میری گلی سے کوویڈ بھی ڈرتا ہے
میرے محلے کی گلی رفتہ رفتہ چائے پراٹھے والی کوچہِ کام و دہن ( فوڈ اسٹریٹ ) بن گئی ہے۔
پچھلے ایک برس کے دوران روزمرہ زندگی میں ایک شے ایسی داخل ہو گئی ہے جو لگتا ہے کئی برس ہمارے ساتھ رہے گی۔یعنی ماسک ، یعنی نقاب۔اب تک تو یہ سب سے زیادہ اردو شاعری اور فلمی گیتوں میں استعمال ہوتا تھا۔
حالات ایسے پلٹے کہ دسمبر دو ہزار انیس تک جو شخص بینک میں ماسک لگا کے گھسنا چاہتا تھا سیکیورٹی گارڈز اسے روک لیتے تھے۔دو ہزار بیس شروع ہوتے ہی جو شخص بنا ماسک کسی عمارت میں داخل ہونا چاہے تو سیکیورٹی گارڈز اسے روک لیتے ہیں۔
ایک برس پہلے اگر آپ کو یاد ہو این نائنٹی فائیو ماسک کا میڈیا میں اچانک چرچا شروع ہوا۔طبی عملہ باقاعدہ شکایت کرتا تھا کہ اسے این نائنٹی فائیو ماسک میسر نہیں لہذا اسے کوویڈ کے مریضوں سے براہِ راست وائرس لگنے کا خطرہ ہے۔
جس طرح آج پوری دنیا کوویڈ ویکسین کی قلت کا رونا رو رہی ہے ایک برس پہلے یہی مرثیہ خوانی این نائنٹی فائیو ماسک کی مانگ میں اچانک اضافے کے سبب پیدا ہونے والی قلت کے تعلق سے عروج پر تھی۔دو چینی کمپنیاں یہ ماسک سب سے زیادہ تیار کرتی تھیں اور امیر ممالک نے ان کی پروڈکشن کا ایڈوانس میں سودا کر لیا تھا۔
چنانچہ بلیک مارکیٹ کی چاندی ہو گئی۔یہ ماسک ہزار ہزار روپے میں بھی فروخت ہوا۔ایک تصویر پر بھی بہت لے دے ہوئی۔جس میں وزیرِ اعلیٰ پنجاب نے ایک اسپتال کے دورے کے موقع پر این نائنٹی فائیو ماسک لگایا ہوا ہے جب کہ ان کو بریفنگ دینے والے ڈاکٹر کے چہرے پر پلاسٹک شاپر کا خانہ ساز ماسک ہے۔
پھر عالمی ادارہِ صحت نے فتوی دیا کہ ہر ایک کے لیے این نائنٹی فائیو ماسک ضروری نہیں۔آپ کپڑے کا ماسک بھی بنا سکتے ہیں اور اسے گھر میں تیار کر سکتے ہیں۔تب کہیں جا کے عام ماسک جو پہلے پچاس روپے تک کا بک رہا تھا اس کی قیمت گر کے دس روپے تک پہنچ گئی۔اور جن مصیبت فروشوں نے لاکھوں کی تعداد میں ماسک ذخیرہ کر لیے تھے رفتہ رفتہ ان کی عقل ٹھکانے آ گئی۔
اب مسئلہ ماسک کی دستیابی سے زیادہ اس کے استعمال کا ہے۔متوسط اور بالائی متوسط طبقے میں ماسک کا استعمال نسبتاً زیادہ ہے اور نچلے طبقات کے لوگ ماسک لے بھی لیں تو اس کی افادیت کے اب تک پوری طرح قائل نہیں ہیں۔فیشن ہاؤسز نے مہنگے ڈیزائنر ماسک بنانے شروع کر دیے تو ماسک بھی فیشن اسٹیٹ مینٹ بن گیا۔برانڈڈ اہلِ نقاب کا رویہ دس روپے کا ماسک پہننے والے سے وہی ہے جو ہونا چاہیے۔
بھاری جرمانے اور سزا کے خوف سے چین، مشرقِ بعید ، یورپ ، امریکا اور خلیجی ممالک میں ماسک کے بغیر کوئی شہری باہر نکلنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔حال ہی میں ناروے کی وزیرِ اعظم کو ایس او پیز کی خلاف ورزی پر نہ صرف اچھا خاصا ڈنڈ بھرنا پڑا بلکہ معافی بھی مانگنا پڑی۔
