پولیس افسر کی عوام میں پذیرائی
شہباز شریف نے ضلع کا چارج سنبھالتے ہی ضلع بھر کے تمام تھانوں کا دورہ کیا۔
چند ماہ قبل وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے ضلع چکوال کے عوام کی شکایات کے پیش نظر چکوال کے عوام پر ہونے والے ظلم و ستم کر مد نظر رکھ کر سیاسی پنڈتوں کے بھرپور احتجاج کے باوجود میرٹ پر ڈاکٹر معین مسعود کو ضلع چکوال کا ڈی پی او تعینات کیا تھا، جس پر چکوال کے عوام نے سکھ کا سانس لیا۔
انہوں نے ضلع کا چارج سنبھالتے ہی ضلع بھر کے تمام تھانوں کا دورہ کیا اور پولیس افسروں کو محرم الحرام کو پر امن طور پر گذارنے کے لیے اپنی ترجیحات سے آگاہ کیا اور ساتھ ہی ساتھ انہوں نے تمام مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے علماء کرام مشائخ عظام ، تاجر برادری اور معززین علاقہ سے بھی ملاقاتیں کر کے انہیں اعتماد میں لیا، مکاتیب فکر کے لوگوں نے انہیں یقین دلایا کہ وہ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے مکمل تعاون کریں گے، اس کے علاوہ انہوں نے پولیس کو یہ بھی پیغام دیا کہ پولیس افسر اپنے فرائض منصبی کی ادائی میں کسی قسم کی کوتاہی یا غفلت کا مظاہرہ نہیں کریں گے اور جرائم پیشہ عناصر کی سرکوبی کے لیے کسی بھی سفارش یا چمک کو خاطر میں نہیں لائیں گے۔
جو افسر دیانت داری سے فرائض ادا کریں گے، ان کی نہ صرف حوصلہ افزائی کی جائے گی بل کہ ان کی ترقی کے لیے بھی سفارشات حکومت پنجاب کو ارسال کی جائیں گی لیکن جو افسر بددیانتی یا کرپشن میں مبتلا پایا گیا تو اسے ملازمت سے فارغ کر کے گھر بھیج دیا جائے گا۔ انہوں نے پولیس کو یہ بھی ٹاسک دیا کہ وہ اپنے اپنے علاقوں میں مجرموں، اشتہاریوں اور ڈاکووں، چوروں کو جلد از جلد گرفتار کر کے انہیں کیفر کردار تک پہنچائیں۔ ڈی پی او چکوال کی پیشہ ورانہ صلاحتیوں کے باعث جہاں محرم الحرام اور صفر کے دوران جلوسوں اور مجالس کو پرامن رکھا گیا، وہاں مجرموں، اشتہاریوں، قاتلوں اور ڈاکووں کو بھی کیفرکردار تک پہنچانے کے لیے پولیس کو ہائی الرٹ کر دیا گیا ہے جب کہ پولیس کو ان کے مقابلے کے لیے جدید اسلحہ سے بھی لیس کیا گیا ہے۔
جمعۃالمبارک کو ایس ایچ او چوآسیدن شاہ چوہدری اثر علی کو اطلاع ملی کہ انب کے علاقے منہالہ کے پہاڑوں میں چھے ڈاکو، جو اشتہاری بھی ہیں، لوگوں کو اسلحہ کی نوک پر لوٹ رہے ہیں اور انہوں نے یہ سلسلہ تسلسل سے جاری رکھا ہوا ہے۔ اس اطلاع پر انہوں نے تھانے کی نفری لے کر علاقے کا محاصرہ کر لیا تو ان ڈاکوؤں نے پولیس پر فائرنگ شروع کر دی، جس پر چوہدری اثر علی نے فوری طور پر ڈی پی او چکوال کو فون پر اطلاع دی کہ پولیس مقابلہ شروع ہو چکا ہے اور مزید نفری بھجوائی جائے۔ ڈی پی او نے پولیس کی بھاری نفری ساتھ لی اور موقع پر پہنچ گئے۔ یہ مقابلہ چھے گھنٹے تک جاری رہا۔ اس مقابلے کے دوران دو ڈاکو عدنان اور طیب پسران ذکریا سکنہ پڈھ ضلع چکوال، مارے گئے اور دو ڈاکو، محمد ذیشان ، محمد ارسلان، جو مارے جانے والے ڈاکوؤں کے ہی حقیقی بھائی ہیں، زندہ گرفتار کر لیے گئے البتہ دو ڈاک رات کے اندھیرے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے فرار ہوگئے، فرار ہوجانے والوں میں بھی ایک عاقب جاوید مارے جانے والوں کا بھائی ہے جب کہ دوسرا ان کا نامعلوم ساتھی ہے۔
