فٹبال فیڈریشن کا بوریا بستر ’’گول‘‘
ہمارے ارباب اختیار نے اختیارات اور ’فنڈز‘ کی خاطر دنیا کے سب سے مقبول کھیل کا پاکستان میں بھٹہ بٹھا دیا ہے
SEOUL:
حیرانگی اس بات پر نہیں کہ فٹ بال فیڈریشن پر ایک بار پھر پابندی لگی۔ اصل تذبذب کی بات ہے کہ آخر پابندی لگی کس ''چیز'' پر ہے؟ کیا واقعی ہمارے ہاں کوئی فٹ بال یا اس کی سرپرست کوئی چیز باقی بچی ہے یا رہنے دی گئی ہے؟ کچھ سادہ لوح تو یہ سمجھے کہ ہمارے ہاں اس کھیل کو ہی باقاعدہ منع کردیا گیا ہے اور انھوں نے کہیں کھیلتے بچوں اور لڑکوں کو سمجھانا شروع کردیا کہ اس 'برے' کھیل، جس میں بال کے ساتھ کچھ اچھا سلوک نہیں کیا جاتا، اس کا بوریا بستر گول ہوگیا ہے۔
لیکن فٹ بال کے ساتھ کچھ اچھا سلوک تو ہمارے ارباب اختیار نے نہیں کیا، جنہوں نے اختیارات اور 'فنڈز' کی خاطر دنیا کے سب سے مقبول اسپورٹس کا یہاں بھٹہ بٹھا دیا ہے۔ ایک تو نااہلی اور اوپر سے آپس میں رسہ کشی؛ رسہ کشی تو رسہ گیر کرتے ہیں۔ کھیل کے فروغ سے جنہیں کوئی سروکار نہیں ہوتا، پہلے وہ فائدے اٹھانے کےلیے مداخلت کرتے ہیں، پھر ان میں کوئی دوسرا موقع پرست مداخلت کرتا ہے، اور پھر تیسرا۔ نتیجتاً فٹ بال کی عالمی تنظیم بھی آخرکار مداخلت کرکے پابندی لگا کر کہتی ہے کہ ''تیسرے فریق کی بے جا مداخلت کے باعث پاکستان کا فٹ بال میں انٹرنیشنل داخلہ بند''۔ یعنی پاکستان کی 'بے ضرر ٹیم' پی آئی اے کے طیاروں کی طرح گراؤنڈ کردی گئی ہے اور اس کو لے کر عالمی میڈیا اور خاص کر ہندوستان کے اخباروں اور میڈیا میں خوب جگ ہنسائی ہوئی ہے۔
بائیس کروڑ کے بڑے ملک میں اسپورٹس میں صرف کرکٹ ہی ہے، جس کا ہر زاویے سے ہر وقت پوسٹ مارٹم ہوتا رہتا ہے۔ باقی یہاں ایسی بڑی ہزیمت پر بھی کوئی پوچھنے والا نہیں۔ دنیا کے مقبول ترین کھیل، جو پاکستان میں آج بھی مقبول ہے، کےلیے تو بہترین پالیسی، ڈومیسٹک انفرااسٹرکچر اور جدید منصوبہ بندی درکار ہوتی ہے، لیکن یہاں تو پہلے سے موجود اسٹیڈیم اور انفرااسٹرکچر کو ہی تباہ کردیا گیا۔ آگے کیا ترقی ہونی ہے۔
تقریباً تین دہائیاں قبل جب پوری دنیا میں اس کھیل کےلیے مناسب فنڈز ملنا شروع ہوئے تھے، تو فٹ بال فیڈریشن میں دو لاہوری سپوتوں صدر میاں اظہر اور سیکریٹری حافظ سلمان بٹ میں آپس میں فٹ بال شروع ہوگئی۔ لیگی سیاستدان نے جماعتی سیاستدان کو عالمی تنظیم کے ذریعے باہر کیا، تو حافظ صاحب نے جذبے سے بھرپور جوابی حملے جاری رکھے، اور پیچھا جاری رکھا۔ حتیٰ کہ 2002 میں جب میاں اظہر وزیراعظم کے مضبوط امیدوار تھے، لاہور کی دونوں سیٹوں پر میاں صاحب کے مدمقابل سلمان بٹ ہی تھے۔ اور بٹ صاحب نے پرانے فٹ بال کے حریف کو ہرا کر نہ صرف وزیراعظم کی دوڑ سے باہر کیا، بلکہ فیصل صالح حیات کے ذریعے میاں اظہر کو فٹ بال کے معاملات سے بھی رخصت کیا۔ تاہم ہمیشہ کے 'گھاگ' سیاستدان فیصل حیات نے اپنا 'لچ' تلنے کے بعد حافظ صاحب کو ایک بار پھر مایوس کرتے ہوئے فیفا کے ذریعے بلیک لسٹ کروادیا۔ اگلی دو دہائیوں تک اپنے بندوں سے بار بار 'منتحب' ہوتے رہے۔ اور اب فٹبال میں تنزلی کا شکار پاکستان کی رینکنگ اتنے نچلے نمبر پر ہے کہ شاید اس سے نیچے کچھ بھی نہیں ہے۔
