ملک بچانا ہے تو دہشت گردی کا خاتمہ لازم ہے
حکومت کو منظم حکمت عملی اپناتے ہوئے دہشت گردوں کیخلاف بھرپور کارروائی کرنا ہو گی یہاں تک کہ ان کا مکمل قلع قمع ہو جائے
کراچی میں جمعرات کو دہشت گردی کے واقعے میں شہید ہونے والے پولیس افسر چوہدری اسلم پر حملے کا مقدمہ کالعدم تحریک طالبان کے سربراہ ملا فضل اللہ اور ترجمان شاہد اللہ شاہد کے خلاف درج کر لیا گیا ہے۔
کالعدم تحریک طالبان ایک عرصے سے پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں مصروف ہے۔ ان انتہاپسندوں نے سیکیورٹی اداروں' اہم تنصیبات اور عوامی مقامات کو نشانہ بنایا ہے مگر ان کے خلاف کبھی کوئی مقدمہ درج نہیں ہوا۔ اب پہلی بار کالعدم تحریک طالبان کے سربراہ اور ترجمان کے خلاف پاکستان میں مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ بعض سیاسی و مذہبی رہنما حکومت پر طالبان سے مذاکرات کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں۔ عمران خان کا موقف ہے کہ اگر ماضی میں حکومتیں طاقت کے استعمال کے بجائے مذاکرات کا راستہ اختیار کرتیں تو آج ملک میں اس طرح دہشت گردی نہ ہوتی لہٰذا امن کے لیے حکومت کو طالبان سے مذاکرات کرنا ہوں گے۔ وزیراعظم میاں نواز شریف بھی طالبان سے مذاکرات کا بارہا عندیہ دے چکے ہیں۔
وہ واضح کر چکے ہیں کہ اگر مذاکرات سے مسئلہ حل نہ ہوا تو آخری آپشن آپریشن ہی ہو گا۔ اب چوہدری اسلم کے قتل کے مقدمے میں تحریک طالبان کے سربراہ اور ترجمان کو باقاعدہ قانونی طور پر ملزم نامزد کرنے کے بعد صورت حال میں واضح تبدیلی آ گئی ہے۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا حکومت اپنے سرکاری اہلکاروں کے قتل میں نامزد ملزمان سے مذاکرات کر سکتی ہے۔ بعض سیاسی ماہرین اور تجزیہ نگاروں کا مؤقف ہے کہ حکومت قتل کے ملزموں سے امن کی بھیک مانگنے کے بجائے ان کے خلاف بھرپور آپریشن کر کے حکومتی رٹ قائم کرے۔ اگر قتل کے ملزموں سے یونہی مذاکرات کا عندیہ دیا جاتا رہا تو یہ اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ حکومت ملزموں کے تمام قصور معاف کر کے ان کے سامنے جھک گئی ہے۔ اس طرح کل کو کوئی بھی گروہ دہشت گردی اور قتل کی وارداتیں کر کے حکومت سے مذاکرات کر کے ہر جرم سے پاک صاف ہو جائے گا۔
پرامن شہریوں کا تحفظ کرنا حکومت کی بنیادی ذمے داری ہے اور ایسے گروہ جو امن کو سبوتاژ کرنے کے لیے سرگرم ہیں حکومت پر لازم آتا ہے کہ ان کے خاتمے کے لیے ہر ذریعہ بروئے کار لائیں۔ مذاکرات کے نام پر تاخیری حربوں کا واضح مطلب انتہاپسندوں اور دہشت گردوں کو اپنی مذموم کارروائیوں کی اجازت دینا ہے کیونکہ دہشت گرد امن کے لیے حکومتی مذاکراتی اپیلوں کو درخوراعتنا نہ سمجھتے ہوئے اپنی کارروائیاں بھرپور انداز میں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ انھوں نے کراچی میں اعلیٰ پولیس افسر کو شہید کر کے حکومت کو جنگ کا کھلا پیغام دے دیا ہے۔ اتوار کو شانگلہ میں مسلم لیگ (ن) کے رہنما امیر مقام کی گاڑی کے قریب بھی دو دھماکے ہوئے جس میں امیرمقام محفوظ رہے مگر افسوس ان کی سیکیورٹی پر مامور چھ اہلکار جاں بحق ہو گئے۔ حکومت کو دہشت گردوں کے خلاف فوری کارروائی کرنا چاہیے ورنہ مزید سیاسی رہنما اور سرکاری افسر دہشت گردوں کی مذموم کارروائیوں کا نشانہ بنتے چلے جائیں گے۔ اس وقت سیاسی رہنماؤں میں بلاول بھٹو واحد شخصیت ہیں جو طالبان کی مذمت کر رہے ہیں۔دیگر سیاست دانوں کو بھی بہادری کا مظاہرہ کر کے ان عناصر کے بارے میں بات کرنا ہو گی، اگر سب متحد ہو جائیں تو دہشت گرد ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔
گو حکومت دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں کر رہی ہے مگر یہ محدود پیمانے پر ہیں۔ حکومت کو منظم اور مربوط حکمت عملی اپناتے ہوئے دہشت گردوں کے خلاف بھرپور کارروائی کرنا ہو گی یہاں تک کہ ان کا مکمل قلع قمع ہو جائے۔ بھارت کے مشرقی پنجاب میں سکھ علیحدگی پسندوں کے خلاف اندرا گاندھی کو بھرپور کارروائی کرنا پڑی تھی اگر وہ ایسا نہ کرتیں تو بھارت میں دہشت گردی میں اضافہ ہو جاتا اور ملک کا وجود ہی خطرے میں پڑ جاتا۔ اسی حقیقت کا ادراک کرتے ہوئے اندرا گاندھی نے بھنڈرانوالہ اور اس کے جنگجوؤں کے خلاف کارروائی کے نتیجے میں اپنی جان تو دے دی مگر اپنا ملک بچا لیا۔ آج بھارت کے مشرقی پنجاب میں امن ہے اور وہ ترقی کر رہا ہے۔ اسی طرح سری لنکا کی حکومت نے بھی اپنا ملک بچانے کے لیے تامل گوریلوں کے خلاف طویل لڑائی لڑی اور بالآخر کامیابی حاصل کر لی۔ اگر حکومت پرعزم ہو اور اس کی اولین ترجیح ملک بچانا اور امن قائم کرنا ہو تو وہ ملکی استحکام کی راہ میں آنے والی ہر رکاوٹ کو ہٹانے کے لیے میدان عمل میں اتر آتی ہے۔ وہ مذہبی و سیاسی رہنما جو انتہاپسندوں کی حمایت کر رہے ہیں انھیں یہ بات نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ گروہ حکومت' ریاستی اداروں اور عوام کے خلاف صف آرا ہیں، انھوں نے سیکیورٹی اداروں اور اہم تنصیبات پر حملے کر کے ملکی سالمیت کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔
وہ سرکاری اہلکاروں اور سیاسی رہنماؤں پر حملے کر رہے ہیں' بے گناہ انسانوں کو قتل کر رہے ہیں' عبادت گاہوں کی بے حرمتی کے مرتکب ہو رہے ہیں' وہ پاکستان اور اسلام کے کبھی دوست نہیں ہو سکتے۔ ان انتہاپسند گروہوں کی حمایت پاکستان کے وقار اور سالمیت کو نقصان پہنچانے اور عوام کی جان و مال کو عدم تحفظ کا شکار کرنے کے مترادف ہے۔ دوسری جانب اخباری خبر کے مطابق ہفتے کو وزیراعظم میاں محمد نواز شریف اور افغان صدر حامد کرزئی کے درمیان ٹیلی فونک رابطے کے دوران دوطرفہ تعلقات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ دونوں رہنماؤں نے اتفاق کیا کہ اپنی سرزمین ایک دوسرے کے ملکوں کے خلاف استعمال نہیں ہونے دی جائے گی۔ افغان صدر حامد کرزئی نے ایک بیان میں کہا کہ دہشت گرد دونوں ملکوں کی سرحدوں پر موجود ہیں جو افغان اور پاکستانی عوام کے لیے خطرہ ہیں، ان سے مل کر ہی نمٹنا ہو گا۔ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ کالعدم تحریک طالبان کا سربراہ ملا فضل اللہ افغانستان میں پناہ لیے ہوئے ہے اور وہاں سے وہ پاکستان میں دہشت گردانہ کارروائیوں کو جاری رکھے ہوئے ہے۔
اخبارات میں یہ خبریں بھی شایع ہوئیں کہ افغان انٹیلی جنس ادارے پاکستان میں دہشت گردانہ کارروائیوں کے لیے ملا فضل اللہ کی مدد کر رہے ہیں۔ ان خبروں کے بعد افغان صدر حامد کرزئی کا یہ کہنا کہ دہشت گردوں سے نمٹنے کے لیے مل کر جدوجہد کرنا ہو گی' دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے۔ حامد کرزئی پہلے اپنے علاقے میں موجود پاکستان کے دشمن ملا فضل اللہ کے خلاف کارروائی کر کے اس امر کا یقین دلائیں کہ وہ واقعی دہشت گردی کی لعنت سے چھٹکارا حاصل کرنے میں مخلص ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ حکومت ملک کو دہشت گردی کے عفریت سے نجات دلانے کے لیے حتمی فیصلہ کرے' سیاسی و مذہبی جماعتوں کی قیادت کو بھی اپنے مفادات' نظریات سے بالاتر ہو کر دہشت گردوں کے بارے میں واضح اور دوٹوک مؤقف اختیار کرنا چاہیے۔ اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ دہشت گردوں کے خلاف پوری قوم کو متحد ہونا ہو گا۔ گومگو کی کیفیت وطن عزیز کی سالمیت کے لیے خطرناک ہے۔ حکومت اور تمام مذہبی و سیاسی رہنماؤں کو واضح لائن اختیار کرنا ہو گی کہ انھیں ملک بچانا ہے تو دہشت گردی اور دہشت گردوں کا خاتمہ لازمی ہے۔
کالعدم تحریک طالبان ایک عرصے سے پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں مصروف ہے۔ ان انتہاپسندوں نے سیکیورٹی اداروں' اہم تنصیبات اور عوامی مقامات کو نشانہ بنایا ہے مگر ان کے خلاف کبھی کوئی مقدمہ درج نہیں ہوا۔ اب پہلی بار کالعدم تحریک طالبان کے سربراہ اور ترجمان کے خلاف پاکستان میں مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ بعض سیاسی و مذہبی رہنما حکومت پر طالبان سے مذاکرات کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں۔ عمران خان کا موقف ہے کہ اگر ماضی میں حکومتیں طاقت کے استعمال کے بجائے مذاکرات کا راستہ اختیار کرتیں تو آج ملک میں اس طرح دہشت گردی نہ ہوتی لہٰذا امن کے لیے حکومت کو طالبان سے مذاکرات کرنا ہوں گے۔ وزیراعظم میاں نواز شریف بھی طالبان سے مذاکرات کا بارہا عندیہ دے چکے ہیں۔