ان ڈاکووں نے کافی عرصے سے لوٹ مار اور قتل و غارت کا بازار گرم کر رکھا تھا۔ یہ ملزم قتل اور ڈکیتی کی درجنوں وارداتوں میں مجرم اشتہاری بھی چلے آ رہے تھے جب کہ ان ڈاکوؤں نے تھانہ ڈوہمن کے علاقے سے ایک اغوا برائے تاوان کی واردات بھی کر رکھی تھی، اس میںبھی وہ اشتہاری چلے آ رہے تھے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ عدالتوں نے انہیں ڈکیتی کے مقدمات میں بری کر دیا تھا جس کے بعد ان کے حوصلے مزید بلند ہو گئے تھے اور انہوں نے مزید وارداتوں کا بازار گرم رکر ڈالا۔ وقوعہ کے روز بھی یہ سب اسلحہ کی نوک پر لوٹ مار کر رہے تھے جس پر اہلیان علاقہ نے اس کی اطلاع پولیس کو دی تھی، جس پر ایس ایچ او چوہدری اثر علی نتائج کی پروا کیے بغیر پولیس کی نفری کے ہم راہ جائے وقوع پر پہنچ گئے تھے۔
یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ کراچی میں چوہدری اسلم شہید نے جس مردانہ وار انداز میں مقابلہ کرتے ہوئے سو سے زیادہ دہشت گردوں کا قلع قمع کر کے اپنی جان کا نذرانہ دیا، جس پر انہیں ملکی اور غیر ملکی سطح پر خراج تحسین پیش کیا گیا، اس سے محکمۂ پولیس کے تمام افسروں کے حوصلے بلند ہوئے ہیں اور اب پولیس افسران کا کہنا ہے وہ بھی چوہدری اسلم کے مشن کو جاری رکھتے ہوئے جرائم پیشہ عناصر سے سر زمین پاکستان کو پاک کر کے دم لیں گے، جو نہایت ہی حوصلہ افزا علامت ہے جب کہ ڈی پی او چکوال ڈاکٹر معین مسعود نے ماتحت پولیس کے شانہ بہ شانہ چل کر ڈاکووںکا مقابلہ کر کے جس طرح ان کے حوصلے بلند کیے، وہ بھی اپنی مثال آپ ہے اور اگر ان کی جگہ پر کوئی اور سفارشی ڈی پی او تعینات ہوتا تو یہ کام کسی طور پر نہیں کیا جاسکتا تھا کیوں کہ ان جرائم پیشہ عناصر کو تو حکومتی ارباب اختیار کی مکمل سرپرستی حاصل رہی ہے۔ اہلیاں علاقہ نے پولیس نفری اور ڈی پی او پر گھروں کی چھتوں پر چڑھ کر پھول کی منوں پتیاں نچھاور کر کے خراج تحسین پیش کیا، وہ بھی ایک یاد گار رہے گا۔
انہوں نے ضلع کا چارج سنبھالتے ہی ضلع بھر کے تمام تھانوں کا دورہ کیا اور پولیس افسروں کو محرم الحرام کو پر امن طور پر گذارنے کے لیے اپنی ترجیحات سے آگاہ کیا اور ساتھ ہی ساتھ انہوں نے تمام مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے علماء کرام مشائخ عظام ، تاجر برادری اور معززین علاقہ سے بھی ملاقاتیں کر کے انہیں اعتماد میں لیا، مکاتیب فکر کے لوگوں نے انہیں یقین دلایا کہ وہ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے مکمل تعاون کریں گے، اس کے علاوہ انہوں نے پولیس کو یہ بھی پیغام دیا کہ پولیس افسر اپنے فرائض منصبی کی ادائی میں کسی قسم کی کوتاہی یا غفلت کا مظاہرہ نہیں کریں گے اور جرائم پیشہ عناصر کی سرکوبی کے لیے کسی بھی سفارش یا چمک کو خاطر میں نہیں لائیں گے۔
جو افسر دیانت داری سے فرائض ادا کریں گے، ان کی نہ صرف حوصلہ افزائی کی جائے گی بل کہ ان کی ترقی کے لیے بھی سفارشات حکومت پنجاب کو ارسال کی جائیں گی لیکن جو افسر بددیانتی یا کرپشن میں مبتلا پایا گیا تو اسے ملازمت سے فارغ کر کے گھر بھیج دیا جائے گا۔ انہوں نے پولیس کو یہ بھی ٹاسک دیا کہ وہ اپنے اپنے علاقوں میں مجرموں، اشتہاریوں اور ڈاکووں، چوروں کو جلد از جلد گرفتار کر کے انہیں کیفر کردار تک پہنچائیں۔ ڈی پی او چکوال کی پیشہ ورانہ صلاحتیوں کے باعث جہاں محرم الحرام اور صفر کے دوران جلوسوں اور مجالس کو پرامن رکھا گیا، وہاں مجرموں، اشتہاریوں، قاتلوں اور ڈاکووں کو بھی کیفرکردار تک پہنچانے کے لیے پولیس کو ہائی الرٹ کر دیا گیا ہے جب کہ پولیس کو ان کے مقابلے کے لیے جدید اسلحہ سے بھی لیس کیا گیا ہے۔