مگر ہمارے ہاں ماسک پہننا نہ پہننا عملاً صوابدیدی اختیار ہے۔خود ہمارے وزیرِ اعظم ملاقاتیوں کی موجودگی میں ماسک لگانے پر ایک مدت کے بعد قائل ہوئے۔اب تو کابینہ اجلاس میں ہر کوئی ماسک لگا کر بیٹھتا ہے مگر چند ماہ پہلے تک یہ کسی بھی وزیر کے موڈ پر منحصر تھا کہ وہ ماسک لگائے یا ماسک تھوڑی کے نیچے اٹکا لے۔البتہ فوجی قیادت روزِ اول سے اس ایس او پی پر سختی سے عمل کرتی ہے۔
مگر سرکاری تقریبات میں آج بھی آدھے شرکا ماسک میں اور آدھے بنا ماسک نظر آ جائیں گے۔حزبِ اختلاف کا بھی یہی حال ہے۔ان کے اجلاسوں میں ماسک پہننا یا نہ پہننا کسی بھی رہنما کا جمہوری استحقاق سمجھا جاتا ہے۔ماسک کا سب سے زیادہ استعمال آصف زرداری، بلاول اور مریم کرتے ہیں۔مگر کسی نے آج تک مولانا فضل الرحمان کو ماسک زدہ دیکھا ہو تو براہ کرم مطلع کرے۔یہ طرزِ عمل محض مولانا کا ہی نہیں تمام مذہبی سیاسی قیادت اور ان کے لاکھوں پیرو کاروں کا ہے۔ رواں ہفتے پنجاب اور کراچی میں شدید بدامنی کے جو مظاہر دیکھنے میں آئے اس میں تو سب ہی بے نقاب ہو گئے۔یوں کوویڈ کو اگلے ایک ماہ کے لیے مزید راتب میسر آ گیا۔
بالائی طبقہ جو بزعمِ خود اعلی پڑھا لکھا اور باریک بین و باشعور ہے۔اس کا ماسک اور سماجی فاصلے کے اصول سے کمٹمنٹ دیکھنا ہو تو ان کی تقریبات میں چلے جائیے۔آج بھی پابندی کے باوجود باقاعدہ ان ڈور شادیاں اور پارٹیاں ہو رہی ہیں اور موضوع وہاں بھی حکومت کی '' نااہلیاں'' ہی ہے۔
میرے محلے کی گلی رفتہ رفتہ چائے پراٹھے والی کوچہِ کام و دہن ( فوڈ اسٹریٹ ) بن گئی ہے۔افطار کے بعد دائرہ وار کرسیاں بچھ جاتی ہیں۔ان پر اٹھارہ بیس برس کے بے فکرے ٹانگ سے ٹانگ جوڑ کر گپ لگا رہے ہیں، موبائل پر گرما گرم تصاویر کا تبادلہ کر رہے ہیں ، لوڈو اور شطرنج کھیل رہے ہیں۔چائے پراٹھا کولڈ ڈرنک ، آملیٹ وغیرہ آ رہے ہیں جا رہے ہیں۔
بظاہر رات دس بجے کے بعد کاروبار بند کرنے کی پابندی ہے۔مگر یہ کوچہ اذانِ فجر تک آباد رہتا ہے۔ ہجوم ماسک کی علت سے صد فیصد بے نیاز ہے۔جن کے پاس ہیں بھی تو انھوں نے بطور سووینیر جیب میں رکھے ہوئے ہیں۔پولیس وین ہر گھنٹے ڈیڑھ گھنٹے بعد چکر لگاتی ہے۔چائے پراٹھا انڈہ پارسل کرواتی ہے اور گم ہو جاتی ہے۔
اسی گلی کے نکڑ پر بینک بھی ہے۔رمضان شروع ہونے سے پہلے میں بجلی کا بل جمع کرانے گیا۔باہر نکلا تو ایک صاحب بینک میں جانا چاہ رہے تھے مگر ان کے پاس ماسک نہیں تھا۔سیکیورٹی گارڈ نے کہا کہ ماسک کے بغیر وہ داخل نہیں ہو سکتے۔ان صاحب نے مجھ سے کہا بھائی صاحب دو منٹ کے لیے ذرا اپنا ماسک دے دیں۔مجھے بھی بل جمع کرانا ہے۔
اسی گلی میں وہ سات آٹھ برس کا کچرا چننے والا افغان بچہ بھی میں نے دیکھا جس کے تن پر قمیض نہیں تھی۔صرف شلوار اڑسی ہوئی تھی۔وہ سب کے آگے ہاتھ پھیلا رہا تھا مگر منہ پر ماسک لگانا نہیں بھولا تھا۔ مجھے افتادہِ خاک بچے کو دیکھ کر پوری ریاست ، ریاست کے تمام جینیس، سب ایس او پیز اور تمام فلسفے اس کے قدموں کی دھول نظر آ رہے تھے۔میں نے دیکھا کہ کوویڈ ڈبل ماسک لگا کے اس گلی سے سر جھکائے کنارے کنارے بچتا بچاتا نیویں نیویں گذر رہا تھا۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیےbbcurdu.com پر کلک کیجیے)