سیاستدانوں سمیت ہمارے حکمرانوں اور دوسرے ارباب اختیار کو فیڈریشن کی صدارت وغیرہ سے بہت دلچسپی رہی ہے۔ وجہ سامنے ہے: اختیار اور فنڈز۔ کھیلوں کا تو وجود نظر نہیں آتا، لیکن اس کی تنظیمیں ضرور موجود ہیں۔ کوئی کبڈی کا صدر رہا ہے، کوئی ہاکی کا، کوئی فٹ بال کا، کوئی اولمپک کمیٹی کا، کوئی باکسنگ کا۔ فٹ بال میں تو عالمی تنظیم کھیل کے فروغ کےلیے اچھی خاصی رقم دیتی ہے۔ کہتے ہیں کہ وسائل نہیں ہیں؛ اگر فنڈز اور وسائل نہیں ہیں، تو آپ نے اتنی دلچسپی سے صدارت یا سیکریٹری کی پوزیشن کیوں سنبھالی ہوئی ہے؟ اندازہ لگائیے کہ اور تو اور، ایمانداری کے اور جمہوریت کے چیمپئن نامور سیاستدان اور وکیل اعتزاز احسن کو بھی جب موقع ملا، انھوں نے اپنی بیگم جو لاہور کے جنرل الیکشن میں ضمانت ضبط کروا بیٹھی تھیں، ان کو ویمن کرکٹ کی صدارت دلوا دی۔
فرض کرلیجئے کہ فنڈز میں گھپلا نہیں بھی ہوتا تو ان کھیلوں کو چلانے والے میرٹ اور صلاحیت پر نہیں آتے۔ الیکشن کے نام پر جو کچھ ہوتا ہے، سب کو پتہ ہے؛ اپنے بندے اور گروپنگ۔ پھر آپس میں ہی لڑ پڑتے ہیں، جیسے اب ہورہا ہے اور میاں اظہر کے وقت سے ہوتا آرہا ہے۔ فیفا کو اندھیرے میں رکھا جاتا ہے اور جب کوئی تحقیقات ہوتی ہے، تو پھر ایسی ہی پابندی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
فٹ بال ورلڈکپ کو دیکھتے ہوئے ہم پہلے آہیں بھرتے تھے کہ کاش پاکستانی ٹیم بھی کبھی کوالیفائی کرلے، لیکن اب تو یہ امید بھی بالکل ختم ہوچکی ہے۔ اب بس یہ ہوتا ہے کہ کوئی انفرادی، محلے یا علاقے کی سطح پر ٹیم پکڑ لیتا ہے؛ کوئی برازیل کا علاقہ، تو کوئی ارجنٹینا کا دیوانہ، اور کہیں اسلامی بھائی چارے کے تحت کوالیفائی کرنے والی کمزور مسلم ملک کی ٹیم کا ساتھ۔
یہ بات مبالغہ نہیں کہ پاکستان میں پڑوسی مملک کی نسبت فٹبال کا کافی جذبہ اور ٹیلنٹ موجود ہے۔ لیاری کے لوگ، مکرانی، بلوچی، پٹھان اور دوسرے ایسی فٹ بال کھیلتے ہیں کہ حیرانگی ہوتی ہے۔ لیکن ظاہر ہے کہ بغیر حکومتی سرپرستی اور ایک 'کام کرتی فیڈریشن' کے پاکستان دنیا تو کیا، ایشیا میں بھی کوئی مقام نہیں بناسکتا۔ بلکہ اب تو جنوبی ایشیا میں بھی سب سے پیچھے ہے۔ بھارت میں انٹرنیشنل لیگ صرف ہم دیکھ سکتے ہیں۔
کرکٹ کے علاوہ ویسے بھی منصوبہ بندی کے تحت یا نااہلی کے وصف باقی تمام کھیل کو بکری بنادیا گیا ہے۔ بس ایک کرکٹ ہی گیمز میں بچا ہے، اور اس میں جیتا ہوا ایک ورلڈ کپ، جس کو ہر وقت چومتے رہتے ہیں اور اس کو اٹھانے والے کو وزیراعظم بنا دیتے ہیں۔ شاید یہی ہماری 'ضرورت' تھی کہ باقی سب 'گول' کردیا جائے؛ ورلڈکپ میں گول کرنے کا خواب تو ادھورا ہی رہا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
