پاکستان کا کرکٹ میچ
جس دن معاشی پالیسی ٹھیک ہو جائے گی امن ہو جائے گا۔۔۔
کبھی آپ نے کسی کتے کو ننگا گھومنے پر شرمندہ ہوتے دیکھا ہے؟ یا کبھی محلے میں آوارہ گھومنے والی بلی کو سرعام گندگی کرنے پر افسردہ دیکھا ہے؟ یا پھر کسی گدھے کو دم ہلانے پر سر جھکا کر معافی مانگتے ہوئے دیکھا ہے؟ ان سوالات کو بے وقوفی اور جاہلیت قرار دے کر بدتمیز کہہ دیجیے لیکن یہ بتائیے کہ جب یہ سب کچھ نہیں ہو سکتا تو پاگلوں سے مذاکرات کیسے ہوتے ہیں؟ یہ بھی بتا دیجیے کہ جو لوگ ظلم کرنے والوں کو ظالم نہیں کہنا چاہتے انھیں سدھارنا بھی پاگل پن ہے۔ کیوں اُن کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں کہ وہ اُن پاگلوں کا علاج کرنے کے لیے قوم کو متحد کریں؟ معصوم بچوں کے جنازے دیکھنے کے بعد بھی یہ لوگ شرمندہ نہیں ہوتے تو کیوں انھیں ہم یہ کہتے ہیں کہ انسان بن جائو۔ یہ لوگ تو بہانے ڈھونڈھتے ہیں۔ پشاور میں دھماکا ہو تو وفاق ذمے دار ہے اور اگر کراچی میں ہو تو سندھ حکومت کے کمزور کاندھے ہیں۔ لیکن انصاف کا جھنڈا اٹھا کر پریس ریلیز میں دکھوں کا اظہار کرنے والے قاتلوں کو کچھ نہیں کہنا چاہتے۔
ایک مفکر اعظم ہر دھماکے کے بعد پہلے کہتے تھے کہ اس کی وجہ امریکا ہے پھر کہنے لگے اس کی وجہ لال مسجد ہے پھر انھیں ہر مسئلہ کا حل ڈرون میں نظر آنے لگا اور آج کل وہ یہ کہتے ہوئے سنے گئے ہیں کہ اس کی وجہ پولیس اور سیکیورٹی فورسز کی نا انصافی ہے ۔ یہ نہیں مانیں گے۔ آپ ان کے سامنے لاکھ کپڑے پہن کر گھوم لیجیے یہ آخر میں اسی نتیجے پر پہنچیں گے کہ قصور صرف انسانوں کا ہے جو اپنے اوپر ظلم کر رہے ہیں اور کپڑوں کا بوجھ اٹھا کر جا رہے ہیں۔ یہ گندگی پھیلانے پر کبھی افسردہ نہیں ہوتے۔ انھیں کیا معلوم کہ جب بچے بغیر کسی سیکیورٹی کے اسکول جاتے ہیں تو ماں باپ کے دل پر کیا گزرتی ہے۔ ایک اعتزاز حسن کتنی بار شہید ہو گا؟ جمہوریت کا مطلب کیا ہوتا ہے اور جمہوری انداز سے حکومت کے انتخاب کا کیا معنی ہوتا ہے۔ یہ ہی نہیں کہ عوام نے آپ کو سچا مان لیا۔ آپ کو اختیار دے دیا کہ آپ ان کے فیصلے کریں تو پھر یہ ڈرامہ بازیاں کیوں ہوتی ہے۔ کبھی آل پارٹیز کانفرنس تو کبھی کسی مولانا کو اتھارٹی لیٹر دینا ۔ یہ لوگ سمجھنا نہیں چاہتے یا پھر انھیں معلوم نہیں۔ یہ نہیں جاننا چاہتے کہ لوگ اپنے عقائد کے اظہار میں بھی کس قدر خوفزدہ ہیں۔ یہ بالکل افسردہ نہیں نہ ہی یہ ہونا چاہتے ہیں۔ کاش انصاف کے علمبردار اور شیر کی طرح دھاڑنے والے یہ بھی تو دیکھتے کہ ضلع مردان میں کیا ہو رہا ہے۔
