عوام سرخرو طاقت لب دم
معاشی تنگ دستی سے ستائے عوام کو امید ہو چلی تھی کہ اس کو اب ہوش ربا مہنگائی میں نوالہ چھن جانے سے نجات مل جائے گی۔
آزادی کے دھوکے میں جکڑے عوام ہمیشہ کی طرح ایک بار پھر دھوکے سے دوچار ہو چکے تھے،عوام کو لگا تھا کہ اس کے وسائل پر قابض قوتوں کی گرفت ستر برس گذرنے کے بعد شاید کہ کمزور پڑنے کی جانب بڑھ رہی ہے۔
بیروزگاری اورمعاشی تنگ دستی سے ستائے عوام کو امید ہو چلی تھی کہ اس کو اب ہوش ربا مہنگائی میں نوالہ چھن جانے سے نجات مل جائے گی اور یوں باآسانی اس کے نان نفقہ کے مناسب بندوبست کی کوئی سبیل نکل آئے گی،اپنی نسل کے بہتر مستقبل کی یہ کوششیں ملکی عوام مسلسل کئی برسوں سے کرتی رہنے کی عادی بنا دی گئی تھی،اسے دیس کے وسائل پہ قابض افراد نے خوابوں میں رہنے کی ایک ایسی'' لت'' میں ڈال دیا تھا کہ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی دھوکا دہی میں رہنے کے عادی مریض بن چکے تھے۔
بظاہر جبر کے اس دیس کے عوام اچھے بھلے انسانی روپ اور توانا سوچ کے فرد طور دکھائی دیتے تھے،اپنی محرومیوں کا گلہ شکوہ بھی کرتے تھے،بہتر تعلیم اور صحت کی آسان سہولیات لینے کے خواہش مند بھی رہتے تھے،ملکی وسائل پر قابض قوتوں کے ناجائز قبضوں سے واقف بھی تھے،جبر کی قوتوں سے نجات بھی چاہتے تھے،مگر انھیں (عوام) کو نسلی طور سے ''سیاسی و جمہوری حقوق''لینے کی قوت سے شاید بانجھ کر دیا گیا تھا۔
اس دیس کے عوام کی بظاہر خواہشات کی تکمیل کے لیے سالوں سے عوامی رہنما جبر کی چکی کے آٹے سے گوندھے جا رہے ہیں اور ان کے چہروں پر عوام کو متاثر کرنے والے ماسک پہنا کر عوام کو اس چکی کے ہر دلعزیز وڈیروں، سرداروں، چوہدریوں، سرمایہ داروں،خانوں کے سپرد کر دیا جاتا ہے،جن کی مٹی میں مفادات کا نمک موجود ہوتا ہے،اور پھر اس چکی کے تیار کردہ یہ کٹھ پتلی کردار عوام کے بیچ چھوڑ کر عوامی حقوق کے نام پر ملکی وسائل پر قبضے کا نیا طریقہ ڈھونڈنے کے لیے نئے انداز سے جمہوریت کا راگ الاپ کر عوام کے سارے سیاہ و سفید کا مالک اپنے سنگتراش آقا کو کر دیا کرتے تھے۔
بات یہاں تک نہ رکتی اور جب کبھی عوام تنگ آمد بجنگ آمد کے خدشے تحت جب جبر کی چکی کی قوت ہاتھوں سے جاتی نظر آتی تو ''جبر چکی'' پھر سے نیا بت تراش کر عوام کو نئی امنگوں میں مبتلا کر کے ملک توڑنے،ملک بیچنے اور وسائل پر قبضہ برقرار رکھنے کا نیا طریقہ نکال لیا کرتے تھے۔