عوام سیاسی نشاۃ ِثانیہ کے منتظر

ملکی سیاست مسائل کے گرداب سے نجات حاصل کرنے کا سوچے، سیاست میں برہمی بڑھتی جا رہی ہے۔

ملکی سیاست مسائل کے گرداب سے نجات حاصل کرنے کا سوچے، سیاست میں برہمی بڑھتی جا رہی ہے۔ فوٹو:فائل

پاکستان تاحال منی لانڈرنگ، دہشت گردی ، کورونا اور موسمیاتی برمودا ٹرائینگل میں پھنسا ہوا ہے، اسے عالمی رپورٹوں کے اثرات اور صحت کے سنگین گرداب سے خود کو بچانے کے لیے حکمت عملی کی فعال مرکزیت سے مطابقت پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔

بتایا جاتا ہے کہ برطانوی حکومت نے پاکستان کو 21 ہائی رسک ممالک کی فہرست میں شامل کر لیا ہے۔ اس فہرست میں پاکستان 15 ویں نمبر پر ہے۔ دسمبر 2020 میں برطانوی حکومت کی رپورٹ میں انکشاف ہوا تھا کہ پاکستان اور برطانیہ کے درمیان ناجائز رقوم کا تبادلہ جاری ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ برطانیہ اور پاکستان کے مابین بد مزگی پیدا کی جا رہی ہے جب کہ موسمیاتی مسائل کے حل کی جانب عالمی قوتوں کے انداز نظر کی پاکستان کے بارے میں خیر سگالی، دوستی اور مفاہمانہ جذبات کی بہتری کی پہلے سے بھی زیادہ ضرورت ہے، برطانوی پریس بھی پاکستان سے متعلق مالیاتی فراڈ کی خبروں کو خصوصی دلچسپی کے ساتھ نمایاں کرتا ہے۔

ارباب اختیار اس تلخ حقیقت پر نظر رکھیں کہ خارجہ پالیسی اور ڈپلومیسی میں سب سے اہم چیز وطن عزیز کے مفادات کے تحفظ کو یقینی بنانا ہے، ہر طرف غیر یقینی صورتحال ہے، نسلی تعصبات، دہشتگردی، قتل و غارت، جنسی ہراسگی، بیروزگاری اور غربت بال کھولے سو رہی ہے، پورا عالمی معاشرہ نفرت، ہیجان، تشدد سے بکھر رہا ہے، ملک ایک دوسرے سے برہمی کے ریکارڈ توڑ رہے ہیں، دنیا پینے کے پانی کی قلت کا انتظار کر رہی ہے، امن کی صرف باتیں ہیں، جمہوریت کے محض قصے ہیں، بچوں کی اموات کا منظر نامہ دیکھنے کے لیے وہ انسانیت کا درد رکھنے والے دل کہاں سے لائیں، ہم موسمیاتی تحیر خیز تبدیلیوں سے خوفزدہ ہیں۔

بے موسم کی زبردست بارشیں ہو رہی ہیں، جنگلات کو وقت بے وقت آگ لگتی ہے، ہمارے ٹمبر مافیا نے جنگل کاٹ کر رکھ دیے۔ جنگلات کی اس تباہی میں حکومت اور بیوروکریسی کی نااہلی کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ملک میں جنگلات کا محکمہ موجودہے،اس کے افسروں اور ملازمین کو سرکاری خزانے سے تنخواہیں اور مراعات دی جارہی ہیں۔جنگلات کے وزیر بھی موجود ہیں لیکن یہ کرکیا رہے ہیں، کسی کو کوئی پتہ نہیں ہے۔

وزیر اعظم عمران خان نے موسمیاتی تبدیلی میں تعاون کے لیے بل گیٹس کو خط لکھ دیا۔ انھوں نے خط میں کہا ہے کہ پاکستان ان ممالک میں ہے جہاں موسمیاتی تبدیلی کے خطرات زیادہ ہیں۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان بھی موسمی خطرات سے نمٹنے اور بچاؤ کے لیے اقدامات کر رہا ہے۔ آئیں مل کر دنیا کو موسمیاتی تبدیلی کے خطرات سے بچائیں۔

وزیر اعظم عمران خان نے کلائمیٹ چینج کے خطرات پر کتاب لکھنے پر بل گیٹس کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کاربن کی کمی کے لیے متبادل توانائی کے منصوبے شروع کر رہا ہے۔ انھوں نے خط میں لکھا کہ بلین ٹری سونامی، نیشنل پارکس اور کلین گرین کے پروگرام پاکستان میں جاری ہیں اور پاکستان نے لاتعداد گرین جابز دی ہیں۔

وزیر اعظم نے کہا کہ 10 لاکھ ایکڑ جنگلات کو محفوظ بنایا گیا ہے اور پاکستان موسمیاتی تبدیلی کے خطرات کم کرنے کے لیے بھرپور تعاون کو تیار ہے۔ پوری دنیا کو موسمیاتی خطرات کو بھانپتے ہوئے ہنگامی اقدامات کرنا ہوں گے۔

دریں اثنا وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ ہم نے جغرافیائی سیاسی ترجیحات کو جغرافیائی معاشی ترجیحات سے بدل دیا ہے۔ انھوں نے یہ بات دو روزہ سرکاری دورے پر جرمنی آمد کے بعد پاکستانی سفیر کے عشایئے سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ انھوں نے کہا کہ ہم دنیا کو پاکستان میں معاشی سرگرمیوں اور مواقعوں سے متعارف کرا رہے ہیں، پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاروں کو ای ویزہ سمیت تمام سہولتیں فراہم کر رہے ہیں۔


