بھائی کی دیکھ بھال کے ساتھ کام کرنے والی آصفہ مثال بن گئی

کاشف حسین  پير 19 اپريل 2021
تدریس کے شعبے سے8سالہ وابستگی ایک حادثے کی بناپربرقرارنہ رہ سکی،آصفہ نے بھائی کی دیکھ بھال کیلیے خودکووقف کردیا

تدریس کے شعبے سے8سالہ وابستگی ایک حادثے کی بناپربرقرارنہ رہ سکی،آصفہ نے بھائی کی دیکھ بھال کیلیے خودکووقف کردیا

 کراچی: حوصلہ مند افراد زندگیوں کی مشکلات سے گھبراکر مایوس نہیں ہوتے بلکہ مشکل حالات میں انھیں اپنی صلاحیتوں کا اندازہ ہوتا ہے۔

کراچی کی رہائشی آصفہ خانم کا شمار بھی ایسے ہی افراد میں ہوتا ہے جو 5 سال سے حادثے کے  شکار بھائی کی دیکھ بھال کرنے کے ساتھ آن لائن اور ڈیجیٹل سہولتوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی صلاحیتوں کو بھی بھرپور طریقے سے بروئے کار لارہی ہیں۔

آصفہ خانم کا 2 بھائیوں اور 2 بہنوں پر مشتمل ایک ایسا گھرانا ہے جسے قدرت نے آزمائشوں کے لیے منتخب کیا لیکن انھوں نے اپنی ہمت اور حوصلے سے ان حالات کا مقابلہ کیا، آصفہ کی والدہ کا ان کی کم سنی میں ہی انتقال ہوگیا اور ان کی پرورش مشترکہ خاندانی نظام میں دادی نے انجام دی ان کے والد اور دادا ایئرفورس کے سویلین شعبہ سے وابستہ رہے اور چچا کا تعلق بھی پاکستان آرمی سے ہے۔

آصفہ نے یونیورسٹی کی تعلیم مکمل کرتے ہی تدریس کا شعبہ اختیار کیا اور پاکستان نیوی کے تحت قائم تعلیمی ادارے میں تدریسی نظام کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا آصفہ نے بزنس ایڈمنسٹریشن اور ٹیکسٹائل فیشن ڈیزائن میں ماسٹر کرنے کے علاوہ بی ایڈ کی ڈگری حاصل کی۔

تدریس کے شعبے سے وابستگی ان کی بچپن کی خواہش تھی، تدریس کے شعبے سے 8 سالہ وابستگی ایک حادثہ کی بنا پر برقرار نہ رہ سکی 2016 میں ہونے والے ایک ٹریفک حادثہ میں ان کے جواں سال چھوٹے بھائی کے سر میں شدید چوٹیں آئیں اور بھائی کی دیکھ بھال کی مکمل ذمے داری آصفہ کے بڑے بھائی اور ان کی بہن پر آپڑی جو انھوں نے بھرپور طریقے سے اداکی۔

آصفہ نے اپنے بھائی کی دیکھ بھال کے لیے تدریس کا پیشہ ترک کردیا اور مکمل وقت بھائی کو دیا جنھیں ہر وقت دیکھ بھال اور مدد کی ضرورت تھی ان کے بھائی کے 5 سال کے دوران 4 بار سر کے آپریشن ہوئے اور بھائی بہنوں کی محبت اور دیکھ بھال کی بدولت اب ان کے بھائی تیزی سے روبہ صحت ہیں۔

پنڈی کی ایڈورٹائزنگ فرم کیلیے آن لائن کام شروع کیا

آصفہ کہتی ہیں کہ بھائی کی دیکھ بھال کے دوران انھیں اس بات کا احساس ہوتا رہا کہ انھیں اپنی صلاحیتوں کو بھی بروئے کار لانا چاہیے اس مقصد کے لیے انھوں نے کراچی میں ہی مقیم رہتے ہوئے راولپنڈی کی ایڈورٹائزنگ فرم  کے لیے کام شروع کردیا ساتھ ہی Magni D’Zyne کے نام سے اپنا ایک آن لائن بزنس شروع کردیا جس پر کسٹمائزڈ جیولری، جیمز، فیبرک، ہمالیہ سالٹ اور جوٹ سے تیار کردہ آرٹ اینڈ کرافٹ اور ری سائیکل اشیا سے آرٹ کے نمونے تیار کرکے آن لائن فروخت کرنا شروع کردیے۔ انھوں نے آن لائن فروخت کے آئیڈیاز کو آگے بڑھاتے ہوئے فیبرک اور معدنی نمک سے تیار لیمپس بھی فروخت کرنا شروع کیے کاروبار چلنا ہی شروع ہوا تھا کہ کرونا کی وبا آگئی اور ان کا آگے بڑھتا کاروبار ماند پڑگیا، آصفہ نے ہمت نہ ہاری اور گھر میں بنائے کھانے آن لائن فروخت کرنا شروع کر دیے۔

