پاکستان میں مختلف امراض ہولناک شکل اختیار کرنے لگے 190 ممالک میں 122 واں نمبر
6کروڑ افرادخطِ غربت سے نیچے ہونے کے باعث بنیادی صحت کی ضروریات کو پورا نہیں کرسکتے، عالمی ادارہ صحت
پاکستان میں مختلف امراض ہولناک شکل اختیارکررہے ہیں، پاکستان میں شوگر کا مرض شدت اختیار کررہا ہے جبکہ کووڈ19کی وجہ سے ذہنی تناؤ میں بھی غیر معمولی اضافہ ہوا ہے، عالمی ادارہ صحت کی حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان دنیا بھر میں مختلف بیماریوں کی فہرست میں 190 ممالک میں سے 122 ویں نمبر آگیا ہے، پاکستان میں صحت کے مسائل میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے جو تشویشناک ہے۔ جبکہ دنیا میں صحت عامہ کی صورتحال میں نمایاں بہتری آئی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں 60 ملین سے زائد افراد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں ۔ معاشی ناہمواریوں اور محدود مالی مسائل کی وجہ سے اپنی بنیادی صحت کی ضروریات کو پورا نہیں کرسکتے، عوام کی اکثریت اپنی بیماری کے علاج و معالجے سے بھی لاعلم ہیں۔ دوسری جانب موجود دستیاب صحت کی سہولیات غریب عوام کیلیے کافی نہیں ۔ عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اس وقت 70 لاکھ سے زائد افراد ذیابیطس کا شکار ہیں۔ تحقیق کے مطابق، 2030 تک پاکستان دنیا میں سب سے زیادہ ذیابیطس آبادی رکھنے والے پہلے 5 ممالک میں شامل ہوجائے گا۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق کچی آبادیوں میں رہنے والوں کی اکثریت ملیریا کا شکار ہے۔ تپ دق پاکستان میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو متاثر کرتی ہے۔ ڈنگی بخارکا مرض پاکستان میں 2010سے شروع ہوا،،اس نے دیہی علاقوں میں بسنے والے ہزاروں افراد کی جانیں لے لیں۔ پاکستان میں ہر سال 40000 سے زیادہ خواتین چھاتی کے کینسر کی وجہ سے موت کا شکار ہوجاتی ہیں۔ پاکستان میں ہر سال فالج کے لگ بھگ 350000 واقعات رپورٹ ہوتے ہیں۔ ملک میں غیر صحت بخش کھانا اور پانی کے ذریعہ ہیپاٹائٹس اے اور ای بنتے ہیں۔ پاکستان کے دیہی اور کچی آبادی والے علاقوں میں حفظان صحت کے حالات اطمینان بخش نہیں ہیں۔
یو این ایڈز کے ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ایچ آئی وی کے قریب ایک لاکھ مثبت کیس موجودہیں۔ پاکستان میں اس بیماری کی سب سے بڑی وجہ منشیات کے عادی افراد ہیں جو متاثرہ سرنجوں کا استعمال ہے۔ سندھ میں 50000 سے زیادہ مریضوں کے ساتھ ایچ آئی وی کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ ماں اور بچوں کی صحت ایک سنگین مسئلہ ہے جو شہروں کی نسبت دیہی علاقوں میں پھیلا ہوا ہے۔
مناسب خوراک، آگاہی اور علاج کی کمی کی وجہ سے دیہی علاقوں کی خواتین اپنے حمل کے دوران پریشانی کا شکار ہوتی ہیں شدید سانس کا انفیکشن پاکستان کے بچوں میں موت کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ پاکستان میں کل 20 فیصد آبادی ہائی بلڈ پریشر کا شکار ہے اور یہ پاکستان میں صحت کا ایک اہم مسئلہ ہے۔ پاکستان کی تقریبا 7 7 فیصد آبادی دمہ کا شکار ہے اور آنے والے سالوں میں اس میں فیصد اضافے کی توقع ہے۔ ہر سال اسہال کی وجہ سے 300000سے زیادہ بچے دم توڑ جاتے ہیں۔ تقریباً 60 ملین افراد ذہنی عارضے میں مبتلا ہیں۔
پروفیسر آف میڈیسن اینڈ اینڈوکرائنا لوجی پروفیسر زمان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں شوگر کا مرض ہولناک صورت اختیارکررہا ہے،اس وقت شوگرکے مریضوں کے حوالے سے پاکستان دنیا میں چوتھے نمبر پر آگیا ہے جبکہ2سال قبل پاکستان شوگر کے مریضوں کے حوالے سے11ویں نمبر پر تھا۔
