لاوارث قبرستان اور ذہنی امراض
بڑھتے ہوئے مسائل نے انسان کو ذہنی امراض میں مبتلا کردیا ہے ہردوسرا شخص ذاتی الجھنوں اور معاشی دکھوں میں مبتلا ہے
بڑھتے ہوئے مسائل نے انسان کو ذہنی امراض میں مبتلا کردیا ہے، ہر دوسرا شخص ذاتی الجھنوں، معاشرتی اور معاشی دکھوں میں مبتلا ہے، کچھ تکلیفیں اس کی اپنی حماقتوں اور کوتاہ عقلی کے سبب اس کے حصے میں آتی ہیں اور کچھ غم اور مسئلے اس کے عزیز و اقارب، پڑوسیوں اور حکومت کے عطا کردہ ہیں۔ ہمارے قرب و جوار میں ایسے لوگ قدم قدم پر ملتے ہیں جو کسی کو ہنستا مسکراتا نہیں دیکھ سکتے، خوشحال لوگ بھی حاسدوں کی نظر میں کھٹکتے ہیں، بدطینت حضرات ایسا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ہیں جب وہ اپنے ساتھیوں کو جنھیں وہ اپنے حسد اور نفرت کی بنا پر دشمن سمجھتے ہیں زک پہنچانے سے باز نہیں آتے ہیں۔
ان حالات میں ایک طرف اپنوں کے تیروں سے کلیجہ چھلنی ہوتا ہے تو دوسری طرف حکومتوں کا رویہ بھی عوام کے ساتھ نہایت ظالمانہ ہے، کسی طریقے سے بھی رعایا کو سکھ پہنچانے کے لیے کام نہیں کیا جاتا ہے۔ سرکاری ملازمتوں کا کال وقفے وقفے سے ملک میں سیاہ بادلوں کی طرح چھا جاتا ہے اور سرکاری نوکریاں ان ہی کو ملتی ہیں جن کے پاس سفارش یا رشوت دینے کے لیے روپیہ پیسہ ہو، صلاحیت کی بنا پر بہت کم لوگ آگے آتے ہیں۔ ساتھ میں حکومت تمام چیزوں کے ٹیکس بھی وصول کرتی ہے لیکن سہولتوں کا فقدان پھر بھی رہتا ہے۔ گیس، بجلی، ٹرانسپورٹ، اسپتال، مفت ادویات، سستی تعلیم سے محرومی، بے قصور لوگوں کا سالہا سال جیلوں میں بند رہنا، چوری، ڈاکہ، اغوا برائے تاوان جیسے سنگین جرائم نے شہریوں کی زندگی کو اجیرن کردیا ہے۔ اب اس قسم کی سفاکی اور ذہنی اذیت پہنچانے والے رویے انسان کو ابنارمل یا ذہنی مریض ہی بنائیں گے، کسی بھی ادارے میں چلے جائیں وہاں آپ کو ایک نہیں بلکہ کئی لوگ ایسے ہی ملیں گے جو اپنے ساتھیوں یا ماتحتوں کو خوامخواہ کرب میں مبتلا کرتے ہیں۔ کبھی آپ کی چیزیں چھپادی جاتی ہیں تو کبھی جھوٹے الزامات، تو کبھی آپ کی تحریر و تقریر میں عیب نکالے جاتے ہیں اور سب کے سامنے عزت نفس پر حملہ کیا جاتا ہے۔
حال ہی میں ایک ملٹی نیشنل کمپنی کی اعلیٰ تعلیم یافتہ خاتون سے ایک چھوٹی سی یہ غلطی ہوئی کہ وہ دفتر کا لیپ ٹاپ کام کرنے کی غرض سے گھر لے آئیں، انھیں ملازمت کو زیادہ عرصہ بھی نہیں ہوا ہے، تجربہ بھی کم ہے، شاید اسی وجہ سے اس بات سے ناواقف تھیں کہ یہ بات رول اور ریگولیشن کے خلاف ہے، بات بہت معمولی سی تھی، ساتھیوں نے اس بات کا ایشو بنایا اور بات اعلیٰ افسران تک پہنچ گئی، اس کی سزا انھوں نے اس طرح دی کہ ان کی پروموشن نہیں کی، جس کی وجہ سے یقیناً دل برداشتہ ہوئیں اور بار بار شرمندہ الگ کیا گیا، آخر تنگ آکر انھوں نے ملازمت کو خیرباد کہہ دیا۔ قابل، لائق و فائق تھیں، فوری طور پر ہی دوسرے ادارے میں پہنچ گئیں لیکن گزرے دنوں میں جس ٹینشن اور دماغی تکلیف سے دوچار ہوئیں اس پریشانی کو وہی سمجھ سکتی ہیں۔ کتنے لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو سالہا سال سے دمہ یا دق جیسی بیماریوں میں مبتلا ہیں لیکن ملازمت کرنے پر مجبور ہیں۔
