ریاست اور لاقانونیت
تین دن پورے ملک میں دنگا فساد اور انارکی کا زور رہا۔ ہر طرف توڑ پھوڑ، سڑکیں بند اور خون خرابہ چل رہا تھا
گزشتہ تین دن پورے ملک میں دنگا فساد اور انارکی کا زور رہا۔ ہر طرف توڑ پھوڑ، سڑکیں بند اور خون خرابہ چل رہا تھا۔ پولیس والے شدت پسند جتھوں کے رحم و کرم پر اور عوام ریاست کے رحم و کرم پر ہے۔ جس کے ہتھے جو لگ رہا ہے، اسی کی درگت بن رہی ہے۔
بطور پاکستانی یہ ہمارے لیے کوئی نئی بات نہیں اور نہ ہی اس پر زیادہ رنجیدہ ہونے کی ضرورت ہے۔ کیوں کہ کچھ دن کے بعد حالات نارمل ہوجائیں گے۔ سب بھول بھلا کر اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہوجائیں گے اور یہ جا اور وہ جا۔ سال چھ مہینے بعد پھر کوئی مذہبی یا سیاسی گروہ اسی طرح آپ کی زندگی میں چند دن کی مشکلات لے کر آئے گا۔ مگر گھبرانا پھر بھی نہیں ہے اور یہی سوچ کر صبر کرلینا کہ قدرت کی طرف سے آئی کو کون ٹال سکتا ہے۔ اس دوران اگر کسی کا کوئی جانی و مالی نقصان بھی ہو تو بجائے کسی دوسرے کے ہاتھ پر اپنا خون تلاش کرنے کے قسمت پر الزام دھر کر خاموشی اختیار کی جائے۔
موجودہ حالات کا ذمے دار کون ہے؟ بغیر کسی لیت ولعل کے اس کی ذمے داری حکومت کے کھاتے میں جاتی ہے اور اس نااہلی میں پنجاب اور وفاقی حکومت برابر کی شریک ہیں۔ پنجاب حکومت سعد رضوی کی گرفتاری کی صورت میں پیدا ہونے والے ردعمل کو جانچنے میں ناکام ہوئی ہے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ گرفتاری کے چند گھنٹوں بعد ہی روڈ بلاک ہونے شروع ہوگئے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر گرفتاری کا فیصلہ کرلیا گیا تھا تو اس کے بعد پیدا ہونے والے حالات سے نمٹنے کےلیے کوئی لائحہ عمل نہیں بنایا گیا۔ اگر اس وقت پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو الرٹ کردیا ہوتا اور وہ جگہیں جہاں سے مزاحمت پیدا ہوسکتی تھی وہاں سیکیورٹی ہائی الرٹ ہوتی تو آج حالات قابو میں ہوتے۔
پنجاب میں وزیروں، مشیروں کی ایک پوری فوج بیٹھی ہوئی ہے لیکن مجال ہے کہ کسی نے ان حالات میں میڈیا پر آکر قوم کو حقائق سے آگاہ کیا ہو۔ اگر ماضی کے تجربات کو دیکھا جائے تو ایسے حالات میں صرف پولیس اکیلے حالات کو کنٹرول نہیں کرسکتی، جب تک اس کو رینجرز اور دیگر پیراملٹری فورسز کا تعاون حاصل نہ ہو، لیکن یہاں پر پولیس کو نہتا کرکے ہجوم کے سامنے کھڑا کردیا گیا۔ دوسری طرف وفاقی حکومت نے غیر ذمے داری کا مظاہرہ کرکے حالات کو اس نہج تک پہنچادیا۔ خارجہ نوعیت کے حساس معاملات کا فیصلہ ایک طرف وزیر داخلہ کررہا ہے اور دوسری طرف ایک مذہبی تنظیم۔ کیا حکومت نے اس معاہدے سے قبل دفتر خارجہ سے سفیر کی بے دخلی سے متعلق رائے لی تھی؟