قومی ادارہ صحت برائے اطفال(این آئی سی ایچ) کے سربراہ پروفیسر جمال رضا نے بتایا کہ پاکستان میں سالانہ 45لاکھ بچے پیدا ہورہے ہیں،ہلاک ہونے والے 60فیصد بچوں کی اموات گھروں پر ہوتی ہے جو مختلف بیماریوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ پاکستان نیورولوجی اویرینس اینڈ ریسریچ فاؤڈیشن کے ڈاکٹر عبدالمالک کا کہنا تھا کہ کووڈ کی وجہ سے ذہنی تناؤ اور نفسیاتی امراض میں اضافہ ہوا ہے،کووڈ کی خوف سے دماغ میں پیداہونے والے کیمیائی تبدیلیوں سے ذہنی امراض جنم لے رہے ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں 60 ملین سے زائد افراد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں ۔ معاشی ناہمواریوں اور محدود مالی مسائل کی وجہ سے اپنی بنیادی صحت کی ضروریات کو پورا نہیں کرسکتے، عوام کی اکثریت اپنی بیماری کے علاج و معالجے سے بھی لاعلم ہیں۔ دوسری جانب موجود دستیاب صحت کی سہولیات غریب عوام کیلیے کافی نہیں ۔ عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اس وقت 70 لاکھ سے زائد افراد ذیابیطس کا شکار ہیں۔ تحقیق کے مطابق، 2030 تک پاکستان دنیا میں سب سے زیادہ ذیابیطس آبادی رکھنے والے پہلے 5 ممالک میں شامل ہوجائے گا۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق کچی آبادیوں میں رہنے والوں کی اکثریت ملیریا کا شکار ہے۔ تپ دق پاکستان میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو متاثر کرتی ہے۔ ڈنگی بخارکا مرض پاکستان میں 2010سے شروع ہوا،،اس نے دیہی علاقوں میں بسنے والے ہزاروں افراد کی جانیں لے لیں۔ پاکستان میں ہر سال 40000 سے زیادہ خواتین چھاتی کے کینسر کی وجہ سے موت کا شکار ہوجاتی ہیں۔ پاکستان میں ہر سال فالج کے لگ بھگ 350000 واقعات رپورٹ ہوتے ہیں۔ ملک میں غیر صحت بخش کھانا اور پانی کے ذریعہ ہیپاٹائٹس اے اور ای بنتے ہیں۔ پاکستان کے دیہی اور کچی آبادی والے علاقوں میں حفظان صحت کے حالات اطمینان بخش نہیں ہیں۔
یو این ایڈز کے ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ایچ آئی وی کے قریب ایک لاکھ مثبت کیس موجودہیں۔ پاکستان میں اس بیماری کی سب سے بڑی وجہ منشیات کے عادی افراد ہیں جو متاثرہ سرنجوں کا استعمال ہے۔ سندھ میں 50000 سے زیادہ مریضوں کے ساتھ ایچ آئی وی کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ ماں اور بچوں کی صحت ایک سنگین مسئلہ ہے جو شہروں کی نسبت دیہی علاقوں میں پھیلا ہوا ہے۔
مناسب خوراک، آگاہی اور علاج کی کمی کی وجہ سے دیہی علاقوں کی خواتین اپنے حمل کے دوران پریشانی کا شکار ہوتی ہیں شدید سانس کا انفیکشن پاکستان کے بچوں میں موت کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ پاکستان میں کل 20 فیصد آبادی ہائی بلڈ پریشر کا شکار ہے اور یہ پاکستان میں صحت کا ایک اہم مسئلہ ہے۔ پاکستان کی تقریبا 7 7 فیصد آبادی دمہ کا شکار ہے اور آنے والے سالوں میں اس میں فیصد اضافے کی توقع ہے۔ ہر سال اسہال کی وجہ سے 300000سے زیادہ بچے دم توڑ جاتے ہیں۔ تقریباً 60 ملین افراد ذہنی عارضے میں مبتلا ہیں۔
پروفیسر آف میڈیسن اینڈ اینڈوکرائنا لوجی پروفیسر زمان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں شوگر کا مرض ہولناک صورت اختیارکررہا ہے،اس وقت شوگرکے مریضوں کے حوالے سے پاکستان دنیا میں چوتھے نمبر پر آگیا ہے جبکہ2سال قبل پاکستان شوگر کے مریضوں کے حوالے سے11ویں نمبر پر تھا۔
قومی ادارہ صحت برائے اطفال(این آئی سی ایچ) کے سربراہ پروفیسر جمال رضا نے بتایا کہ پاکستان میں سالانہ 45لاکھ بچے پیدا ہورہے ہیں،ہلاک ہونے والے 60فیصد بچوں کی اموات گھروں پر ہوتی ہے جو مختلف بیماریوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ پاکستان نیورولوجی اویرینس اینڈ ریسریچ فاؤڈیشن کے ڈاکٹر عبدالمالک کا کہنا تھا کہ کووڈ کی وجہ سے ذہنی تناؤ اور نفسیاتی امراض میں اضافہ ہوا ہے،کووڈ کی خوف سے دماغ میں پیداہونے والے کیمیائی تبدیلیوں سے ذہنی امراض جنم لے رہے ہیں۔