آواز کے ذریعے ہیکنگ
محفوظ ترین کمپیوٹر بھی زد میں آگئے
انٹرنیٹ ہماری روزمرہ زندگی کا جزولاینفک بن چکا ہے۔
اس ٹیکنالوجی کے استعمال کنندگان کے لیے ہیکرز سب سے بڑا خطرہ ہیں جو مختلف وائرس پروگراموں کے ذریعے ڈیٹا چرالیتے ہیں اور اسے منفی سرگرمیوں میں استعمال کرسکتے ہیں۔ انٹرنیٹ کی دنیا میں ہیکرز اور سائبر سیکیورٹی کے ماہرین کے درمیان جنگ جاری رہتی ہے۔ دونوں پروگرامنگ کے ماہر ہوتے ہیں مگر ہیکرز اپنے علم کو منفی سرگرمیوں میں استعمال کرتے ہیں جب کہ سائبر سیکیورٹی کے ماہرین ان سرگرمیوں کا توڑ اور سدباب کرتے ہیں۔
جہاں ہیکرز نت نئے کمپیوٹر وائرس تخلیق کرتے رہتے ہیں وہیں سائبر سیکیورٹی کے ماہرین بھی اینٹی وائرس سوفٹ ویئرز کو بہتر سے بہتر بنانے کے لیے ہمہ وقت تحقیق میں مصروف رہتے ہیں۔ ایسی ہی ایک تحقیق کے نتیجے میں ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ ہیکرز اب روایتی وائرس اور میل ویئرز کے بجائے محض آواز کا استعمال کرتے ہوئے کمپیوٹرز سے ڈیٹا چُراسکتے ہیں۔ اب تک ہیکرز کا سب سے معروف طریقۂ واردات یہ رہا ہے کہ وہ وائرس پر مشتمل ای میل بھیجتے ہیں اور جب یہ ای میل کھولی جاتی ہے تو کمپیوٹر ان کے بس میں آجاتا ہے۔
جرمنی میں قائم ''فران ہوفر انسٹیٹیوٹ فار کمیونیکیشن، انفارمیشن پروسیسنگ اینڈ ارگونومکس'' کے سائنس دانوں نے مستقبل میں ہیکنگ کے لیے اختیار کیے جانے والے ممکنہ طریقوں پر طویل تحقیق کی۔ اس تحقیق کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی کہ مستبقل میں ہیکرز صوتی موجوں کے ذریعے لوگوں کے کمپیوٹرز تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں، کیوں کہ نئی قسم کے میل ویئرز کی تخلیق ممکن ہے جوکمپیوٹرز کے درمیان صوتی موجوں کے ذریعے سفر کرسکیں گے، اور یہ صوتی موجیں انسانوں کے لیے ناقابل سماعت ہوں گی۔
تحقیق کے دوران کمپیوٹر ٹیکنالوجی کے ماہرین نے لیپ ٹاپ کے بلٹ اِن اسپیکرز اور مائیکروفون کے ذریعے ایک دوسرے سے 65 فٹ کے فاصلے پر رکھے ہوئے دو کمپیوٹرز کے مابین پاس ورڈز اور قلیل مقدار میں ڈیٹا کی منتقلی کا کام یاب تجربہ کیا۔ یہ تحقیق کمپیوٹر سیکیورٹی سے متعلق ان کمپنیوں کے لیے لمحۂ فکریہ ہے جو کسی ادارے کے اہم کمپیوٹرز کی حفاظت کے لیے انھیں ''ہوائی شگافوں''( air gaps) کے ذریعے تنہا رکھتی ہیں۔ یہ کمپیوٹر انٹرنیٹ سے منسلک نہیں ہوتے۔ اب تک یہ سمجھا جاتا رہا ہے کہ ان کمپیوٹرز تک ہیکرز کی رسائی ناممکن ہے۔ تاہم تازہ ترین تحقیق نے اس تصور کو باطل ثابت کردیا ہے۔
تحقیقی ٹیم کے اراکین کے مطابق ان کی تحقیق کا مقصد یہ جاننا تھا کہ محفوظ ترین کمپیوٹرز تک ہیکرز کی رسائی ممکن ہوسکتی ہے یا نہیں۔ ان کے علم میں یہ حقیقت آئی کہ ماضی میں ہیکرز حساس ڈیٹا تک آپریٹنگ سسٹم کے ان حصوں کو استعمال کرتے ہوئے رسائی حاصل کرچکے ہیں جنھیں کمیونی کیشن کے قابل نہیں سمجھا گیا۔ بالآخر '' ہوائی شگافوں'' کے ذریعے محفوظ بنائے گئے کمپیوٹرز میں نقب لگانے کے لیے انھیں آواز کی صورت میں ایک ذریعہ میسر آگیاہے۔
تحقیق کے لیے سائنس دانوں نے انسان کی حد سماعت سے بلند تعدد ( فریکوئنسی) کی حامل آوازوں کا استعمال کیا اور اپنے مقصد میں کام یاب رہے۔اس طریقے سے ڈیٹا کی منتقلی کی رفتار اگرچہ صرف 20 بِٹ فی سیکنڈ ہی تھی مگر پاس ورڈز چرانے کے لیے کافی تھی۔ ریسرچ ٹیم کا کہنا تھا کہ مزید تحقیق کے ذریعے اس رفتار کو بہتر بنایا جاسکتا ہے۔