ستر برس کے عوام اور اقتداری کھیل میں کبھی دولتانہ، کبھی ٹوانہ، کبھی بھٹو ،کبھی شریف زادے، کبھی زرداری،کبھی خانقاہی سید،کبھی شہری الطافیئے اور کبھی نیازی تواتر کے ساتھ''سلیکٹ''کرکے عوام پر مسلط کیے جا چکے تھے،اور بسا اوقات ایسا بھی ہوا کہ ولایت سے دیسی نام کے گوروں کو لایا گیا تاکہ عالمی دنیا کی معاشی و سیاسی قوتوں کو خوش کیا جا سکے اور دنیا کو بتایا جا سکے کہ ہم ملکی لوٹ کھسوٹ میں عالمی قوتوں کو خوش کرنے کی بھی صلاحیت رکھتے ہیں،کبھی کبھار تو افغان جہاد کے نام پر دہشت گردوں کو پیدا کرنے اور انھیں عالمی مفادات کا تر نوالہ بنانے کا کام بھی بہت سعادت مندی سے جنرل ضیا اور جنرل مشرف بھی سر انجام دیتے رہے۔
اس دیس کی سر سبز و خوشحال وادی میں جب امن اور شانتی اپنا بسیرا مستقل بنیادوں پر کرنے لگتی تو ہمارے حکمران جنرل ضیا ایسے فرقے اور لسانی عصبیت کو بھڑکانے میں اپنے برادر ممالک کی انتشار پسند پالیسیوں کو اپنے ہاں فروغ دینے سے بھی گریز نہ کیا کرتے اور نہ کبھی شرمندہ ہوتے۔
ایک وقت تک تو ملکی وسائل پر براہ راست اقتدار کی طاقت کو ایوب،یحیی،ضیا،اور مشرف کے سپرد کیا گیا،مگر عالمی دباؤ اور بدنامی کے خدشے سے بچنے کی خاطر اب اس دیس کا نیا چلن چل نکلا ہے کہ اقتدار کی باگ ڈور تو ''طاقتور اشرافیہ'' کے ہاتھوں میں رہی مگر عوام اور عالمی دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے اقتدار پر براہ راست طاقتور اشرافیہ دکھائی نہ دے،اس مقصد کے تحت اب دیس میں سونے کی کان کے مالک،زر کے غلام اور قابضین کے نئے چہرے مل چکے ہیں جو نا پاپا جونز کے ارب پتی سے حساب مانگ سکتے ہیں، نہ ہی وہ آسٹریلیا میں خریدے گئے جزیروں کا احتساب کر سکتے ہیں۔
دوسری جانب یہ اشرافیائی نمایندے عوام کے جمہوری حقوق اور آزادی کا ڈھنڈورا پیٹنے کے لیے ''جبریہ چکی'' کے تربیت یافتہ ٹی وی اینکروں کی مدد سے راگ ضرور الاپتے رہتے ہیں جیسا کہ حکمران طاقتور اشرافیہ کے مفادات کو تحفظ دینے کے نام پر عوام سے تا حال کر رہے ہیں،جب کہ طاقتور اشرافیہ ٹی وی اینکرز اور زرد صحافت کو سب ٹھیک ہے کے تحت کنٹرول کیے ہوئے ہے جس کا فائدہ فارن فنڈنگ کیس اور واوڈا کی نا اہلی کو رکوانے میں سب کو دکھائی بھی دے رہا ہے۔
ہاں البتہ عوام کی خاموشی کو جوالا دلانے کی قوتیں اس دیس میں ہمیشہ سے غدار،وطن فروش اور صرف بدعنوان رہی ہیں باقی طاقتور اشرافیہ کے چہیتے محب وطن اور عوام دوست ہی باور کرائے جاتے ہیں۔
ملک میں پہلی بار اشرافیہ کے پرانے اردلی بھٹو کے نواسے بلاول کو مرضی و منشا سے لیاری سے ہروا کر لاڑکانہ سے منتخب کروایا گیا اور ابتدائی تربیت اشرافیہ کی من پسند شیریں گفتار کو دے کر طاقتور اشرافیائی پسند و نا پسند سے آگاہ کیا گیا،اور موجودہ عمرانی ٹولے کو ''سلیکٹیڈ'' کہلوانے کا کام بھی سلیکٹیڈ نانا کے نواسے سے کروایا گیا،جسے بظاہر نیا عوامی نمایندہ بنا کر ملکی سیاست میں داخل کیا گیا،جس کی باگیں طاقتور اشرافیہ کے پرانے نمک خوار کو دے دی گئیں،اور عوام کو احساس دلایا گیا کہ ان کی نئی امنگوں کا پالنہار ایک نئے جذبے کے تحت عوام کا نجات دہندہ بنے گا۔