اب اگر سردی کے موسم میں دمے کی تکلیف زیادہ بڑھ گئی اور انھیں اسپتال میں داخل ہونا پڑا تو یہ پرائیویٹ ادارے رحم کے بجائے اس کی تنخواہ سے چھٹیوں کے پیسے ضرور کاٹ لیں گے۔ اگر کسی کے گھر میں کوئی شخص اﷲ کو پیارا ہوگیا تو ملازمت کرنے والوں کی چھٹیاں تو ہوں گی ہی، تو اس موقع پر اس بے چارے شخص کی آدھی تنخواہ کاٹ لی جائے گی۔ ایسے حالات پرائیویٹ فیکٹریوں اور تعلیمی اداروں میں زیادہ ہوتے ہیں۔ ایک خاتون ٹیچر کا مختصر سا ذکر کرتی چلوں۔ بے چاری شدید بیمار تھیں لہٰذا اسپتال والوں نے داخل کرلیا اور جب ڈرپ لگانے کی بات آئی تو وہ جھٹ سے بستر سے اتریں اور بولیں اس میں تو بہت وقت لگے گا۔ کالج والے تو تنخواہ ہی کاٹ لیں گے۔ میں ٹھہری بیوہ عورت، میں علاج بھی افورڈ نہیں کرسکتی ہوں۔ پھر مسکرا کر بولیں گھریلو نسخوں سے ہی کام چلالوں گی، اور یہ جا وہ جا۔ اس طرح کی زیادتیوں سے کتنے مجبور و مظلوم ملازمین اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں یا نیم پاگل ہوجاتے ہیں۔
حال ہی کا واقعہ ہے جب ایک ذہنی مریض شخص اپنے باپ کی چھ ماہ پرانی لاش کو گھر لے آیا۔ اس کا کہنا یہ تھا کہ ایسا اس نے اپنے باپ کی محبت میں کیا ہے۔ اسے اپنے باپ کے انتقال کا شدید صدمہ تھا۔ بعد میں پولیس کی مدد سے لاش کی دوبارہ تدفین ہوئی۔ میوہ شاہ قبرستان چھوٹا موٹا نہیں بلکہ بہت بڑا قبرستان ہے۔ یہاں بھی یہ نکتہ زیر بحث آتا ہے کہ حکومت کی نااہلی ہی ہے کہ نہ زندگی محفوظ ہے اور نہ موت۔ مرنے کے بعد بھی تحفظ نصیب نہیں۔
''دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں'' اب معاملہ کوئے یار سے آگے بڑھ گیا ہے اور قبرستان میں بھی گز دو گز کی زمین میسر نہیں ہے، اگر میسر آئی بھی تو چھین لی جاتی ہے اور بہت جلد اسی قبر میں دوسرے مردوں کو دفنا دیا جاتا ہے۔ آخر قبرستان کے گورکن، پہرے دار، چوکیدار کہاں جا مرے؟ جس کا دل چاہتا ہے وہ قبرستان میں داخل ہوتا ہے اور کارروائی کر ڈالتا ہے۔ جادو ٹونوں کے لیے ٹوٹی پھوٹی قبروں کا انتخاب کرتا ہے۔ اگر ٹوٹی پھوٹی قبریں نہیں ملتی ہیں تو توڑ ڈالتا ہے، اب قبرستان کی حرمت و تقدس وہ نہیں رہا جو ہوا کرتا تھا۔