حالات ایسے پلٹے کہ دسمبر دو ہزار انیس تک جو شخص بینک میں ماسک لگا کے گھسنا چاہتا تھا سیکیورٹی گارڈز اسے روک لیتے تھے۔دو ہزار بیس شروع ہوتے ہی جو شخص بنا ماسک کسی عمارت میں داخل ہونا چاہے تو سیکیورٹی گارڈز اسے روک لیتے ہیں۔
ایک برس پہلے اگر آپ کو یاد ہو این نائنٹی فائیو ماسک کا میڈیا میں اچانک چرچا شروع ہوا۔طبی عملہ باقاعدہ شکایت کرتا تھا کہ اسے این نائنٹی فائیو ماسک میسر نہیں لہذا اسے کوویڈ کے مریضوں سے براہِ راست وائرس لگنے کا خطرہ ہے۔
جس طرح آج پوری دنیا کوویڈ ویکسین کی قلت کا رونا رو رہی ہے ایک برس پہلے یہی مرثیہ خوانی این نائنٹی فائیو ماسک کی مانگ میں اچانک اضافے کے سبب پیدا ہونے والی قلت کے تعلق سے عروج پر تھی۔دو چینی کمپنیاں یہ ماسک سب سے زیادہ تیار کرتی تھیں اور امیر ممالک نے ان کی پروڈکشن کا ایڈوانس میں سودا کر لیا تھا۔
چنانچہ بلیک مارکیٹ کی چاندی ہو گئی۔یہ ماسک ہزار ہزار روپے میں بھی فروخت ہوا۔ایک تصویر پر بھی بہت لے دے ہوئی۔جس میں وزیرِ اعلیٰ پنجاب نے ایک اسپتال کے دورے کے موقع پر این نائنٹی فائیو ماسک لگایا ہوا ہے جب کہ ان کو بریفنگ دینے والے ڈاکٹر کے چہرے پر پلاسٹک شاپر کا خانہ ساز ماسک ہے۔
پھر عالمی ادارہِ صحت نے فتوی دیا کہ ہر ایک کے لیے این نائنٹی فائیو ماسک ضروری نہیں۔آپ کپڑے کا ماسک بھی بنا سکتے ہیں اور اسے گھر میں تیار کر سکتے ہیں۔تب کہیں جا کے عام ماسک جو پہلے پچاس روپے تک کا بک رہا تھا اس کی قیمت گر کے دس روپے تک پہنچ گئی۔اور جن مصیبت فروشوں نے لاکھوں کی تعداد میں ماسک ذخیرہ کر لیے تھے رفتہ رفتہ ان کی عقل ٹھکانے آ گئی۔
اب مسئلہ ماسک کی دستیابی سے زیادہ اس کے استعمال کا ہے۔متوسط اور بالائی متوسط طبقے میں ماسک کا استعمال نسبتاً زیادہ ہے اور نچلے طبقات کے لوگ ماسک لے بھی لیں تو اس کی افادیت کے اب تک پوری طرح قائل نہیں ہیں۔فیشن ہاؤسز نے مہنگے ڈیزائنر ماسک بنانے شروع کر دیے تو ماسک بھی فیشن اسٹیٹ مینٹ بن گیا۔برانڈڈ اہلِ نقاب کا رویہ دس روپے کا ماسک پہننے والے سے وہی ہے جو ہونا چاہیے۔
بھاری جرمانے اور سزا کے خوف سے چین، مشرقِ بعید ، یورپ ، امریکا اور خلیجی ممالک میں ماسک کے بغیر کوئی شہری باہر نکلنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔حال ہی میں ناروے کی وزیرِ اعظم کو ایس او پیز کی خلاف ورزی پر نہ صرف اچھا خاصا ڈنڈ بھرنا پڑا بلکہ معافی بھی مانگنا پڑی۔
مگر ہمارے ہاں ماسک پہننا نہ پہننا عملاً صوابدیدی اختیار ہے۔خود ہمارے وزیرِ اعظم ملاقاتیوں کی موجودگی میں ماسک لگانے پر ایک مدت کے بعد قائل ہوئے۔اب تو کابینہ اجلاس میں ہر کوئی ماسک لگا کر بیٹھتا ہے مگر چند ماہ پہلے تک یہ کسی بھی وزیر کے موڈ پر منحصر تھا کہ وہ ماسک لگائے یا ماسک تھوڑی کے نیچے اٹکا لے۔البتہ فوجی قیادت روزِ اول سے اس ایس او پی پر سختی سے عمل کرتی ہے۔
