حکومت اور سول سوسائٹی ملکر اسٹریٹ چلڈرن کی بحالی یقینی بنائیں

’’سٹریٹ چلڈرن کے عالمی دن‘‘ کے حوالے سے منعقدہ ’ایکسپریس فورم‘‘ کی رپورٹ

’’سٹریٹ چلڈرن کے عالمی دن‘‘ کے حوالے سے منعقدہ ’ایکسپریس فورم‘‘ کی رپورٹ

آج دنیا بھر میں ''اسٹریٹ چلڈرن کا عالمی دن'' منایا جا رہا ہے جس کا مقصدسڑکوں، گلیوں اور فٹ پاتھ پر رہنے والے بے گھر بچوں کے حقوق کے متعلق آگاہی دینا اور ان کیلئے کام کرنا ہے۔

اس دن کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے ''ایکسپریس فورم'' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومت اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

سید یاور عباس بخاری

(وزیر برائے سوشل ویلفیئر و بیت المال پنجاب)

سڑکوں اور گلیوں میں رہنے والے بچے ہمارے اپنے بچے ہیں جنہیں دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے، ان کی فلاح کیلئے کام کرنا دنیا میں جنت کمانا ہے۔سٹریٹ چلڈرن ایک بہت اہم اور حساس معاملہ ہے جس میں معاشرے کی شمولیت انتہائی اہم ہے۔ میرے نزدیک اس کے خاتمے میں ہم اس وقت کامیاب ہوسکتے ہیں جب معاشرہ آگاہ ہو، لوگ شکایت کریں اور پھراپنی ذمہ داری بھی ادا کریں۔ یہ ذمہ داری صرف انفارمیشن دینے تک نہ ہو بلکہ ان کی بحالی کیلئے بھی کام کریں۔ یہ باعث افسوس ہے کہ بچے سڑکوں پر بھیک مانگ رہے ہیں۔

یہ بچے گھر سے بھاگ کر آتے ہیں یاکسی چھوٹے شہر سے بڑے شہر میں آجاتے ہیں اور مافیا کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں جو ان سے بھیک منگواتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ مافیا بچے بھی اغواء کرتا ہے اور ان سے بھیک منگواتا ہے جبکہ یہ نیٹ ورک چلانے والوں کے اپنے بچے بیرون ملک تعلیم حاصل کرتے ہیں اور خود یہ بنگلوں میں رہتے ہیں۔ ہم بھیک کی حوصلہ شکنی اور مافیاز کو کیفر کردار تک پہنچانے کیلئے پنجاب میں' اینٹی بیگری لاء'بنا رہے ہیں جس سے یقینا بہتری آئے گی۔ ہم بچوں کی تعلیم پر بھی خصوصی توجہ دے رہے ہیں۔

پہلی مرتبہ ہماری حکومت 28 ہزار اسکول اپ گریڈ کر رہی ہے جبکہ ہر ضلع میں یونیورسٹی بھی قائم کی جارہی ہے۔ تعلیم دینے سے معاشرہ باشعور ہوگا جس سے مسائل کا خاتمہ بھی ممکن ہوجائے گا۔ ہمارا مشن انسانوں پر خرچ کرنا ہے کیونکہ اس سے ہی اسٹریٹ چلڈرن و دیگر مسائل کا خاتمہ ہوسکتا ہے، ہم ہر شخص کو گھر کی دہلیز پر تعلیم، صحت و دیگر سہولیات فراہم کر رہے ہیں۔

یہ بات قابل فکر ہے کہ ہمارے ہاں جو کام محکمے کا ہوتا ہے اس کے لیے الگ وزارت قائم کر دی جاتی ہے لہٰذا لوازمات مکمل نہ ہونے کی وجہ سے موثر کام نہیں ہوپاتا۔ اس کے علاوہ مختلف وزارتوں اور محکموں کے درمیان روابط کا بھی فقدان ہے جس سے مسائل پیدا ہورہے ہیں۔

چائلڈ پروٹیکشن بیوروکے پاس عمارتوں اور وسائل کی کمی ہے جس کی وجہ سے اس کے لیے صوبے بھر کے بچوں کے معاملات دیکھنا ممکن نہیں، دنیا بھر سے ڈونرز فنڈز دینے کو تیار ہیں مگر وہ چاہتے ہیں کہ چائلڈ پروٹیکشن سمیت دیگر متعلقہ محکموں کو ایک ہی چھتری کے نیچے لایا جائے، اس حوالے سے وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب کو بھی آگاہ کیا ہے۔ ایک ہی کام کیلئے مختلف وزارتوں اورمحکموں کی تشکیل سے وسائل ضائع ہورہے ہیں اور موثر کام بھی نہیں ہورہا، اگر ہم روایات اور نارمز کے خلاف چلیں گے تو ڈوب جائیں گے، ہمیں دنیا میں موجود کامیاب ماڈل پر کام کرناہوگا۔

