دیکھا جائے تو عالمی قوتوں کے باہمی تعلقات سے متعلق گزشتہ دو دہائیوں سے جاری کشیدگی وبا کے بعد ایک نیا رُخ اختیارکرتی نظر آرہی ہے۔ اکیسویں صدی کے بارے میں ہماری توقع تھی کہ یہ جنگوں کے خاتمے اور امن کی صدی ہوگی۔ لیکن اس صدی میں ترقی کے مراکز تبدیل ہوکر ماضی کے مغرب (امریکا اور یورپ) سے تبدیل ہو کر ایشیا اور یوریشیا منتقل ہو رہے ہیں۔ طاقت کے مراکز کی اس منتقلی میں کئی دیرینہ اور تاریخی تنازعات ایک بارپھر سر اٹھائیں گے اور جنگوں میں بدلیں گے۔
یوکرین، شام، یمن، نگورنو قرہ باخ اور دیگر تنازعات اس کا ثبوت ہیں۔ اس بار ویکسین اس جنگ کے ہتھیاروں میں شامل ہے۔ وبا نے ہمیں دکھا دیا کہ تبدیلی کا عمل جاری رہے گا البتہ نئے اتحاد مزید پختہ ہوں گے لیکن ان میں وقت لگے گا۔
(فاضل کالم نگار سیکیورٹی اور دفاعی امورکے تجزیہ کار ہیں)