زمین پر قدیم زندگی کے خاتمے کے مزید ثبوت پاکستان اور چین سے دریافت
اب سے 25 کروڑ سال قبل چھ گنا زائد کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کے آثار پاکستان سے ملے ہیں
اب سے لگ بھگ 25 کروڑ 20 لاکھ سال قبل زمین پر جان داروں کی بڑی تعداد فنا ہوگئی تھی جسے پرمیئن ٹرائیسک ماس ایکسٹنشن (پی ٹی ایم ای) کہا جاتا ہے۔ اب اس کے تازہ ثبوت پاکستان اور چین سے ملے ہیں۔
زمین کی کروڑوں سال کی حیاتیاتی تاریخ میں کئی ادوار ایسے آئے ہیں جب کرہِ ارض پر حیات کی بڑی اقسام ناپیدگی کے قریب پہنچ گئی تھی۔ یہ عمل کاربن ڈائی آکسائیڈ کے غیرمعمولی اخراج کی وجہ سے ہوا تھا اور خیال ہے کہ اس طرح معمول سے 6 گنا زائد کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج ہوئی۔
اب سے لگ بھگ 25 کروڑ سال قبل پی ٹی ایم ای میں سمندر کی 90 فیصد انواع اور خشکی پر ریڑھ کی ہڈیوں والی 70 فیصد انواع قصہ پارینہ ہوگئی تھیں اور عین اتنی پرانی چٹانوں میں مختلف جانوروں کے فوسلز(رکازات) ملتے ہیں۔
جس مقام پر اس کے آثار ملتے ہیں انہیں ارضیات داں پرمیئن ٹرائسک باؤنڈری کہتے ہیں۔ اس موقع پر کاربن ڈائی آکسائیڈ سمیت کئی گیسوں کا غیرمعمولی اخراج ہوا نتیجے میں شدید گرمی بڑھی اور جاندار حال سے بے حال ہوکر مرنے لگے۔
اگرچہ ارضیاتی طور پر کاربن ڈائی آکسائیڈ کے ثبوت تو ملے ہیں لیکن اس کے اخراج کا مستقل سلسلہ نہیں مل سکا تھا جو اب چین اور پاکستان سے ریکارڈ ہوا ہے۔ چینی جامعہ برائے ارضیاتی علوم، مونٹ کلیئر اسٹیٹ یونیورسٹی، امریکا اور برطانیہ کی یونیورسٹی آف لیڈز کے سائنس دانوں نے اس سلسلے میں اپنی نئی تحقیق پیش کی ہے جو ہفت روزہ جریدے نیچر میں شائع ہوئی ہے۔
ماہرین اس ڈرامائی صورتحال کو اپنی زبان میں 'عظیم موت' بھی قرار دیتے ہیں۔ نئی تحقیق میں سائنس دانوں نے پودوں، مٹی اور دیگر سمندری اجسام میں کاربن تھری اور کاربن 13 آئسوٹوپس کا سراغ لگایا ہے۔
اس طرح چار مختلف ادوار اور مقامات میں پاکستان اور چین شامل ہیں جہاں عین 25 کروڑ سال قبل پی ٹی ایم ای کے دوران کاربن آئسوٹوپس کا غیرمعمولی اخراج ملا ہے اور اس سے تصدیق ہوتی ہے کہ شاید اس وقت کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج معمول سے چھ گنا تھا۔
کاربن ڈائی آکسائیڈ چونکہ حرارت پیدا کرنے والی گرین ہاؤس گیس ہے اور اسی وجہ سے بہت تیزی سے زمینی درجہ حرارت بڑھا تھا۔ خیال ہے کہ سمندری درجہ حرارت اوسط سے 10 درجے سینٹی گریڈ بڑھا اور زمینی اوسط درجہ حرارت بھی 35 درجہ سینٹی گریڈ تک جاپہنچا تھا۔
پھر یاد رہے کہ پی ٹی ایم ای کا سلسلہ کم سے کم پانچ لاکھ سال تک برقرار رہا اور اس طرح انواع کی بڑی تعداد تیزی سے دم توڑ گئی تھی۔
زمین کی کروڑوں سال کی حیاتیاتی تاریخ میں کئی ادوار ایسے آئے ہیں جب کرہِ ارض پر حیات کی بڑی اقسام ناپیدگی کے قریب پہنچ گئی تھی۔ یہ عمل کاربن ڈائی آکسائیڈ کے غیرمعمولی اخراج کی وجہ سے ہوا تھا اور خیال ہے کہ اس طرح معمول سے 6 گنا زائد کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج ہوئی۔
اب سے لگ بھگ 25 کروڑ سال قبل پی ٹی ایم ای میں سمندر کی 90 فیصد انواع اور خشکی پر ریڑھ کی ہڈیوں والی 70 فیصد انواع قصہ پارینہ ہوگئی تھیں اور عین اتنی پرانی چٹانوں میں مختلف جانوروں کے فوسلز(رکازات) ملتے ہیں۔
جس مقام پر اس کے آثار ملتے ہیں انہیں ارضیات داں پرمیئن ٹرائسک باؤنڈری کہتے ہیں۔ اس موقع پر کاربن ڈائی آکسائیڈ سمیت کئی گیسوں کا غیرمعمولی اخراج ہوا نتیجے میں شدید گرمی بڑھی اور جاندار حال سے بے حال ہوکر مرنے لگے۔
اگرچہ ارضیاتی طور پر کاربن ڈائی آکسائیڈ کے ثبوت تو ملے ہیں لیکن اس کے اخراج کا مستقل سلسلہ نہیں مل سکا تھا جو اب چین اور پاکستان سے ریکارڈ ہوا ہے۔ چینی جامعہ برائے ارضیاتی علوم، مونٹ کلیئر اسٹیٹ یونیورسٹی، امریکا اور برطانیہ کی یونیورسٹی آف لیڈز کے سائنس دانوں نے اس سلسلے میں اپنی نئی تحقیق پیش کی ہے جو ہفت روزہ جریدے نیچر میں شائع ہوئی ہے۔
ماہرین اس ڈرامائی صورتحال کو اپنی زبان میں 'عظیم موت' بھی قرار دیتے ہیں۔ نئی تحقیق میں سائنس دانوں نے پودوں، مٹی اور دیگر سمندری اجسام میں کاربن تھری اور کاربن 13 آئسوٹوپس کا سراغ لگایا ہے۔
اس طرح چار مختلف ادوار اور مقامات میں پاکستان اور چین شامل ہیں جہاں عین 25 کروڑ سال قبل پی ٹی ایم ای کے دوران کاربن آئسوٹوپس کا غیرمعمولی اخراج ملا ہے اور اس سے تصدیق ہوتی ہے کہ شاید اس وقت کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج معمول سے چھ گنا تھا۔
کاربن ڈائی آکسائیڈ چونکہ حرارت پیدا کرنے والی گرین ہاؤس گیس ہے اور اسی وجہ سے بہت تیزی سے زمینی درجہ حرارت بڑھا تھا۔ خیال ہے کہ سمندری درجہ حرارت اوسط سے 10 درجے سینٹی گریڈ بڑھا اور زمینی اوسط درجہ حرارت بھی 35 درجہ سینٹی گریڈ تک جاپہنچا تھا۔
پھر یاد رہے کہ پی ٹی ایم ای کا سلسلہ کم سے کم پانچ لاکھ سال تک برقرار رہا اور اس طرح انواع کی بڑی تعداد تیزی سے دم توڑ گئی تھی۔