ہم نے اپنے وسائل اور اسٹاف دیگر محکموں کی مدد کیلئے بھی دیا ہے، ہر جگہ ہمارے اسپتال موجود ہیں، اولڈ ہومز، وویمن سینٹرز و دیگر ادارے موجود ہیں، ہم صنعت زار جیسے ادارے سے مرد و خواتین کو ہنر کی تعلیم دے رہے ہیں، صبح کے وقت خواتین جبکہ شام کو مرد کلاسز لیتے ہیں، ہم اپنی مدت ختم ہونے تک اس پروگرام کے تحت 60 ہزار لوگوں کو ہنر کی تربیت جبکہ 42 ہزار کو روزگار فراہم کر چکے ہوں گے۔ ہم institution adoption کی طرف جارہے ہیں، سرپرستی ہماری ہوگی جبکہ این جی اوز، مخیر حضرات و سول سوسائٹی اداروں کو چلائے گی۔ ہم نے این جی اوز کی رجسٹریشن کا طریقہ کار بھی آسان کردیا ہے، 30دن کے اندر اندر این جی او رجسٹر کر دی جائے گی جبکہ اسے سہ ماہی بنیادوں پر اپنی رپورٹ جمع کرانا ہوگی۔

افتخار مبارک

(نمائندہ سول سوسائٹی)


1990ء میں پاکستان نے اقوام متحدہ کے کنونشن برائے حقوق اطفال کی توثیق کی جس میں یہ وعدہ کیا گیا کہ پاکستان بچوں کے حقوق کیلئے ہر ممکن کام کرے گا جس میں قانونی، انتظامی، مالی معاملات سمیت تمام پہلوؤں پر کام کیا جائے گا۔ آئین پاکستان کا آرٹیکل 25 (3) ریاست کو بچوں اور خواتین کو امپاور کرنے اور انہیں تحفظ فراہم کرنے کے لیے خصوصی اقدامات کرنے کی ترغیب دیتا ہے لہٰذا ریاست کو بچوں کے حقوق و تحفظ کیلئے ہر ممکن اقدامات کرنے چاہئیں مگر افسوس ہے کہ صوبے میں چائلڈ پروٹیکشن پالیسی ہی موجود نہیں جس کی وجہ سے بچوں کے حوالے سے موثر کام نہیں ہورہا ہے۔

پیدائش کا اندراج بچوں کا بنیادی حق ہے مگر سٹریٹ چلڈرن اس حق سے محروم ہیں، ان کے والدین کے شناختی کارڈز نہیں بنے اوریہ جس جگہ رہتے ہیں وہ جگہ بھی عارضی ہے۔یہ قابل ذکر ہے کہ راوی کے قریب خانہ بدوش گزشتہ 2دہائیوں سے رہائش پذیر ہیں، ان کے بعض معمر افراد کے شناختی کارڈز روای کے پتے سے بن چکے ہیں۔ راوی کے قریب خانہ بدوشوں کی بڑی تعداد رہتی ہے، ایک اندازے کے مطابق 10 ہزار کے قریب افراد موجود ہیں لہٰذا ان کے لیے کام کرنا ہوگا۔

سٹریٹ چلڈرن اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہیں جن کی فراہمی کیلئے روایتی طریقوں کے بجائے 'کسٹمائزڈ' حل کی طرف جانا ہوگا اور سول سوسائٹی کے ساتھ مل کر ان بچوں کے گھر کی دہلیز پر سکول، ہسپتال و دیگر سہولیات فراہم کر دی جائیں۔اس وقت سب سے بڑا چیلنج اداروں کے درمیان رابطے کا فقدان ہے۔

تعلیم، تحفظ، صاف پانی، خوراک و دیگر حقوق کے کیلئے کام کرنے والے سرکاری محکمے الگ الگ کام کر رہے ہیں، اصل چیلنج یہ ہے کہ ان سروسز کو مینج کون کرے گا؟ اگر آپس میں رابطے کا نظام بن جائے تو معاملات سٹریم لائن ہوجائیں گے اور سہولیات کی موثر فراہمی ممکن ہوسکے گی۔ چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو کسی شکایت کی صورت میں ہی کارروائی کرتا ہے اور بچے کو اپنی تحویل میں لے کر اس کی دیکھ بھال کرتا ہے۔ لاہور بیورو میں 500 بچوں کی گنجائش ہے جوبہت کم ہے لہٰذا یہ تمام بچوں کو یہاں نہیں رکھا جا سکتا ، اس کیلئے معاشرے کی شمولیت سے مسائل کا حل نکالا جائے۔

ضرورت یہ ہے کہ حکومت، ادارے، سول سوسائٹی و دیگر سٹیک ہولڈرز الگ الگ کام نہ کریں بلکہ اس کے لیے سرکاری سطح پر حکمت عملی مرتب کی جائے اور ایک ایسا ماڈل بنایا جائے جس میں سب ایک ساتھ کام کریں۔ اگر ہم نے ایسا کرلیا تو بہت جلد مسائل ختم ہوجائیں گے اور اقدامات کے موثر نتائج بھی حاصل ہوسکیں گے۔ بجٹ کا جائزہ لیں تو 1500 ملین صوبائی اسمبلی کیلئے، 480 ملین گورنر ہاؤس کیلئے جبکہ 450 بلین چائلڈ پروٹیکشن کیلئے مختص کیے گئے، اس سے ترجیحات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