ایک امریکی رپورٹ کے مطابق کووِڈ 19نے دنیا بھر میں منفی رجحانات کو جنم دیا ہے، قوم پرست جذبات اور شکوک و شبہات کو ہوا دی جب کہ غربت اور صنفی عدم مساوات میں ہونے والی پیش رفت بھی روک دی ہے۔ ادھر عالمی ادارہ صحت کے سربراہ کا کہنا ہے کہ ویکسی نیشن کے استعمال کے باوجود عوام کی ہلاکتوں اور کیسز میں پھیلائو کا مطلب یہ ہے کہ عوام ایس او پیز کو نظر انداز کر رہے ہیں اور انھیں یہ بتانے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ ماسک پہننا نہ چھوڑیں۔

ایک امریکی انٹیلیجنس رپورٹ میں خبردار کیا گیا کہ کووڈ19 نے لچک اور موافقت کے بارے میں دیرینہ مفروضوں کو متزلزل کر دیا ہے، ساتھ ہی معیشت، گورننس، جیو پولیٹکس، اور ٹیکنالوجی کے بارے میں نئی غیر یقینی صورتحال پیدا کر دی ہے۔ ایک تحقیقی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ کورونا بحران نے عالمی معیشت کو زبردست دھچکا پہنچایا ہے۔ بڑے سے بڑا اور چھوٹے سے چھوٹا کاروباری شخص معاشی سرگرمیوں پر منڈلاتے کورونا کے سیاہ بادلوں کے چھٹنے کا بے صبری سے انتظار کر رہا ہے۔

اس عالمی وبا نے طاقتور معیشتوں کو بھی معاشی میدان میں اپنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا ہے۔ جب طاقتور معیشتیں سجدہ ریز ہیں تو تیسری دنیا کے ممالک معاشی تباہ کاریوں کا کیسے سامنا کریں گے، غربت اور بیروزگاری صرف مزدور کوکھانے سے محروم نہیں کرتی بلکہ انسانی سوچ، ذہنی حالت، فکری جہت، تخلیقی صلاحیتوں، زندہ رہنے کی امنگوں اور مستقبل کے خوابوں کو بھی ریزہ ریزہ کر دیتی ہے، غربت جہالت کے اندھیرے پھیلا دیتی اور ذہانتوں کو تاراج کر دیتی ہے۔ وہ عہد بھی ختم ہوگئے جب غربت کی کوکھ سے ذہین ترین آدمی جنم لیتے تھے۔

آج پوری دنیا میں معاشی سرگرمیاں، پیداوار اور بلندیاں تھم سی گئی ہیں۔ خام اور برنٹ آئل کی قیمتوں میں 50 فیصد سے بھی زیادہ کی کمی آ چکی ہے اور اسٹاک مارکیٹ 2 مرتبہ کریش ہوئی، یقیناً اس عالمی وبا نے ہم تک ناصرف جانی نقصان کی بری خبریں پہنچائی ہیں بلکہ معاشی نقصان کے نئے ریکارڈ بھی بنوائے ہیں۔

اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ کورونا وائرس کے سبب عالمی معیشت کے 3.2 فیصد تک سکڑنے کا خدشہ ہے جو 1930 کی عالمی کساد بازاری کے بعد عالمی معیشت کو پہنچنے والا سب سے بڑا نقصان ہوگا۔ اقوام متحدہ کی جانب سے جاری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عالمی معیشت کو آیندہ دو سالوں میں کورونا وائرس سے 8.5 ٹریلین ڈالر کا نقصان ہو سکتا ہے جس سے گزشتہ چار سال کے دوران حاصل ہونے والے تمام تر فوائد ضایع ہو جائیں گے۔ کورونا وائرس کے عالمی سطح پر پھیلاؤ سے قبل اقوام متحدہ نے پیش گوئی کی تھی کہ 2020 میں عالمی معاشی شرح نمو میں 2.5 فیصد اضافے کا قوی امکان ہے۔

لیکن اقوام متحدہ کی معاشی ٹیم کے سربراہ ایلیٹ ہیرس نے پریس کانفرنس سے خطاب میں سال کے وسط میں ادارے کی جانب سے جاری کی جانے والی رپورٹ کا اجرا کرتے ہوئے بتایا کہ کورونا وائرس کے عالمی سطح پر پھیلاؤ کے بعد عالمی معاشی منظر نامہ انتہائی تیزی سے تبدیل ہوا ہے۔ انھوں نے کہا کہ معاشی سرگرمیوں پر بڑے پیمانے پر عائد پابندیوں اور بڑھتی ہوئی غیریقینی صورتحال کے سبب عالمی معیشت 2020 کی دوسری سہ ماہی میں ایک جگہ ٹھہر گئی ہے، ہم کساد بازاری کی ایک ایسی حقیقت کا سامنا کر رہے ہیں جس کی 1930کی عالمی کساد بازاری کے بعد سے کوئی مثال نہیں ملتی۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ ملکی سیاست مسائل کے گرداب سے نجات حاصل کرنے کا سوچے، سیاست میں برہمی بڑھتی جا رہی ہے، سنجیدگی، استحکام، جمہوری وژن فکری بصیرت اور دور اندیشی کی اسپیس کم ہو رہی ہے، یہ اچھا شگون نہیں ہے۔ قوم کو سیاسی نشاۃِ ثانیہ کا انتظار ہے، لوگ ایک نئے سیاسی ماحول کی تمنا رکھتے ہیں۔

 
Load Next Story