دوسری طرف وزیر خارجہ خود ایک سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والی شخصیت ہیں۔ انہوں نے اس وقت کے وزیرداخلہ اعجاز شاہ اور موجودہ وزیر داخلہ شیخ رشید کو اس طرح کا معاہدہ کرنے سے کیوں نہیں روکا؟ جب کہ ان کو بطور وزیر خارجہ اس بات کا علم تھا کہ حکومت کےلیے اس طرح کا سخت فیصلہ کرنا ناممکن ہے۔ جیسا کہ معاہدے میں درج ہے اور وزیراعظم بھی ایک سے زائد دفعہ فرما چکے ہیں کہ فرانسیسی سفیر کی ملک بدری سے متعلق قرارداد پارلیمنٹ میں پیش کی جائے گی۔ لیکن پارلیمنٹ سوائے مذمتی قراردادیں منظور کرنے کے اور کوئی بڑا فیصلہ نہیں کرپائے گی، جب تک اسے تمام اداروں کی حمایت نہ حاصل ہو۔ جس کی فی الحال کوئی توقع نہیں ہے۔
اگر پارلیمنٹ اس بارے میں کوئی فیصلہ نہ کر پائی تو تحریک لبیک پھر سڑکوں پر آجائے گی۔ کیا صرف تحریک پر پابندی کا اعلان کرکے ان کے پیروکاروں کے ذہن کو بدلا جاسکتا ہے؟ حکومت نے اس وقت وقتی طور پر حالات کو کنٹرول کرنے کےلیے بغیر سوچے سمجھے سادہ کاغذ پر معاہدہ تو کرلیا، مگر یہ اب اس کے گلے کا طوق بن گیا ہے۔
دوسری طرف وہ طبقہ جو فرانس سے تعلقات ختم کرنے کی بات کررہا ہے، وہ بھی عقل سے عاری ہے۔ خارجہ تعلقات نہ کسی گروہ کے مطالبے پر بنائے جاسکتے ہیں اور نہ ہی توڑے جاسکتے ہیں۔ خارجہ تعلقات میں نہ کوئی کسی کا مستقل دوست ہوتا ہے اور نہ ہی دشمن۔ بلکہ ہر ملک اپنے مفاد کےلیے کسی کے ساتھ دوستی اختیار کرلیتا ہے اور کسی کے ساتھ دشمنی۔ پاکستان کے اس وقت فرانس کے ساتھ کوئی اتنے مثالی تعلقات نہیں ہیں۔ اگر دو طرفہ تعلقات کی حد تک دیکھا جائے تو فرانس کے ساتھ تعلقات ختم کرنے سے نہ ہمیں فرق پڑتا ہے اور نہ ہی فرانس کو کوئی بڑا جھٹکا لگے گا۔
لیکن بات اتنی سادہ بھی نہیں ہے۔ یورپی یونین پاکستان کا ایک اہم ترین تجارتی شراکت دار ہے اور فرانس یورپی یونین کےلیے ریڑھ کی ہڈی کی سی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ سلامتی کونسل میں فرانس کی مستقل حیثیت ہے اور وہاں پر فرانس کا اپنا ایک دائرہ اثر ہے۔ سلامتی کونسل میں کشمیر سمیت دہشت گردی سے متعلق بہت سارے معاملات زیر التوا ہیں اور وہاں پر سوائے چین کے کوئی بھی ہمارے ساتھ نہیں ہے۔
پاکستان ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں پھنسا ہوا ہے اور سخت ترین شرائط کو قبول کرکے اس لسٹ سے نکلنے کی کوشش کررہا ہے۔ فرانس نہ صرف ایف اے ٹی ایف کا ممبر ملک ہے بلکہ اس ادارے پر بھی اثر رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ مسلح افواج کے پاس فرانسیسی اسلحے کی ایک بڑی تعداد موجود ہے، جس کی مینٹی ننس کےلیے فرانس کے ساتھ تعلقات برقرار رہنا ضروری ہیں۔
اگرچہ فرانس کے اس فعل پر پوری دنیا میں مذمت ہوئی۔ ان کی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا گیا لیکن کسی اسلامی ملک نے فرانس کے ساتھ تعلقات ختم نہیں کیے۔ عوام نے اپنے طور پر فرانسیسی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا، بڑے بڑے اسٹورز سے ان کی مصنوعات کو ہٹا دیا، حکومتوں کے سامنے اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا لیکن اپنی رائے حکومت پر مسلط کرنے کی کوشش نہیں کی۔