حکومتیں وسائل کی کمی کا رونا روتی ہیں مگر ہم نے میگا پراجیکٹس پر اربوں روپے خرچ ہوتے دیکھے ہیں لہٰذا جہاں حکومت چاہے تو اربوں خرچ کر دیتی ہے اور جہاں خرچ نہ کرنا ہو وہاں وسائل کی کمی کا بہانہ بنا دیا جاتا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے اپنی تقریب حلف برداری میں بچوں کے مسائل پر خصوصی بات کی ۔ انہوں نے بچوں کی سٹنٹڈ گروتھ، غذائیت کی کمی و دیگر مسائل پر بات کی اور ان کے حل کی طرف توجہ دلائی۔

سوال یہ ہے کہ ان کا یہ ویژن صوبوں تک کیوں نہیں پہنچ سکا؟ حکومت پنجاب کو سمت کا اندازہ نہیں کہ بچوں کے حوالے سے کیسے کام کرنا ہے۔ اسی طرح کی صورتحال تمام صوبوں میں ہے لہٰذا اس پر توجہ دی جائے۔ گزشتہ 10 برسوں میں پارلیمنٹ نے بہت کام کیا، قانون سازی کی گئی مگر قوانین پر عملدرآمد میں مسائل ہیں جنہیں دور کرنا ہوگا۔ بچوں کے حوالے سے پالیسی سازی میں ان کی رائے کو سنا جائے اور اسے قانونی شکل دے دی جائے لیکن ان کی شمولیت کے بغیر کوئی بھی پالیسی نہ بنا ئی جائے۔

راشدہ قریشی

(نمائندہ سول سوسائٹی)

سٹریٹ چلڈرن دو طرح کے ہوتے ہیں، ایک گلیوں کے بچے اور دوسرے گلیوں میں رہنے والے بچے، پہلے وہ ہیں جو گلیوں میں ہی پیدا ہوئے جبکہ دوسرے وہ ہیں جو اپنا بیشتر وقت سڑکوں اور گلیوں میں گزارتے ہیں، ان میں اشیاء بیچنے والے بچے، اپنے والدین کے ساتھ بھیک مانگنے اور مزدوری و دیگر کام کرنے والے بچے شامل ہیں۔

ان کے ساتھ ساتھ ایسے بچے جو گھروں سے بھاگ جاتے ہیں وہ بھی شامل ہیں۔ یہ باعث افسوس ہے کہ گھریلو تشدد، ناچاقی، مار پیٹ، غربت و دیگر مسائل کی وجہ سے بچے گھروں سے بھاگ جاتے ہیں، بعض بچے بڑے خواب لے کر بڑے شہروں کا رخ کر لیتے ہیں اور پھر یہ مافیاز کے چنگل میں آجاتے ہیں جو ان سے جرائم کراتے یا بھیک منگواتے ہیں، یہ امر معاشرے کیلئے بڑا خطرہ ہے۔ بدقسمتی سے ہر گزرتے دن کے ساتھ سٹریٹ چلڈرن کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔ مختلف چوراہوں خصوصاََ ٹریفک سگنلز پرکم عمر بھکاریوں اور اشیاء بیچنے والوں کی بھرمار ہوتی ہے، ان کے ہاں یہ روایت ہے کہ مرد گھر پر عیش و آرام کرتے ہیں جبکہ خواتین اور بچے کما کر لاتے ہیں۔ ہم نے ایسے بچوں کے حوالے سے کام کیا اور انہیں جاننے کا موقع ملا۔ ہمیں یہ معلوم ہوا کہ ان کی پیدائش کا کوئی اندراج نہیں ہے بلکہ ان کے والدین کے پاس شناختی کارڈ بھی نہیں ہیں۔

ہم نے ان بچوں کیلئے راوی کے قریب ایک لرننگ سینٹر بنایا جہاں یہ بچے اپنے وقت میں سے 2 گھنٹے نکالتے ہیں اور ہم انہیں تعلیم و تربیت دیتے ہیں۔ افسوس ہے کہ سٹریٹ چلڈرن تعلیم، صحت، صاف پانی و دیگر بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔ گندے پانی اور صحت مند خوراک نہ کھانے کی وجہ سے یہ مختلف بیماریوں کا شکار ہیں۔ ان بچوں کے تحفظ کا بھی مسئلہ ہے۔ یہ بچے بالغوں کی طرح بات کرتے ہیں مگر اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ یہ باشعور ہیں، یہ بچے ہی ہیں جو عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ ان کے ساتھ زیادتی جیسے افسوسناک واقعات پیش آتے ہیں لہٰذا انہیں ہر ممکن تحفظ دینا ہوگا۔

 
Load Next Story