گرین شرٹس کی کارکردگی میں بہتری کے آثار نمایاں

جنوبی افریقہ کیخلاف ون ڈے سیریز میں شاندار کامیابی

مڈل آرڈر سمیت دیگر مسائل کا حل تلاش کرنے کی ضرورت- فوٹو؛ آئی سی سی

غیر ایشیائی کنڈیشنز کبھی بھی پاکستان ٹیم کیلئے آسان ثابت نہیں ہوتیں، پی ایس ایل ملتوی ہونے پر قومی کرکٹرز کو دورہ جنوبی افریقہ کی تیاریوں کے لیے اچھا وقت میسر آیا۔

لاہور کے قذافی اسٹیڈیم میں تربیتی کیمپ کے دوران انٹر اسکواڈ میچز کھیل کر پریکٹس کی کمی پوری کرنے کی کوشش بھی ہوئی لیکن مشکل جنوبی افریقی کنڈیشنز سے ہم آہنگی کے لیے زیادہ وقت میسر نہیں تھا،خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ ون ڈے سیریز میں بیٹنگ لائن کو مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔

پہلے میچ میں مہمان بولرز نے سنچورین کی پچ پر نمی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے حریف ٹیم کو دباؤ کا شکار کیا، ریسی ون ڈر ڈوسین اور ڈیوڈ ملر کی شراکت نہ بنتی تو پروٹیز 200رنز سے بھی کم ٹوٹل پر ڈھیر کیے جاسکتے تھے، فیلڈنگ میں مسائل نے بھی جنوبی افریقہ کو معقول ہدف دینے کا موقع فراہم کیا۔

جواب میں کپتان بابر اعظم نے چیلنج کو قبول کرتے ہوئے سنچری بنا کر ٹیم کا حوصلہ جوان کیا، ان کی امام الحق کے ساتھ شاندار شراکت نے فتح کی بنیاد رکھ دی تھی، گرچہ بعد مڈل آرڈر نے غیر ذمہ دارانہ اسٹروک کھیل کر آسان سفر دشوار بنایا مگر محمد رضوان اور شاداب خان کی شراکت نے سنبھالا دیدیا، اننگز کی آخری گیند پر ہی سہی پاکستان نے ہدف حاصل کرلیا۔

دوسرے میچ میں پروٹیز کے کاؤنٹر اٹیک نے مہمان بولرز کو لائن و لینتھ بھلادی، بہت بڑے ہدف کو دیکھتے ہوئے خطرہ تھا کہ پاکستان ٹیم ہمت ہار جائے گی،ابتدا میں ہی وکٹیں تسلسل کے ساتھ گرنا شروع ہو گئیں تو شکست کے آثار مزید نمایاں ہونے گئے لیکن فخرزمان نے ایک یادگار اننگز کھیلی، اوپنر ایک جنگجو سپاہی کی طرح مردانہ وار لڑتے نظر آئے، انہوں نے صورتحال کو سمجھتے ہوئے دفاع اور جارحیت کے امتزاج سے اپنی کنڈیشنز کا بے پناہ تجربہ رکھنے والے میزبان بولرز کو وکٹ کے لیے ترسایا۔


ایک موقع پر فتح کو ترنوالا سمجھنے والے پروٹیز کو میچ بچانے کی فکر لگ گئی، کوئنٹن ڈی کک کی دھوکا بازی کے سبب فخر زمان کے رن آؤٹ نے میزبان ٹیم کی سانسیں بحال کر دیں، اوپنر کیریئر کی دوسری ڈبل سنچری سے محروم ہوئے، پاکستانی فتح کی امیدیں دم توڑ گئیں، بہرحال اس شکست کے باوجود فخر زمان نے ساتھی کھلاڑیوں کو ایک مثبت سوچ ضرور دیدی کہ ہمت کی جائے تو پروٹیز اپنی ہوم کنڈیشنز میں بھی ناقابل تسخیر نہیں ہیں۔

تیسرے ون ڈے میچ سے قبل 5 جنوبی افریقی کرکٹرز کوئنٹن ڈی ڈی کک، ڈیوڈ ملر، کاگیسو ربادا، اینرچ نورکیا اور لونگی نگیڈی تو آئی پی ایل کے لیے سدھار گئے جبکہ ریسی ون ڈر ڈوسین انجرڈ ہوئے، اس صورتحال میں جنوبی افریقہ کو7 تبدیلیوں کے ساتھ میدان میں اترنا پڑا، اگرچہ بیشتر کھلاڑی قومی ٹیم کے لیے پہلا انتخاب نہیں تھے لیکن مضطبوط پروٹیز سسٹم کو دیکھا جائے تو ابھرتے ہوئے کھلاڑیوں کی صلاحیتوں کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، اس کا عملی مظاہرہ میچ کے دوران دیکھنے میں بھی آیا،فخر زمان نے ایک بار پھر شاندار اننگز کھیلی، پہلے امام الحق، اس کے بعد بابر اعظم کے ساتھ شراکت نے پاکستان کو شاندار آغاز فراہم کیا۔

درمیانی اوورز میں وکٹیں گرنے کے بعد رن ریٹ کم پڑا تو حسن علی نے چھکوں کی برسات کرتے ہوئے ساری کسر نکال دی، بابر اعظم نے بھی صورتحال کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے اپنی وکٹ بچائے رکھیں اور آخر تک کریز پر جمے رہے، سیریز میں پہلا موقع پانے والے محمد نواز نے پروٹیز کی بیٹنگ میں گہرے شگاف ڈالے، گرچہ میزبان ٹیم نے آسانی سے ہتھیار نہیں ڈالے مگر چند مسائل کے باوجود پاکستانی پولنگ میں اتنا دم خم تھا کہ میچ اور سیریز میں فتح حاصل کر سکے۔

غیر ایشیائی کنڈیشنز میں کسی بھی سیریز کی فتح یقینی طور پر ایک بڑا کارنامہ ہے، اس ٹیم اور کپتان کے اعتماد میں اضافہ بھی ہوا ہے لیکن عروج کی جانب سفر جاری رکھنے کے لیے خامیوں پر قابو پانے کی کوشش جاری رکھنا ہوگی،سب سے بڑا مسئلہ مڈل آرڈر اور لوئر مڈل آرڈر میں دیکھنے میں آیا ہے، دانش عزیز کو مشکل کنڈیشنز میں ڈیبیو کروانے کا تجربہ ناکام ہوا، آصف علی ماضی کی طرح ایک بار پھر کم بیک کویادگاربنانے میں کامیاب نہیں ہوسکے، آل راؤنڈرز میں فہیم اشرف کا بیٹ نہیں چل سکا۔

شاداب خان کی فارم اور فٹنس دونوں جواب دیتی جا رہی ہیں، لوِئر آرڈر میں پاور ہٹنگ کی صرف ایک مثال حسن علی کی اننگز میں نظر آئی دیگر کو کارکردگی میں بہتری لانے کی ضرورت ہے، کبھی ٹاپ آرڈر میں سے کوئی بیٹسمین بڑا سکور نہیں کر پاتا تب بھی اسکور بورڈ کو متحرک رکھنے والے بیٹسمین درکار ہوں گے، دوسری جانب نئی اور پرانی گیند کے ساتھ پیسرز کے اکانومی ریٹ اور اسپن بولنگ میں بہتری لانا ہوگی، کیچنگ میں قدرے بہتر نظر آئی ہے مگر گراؤنڈ فیلڈنگ میں مسائل کا حل تلاش کرنا ہوگا۔
Load Next Story