مگر سرکاری تقریبات میں آج بھی آدھے شرکا ماسک میں اور آدھے بنا ماسک نظر آ جائیں گے۔حزبِ اختلاف کا بھی یہی حال ہے۔ان کے اجلاسوں میں ماسک پہننا یا نہ پہننا کسی بھی رہنما کا جمہوری استحقاق سمجھا جاتا ہے۔ماسک کا سب سے زیادہ استعمال آصف زرداری، بلاول اور مریم کرتے ہیں۔مگر کسی نے آج تک مولانا فضل الرحمان کو ماسک زدہ دیکھا ہو تو براہ کرم مطلع کرے۔یہ طرزِ عمل محض مولانا کا ہی نہیں تمام مذہبی سیاسی قیادت اور ان کے لاکھوں پیرو کاروں کا ہے۔ رواں ہفتے پنجاب اور کراچی میں شدید بدامنی کے جو مظاہر دیکھنے میں آئے اس میں تو سب ہی بے نقاب ہو گئے۔یوں کوویڈ کو اگلے ایک ماہ کے لیے مزید راتب میسر آ گیا۔
بالائی طبقہ جو بزعمِ خود اعلی پڑھا لکھا اور باریک بین و باشعور ہے۔اس کا ماسک اور سماجی فاصلے کے اصول سے کمٹمنٹ دیکھنا ہو تو ان کی تقریبات میں چلے جائیے۔آج بھی پابندی کے باوجود باقاعدہ ان ڈور شادیاں اور پارٹیاں ہو رہی ہیں اور موضوع وہاں بھی حکومت کی '' نااہلیاں'' ہی ہے۔
میرے محلے کی گلی رفتہ رفتہ چائے پراٹھے والی کوچہِ کام و دہن ( فوڈ اسٹریٹ ) بن گئی ہے۔افطار کے بعد دائرہ وار کرسیاں بچھ جاتی ہیں۔ان پر اٹھارہ بیس برس کے بے فکرے ٹانگ سے ٹانگ جوڑ کر گپ لگا رہے ہیں، موبائل پر گرما گرم تصاویر کا تبادلہ کر رہے ہیں ، لوڈو اور شطرنج کھیل رہے ہیں۔چائے پراٹھا کولڈ ڈرنک ، آملیٹ وغیرہ آ رہے ہیں جا رہے ہیں۔
بظاہر رات دس بجے کے بعد کاروبار بند کرنے کی پابندی ہے۔مگر یہ کوچہ اذانِ فجر تک آباد رہتا ہے۔ ہجوم ماسک کی علت سے صد فیصد بے نیاز ہے۔جن کے پاس ہیں بھی تو انھوں نے بطور سووینیر جیب میں رکھے ہوئے ہیں۔پولیس وین ہر گھنٹے ڈیڑھ گھنٹے بعد چکر لگاتی ہے۔چائے پراٹھا انڈہ پارسل کرواتی ہے اور گم ہو جاتی ہے۔
اسی گلی کے نکڑ پر بینک بھی ہے۔رمضان شروع ہونے سے پہلے میں بجلی کا بل جمع کرانے گیا۔باہر نکلا تو ایک صاحب بینک میں جانا چاہ رہے تھے مگر ان کے پاس ماسک نہیں تھا۔سیکیورٹی گارڈ نے کہا کہ ماسک کے بغیر وہ داخل نہیں ہو سکتے۔ان صاحب نے مجھ سے کہا بھائی صاحب دو منٹ کے لیے ذرا اپنا ماسک دے دیں۔مجھے بھی بل جمع کرانا ہے۔
اسی گلی میں وہ سات آٹھ برس کا کچرا چننے والا افغان بچہ بھی میں نے دیکھا جس کے تن پر قمیض نہیں تھی۔صرف شلوار اڑسی ہوئی تھی۔وہ سب کے آگے ہاتھ پھیلا رہا تھا مگر منہ پر ماسک لگانا نہیں بھولا تھا۔ مجھے افتادہِ خاک بچے کو دیکھ کر پوری ریاست ، ریاست کے تمام جینیس، سب ایس او پیز اور تمام فلسفے اس کے قدموں کی دھول نظر آ رہے تھے۔میں نے دیکھا کہ کوویڈ ڈبل ماسک لگا کے اس گلی سے سر جھکائے کنارے کنارے بچتا بچاتا نیویں نیویں گذر رہا تھا۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیےbbcurdu.com پر کلک کیجیے)