 انٹرپرینور لانچنگ پیڈکے ذریعے خریدار اور انٹرپرینورز آپس میں منسلک ہو جائیں گے

انٹرپرینور لانچنگ پیڈ کے ذریعے خریداروں اور انٹرپرنیوررز کی ایک کمیونٹی تشکیل دی جائیگی جو آپس میں اعتماد اور بھروسہ کے ذریعے منسلک ہوں گے اور ایک دوسرے کو آگے بڑھنے میں مدد دیں گے، آصفہ کے مطابق کورونا کی وبا کے معاشی اثرات کی وجہ سے ایسے لانچنگ پیڈز کی ضرورت بڑھ گئی ہے کیونکہ ہر سطح کا کاروبار متاثر ہوا ہے اور لوگ آن لائن طریقے کو اختیار کرکے روزگار کو برقرار رکھنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔یہ لانچنگ پیڈ ایسے تاجروں اور کاروباری افراد کو بھی سپورٹ فراہم کرے گا جن کا کاروبار کورونا کی وجہ سے متاثر ہوا اور انھیں اپنی دکانیں بند کرنا پڑیں یا کاروبار محدود کرنا پڑ گیا۔

انٹرپرینورر اور خاتون ہونے پر تمام روایتی مسائل کا مقابلہ کیا

آصفہ کے مطابق نئے انٹرپرینورر اور خاتون کو کاروبار کے آغاز پر جن مشکلات کا سامنا ہوتا ہے انھیں بھی ان تمام مشکلات کا سامنا کرنا پڑا باالخصوص خواتین کی نقل و حرکت میں جو مشکلات ہیں اور فروخت کی جانے والی اشیا کا حصول ان کے لیے بازار جانا، خام مال خریدنے کے تمام مراحل میں مشکلات درپیش رہیں۔

کورونا کی وبا نے ان کے لیے کاروبار کو مزید مشکل بنایا لیکن وہ حالات کے مطابق اشیا کا انتخاب کرتی رہیں اور ان مشکل حالات میں بھی اپنے کام کو جاری رکھا ان حالات میں سوشل میڈیا اور آن لائن پلیٹ فارمز سے کاروبار کرنے والی دیگر خواتین نے ان کی بھرپور مدد کی اور ان کی فیملی نے ان کا حوصلہ بڑھایا، آصفہ نے خود اپنے وسائل اور اپنے دوست احباب اور خاندان کے افراد کی مدد سے کراچی کے ایسے 200 سے زائد خاندانوں کو مدد فراہم کی جو امدادی اداروں اور این جی اوز کی پہنچ سے دور تھے۔

فیس بک پرنئے کاروباری افراد کیلیے پلیٹ فارم بناؤں گی

آصفہ خانم نے سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے گھر میں رہتے ہوئے آن لائن کاروبار شروع کیا جو اب کافی حد تک مستحکم ہوچکا ہے اس دوران انھیں جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ان مشکلات سے نئے کاروبار کرنیو الوں کو بچانے کے لیے انھوں نے ایک فیس بک کے ذریعے نئے کاروباری افراد کے لیے لانچنگ پیڈ متعارف کرانے کا فیصلہ کیا ہے، یہ پلیٹ فارم ایسی خواتین اور آن لائن کاروبار کرنے والوں کی ایک کمیونٹی تشکیل دے گا جو گھروں میں رہ کر روزگار حاصل کرنا چاہتی ہیں اور اپنی گھریلو ذمے داریاں ادا کرتے ہوئے اپنی صلاحیتوں کو اپنے خاندان کی کفالت اور وسائل بڑھانے کے لیے استعمال کرنا چاہتی ہیں۔

آصفہ کے مطابق آن لائن کاروبار میں سب سے بڑی رکاوٹ یا مسئلہ اعتماد کی کمی ہے یہ کمی فروخت کرنے والوں کو بھی درپیش ہوتی ہے اور انھیں اشیا کے حصول میں ڈیلرز کے انتخاب اور سپلائی چین کو مستحکم بنانے میں مشکلات سامنا ہوتا ہے دوسری جانب خریداروں کا اعتماد حاصل کرنا خود فروخت کرنے والوں کے لیے ایک مسئلہ بنا ہے نئے کاروبار شروع کرنے والوں کے لیے ایک دیانتدار اور اپنے وعدے کا پاس کرنے والے ڈیلر ز تک پہنچنا مشکل ہوتا خواتین کے لیے تو بہت زیادہ مشکل ہوتا ہے اس لیے انٹرپرینور لانچنگ پیڈ متعارف کرانے کا فیصلہ کیا یہ پلیٹ فارم خواتین کے ساتھ مرد انٹرپرنیورزز کے لیے بھی دستیاب ہوگا اور چھوٹے اور درمیانے کاروباری بھی اس سے فائدہ اٹھاسکیں گے۔

گھربیٹھی خواتین کے لیے سوشل میڈیا پلیٹ فارم کاروبار کا معاون طریقہ ہے

آصفہ کہتی ہیں کہ گھر میں بیٹھی خواتین کے لیے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایک بے حد معاون طریقہ ہے جس کے ذریعے وہ اپنی صلاحیتوں کو منوانے کے ساتھ خاندان کی کفالت میں اپنا کردار ادا کرسکتی ہیں، آصفہ آن لائن پلیٹ فارم سے مصنوعات فروخت کرنے کے ساتھ گھر میں تیار کھانے بھی آرڈر پر فروخت کرتی ہیں رمضان کے دوران افطار اورکھانے تیار کررہی ہیں اس کے علاوہ عید کے لیے بھی بہت سے نئے آئٹمز متعارف کرائے ہیں جن میں گھریلو سجاوٹ کی اشیا، عید پر تحفے کے طور پردی جانے والی اشیا کے لیے استعمال ہونے والی باسکٹ، عید گفٹ اور ہینڈ میڈ جیولری شامل ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