جمعۃالمبارک کو ایس ایچ او چوآسیدن شاہ چوہدری اثر علی کو اطلاع ملی کہ انب کے علاقے منہالہ کے پہاڑوں میں چھے ڈاکو، جو اشتہاری بھی ہیں، لوگوں کو اسلحہ کی نوک پر لوٹ رہے ہیں اور انہوں نے یہ سلسلہ تسلسل سے جاری رکھا ہوا ہے۔ اس اطلاع پر انہوں نے تھانے کی نفری لے کر علاقے کا محاصرہ کر لیا تو ان ڈاکوؤں نے پولیس پر فائرنگ شروع کر دی، جس پر چوہدری اثر علی نے فوری طور پر ڈی پی او چکوال کو فون پر اطلاع دی کہ پولیس مقابلہ شروع ہو چکا ہے اور مزید نفری بھجوائی جائے۔ ڈی پی او نے پولیس کی بھاری نفری ساتھ لی اور موقع پر پہنچ گئے۔ یہ مقابلہ چھے گھنٹے تک جاری رہا۔ اس مقابلے کے دوران دو ڈاکو عدنان اور طیب پسران ذکریا سکنہ پڈھ ضلع چکوال، مارے گئے اور دو ڈاکو، محمد ذیشان ، محمد ارسلان، جو مارے جانے والے ڈاکوؤں کے ہی حقیقی بھائی ہیں، زندہ گرفتار کر لیے گئے البتہ دو ڈاک رات کے اندھیرے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے فرار ہوگئے، فرار ہوجانے والوں میں بھی ایک عاقب جاوید مارے جانے والوں کا بھائی ہے جب کہ دوسرا ان کا نامعلوم ساتھی ہے۔
ان ڈاکووں نے کافی عرصے سے لوٹ مار اور قتل و غارت کا بازار گرم کر رکھا تھا۔ یہ ملزم قتل اور ڈکیتی کی درجنوں وارداتوں میں مجرم اشتہاری بھی چلے آ رہے تھے جب کہ ان ڈاکوؤں نے تھانہ ڈوہمن کے علاقے سے ایک اغوا برائے تاوان کی واردات بھی کر رکھی تھی، اس میںبھی وہ اشتہاری چلے آ رہے تھے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ عدالتوں نے انہیں ڈکیتی کے مقدمات میں بری کر دیا تھا جس کے بعد ان کے حوصلے مزید بلند ہو گئے تھے اور انہوں نے مزید وارداتوں کا بازار گرم رکر ڈالا۔ وقوعہ کے روز بھی یہ سب اسلحہ کی نوک پر لوٹ مار کر رہے تھے جس پر اہلیان علاقہ نے اس کی اطلاع پولیس کو دی تھی، جس پر ایس ایچ او چوہدری اثر علی نتائج کی پروا کیے بغیر پولیس کی نفری کے ہم راہ جائے وقوع پر پہنچ گئے تھے۔
یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ کراچی میں چوہدری اسلم شہید نے جس مردانہ وار انداز میں مقابلہ کرتے ہوئے سو سے زیادہ دہشت گردوں کا قلع قمع کر کے اپنی جان کا نذرانہ دیا، جس پر انہیں ملکی اور غیر ملکی سطح پر خراج تحسین پیش کیا گیا، اس سے محکمۂ پولیس کے تمام افسروں کے حوصلے بلند ہوئے ہیں اور اب پولیس افسران کا کہنا ہے وہ بھی چوہدری اسلم کے مشن کو جاری رکھتے ہوئے جرائم پیشہ عناصر سے سر زمین پاکستان کو پاک کر کے دم لیں گے، جو نہایت ہی حوصلہ افزا علامت ہے جب کہ ڈی پی او چکوال ڈاکٹر معین مسعود نے ماتحت پولیس کے شانہ بہ شانہ چل کر ڈاکووںکا مقابلہ کر کے جس طرح ان کے حوصلے بلند کیے، وہ بھی اپنی مثال آپ ہے اور اگر ان کی جگہ پر کوئی اور سفارشی ڈی پی او تعینات ہوتا تو یہ کام کسی طور پر نہیں کیا جاسکتا تھا کیوں کہ ان جرائم پیشہ عناصر کو تو حکومتی ارباب اختیار کی مکمل سرپرستی حاصل رہی ہے۔ اہلیاں علاقہ نے پولیس نفری اور ڈی پی او پر گھروں کی چھتوں پر چڑھ کر پھول کی منوں پتیاں نچھاور کر کے خراج تحسین پیش کیا، وہ بھی ایک یاد گار رہے گا۔