حیرانگی اس بات پر نہیں کہ فٹ بال فیڈریشن پر ایک بار پھر پابندی لگی۔ اصل تذبذب کی بات ہے کہ آخر پابندی لگی کس ''چیز'' پر ہے؟ کیا واقعی ہمارے ہاں کوئی فٹ بال یا اس کی سرپرست کوئی چیز باقی بچی ہے یا رہنے دی گئی ہے؟ کچھ سادہ لوح تو یہ سمجھے کہ ہمارے ہاں اس کھیل کو ہی باقاعدہ منع کردیا گیا ہے اور انھوں نے کہیں کھیلتے بچوں اور لڑکوں کو سمجھانا شروع کردیا کہ اس 'برے' کھیل، جس میں بال کے ساتھ کچھ اچھا سلوک نہیں کیا جاتا، اس کا بوریا بستر گول ہوگیا ہے۔
لیکن فٹ بال کے ساتھ کچھ اچھا سلوک تو ہمارے ارباب اختیار نے نہیں کیا، جنہوں نے اختیارات اور 'فنڈز' کی خاطر دنیا کے سب سے مقبول اسپورٹس کا یہاں بھٹہ بٹھا دیا ہے۔ ایک تو نااہلی اور اوپر سے آپس میں رسہ کشی؛ رسہ کشی تو رسہ گیر کرتے ہیں۔ کھیل کے فروغ سے جنہیں کوئی سروکار نہیں ہوتا، پہلے وہ فائدے اٹھانے کےلیے مداخلت کرتے ہیں، پھر ان میں کوئی دوسرا موقع پرست مداخلت کرتا ہے، اور پھر تیسرا۔ نتیجتاً فٹ بال کی عالمی تنظیم بھی آخرکار مداخلت کرکے پابندی لگا کر کہتی ہے کہ ''تیسرے فریق کی بے جا مداخلت کے باعث پاکستان کا فٹ بال میں انٹرنیشنل داخلہ بند''۔ یعنی پاکستان کی 'بے ضرر ٹیم' پی آئی اے کے طیاروں کی طرح گراؤنڈ کردی گئی ہے اور اس کو لے کر عالمی میڈیا اور خاص کر ہندوستان کے اخباروں اور میڈیا میں خوب جگ ہنسائی ہوئی ہے۔
بائیس کروڑ کے بڑے ملک میں اسپورٹس میں صرف کرکٹ ہی ہے، جس کا ہر زاویے سے ہر وقت پوسٹ مارٹم ہوتا رہتا ہے۔ باقی یہاں ایسی بڑی ہزیمت پر بھی کوئی پوچھنے والا نہیں۔ دنیا کے مقبول ترین کھیل، جو پاکستان میں آج بھی مقبول ہے، کےلیے تو بہترین پالیسی، ڈومیسٹک انفرااسٹرکچر اور جدید منصوبہ بندی درکار ہوتی ہے، لیکن یہاں تو پہلے سے موجود اسٹیڈیم اور انفرااسٹرکچر کو ہی تباہ کردیا گیا۔ آگے کیا ترقی ہونی ہے۔
تقریباً تین دہائیاں قبل جب پوری دنیا میں اس کھیل کےلیے مناسب فنڈز ملنا شروع ہوئے تھے، تو فٹ بال فیڈریشن میں دو لاہوری سپوتوں صدر میاں اظہر اور سیکریٹری حافظ سلمان بٹ میں آپس میں فٹ بال شروع ہوگئی۔ لیگی سیاستدان نے جماعتی سیاستدان کو عالمی تنظیم کے ذریعے باہر کیا، تو حافظ صاحب نے جذبے سے بھرپور جوابی حملے جاری رکھے، اور پیچھا جاری رکھا۔ حتیٰ کہ 2002 میں جب میاں اظہر وزیراعظم کے مضبوط امیدوار تھے، لاہور کی دونوں سیٹوں پر میاں صاحب کے مدمقابل سلمان بٹ ہی تھے۔ اور بٹ صاحب نے پرانے فٹ بال کے حریف کو ہرا کر نہ صرف وزیراعظم کی دوڑ سے باہر کیا، بلکہ فیصل صالح حیات کے ذریعے میاں اظہر کو فٹ بال کے معاملات سے بھی رخصت کیا۔ تاہم ہمیشہ کے 'گھاگ' سیاستدان فیصل حیات نے اپنا 'لچ' تلنے کے بعد حافظ صاحب کو ایک بار پھر مایوس کرتے ہوئے فیفا کے ذریعے بلیک لسٹ کروادیا۔ اگلی دو دہائیوں تک اپنے بندوں سے بار بار 'منتحب' ہوتے رہے۔ اور اب فٹبال میں تنزلی کا شکار پاکستان کی رینکنگ اتنے نچلے نمبر پر ہے کہ شاید اس سے نیچے کچھ بھی نہیں ہے۔
