سوشل میڈیا پر جنگلی جانوروں کی خرید و فروخت میں اضافہ

فیس بک پر ماہانہ 2.6 بلین فعال صارفین، لاہور میں 47 بریڈنگ فارم، وائلڈلائف افسر

کئی رجسٹرڈ ڈیلر تصاویر سوشل میڈیا پیجیز اور ویب سائٹ پر شیئر کر دیتے ہیں، مالک فارم۔ فوٹو: ایکسپریس

HYDERABAD:
سوشل میڈیا پر جنگلی جانوروں کی خرید و فروخت میں اضافہ ہو گیا۔

سوشل میڈیا خاص طورپر فیس بک کااستعمال ہماری زندگی کا لازمی جزوبن چکا، یہ پلیٹ فارم ناصرف خیالات کے تبادلے کیلیے استعمال ہورہے ہیں بلکہ مختلف شعبوں میں خدمات کی فراہمی اورکاروبارکیلیے بہترین پلیٹ ثابت ہواہے۔

سوشل میڈیا خاص طورپر فیس بک کااستعمال ہماری زندگی کا لازمی جزوبن چکا ہے، یہ پلیٹ فارم ناصرف خیالات کے تبادلے کے لئے استعمال ہورہے ہیں بلکہ مختلف شعبوں میں خدمات کی فراہمی اورکاروبارکے لئے بہترین پلیٹ ثابت ہواہے۔ پنجاب میں نایاب جنگلی جانوروں خاص طورپر بگ کیٹس کی خرید وفروخت کے رحجان نے فیس بک استعمال کرنے والوں کی دلچسپی بڑھا دی ہے
سوشل میڈیا کا یہ ممتاز پلیٹ فارم جس میں ماہانہ 2.6 بلین سے زیادہ فعال صارفین موجود ہیں ، تقریبا ہر چیز کے لئے ابھرتا ہوا بازار لگتا ہے ، جس میں شیر اور دیگر بڑی بلیوں جیسے نایاب جانور بھی شامل ہیں۔

ایکسپریس ٹربیون کی تحقیقات کے مطابق شیراور ٹائیگر کے بچے فروخت کرنے والے زیادہ تر افراد پنجاب وائلڈلائف سے رجسٹرڈ ڈیلرہیں تاہم کئی ایسے لوگ بھی ہیں جو غیرقانونی طورپریہ کام کررہے ہیں۔ چندہفتے پہلے سوشل میڈیا پر شادی کی تقریب کے موقع پر دلہا دلہن کی شیر کے بچے کے ساتھ تصاویر بھی وائرل ہوئیں تھیں۔ تحقیقات کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ کہ اس شادی کی ویڈیوگرافی کرنے والے پرائیویٹ اسٹوڈیو کے عملے نے شیرکا بچہ مقامی مارکیٹ سے خرید رکھا ہے اور اسے ویڈیو اور فوٹو شوٹ میں استعمال کیا جاتا ہے۔


ڈسٹرکٹ وائلڈلائف آفیسرتنویراحمد جنجوعہ نے ٹربیون سے بات کرتے ہوئے کہا شیر اور ٹائیگر کو پالنے پرقانونی طورپرکوئی پابندی نہیں ہے تاہم اس کے لئے متعلقہ شخص کو پنجاب وائلڈلائف سے اس کا لائسنس لیناہوتا ہے۔بگ کیٹس کی پرورش کے حوالے سے قواعد وضوابط طے ہیں ان پرعمل کرناہوتا ہے۔اس کے لئے ضروری ہے کہ شہری کے پاس مخصوص جگہ ہونی چاہیے ،اس کے بعد مختلف جانوروں اورپرندوں کے پنجروں کے سائزمقررہیں۔تنویرجنجوعہ کہتے ہیں ہماری ٹیم جب تک مقررہ جگہ کا معائنہ نہیں کرلیتی ہم کسی کو بھی شیراورٹائیگر یا ان کے بچے رکھنے کی اجازت نہیں دیتے ہیں۔

شیراورٹائیگرکے بچوں کی پرورش کرنے والے کویہ ثبوت بھی دینا ہوتا ہے کہ اس نے یہ جانورکہاں سے خریدے ہیں۔اگروہ رجسٹرڈ ڈیلر یا بریڈنگ فارم سے خریدے گئے ہوں توہم اس کی تصدیق کرواتے ہیں لیکن اگرخریداری کا سورس ثابت نہ ہوتوناصرف وہ جانور قبضے میں لے لیاجاتا ہے بلکہ اس شخص کوسزااورجرمانہ بھی ہوسکتا ہے۔