غیر قانونی اور برے کام قبرستانوں میں ہی کیے جاتے ہیں۔ زیادہ تر ملزمان اور بدقماش لوگ قبرستان کو ہی محفوظ جگہ سمجھتے ہیں۔ اب ذہنی مریض بیٹے کا ہی واقعہ سامنے آیا ہے۔ آخر قبر کھودنے، لاش کو لے جانے میں سخت ترین مراحل سے اسے گزرنا پڑا ہوگا اور یہ کام اسی وقت ممکن ہے کہ قبرستان میں قبروں کی دیکھ بھال کرنے والا سرے سے غائب ہو اور اگر موجود ہوتا یا ہوتے تو یقیناً پیسوں کے عوض ان گورکنوں، مجابروں اور چوکیداروں کا تعاون شامل حال رہا ہوگا۔ ظاہر ہے موت کے چھ مہینے بعد مرنے والا نامعلوم کس حال میں ہوگا؟ خستہ و بوسیدہ لاش کو گھر لے جانا آسان کام نہیں۔ لیکن اس ذہنی مریض نے یہ کام بخوبی انجام دے ڈالا۔ موصوف کے بارے میں یہ بھی خبر ہے کہ ڈاکوؤں اور پولیس کے درمیان فائرنگ کے نتیجے میں اس کے دماغ پر برے اثرات مرتب ہوئے تھے، ذہنی مریض ہونے کی وجہ سے اپنے گھر والوں پر مقدمے بھی دائر کرتا رہا ہے۔ طبیعت سنبھلنے کے بعد درخواستیں واپس لے لی جاتی ہیں۔ ہمارے اطراف میں ذہنی مریضوں کی کمی نہیں ہے جو اپنے سلوک سے اپنے رشتے داروں، پڑوسیوں، ملنے جلنے والوں کو تنگ کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لواحقین کا فرض ہے کہ وہ ان کا معقول علاج کروائیں۔ نیم پاگلوں کو بجلی کے جھٹکے بھی دیے جاتے ہیں، لیکن یہ علاج سو فیصد کامیاب نہیں ہے۔ بہت سے لوگ مزید دماغی مریض بن جاتے ہیں۔ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ہوکر، سڑکوں اور گلیوں کو اپنا مسکن بنالیتے ہیں۔
گھر کے ماحول کو پرسکون اور خوشگوار بنانے کی ضرورت ہے، بے جا پابندیاں، بات بات پر طنز و طعنے اور میاں بیوی کی آپس کی لڑائی اور غربت ٹینشن کو جنم دیتی ہے۔ اگر ذہنی مریضوں کی دین کی طرف رغبت نہیں ہے اور نہ اچھا ماحول میسر ہے تب مرض مزید بڑھ جاتا ہے۔ جہاں حکومت کا اولین فرض ہے کہ معاشرے میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور دوسرے مسائل کے خاتمے کے لیے پوری توجہ دے وہاں گھر کے سربراہ کا بھی فرض ہے کہ اپنے گھر میں سکون و خوشی فراہم کرے تاکہ بچے ہر لمحے سہمے اور ڈرے ہوئے نہ رہیں بلکہ حالات کا مقابلہ کرنا سیکھیں تاکہ معاشرے کا اچھا شہری بن سکیں۔
ان حالات میں ایک طرف اپنوں کے تیروں سے کلیجہ چھلنی ہوتا ہے تو دوسری طرف حکومتوں کا رویہ بھی عوام کے ساتھ نہایت ظالمانہ ہے، کسی طریقے سے بھی رعایا کو سکھ پہنچانے کے لیے کام نہیں کیا جاتا ہے۔ سرکاری ملازمتوں کا کال وقفے وقفے سے ملک میں سیاہ بادلوں کی طرح چھا جاتا ہے اور سرکاری نوکریاں ان ہی کو ملتی ہیں جن کے پاس سفارش یا رشوت دینے کے لیے روپیہ پیسہ ہو، صلاحیت کی بنا پر بہت کم لوگ آگے آتے ہیں۔ ساتھ میں حکومت تمام چیزوں کے ٹیکس بھی وصول کرتی ہے لیکن سہولتوں کا فقدان پھر بھی رہتا ہے۔ گیس، بجلی، ٹرانسپورٹ، اسپتال، مفت ادویات، سستی تعلیم سے محرومی، بے قصور لوگوں کا سالہا سال جیلوں میں بند رہنا، چوری، ڈاکہ، اغوا برائے تاوان جیسے سنگین جرائم نے شہریوں کی زندگی کو اجیرن کردیا ہے۔ اب اس قسم کی سفاکی اور ذہنی اذیت پہنچانے والے رویے انسان کو ابنارمل یا ذہنی مریض ہی بنائیں گے، کسی بھی ادارے میں چلے جائیں وہاں آپ کو ایک نہیں بلکہ کئی لوگ ایسے ہی ملیں گے جو اپنے ساتھیوں یا ماتحتوں کو خوامخواہ کرب میں مبتلا کرتے ہیں۔ کبھی آپ کی چیزیں چھپادی جاتی ہیں تو کبھی جھوٹے الزامات، تو کبھی آپ کی تحریر و تقریر میں عیب نکالے جاتے ہیں اور سب کے سامنے عزت نفس پر حملہ کیا جاتا ہے۔