وہ واضح کر چکے ہیں کہ اگر مذاکرات سے مسئلہ حل نہ ہوا تو آخری آپشن آپریشن ہی ہو گا۔ اب چوہدری اسلم کے قتل کے مقدمے میں تحریک طالبان کے سربراہ اور ترجمان کو باقاعدہ قانونی طور پر ملزم نامزد کرنے کے بعد صورت حال میں واضح تبدیلی آ گئی ہے۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا حکومت اپنے سرکاری اہلکاروں کے قتل میں نامزد ملزمان سے مذاکرات کر سکتی ہے۔ بعض سیاسی ماہرین اور تجزیہ نگاروں کا مؤقف ہے کہ حکومت قتل کے ملزموں سے امن کی بھیک مانگنے کے بجائے ان کے خلاف بھرپور آپریشن کر کے حکومتی رٹ قائم کرے۔ اگر قتل کے ملزموں سے یونہی مذاکرات کا عندیہ دیا جاتا رہا تو یہ اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ حکومت ملزموں کے تمام قصور معاف کر کے ان کے سامنے جھک گئی ہے۔ اس طرح کل کو کوئی بھی گروہ دہشت گردی اور قتل کی وارداتیں کر کے حکومت سے مذاکرات کر کے ہر جرم سے پاک صاف ہو جائے گا۔
پرامن شہریوں کا تحفظ کرنا حکومت کی بنیادی ذمے داری ہے اور ایسے گروہ جو امن کو سبوتاژ کرنے کے لیے سرگرم ہیں حکومت پر لازم آتا ہے کہ ان کے خاتمے کے لیے ہر ذریعہ بروئے کار لائیں۔ مذاکرات کے نام پر تاخیری حربوں کا واضح مطلب انتہاپسندوں اور دہشت گردوں کو اپنی مذموم کارروائیوں کی اجازت دینا ہے کیونکہ دہشت گرد امن کے لیے حکومتی مذاکراتی اپیلوں کو درخوراعتنا نہ سمجھتے ہوئے اپنی کارروائیاں بھرپور انداز میں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ انھوں نے کراچی میں اعلیٰ پولیس افسر کو شہید کر کے حکومت کو جنگ کا کھلا پیغام دے دیا ہے۔ اتوار کو شانگلہ میں مسلم لیگ (ن) کے رہنما امیر مقام کی گاڑی کے قریب بھی دو دھماکے ہوئے جس میں امیرمقام محفوظ رہے مگر افسوس ان کی سیکیورٹی پر مامور چھ اہلکار جاں بحق ہو گئے۔ حکومت کو دہشت گردوں کے خلاف فوری کارروائی کرنا چاہیے ورنہ مزید سیاسی رہنما اور سرکاری افسر دہشت گردوں کی مذموم کارروائیوں کا نشانہ بنتے چلے جائیں گے۔ اس وقت سیاسی رہنماؤں میں بلاول بھٹو واحد شخصیت ہیں جو طالبان کی مذمت کر رہے ہیں۔دیگر سیاست دانوں کو بھی بہادری کا مظاہرہ کر کے ان عناصر کے بارے میں بات کرنا ہو گی، اگر سب متحد ہو جائیں تو دہشت گرد ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔
گو حکومت دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں کر رہی ہے مگر یہ محدود پیمانے پر ہیں۔ حکومت کو منظم اور مربوط حکمت عملی اپناتے ہوئے دہشت گردوں کے خلاف بھرپور کارروائی کرنا ہو گی یہاں تک کہ ان کا مکمل قلع قمع ہو جائے۔ بھارت کے مشرقی پنجاب میں سکھ علیحدگی پسندوں کے خلاف اندرا گاندھی کو بھرپور کارروائی کرنا پڑی تھی اگر وہ ایسا نہ کرتیں تو بھارت میں دہشت گردی میں اضافہ ہو جاتا اور ملک کا وجود ہی خطرے میں پڑ جاتا۔ اسی حقیقت کا ادراک کرتے ہوئے اندرا گاندھی نے بھنڈرانوالہ اور اس کے جنگجوؤں کے خلاف کارروائی کے نتیجے میں اپنی جان تو دے دی مگر اپنا ملک بچا لیا۔ آج بھارت کے مشرقی پنجاب میں امن ہے اور وہ ترقی کر رہا ہے۔ اسی طرح سری لنکا کی حکومت نے بھی اپنا ملک بچانے کے لیے تامل گوریلوں کے خلاف طویل لڑائی لڑی اور بالآخر کامیابی حاصل کر لی۔ اگر حکومت پرعزم ہو اور اس کی اولین ترجیح ملک بچانا اور امن قائم کرنا ہو تو وہ ملکی استحکام کی راہ میں آنے والی ہر رکاوٹ کو ہٹانے کے لیے میدان عمل میں اتر آتی ہے۔ وہ مذہبی و سیاسی رہنما جو انتہاپسندوں کی حمایت کر رہے ہیں انھیں یہ بات نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ گروہ حکومت' ریاستی اداروں اور عوام کے خلاف صف آرا ہیں، انھوں نے سیکیورٹی اداروں اور اہم تنصیبات پر حملے کر کے ملکی سالمیت کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔
وہ سرکاری اہلکاروں اور سیاسی رہنماؤں پر حملے کر رہے ہیں' بے گناہ انسانوں کو قتل کر رہے ہیں' عبادت گاہوں کی بے حرمتی کے مرتکب ہو رہے ہیں' وہ پاکستان اور اسلام کے کبھی دوست نہیں ہو سکتے۔ ان انتہاپسند گروہوں کی حمایت پاکستان کے وقار اور سالمیت کو نقصان پہنچانے اور عوام کی جان و مال کو عدم تحفظ کا شکار کرنے کے مترادف ہے۔ دوسری جانب اخباری خبر کے مطابق ہفتے کو وزیراعظم میاں محمد نواز شریف اور افغان صدر حامد کرزئی کے درمیان ٹیلی فونک رابطے کے دوران دوطرفہ تعلقات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ دونوں رہنماؤں نے اتفاق کیا کہ اپنی سرزمین ایک دوسرے کے ملکوں کے خلاف استعمال نہیں ہونے دی جائے گی۔ افغان صدر حامد کرزئی نے ایک بیان میں کہا کہ دہشت گرد دونوں ملکوں کی سرحدوں پر موجود ہیں جو افغان اور پاکستانی عوام کے لیے خطرہ ہیں، ان سے مل کر ہی نمٹنا ہو گا۔ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ کالعدم تحریک طالبان کا سربراہ ملا فضل اللہ افغانستان میں پناہ لیے ہوئے ہے اور وہاں سے وہ پاکستان میں دہشت گردانہ کارروائیوں کو جاری رکھے ہوئے ہے۔
اخبارات میں یہ خبریں بھی شایع ہوئیں کہ افغان انٹیلی جنس ادارے پاکستان میں دہشت گردانہ کارروائیوں کے لیے ملا فضل اللہ کی مدد کر رہے ہیں۔ ان خبروں کے بعد افغان صدر حامد کرزئی کا یہ کہنا کہ دہشت گردوں سے نمٹنے کے لیے مل کر جدوجہد کرنا ہو گی' دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے۔ حامد کرزئی پہلے اپنے علاقے میں موجود پاکستان کے دشمن ملا فضل اللہ کے خلاف کارروائی کر کے اس امر کا یقین دلائیں کہ وہ واقعی دہشت گردی کی لعنت سے چھٹکارا حاصل کرنے میں مخلص ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ حکومت ملک کو دہشت گردی کے عفریت سے نجات دلانے کے لیے حتمی فیصلہ کرے' سیاسی و مذہبی جماعتوں کی قیادت کو بھی اپنے مفادات' نظریات سے بالاتر ہو کر دہشت گردوں کے بارے میں واضح اور دوٹوک مؤقف اختیار کرنا چاہیے۔ اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ دہشت گردوں کے خلاف پوری قوم کو متحد ہونا ہو گا۔ گومگو کی کیفیت وطن عزیز کی سالمیت کے لیے خطرناک ہے۔ حکومت اور تمام مذہبی و سیاسی رہنماؤں کو واضح لائن اختیار کرنا ہو گی کہ انھیں ملک بچانا ہے تو دہشت گردی اور دہشت گردوں کا خاتمہ لازمی ہے۔