عوام میں پرانے سیاستدانوں کے نوجوان وارثوں کے ذریعے نئے ووٹر میں امید پیدا کی گئی کہ وہ عوام کو مہنگائی بیروزگاری سے چھٹکارا دلانے کے لیے پاکستان ڈیموکریٹک مومنٹ کے ذریعے عوام کے آئینی اختیارات عوام کو دلائیں گے،اپوزیشن کے اس پلیٹ فارم میں مسلم لیگ ن اور جے یو آئی سمیت دس سیاسی جماعتوں کو شامل کر کے ملک گیر جلسے و جلوس کروائے گئے،جس میں مہنگائی بیروزگاری سے نجات اور حکومت سے چھٹکارے کا ہدف رکھا گیا،اس تحریک میں نوازشریف کا بیانیہ ''ووٹ کو عزت دو'' جب عوام کی امید اور آئینی حقوق حاصل کرنے کی آواز بنتا دکھائی دیا اور اس سے بظاہر نہ ہٹنے کا عوامی زور بڑھنے لگا تو پی ڈی ایم میں شامل مختلف جماعتوں کو طاقتور اشرافیہ نے اپنا ہم نوا بنانا چاہا مگر پی ڈی ایم میں طے شدہ اصول کہ طاقتور اشرافیہ سے کسی قیمت پر رابطہ نہیں کیا جائے کے تحت سب جماعتیں اصول کی پاسداری کرتی رہیں۔
اسی دوران جب سینیٹ کے الیکشن میں پی ڈی ایم کی طاقت مضبوط دکھائی دی تو طاقتور اشرافیہ نے اسکندر مرزا کے دور سے اشرافیائی اتحادی سلیکٹیڈ جماعت پی پی کو پی ڈی ایم میں دراڑ ڈالنے کا اشارہ دیا اور یوں پیپلز پارٹی نے طے شدہ پی ڈی ایم کے فارمولے کے برعکس اسٹبلشمنٹ زدہ جماعت''باپ'' کے چار سینیٹر کی حمایت لی اور اے این پی اور جماعت اسلامی کی مدد سے سینیٹ میں گیلانی کو''ہائیبرڈ جمہوریت''کا حصہ بننے کے لیے اپوزیشن لیڈر منتخب کروایا اور فوری طور سے گھنٹوں کے اندر نوٹیفیکیشن بھی جاری کر دیا گیا۔
پی پی اور اے این پی کے اس غیر اصولی موقف پر پی ڈی ایم نے جب وضاحت چاہی تو طاقتور اشرافیہ کے اشارے پر اے این پی نے اپنی راہیں جدا کر لیں جب کہ پی پی اب بھی عوام میں اپنی ساکھ بچانے اور پی ڈی ایم کو مزید غیر موثر کرنے پر اس اتحاد کا غیر فطری حصہ بنے رہنے پر تلی بیٹھی ہے۔ گو اشرافیائی اینکر اور ''ہائیبرڈ جمہوریت'' کے تجزیہ کار پی ڈی ایم کے ٹوٹنے کی نوید دے رہے ہیں،مگر امکان ہے کہ پی ڈی ایم طاقتور اشرافیہ کی ''ہائی برڈ جمہوریت'' میں شامل ہونے والی جماعت پی پی اور اے این پی کو سیاسی نقصان پہچانے کے لیے آخری حد تک جائیں گے اور اسٹبلشمنٹ نواز پی پی کی گرتی ہوئی عوامی ساکھ اور ''ہائی برڈ نظام'' کو مزید عوام کی حمایت سے نقصان پہنچائیں گے تاکہ آیندہ الیکشن میں نواز شریف کے بیانیے سے بے نقاب ''ہائی برڈ جمہوریت'' اور پی پی عوامی سطح پر بے اثر ہو جائے اور پی پی/اسٹبلشمنٹ کا گٹھ جوڑ مکمل کھل کر سندھ کے عوام کے سامنے آئے،تاکہ پی پی پی/اسٹبلشمنٹ کے نئے ''میثاق ہائیبرڈ نظام حکومت''سے ملک اور سندھ کے عوام مکمل آگاہ ہو جائیں جب کہ پی پی،جماعت اسلامی اور اے این پی سمیت عوام،اسٹبلشمنٹ کے ''ہائی برڈ جمہوریت'' کے عوام دشمن نظام کا مقابلہ مستقبل میں ووٹ کی طاقت سے کر سکیں۔