سیاستدانوں سمیت ہمارے حکمرانوں اور دوسرے ارباب اختیار کو فیڈریشن کی صدارت وغیرہ سے بہت دلچسپی رہی ہے۔ وجہ سامنے ہے: اختیار اور فنڈز۔ کھیلوں کا تو وجود نظر نہیں آتا، لیکن اس کی تنظیمیں ضرور موجود ہیں۔ کوئی کبڈی کا صدر رہا ہے، کوئی ہاکی کا، کوئی فٹ بال کا، کوئی اولمپک کمیٹی کا، کوئی باکسنگ کا۔ فٹ بال میں تو عالمی تنظیم کھیل کے فروغ کےلیے اچھی خاصی رقم دیتی ہے۔ کہتے ہیں کہ وسائل نہیں ہیں؛ اگر فنڈز اور وسائل نہیں ہیں، تو آپ نے اتنی دلچسپی سے صدارت یا سیکریٹری کی پوزیشن کیوں سنبھالی ہوئی ہے؟ اندازہ لگائیے کہ اور تو اور، ایمانداری کے اور جمہوریت کے چیمپئن نامور سیاستدان اور وکیل اعتزاز احسن کو بھی جب موقع ملا، انھوں نے اپنی بیگم جو لاہور کے جنرل الیکشن میں ضمانت ضبط کروا بیٹھی تھیں، ان کو ویمن کرکٹ کی صدارت دلوا دی۔
فرض کرلیجئے کہ فنڈز میں گھپلا نہیں بھی ہوتا تو ان کھیلوں کو چلانے والے میرٹ اور صلاحیت پر نہیں آتے۔ الیکشن کے نام پر جو کچھ ہوتا ہے، سب کو پتہ ہے؛ اپنے بندے اور گروپنگ۔ پھر آپس میں ہی لڑ پڑتے ہیں، جیسے اب ہورہا ہے اور میاں اظہر کے وقت سے ہوتا آرہا ہے۔ فیفا کو اندھیرے میں رکھا جاتا ہے اور جب کوئی تحقیقات ہوتی ہے، تو پھر ایسی ہی پابندی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
فٹ بال ورلڈکپ کو دیکھتے ہوئے ہم پہلے آہیں بھرتے تھے کہ کاش پاکستانی ٹیم بھی کبھی کوالیفائی کرلے، لیکن اب تو یہ امید بھی بالکل ختم ہوچکی ہے۔ اب بس یہ ہوتا ہے کہ کوئی انفرادی، محلے یا علاقے کی سطح پر ٹیم پکڑ لیتا ہے؛ کوئی برازیل کا علاقہ، تو کوئی ارجنٹینا کا دیوانہ، اور کہیں اسلامی بھائی چارے کے تحت کوالیفائی کرنے والی کمزور مسلم ملک کی ٹیم کا ساتھ۔
یہ بات مبالغہ نہیں کہ پاکستان میں پڑوسی مملک کی نسبت فٹبال کا کافی جذبہ اور ٹیلنٹ موجود ہے۔ لیاری کے لوگ، مکرانی، بلوچی، پٹھان اور دوسرے ایسی فٹ بال کھیلتے ہیں کہ حیرانگی ہوتی ہے۔ لیکن ظاہر ہے کہ بغیر حکومتی سرپرستی اور ایک 'کام کرتی فیڈریشن' کے پاکستان دنیا تو کیا، ایشیا میں بھی کوئی مقام نہیں بناسکتا۔ بلکہ اب تو جنوبی ایشیا میں بھی سب سے پیچھے ہے۔ بھارت میں انٹرنیشنل لیگ صرف ہم دیکھ سکتے ہیں۔
کرکٹ کے علاوہ ویسے بھی منصوبہ بندی کے تحت یا نااہلی کے وصف باقی تمام کھیل کو بکری بنادیا گیا ہے۔ بس ایک کرکٹ ہی گیمز میں بچا ہے، اور اس میں جیتا ہوا ایک ورلڈ کپ، جس کو ہر وقت چومتے رہتے ہیں اور اس کو اٹھانے والے کو وزیراعظم بنا دیتے ہیں۔ شاید یہی ہماری 'ضرورت' تھی کہ باقی سب 'گول' کردیا جائے؛ ورلڈکپ میں گول کرنے کا خواب تو ادھورا ہی رہا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