تنویرجنجوعہ کہتے ہیں گزشتہ چندبرسوں میں شہریوں میں جنگلی جانوروں اورپرندوں خاص طورپر بگ کیٹس کی بریڈنگ اورانہیں پالنے کا رحجان بڑھا ہے۔2019 میں لاہورمیں صرف 18 بریڈنگ فارم تھے تاہم اب ان کی تعداد 47 ہے۔انہوں نے بتایا کہ ہم نے جنگلی جانوروں کی بریڈنگ اورخریدوفروخت پرپابندی لگانے کی بجائے یہ کام کرنے والے افراد کو قانونی دائرے میں لے کر آئے ہیں۔

بیدیاں روڈ لاہور پر واقع ایک بریڈنگ فارم کے نمائندے رانا محمد نعیم نے بتایا کہ شہر میں کئی ایسے ڈیلرہیں جو محکمہ وائلڈلائف کے پاس رجسٹرڈہیں ۔وہ جہاں دیگر پالتو جانور اور پرندے فروخت کرتے ہیں وہیں ان کے بریڈنگ فارم میں موجود جانوروں اورپرندوں کی تصاویربھی اپنے سوشل میڈیا پیجیزاورو ویب سائٹ پر شیئر کردیتے ہیں ۔ اگرکوئی خریدار دلچپی لے توہم سے وہ جانوراورپرندہ خرید کرمنافع کے ساتھ فروخت کردیتے ہیں۔ کئی شوقین افراد ان سے براہ راست جانوراورپرندے بھی خریدتے ہیں۔ رانا محمد نعیم کے مطابق انہوں نے 2017 میں اپنا بریڈنگ فارم رجسٹرڈکروایاتھا اب ان کے شیر ،ٹائیگر،ہرنوں سمیت کئی پرندوں کی اچھی خاصی تعداد موجود ہے۔ ان کا کہنا تھا شیر اور ٹائیگر کے ایک بچے کی قیمت 5 سے 7 لاکھ روپے تک ہے۔محمدنعیم کہتے ہیں ان کے پاس تمام جانوروں اورپرندوں کا باقاعدہ ریکارڈ موجود ہے۔جن جانوروں اورپرندوں کے بچے پیداہوتے ہیں ان کا ریکارڈ رکھا جاتا ہے اور اگر کوئی جانوریا پرندہ مرجائے تووہ بھی ریکارڈمیں رکھتے ہیں۔ پنجاب وائلڈ لائف کے حکام ہر 3 ماہ بعد یہاں کا وزٹ کرتے ہیں۔ جبکہ ہم خود بھی اپناریکارڈ اپ ڈیٹ کرواتے ہیں۔

پنجاب وائلڈ لائف کے اعزازی گیم وارڈن بدرمنیر نےبتایا کہ ہمارے یہاں جہاں لوگ جنگلی جانوروں اورپرندوں کا شکارکرتے ہیں وہیں یہ بات خوش آئند ہے کہ سینکڑوں لوگ ایسے بھی ہیں جو بگ کیٹس سمیت ناپیدی کے خطرے سے دوچارجانوروں اورپرندوں کی بریڈنگ کررہے ہیں۔ اس سے جنگلی حیات کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔ بدرمنیر کے مطابق عام پالتوجانوراورپرندے توگھروں میں رکھے جاسکتے ہیں تاہم شیراورٹائیگرکے بچوں کو گھروں میں رکھنا درست نہیں ہے ، یہ خطرناک جانورہوتے ہیں انہیں مخصوص پنجروں کے اندر بریڈنگ سنٹرزمیں رکھاجانا چاہیے۔ چندماہ تک کی عمر کے شیراورٹائیگرکے بچے خطرناک نہیں ہوتے لیکن جیسے ہی یہ پانچ،چھ ماہ کے ہوتے ہیں تو پھرانکے ناخن نکلناشروع ہوجاتے ہیں اور یہ خطرناک ہوجاتے ہیں۔ یہ تصورکرنا کہ شیر اور ٹائیگر کے بچے بڑے ہوکر اپنے مالک سے مانوس ہوجاتے ہیں اورانہیں کچھ نہیں کہتے یہ خیال درست نہیں ہے۔ اکثراوقات بالغ شیر اور ٹائیگر اپنے مالک پر بھی حملہ دیتے ہیں اورکئی ایسے واقعات سامنے آچکے ہیں۔

دوسری طرف جانوروں کے حقوق کے تحفظ کے لئے کام کرنے والے ماہرین کو جنگلی جانوروں کی خرید فروخت پرتحفظات ہیں، ان کا کہنا ہے کہ جنگلی جانوروں کا حقیقی مسکن جنگلات ہیں ، ان کو پنجروں میں بندکرکے تفریح کا ذریعہ بناناان کی آزادی ختم کرنے اوران کے ساتھ ظلم کے مترادف ہے۔
Load Next Story