بیروزگاری اورمعاشی تنگ دستی سے ستائے عوام کو امید ہو چلی تھی کہ اس کو اب ہوش ربا مہنگائی میں نوالہ چھن جانے سے نجات مل جائے گی اور یوں باآسانی اس کے نان نفقہ کے مناسب بندوبست کی کوئی سبیل نکل آئے گی،اپنی نسل کے بہتر مستقبل کی یہ کوششیں ملکی عوام مسلسل کئی برسوں سے کرتی رہنے کی عادی بنا دی گئی تھی،اسے دیس کے وسائل پہ قابض افراد نے خوابوں میں رہنے کی ایک ایسی'' لت'' میں ڈال دیا تھا کہ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی دھوکا دہی میں رہنے کے عادی مریض بن چکے تھے۔
بظاہر جبر کے اس دیس کے عوام اچھے بھلے انسانی روپ اور توانا سوچ کے فرد طور دکھائی دیتے تھے،اپنی محرومیوں کا گلہ شکوہ بھی کرتے تھے،بہتر تعلیم اور صحت کی آسان سہولیات لینے کے خواہش مند بھی رہتے تھے،ملکی وسائل پر قابض قوتوں کے ناجائز قبضوں سے واقف بھی تھے،جبر کی قوتوں سے نجات بھی چاہتے تھے،مگر انھیں (عوام) کو نسلی طور سے ''سیاسی و جمہوری حقوق''لینے کی قوت سے شاید بانجھ کر دیا گیا تھا۔
اس دیس کے عوام کی بظاہر خواہشات کی تکمیل کے لیے سالوں سے عوامی رہنما جبر کی چکی کے آٹے سے گوندھے جا رہے ہیں اور ان کے چہروں پر عوام کو متاثر کرنے والے ماسک پہنا کر عوام کو اس چکی کے ہر دلعزیز وڈیروں، سرداروں، چوہدریوں، سرمایہ داروں،خانوں کے سپرد کر دیا جاتا ہے،جن کی مٹی میں مفادات کا نمک موجود ہوتا ہے،اور پھر اس چکی کے تیار کردہ یہ کٹھ پتلی کردار عوام کے بیچ چھوڑ کر عوامی حقوق کے نام پر ملکی وسائل پر قبضے کا نیا طریقہ ڈھونڈنے کے لیے نئے انداز سے جمہوریت کا راگ الاپ کر عوام کے سارے سیاہ و سفید کا مالک اپنے سنگتراش آقا کو کر دیا کرتے تھے۔
بات یہاں تک نہ رکتی اور جب کبھی عوام تنگ آمد بجنگ آمد کے خدشے تحت جب جبر کی چکی کی قوت ہاتھوں سے جاتی نظر آتی تو ''جبر چکی'' پھر سے نیا بت تراش کر عوام کو نئی امنگوں میں مبتلا کر کے ملک توڑنے،ملک بیچنے اور وسائل پر قبضہ برقرار رکھنے کا نیا طریقہ نکال لیا کرتے تھے۔ستر برس کے عوام اور اقتداری کھیل میں کبھی دولتانہ، کبھی ٹوانہ، کبھی بھٹو ،کبھی شریف زادے، کبھی زرداری،کبھی خانقاہی سید،کبھی شہری الطافیئے اور کبھی نیازی تواتر کے ساتھ''سلیکٹ''کرکے عوام پر مسلط کیے جا چکے تھے،اور بسا اوقات ایسا بھی ہوا کہ ولایت سے دیسی نام کے گوروں کو لایا گیا تاکہ عالمی دنیا کی معاشی و سیاسی قوتوں کو خوش کیا جا سکے اور دنیا کو بتایا جا سکے کہ ہم ملکی لوٹ کھسوٹ میں عالمی قوتوں کو خوش کرنے کی بھی صلاحیت رکھتے ہیں،کبھی کبھار تو افغان جہاد کے نام پر دہشت گردوں کو پیدا کرنے اور انھیں عالمی مفادات کا تر نوالہ بنانے کا کام بھی بہت سعادت مندی سے جنرل ضیا اور جنرل مشرف بھی سر انجام دیتے رہے۔