حال ہی میں ایک ملٹی نیشنل کمپنی کی اعلیٰ تعلیم یافتہ خاتون سے ایک چھوٹی سی یہ غلطی ہوئی کہ وہ دفتر کا لیپ ٹاپ کام کرنے کی غرض سے گھر لے آئیں، انھیں ملازمت کو زیادہ عرصہ بھی نہیں ہوا ہے، تجربہ بھی کم ہے، شاید اسی وجہ سے اس بات سے ناواقف تھیں کہ یہ بات رول اور ریگولیشن کے خلاف ہے، بات بہت معمولی سی تھی، ساتھیوں نے اس بات کا ایشو بنایا اور بات اعلیٰ افسران تک پہنچ گئی، اس کی سزا انھوں نے اس طرح دی کہ ان کی پروموشن نہیں کی، جس کی وجہ سے یقیناً دل برداشتہ ہوئیں اور بار بار شرمندہ الگ کیا گیا، آخر تنگ آکر انھوں نے ملازمت کو خیرباد کہہ دیا۔ قابل، لائق و فائق تھیں، فوری طور پر ہی دوسرے ادارے میں پہنچ گئیں لیکن گزرے دنوں میں جس ٹینشن اور دماغی تکلیف سے دوچار ہوئیں اس پریشانی کو وہی سمجھ سکتی ہیں۔ کتنے لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو سالہا سال سے دمہ یا دق جیسی بیماریوں میں مبتلا ہیں لیکن ملازمت کرنے پر مجبور ہیں۔
اب اگر سردی کے موسم میں دمے کی تکلیف زیادہ بڑھ گئی اور انھیں اسپتال میں داخل ہونا پڑا تو یہ پرائیویٹ ادارے رحم کے بجائے اس کی تنخواہ سے چھٹیوں کے پیسے ضرور کاٹ لیں گے۔ اگر کسی کے گھر میں کوئی شخص اﷲ کو پیارا ہوگیا تو ملازمت کرنے والوں کی چھٹیاں تو ہوں گی ہی، تو اس موقع پر اس بے چارے شخص کی آدھی تنخواہ کاٹ لی جائے گی۔ ایسے حالات پرائیویٹ فیکٹریوں اور تعلیمی اداروں میں زیادہ ہوتے ہیں۔ ایک خاتون ٹیچر کا مختصر سا ذکر کرتی چلوں۔ بے چاری شدید بیمار تھیں لہٰذا اسپتال والوں نے داخل کرلیا اور جب ڈرپ لگانے کی بات آئی تو وہ جھٹ سے بستر سے اتریں اور بولیں اس میں تو بہت وقت لگے گا۔ کالج والے تو تنخواہ ہی کاٹ لیں گے۔ میں ٹھہری بیوہ عورت، میں علاج بھی افورڈ نہیں کرسکتی ہوں۔ پھر مسکرا کر بولیں گھریلو نسخوں سے ہی کام چلالوں گی، اور یہ جا وہ جا۔ اس طرح کی زیادتیوں سے کتنے مجبور و مظلوم ملازمین اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں یا نیم پاگل ہوجاتے ہیں۔
حال ہی کا واقعہ ہے جب ایک ذہنی مریض شخص اپنے باپ کی چھ ماہ پرانی لاش کو گھر لے آیا۔ اس کا کہنا یہ تھا کہ ایسا اس نے اپنے باپ کی محبت میں کیا ہے۔ اسے اپنے باپ کے انتقال کا شدید صدمہ تھا۔ بعد میں پولیس کی مدد سے لاش کی دوبارہ تدفین ہوئی۔ میوہ شاہ قبرستان چھوٹا موٹا نہیں بلکہ بہت بڑا قبرستان ہے۔ یہاں بھی یہ نکتہ زیر بحث آتا ہے کہ حکومت کی نااہلی ہی ہے کہ نہ زندگی محفوظ ہے اور نہ موت۔ مرنے کے بعد بھی تحفظ نصیب نہیں۔
''دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں'' اب معاملہ کوئے یار سے آگے بڑھ گیا ہے اور قبرستان میں بھی گز دو گز کی زمین میسر نہیں ہے، اگر میسر آئی بھی تو چھین لی جاتی ہے اور بہت جلد اسی قبر میں دوسرے مردوں کو دفنا دیا جاتا ہے۔ آخر قبرستان کے گورکن، پہرے دار، چوکیدار کہاں جا مرے؟ جس کا دل چاہتا ہے وہ قبرستان میں داخل ہوتا ہے اور کارروائی کر ڈالتا ہے۔ جادو ٹونوں کے لیے ٹوٹی پھوٹی قبروں کا انتخاب کرتا ہے۔ اگر ٹوٹی پھوٹی قبریں نہیں ملتی ہیں تو توڑ ڈالتا ہے، اب قبرستان کی حرمت و تقدس وہ نہیں رہا جو ہوا کرتا تھا۔
غیر قانونی اور برے کام قبرستانوں میں ہی کیے جاتے ہیں۔ زیادہ تر ملزمان اور بدقماش لوگ قبرستان کو ہی محفوظ جگہ سمجھتے ہیں۔ اب ذہنی مریض بیٹے کا ہی واقعہ سامنے آیا ہے۔ آخر قبر کھودنے، لاش کو لے جانے میں سخت ترین مراحل سے اسے گزرنا پڑا ہوگا اور یہ کام اسی وقت ممکن ہے کہ قبرستان میں قبروں کی دیکھ بھال کرنے والا سرے سے غائب ہو اور اگر موجود ہوتا یا ہوتے تو یقیناً پیسوں کے عوض ان گورکنوں، مجابروں اور چوکیداروں کا تعاون شامل حال رہا ہوگا۔ ظاہر ہے موت کے چھ مہینے بعد مرنے والا نامعلوم کس حال میں ہوگا؟ خستہ و بوسیدہ لاش کو گھر لے جانا آسان کام نہیں۔ لیکن اس ذہنی مریض نے یہ کام بخوبی انجام دے ڈالا۔ موصوف کے بارے میں یہ بھی خبر ہے کہ ڈاکوؤں اور پولیس کے درمیان فائرنگ کے نتیجے میں اس کے دماغ پر برے اثرات مرتب ہوئے تھے، ذہنی مریض ہونے کی وجہ سے اپنے گھر والوں پر مقدمے بھی دائر کرتا رہا ہے۔ طبیعت سنبھلنے کے بعد درخواستیں واپس لے لی جاتی ہیں۔ ہمارے اطراف میں ذہنی مریضوں کی کمی نہیں ہے جو اپنے سلوک سے اپنے رشتے داروں، پڑوسیوں، ملنے جلنے والوں کو تنگ کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لواحقین کا فرض ہے کہ وہ ان کا معقول علاج کروائیں۔ نیم پاگلوں کو بجلی کے جھٹکے بھی دیے جاتے ہیں، لیکن یہ علاج سو فیصد کامیاب نہیں ہے۔ بہت سے لوگ مزید دماغی مریض بن جاتے ہیں۔ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ہوکر، سڑکوں اور گلیوں کو اپنا مسکن بنالیتے ہیں۔
گھر کے ماحول کو پرسکون اور خوشگوار بنانے کی ضرورت ہے، بے جا پابندیاں، بات بات پر طنز و طعنے اور میاں بیوی کی آپس کی لڑائی اور غربت ٹینشن کو جنم دیتی ہے۔ اگر ذہنی مریضوں کی دین کی طرف رغبت نہیں ہے اور نہ اچھا ماحول میسر ہے تب مرض مزید بڑھ جاتا ہے۔ جہاں حکومت کا اولین فرض ہے کہ معاشرے میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور دوسرے مسائل کے خاتمے کے لیے پوری توجہ دے وہاں گھر کے سربراہ کا بھی فرض ہے کہ اپنے گھر میں سکون و خوشی فراہم کرے تاکہ بچے ہر لمحے سہمے اور ڈرے ہوئے نہ رہیں بلکہ حالات کا مقابلہ کرنا سیکھیں تاکہ معاشرے کا اچھا شہری بن سکیں۔