اس ٹیکنالوجی کے استعمال کنندگان کے لیے ہیکرز سب سے بڑا خطرہ ہیں جو مختلف وائرس پروگراموں کے ذریعے ڈیٹا چرالیتے ہیں اور اسے منفی سرگرمیوں میں استعمال کرسکتے ہیں۔ انٹرنیٹ کی دنیا میں ہیکرز اور سائبر سیکیورٹی کے ماہرین کے درمیان جنگ جاری رہتی ہے۔ دونوں پروگرامنگ کے ماہر ہوتے ہیں مگر ہیکرز اپنے علم کو منفی سرگرمیوں میں استعمال کرتے ہیں جب کہ سائبر سیکیورٹی کے ماہرین ان سرگرمیوں کا توڑ اور سدباب کرتے ہیں۔
جہاں ہیکرز نت نئے کمپیوٹر وائرس تخلیق کرتے رہتے ہیں وہیں سائبر سیکیورٹی کے ماہرین بھی اینٹی وائرس سوفٹ ویئرز کو بہتر سے بہتر بنانے کے لیے ہمہ وقت تحقیق میں مصروف رہتے ہیں۔ ایسی ہی ایک تحقیق کے نتیجے میں ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ ہیکرز اب روایتی وائرس اور میل ویئرز کے بجائے محض آواز کا استعمال کرتے ہوئے کمپیوٹرز سے ڈیٹا چُراسکتے ہیں۔ اب تک ہیکرز کا سب سے معروف طریقۂ واردات یہ رہا ہے کہ وہ وائرس پر مشتمل ای میل بھیجتے ہیں اور جب یہ ای میل کھولی جاتی ہے تو کمپیوٹر ان کے بس میں آجاتا ہے۔
جرمنی میں قائم ''فران ہوفر انسٹیٹیوٹ فار کمیونیکیشن، انفارمیشن پروسیسنگ اینڈ ارگونومکس'' کے سائنس دانوں نے مستقبل میں ہیکنگ کے لیے اختیار کیے جانے والے ممکنہ طریقوں پر طویل تحقیق کی۔ اس تحقیق کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی کہ مستبقل میں ہیکرز صوتی موجوں کے ذریعے لوگوں کے کمپیوٹرز تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں، کیوں کہ نئی قسم کے میل ویئرز کی تخلیق ممکن ہے جوکمپیوٹرز کے درمیان صوتی موجوں کے ذریعے سفر کرسکیں گے، اور یہ صوتی موجیں انسانوں کے لیے ناقابل سماعت ہوں گی۔
تحقیق کے دوران کمپیوٹر ٹیکنالوجی کے ماہرین نے لیپ ٹاپ کے بلٹ اِن اسپیکرز اور مائیکروفون کے ذریعے ایک دوسرے سے 65 فٹ کے فاصلے پر رکھے ہوئے دو کمپیوٹرز کے مابین پاس ورڈز اور قلیل مقدار میں ڈیٹا کی منتقلی کا کام یاب تجربہ کیا۔ یہ تحقیق کمپیوٹر سیکیورٹی سے متعلق ان کمپنیوں کے لیے لمحۂ فکریہ ہے جو کسی ادارے کے اہم کمپیوٹرز کی حفاظت کے لیے انھیں ''ہوائی شگافوں''( air gaps) کے ذریعے تنہا رکھتی ہیں۔ یہ کمپیوٹر انٹرنیٹ سے منسلک نہیں ہوتے۔ اب تک یہ سمجھا جاتا رہا ہے کہ ان کمپیوٹرز تک ہیکرز کی رسائی ناممکن ہے۔ تاہم تازہ ترین تحقیق نے اس تصور کو باطل ثابت کردیا ہے۔
تحقیقی ٹیم کے اراکین کے مطابق ان کی تحقیق کا مقصد یہ جاننا تھا کہ محفوظ ترین کمپیوٹرز تک ہیکرز کی رسائی ممکن ہوسکتی ہے یا نہیں۔ ان کے علم میں یہ حقیقت آئی کہ ماضی میں ہیکرز حساس ڈیٹا تک آپریٹنگ سسٹم کے ان حصوں کو استعمال کرتے ہوئے رسائی حاصل کرچکے ہیں جنھیں کمیونی کیشن کے قابل نہیں سمجھا گیا۔ بالآخر '' ہوائی شگافوں'' کے ذریعے محفوظ بنائے گئے کمپیوٹرز میں نقب لگانے کے لیے انھیں آواز کی صورت میں ایک ذریعہ میسر آگیاہے۔
تحقیق کے لیے سائنس دانوں نے انسان کی حد سماعت سے بلند تعدد ( فریکوئنسی) کی حامل آوازوں کا استعمال کیا اور اپنے مقصد میں کام یاب رہے۔اس طریقے سے ڈیٹا کی منتقلی کی رفتار اگرچہ صرف 20 بِٹ فی سیکنڈ ہی تھی مگر پاس ورڈز چرانے کے لیے کافی تھی۔ ریسرچ ٹیم کا کہنا تھا کہ مزید تحقیق کے ذریعے اس رفتار کو بہتر بنایا جاسکتا ہے۔