اس دیس کی سر سبز و خوشحال وادی میں جب امن اور شانتی اپنا بسیرا مستقل بنیادوں پر کرنے لگتی تو ہمارے حکمران جنرل ضیا ایسے فرقے اور لسانی عصبیت کو بھڑکانے میں اپنے برادر ممالک کی انتشار پسند پالیسیوں کو اپنے ہاں فروغ دینے سے بھی گریز نہ کیا کرتے اور نہ کبھی شرمندہ ہوتے۔
ایک وقت تک تو ملکی وسائل پر براہ راست اقتدار کی طاقت کو ایوب،یحیی،ضیا،اور مشرف کے سپرد کیا گیا،مگر عالمی دباؤ اور بدنامی کے خدشے سے بچنے کی خاطر اب اس دیس کا نیا چلن چل نکلا ہے کہ اقتدار کی باگ ڈور تو ''طاقتور اشرافیہ'' کے ہاتھوں میں رہی مگر عوام اور عالمی دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے اقتدار پر براہ راست طاقتور اشرافیہ دکھائی نہ دے،اس مقصد کے تحت اب دیس میں سونے کی کان کے مالک،زر کے غلام اور قابضین کے نئے چہرے مل چکے ہیں جو نا پاپا جونز کے ارب پتی سے حساب مانگ سکتے ہیں، نہ ہی وہ آسٹریلیا میں خریدے گئے جزیروں کا احتساب کر سکتے ہیں۔
دوسری جانب یہ اشرافیائی نمایندے عوام کے جمہوری حقوق اور آزادی کا ڈھنڈورا پیٹنے کے لیے ''جبریہ چکی'' کے تربیت یافتہ ٹی وی اینکروں کی مدد سے راگ ضرور الاپتے رہتے ہیں جیسا کہ حکمران طاقتور اشرافیہ کے مفادات کو تحفظ دینے کے نام پر عوام سے تا حال کر رہے ہیں،جب کہ طاقتور اشرافیہ ٹی وی اینکرز اور زرد صحافت کو سب ٹھیک ہے کے تحت کنٹرول کیے ہوئے ہے جس کا فائدہ فارن فنڈنگ کیس اور واوڈا کی نا اہلی کو رکوانے میں سب کو دکھائی بھی دے رہا ہے۔
ہاں البتہ عوام کی خاموشی کو جوالا دلانے کی قوتیں اس دیس میں ہمیشہ سے غدار،وطن فروش اور صرف بدعنوان رہی ہیں باقی طاقتور اشرافیہ کے چہیتے محب وطن اور عوام دوست ہی باور کرائے جاتے ہیں۔
ملک میں پہلی بار اشرافیہ کے پرانے اردلی بھٹو کے نواسے بلاول کو مرضی و منشا سے لیاری سے ہروا کر لاڑکانہ سے منتخب کروایا گیا اور ابتدائی تربیت اشرافیہ کی من پسند شیریں گفتار کو دے کر طاقتور اشرافیائی پسند و نا پسند سے آگاہ کیا گیا،اور موجودہ عمرانی ٹولے کو ''سلیکٹیڈ'' کہلوانے کا کام بھی سلیکٹیڈ نانا کے نواسے سے کروایا گیا،جسے بظاہر نیا عوامی نمایندہ بنا کر ملکی سیاست میں داخل کیا گیا،جس کی باگیں طاقتور اشرافیہ کے پرانے نمک خوار کو دے دی گئیں،اور عوام کو احساس دلایا گیا کہ ان کی نئی امنگوں کا پالنہار ایک نئے جذبے کے تحت عوام کا نجات دہندہ بنے گا۔