لیکن یہاں گنگا الٹی بہتی ہے۔ آج سفیر کو نکالنے کے مطالبے ہورہے ہیں، کل فرانس پر حملے کےلیے حکومت کو ڈیڈ لائن دی جارہی ہوگی۔ حکومت کو معذرت خواہانہ رویہ ترک کرنا ہوگا اور عوام کے کثیر تر مفاد میں ایک ٹھوس اور واضح موقف پیش کرنا ہوگا، تاکہ آئندہ تحریک لبیک پاکستان یا اس جیسی کوئی اور تنظیم سامنے نہ آسکے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
بطور پاکستانی یہ ہمارے لیے کوئی نئی بات نہیں اور نہ ہی اس پر زیادہ رنجیدہ ہونے کی ضرورت ہے۔ کیوں کہ کچھ دن کے بعد حالات نارمل ہوجائیں گے۔ سب بھول بھلا کر اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہوجائیں گے اور یہ جا اور وہ جا۔ سال چھ مہینے بعد پھر کوئی مذہبی یا سیاسی گروہ اسی طرح آپ کی زندگی میں چند دن کی مشکلات لے کر آئے گا۔ مگر گھبرانا پھر بھی نہیں ہے اور یہی سوچ کر صبر کرلینا کہ قدرت کی طرف سے آئی کو کون ٹال سکتا ہے۔ اس دوران اگر کسی کا کوئی جانی و مالی نقصان بھی ہو تو بجائے کسی دوسرے کے ہاتھ پر اپنا خون تلاش کرنے کے قسمت پر الزام دھر کر خاموشی اختیار کی جائے۔
موجودہ حالات کا ذمے دار کون ہے؟ بغیر کسی لیت ولعل کے اس کی ذمے داری حکومت کے کھاتے میں جاتی ہے اور اس نااہلی میں پنجاب اور وفاقی حکومت برابر کی شریک ہیں۔ پنجاب حکومت سعد رضوی کی گرفتاری کی صورت میں پیدا ہونے والے ردعمل کو جانچنے میں ناکام ہوئی ہے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ گرفتاری کے چند گھنٹوں بعد ہی روڈ بلاک ہونے شروع ہوگئے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر گرفتاری کا فیصلہ کرلیا گیا تھا تو اس کے بعد پیدا ہونے والے حالات سے نمٹنے کےلیے کوئی لائحہ عمل نہیں بنایا گیا۔ اگر اس وقت پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو الرٹ کردیا ہوتا اور وہ جگہیں جہاں سے مزاحمت پیدا ہوسکتی تھی وہاں سیکیورٹی ہائی الرٹ ہوتی تو آج حالات قابو میں ہوتے۔
پنجاب میں وزیروں، مشیروں کی ایک پوری فوج بیٹھی ہوئی ہے لیکن مجال ہے کہ کسی نے ان حالات میں میڈیا پر آکر قوم کو حقائق سے آگاہ کیا ہو۔ اگر ماضی کے تجربات کو دیکھا جائے تو ایسے حالات میں صرف پولیس اکیلے حالات کو کنٹرول نہیں کرسکتی، جب تک اس کو رینجرز اور دیگر پیراملٹری فورسز کا تعاون حاصل نہ ہو، لیکن یہاں پر پولیس کو نہتا کرکے ہجوم کے سامنے کھڑا کردیا گیا۔ دوسری طرف وفاقی حکومت نے غیر ذمے داری کا مظاہرہ کرکے حالات کو اس نہج تک پہنچادیا۔ خارجہ نوعیت کے حساس معاملات کا فیصلہ ایک طرف وزیر داخلہ کررہا ہے اور دوسری طرف ایک مذہبی تنظیم۔ کیا حکومت نے اس معاہدے سے قبل دفتر خارجہ سے سفیر کی بے دخلی سے متعلق رائے لی تھی؟
دوسری طرف وزیر خارجہ خود ایک سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والی شخصیت ہیں۔ انہوں نے اس وقت کے وزیرداخلہ اعجاز شاہ اور موجودہ وزیر داخلہ شیخ رشید کو اس طرح کا معاہدہ کرنے سے کیوں نہیں روکا؟ جب کہ ان کو بطور وزیر خارجہ اس بات کا علم تھا کہ حکومت کےلیے اس طرح کا سخت فیصلہ کرنا ناممکن ہے۔ جیسا کہ معاہدے میں درج ہے اور وزیراعظم بھی ایک سے زائد دفعہ فرما چکے ہیں کہ فرانسیسی سفیر کی ملک بدری سے متعلق قرارداد پارلیمنٹ میں پیش کی جائے گی۔ لیکن پارلیمنٹ سوائے مذمتی قراردادیں منظور کرنے کے اور کوئی بڑا فیصلہ نہیں کرپائے گی، جب تک اسے تمام اداروں کی حمایت نہ حاصل ہو۔ جس کی فی الحال کوئی توقع نہیں ہے۔