عوام میں پرانے سیاستدانوں کے نوجوان وارثوں کے ذریعے نئے ووٹر میں امید پیدا کی گئی کہ وہ عوام کو مہنگائی بیروزگاری سے چھٹکارا دلانے کے لیے پاکستان ڈیموکریٹک مومنٹ کے ذریعے عوام کے آئینی اختیارات عوام کو دلائیں گے،اپوزیشن کے اس پلیٹ فارم میں مسلم لیگ ن اور جے یو آئی سمیت دس سیاسی جماعتوں کو شامل کر کے ملک گیر جلسے و جلوس کروائے گئے،جس میں مہنگائی بیروزگاری سے نجات اور حکومت سے چھٹکارے کا ہدف رکھا گیا،اس تحریک میں نوازشریف کا بیانیہ ''ووٹ کو عزت دو'' جب عوام کی امید اور آئینی حقوق حاصل کرنے کی آواز بنتا دکھائی دیا اور اس سے بظاہر نہ ہٹنے کا عوامی زور بڑھنے لگا تو پی ڈی ایم میں شامل مختلف جماعتوں کو طاقتور اشرافیہ نے اپنا ہم نوا بنانا چاہا مگر پی ڈی ایم میں طے شدہ اصول کہ طاقتور اشرافیہ سے کسی قیمت پر رابطہ نہیں کیا جائے کے تحت سب جماعتیں اصول کی پاسداری کرتی رہیں۔
اسی دوران جب سینیٹ کے الیکشن میں پی ڈی ایم کی طاقت مضبوط دکھائی دی تو طاقتور اشرافیہ نے اسکندر مرزا کے دور سے اشرافیائی اتحادی سلیکٹیڈ جماعت پی پی کو پی ڈی ایم میں دراڑ ڈالنے کا اشارہ دیا اور یوں پیپلز پارٹی نے طے شدہ پی ڈی ایم کے فارمولے کے برعکس اسٹبلشمنٹ زدہ جماعت''باپ'' کے چار سینیٹر کی حمایت لی اور اے این پی اور جماعت اسلامی کی مدد سے سینیٹ میں گیلانی کو''ہائیبرڈ جمہوریت''کا حصہ بننے کے لیے اپوزیشن لیڈر منتخب کروایا اور فوری طور سے گھنٹوں کے اندر نوٹیفیکیشن بھی جاری کر دیا گیا۔
پی پی اور اے این پی کے اس غیر اصولی موقف پر پی ڈی ایم نے جب وضاحت چاہی تو طاقتور اشرافیہ کے اشارے پر اے این پی نے اپنی راہیں جدا کر لیں جب کہ پی پی اب بھی عوام میں اپنی ساکھ بچانے اور پی ڈی ایم کو مزید غیر موثر کرنے پر اس اتحاد کا غیر فطری حصہ بنے رہنے پر تلی بیٹھی ہے۔ گو اشرافیائی اینکر اور ''ہائیبرڈ جمہوریت'' کے تجزیہ کار پی ڈی ایم کے ٹوٹنے کی نوید دے رہے ہیں،مگر امکان ہے کہ پی ڈی ایم طاقتور اشرافیہ کی ''ہائی برڈ جمہوریت'' میں شامل ہونے والی جماعت پی پی اور اے این پی کو سیاسی نقصان پہچانے کے لیے آخری حد تک جائیں گے اور اسٹبلشمنٹ نواز پی پی کی گرتی ہوئی عوامی ساکھ اور ''ہائی برڈ نظام'' کو مزید عوام کی حمایت سے نقصان پہنچائیں گے تاکہ آیندہ الیکشن میں نواز شریف کے بیانیے سے بے نقاب ''ہائی برڈ جمہوریت'' اور پی پی عوامی سطح پر بے اثر ہو جائے اور پی پی/اسٹبلشمنٹ کا گٹھ جوڑ مکمل کھل کر سندھ کے عوام کے سامنے آئے،تاکہ پی پی پی/اسٹبلشمنٹ کے نئے ''میثاق ہائیبرڈ نظام حکومت''سے ملک اور سندھ کے عوام مکمل آگاہ ہو جائیں جب کہ پی پی،جماعت اسلامی اور اے این پی سمیت عوام،اسٹبلشمنٹ کے ''ہائی برڈ جمہوریت'' کے عوام دشمن نظام کا مقابلہ مستقبل میں ووٹ کی طاقت سے کر سکیں۔