اگر پارلیمنٹ اس بارے میں کوئی فیصلہ نہ کر پائی تو تحریک لبیک پھر سڑکوں پر آجائے گی۔ کیا صرف تحریک پر پابندی کا اعلان کرکے ان کے پیروکاروں کے ذہن کو بدلا جاسکتا ہے؟ حکومت نے اس وقت وقتی طور پر حالات کو کنٹرول کرنے کےلیے بغیر سوچے سمجھے سادہ کاغذ پر معاہدہ تو کرلیا، مگر یہ اب اس کے گلے کا طوق بن گیا ہے۔
دوسری طرف وہ طبقہ جو فرانس سے تعلقات ختم کرنے کی بات کررہا ہے، وہ بھی عقل سے عاری ہے۔ خارجہ تعلقات نہ کسی گروہ کے مطالبے پر بنائے جاسکتے ہیں اور نہ ہی توڑے جاسکتے ہیں۔ خارجہ تعلقات میں نہ کوئی کسی کا مستقل دوست ہوتا ہے اور نہ ہی دشمن۔ بلکہ ہر ملک اپنے مفاد کےلیے کسی کے ساتھ دوستی اختیار کرلیتا ہے اور کسی کے ساتھ دشمنی۔ پاکستان کے اس وقت فرانس کے ساتھ کوئی اتنے مثالی تعلقات نہیں ہیں۔ اگر دو طرفہ تعلقات کی حد تک دیکھا جائے تو فرانس کے ساتھ تعلقات ختم کرنے سے نہ ہمیں فرق پڑتا ہے اور نہ ہی فرانس کو کوئی بڑا جھٹکا لگے گا۔
لیکن بات اتنی سادہ بھی نہیں ہے۔ یورپی یونین پاکستان کا ایک اہم ترین تجارتی شراکت دار ہے اور فرانس یورپی یونین کےلیے ریڑھ کی ہڈی کی سی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ سلامتی کونسل میں فرانس کی مستقل حیثیت ہے اور وہاں پر فرانس کا اپنا ایک دائرہ اثر ہے۔ سلامتی کونسل میں کشمیر سمیت دہشت گردی سے متعلق بہت سارے معاملات زیر التوا ہیں اور وہاں پر سوائے چین کے کوئی بھی ہمارے ساتھ نہیں ہے۔
پاکستان ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں پھنسا ہوا ہے اور سخت ترین شرائط کو قبول کرکے اس لسٹ سے نکلنے کی کوشش کررہا ہے۔ فرانس نہ صرف ایف اے ٹی ایف کا ممبر ملک ہے بلکہ اس ادارے پر بھی اثر رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ مسلح افواج کے پاس فرانسیسی اسلحے کی ایک بڑی تعداد موجود ہے، جس کی مینٹی ننس کےلیے فرانس کے ساتھ تعلقات برقرار رہنا ضروری ہیں۔
اگرچہ فرانس کے اس فعل پر پوری دنیا میں مذمت ہوئی۔ ان کی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا گیا لیکن کسی اسلامی ملک نے فرانس کے ساتھ تعلقات ختم نہیں کیے۔ عوام نے اپنے طور پر فرانسیسی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا، بڑے بڑے اسٹورز سے ان کی مصنوعات کو ہٹا دیا، حکومتوں کے سامنے اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا لیکن اپنی رائے حکومت پر مسلط کرنے کی کوشش نہیں کی۔
لیکن یہاں گنگا الٹی بہتی ہے۔ آج سفیر کو نکالنے کے مطالبے ہورہے ہیں، کل فرانس پر حملے کےلیے حکومت کو ڈیڈ لائن دی جارہی ہوگی۔ حکومت کو معذرت خواہانہ رویہ ترک کرنا ہوگا اور عوام کے کثیر تر مفاد میں ایک ٹھوس اور واضح موقف پیش کرنا ہوگا، تاکہ آئندہ تحریک لبیک پاکستان یا اس جیسی کوئی اور تنظیم سامنے نہ آسکے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