شہید غازی بابا کی زیارت کرنیوالوں کو شہید کر دیا گیا۔ وہاں تو نہیں کہا گیا کہ خیبر پختون خوا حکومت نااہل ہے۔ یا پھر یہ بھی ڈرون حملے کا نتیجہ ہے؟ میڈیا بھی ظالم ہے اس کی بھی کوریج اسی طرح کردیتی جیسے اعتزاز کا خیال انھیں تین دن بعد آیا تھا اور حکمرانوں کو چار دن بعد سمجھ آیا کہ وہ کتنا بڑا ہیرو تھا۔ ایک اور صاحب نے بہت اچھا کیا جو انھوں نے کہا کہ شہید ہونے والا چوہدری اسلم ان کا سپاہی تھا۔ مگر کچھ اپنے اوپر جان قربان کرنے والوں کو بھی دیکھ لیتے۔ جناب لیاری میں آپ کے چاہنے والوں میں شیدی بھی ہیں۔ یہ وہ ہیں جن کی اکثریت جاں نثاران میں شامل رہی۔ یہ وہ ہی شیدی ہے جو گھروں میں کھانا ہو یا نہ ہو لیکن پارٹی کی حمایت کے نعرے لگاتے ہیں۔ آپ کو معلوم ہے کہ جناب یہ لوگ اپنے پیر کے مزار کا عرس نہیں مناسکتے۔ پورے پاکستان میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں یہ مگر مچھوں والی مزار کے نام سے مشہور ہیں لیکن منگھو پیر کے علاقے میں اب یہ اس مزار میں نہیں جاسکتے۔ یہ منگھو پیر پنجاب کے شیروں کے پاس نہیں جسے آپ فیصلہ کن کارروائی کا کہتے ہیں۔ محترم یہ بزدل خان کا بھی علاقہ نہیں یہ سندھ اور کراچی ہے، جہاں آپ کے اپنے ووٹر، اپنے شہر اور صوبے میں اپنے عقیدے پر عمل نہیں کر سکتے۔ لیکن سارا قصور ان شیدیوں کا ہے جو بیچارے اب تک ٹوئٹر چلانا نہیں جانتے۔
کہیں سے کوئی انصاف کا ڈنڈا لے کر اٹھتا ہے اور ہمیں بتاتا ہے کہ مذاکرا ت ہونے چاہیے، کوئی ٹوئٹر پر چلاتا ہے آپریشن ہونا چاہیے، کسی کا کوٹ کالا ہو جائے تو ہمیں سکھاتا ہے کہ عدالتوں میں پیش ہونا چاہیے، کہیں سے کوئی غیر سرکاری آنٹی کہتی ہے ہتھیار پھینک دینے چاہیے، کسی کو ٹی وی میں اپنا چہرہ دکھانا ہوتا ہے تو درس دیتا ہے کہ آئین پر بات ہونی چاہیے، جب مسخروں کو اپنی دکان کا سامان بیچنا ہو تو پرانی زنبیل سے ایک کاغذ نکل آتا ہے کہ جمہوریت اولین ترجیح ہے ، جب اپنے بھائیوں کے گناہ دھونے ہوتے ہیں تو رٹا رٹایا جملہ کہ امریکا سے ہاتھ نہیں ملانا چاہیے، جب پرانی دوستی نبھانی ہوتی ہے تو روس کا سبق یاد دلانے لگتے ہیں۔ جھگڑالو پڑوسی کی روح کبھی جسم میں اتر آتی ہے تو کہنے لگ جاتے ہیں کہ ادھار اُس وقت تک نہیں ملے گا جب تک کشمیر آزاد نہ ہو جائے۔ بات اپنے گریبان پر آکر پیروں سے چپکے موٹے بوٹوں تک آجائے تو آپ کو معلوم ہو گا کہ جب افغانستان سے امریکا چلا جائے گا سارا مسئلہ رفو چکر ہو جائیگا، بڑے بڑے محلوں میں بیٹھیں بادشاہوں کو جب اپنے ملازموں کو تنخواہ دینی ہو تو یاد آتا ہے کہ غربت ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ جس دن معاشی پالیسی ٹھیک ہو جائے گی امن ہو جائے گا ،اور جب ٹوپی سے جن نکالنا ہو تو، یہ سیاسی نظام فرسودہ ہے نیا نظام آنا چاہیے۔ یہ سب سن سن کر ہم بھی لگتا ہے سُن ہو گئے ہیں۔ مگر انھیں شرم نہیں آئیگی اور مجھے تو بالکل نہیں آتی اس لیے پاکستان کا کرکٹ میچ دیکھتے ہیں۔
ایک مفکر اعظم ہر دھماکے کے بعد پہلے کہتے تھے کہ اس کی وجہ امریکا ہے پھر کہنے لگے اس کی وجہ لال مسجد ہے پھر انھیں ہر مسئلہ کا حل ڈرون میں نظر آنے لگا اور آج کل وہ یہ کہتے ہوئے سنے گئے ہیں کہ اس کی وجہ پولیس اور سیکیورٹی فورسز کی نا انصافی ہے ۔ یہ نہیں مانیں گے۔ آپ ان کے سامنے لاکھ کپڑے پہن کر گھوم لیجیے یہ آخر میں اسی نتیجے پر پہنچیں گے کہ قصور صرف انسانوں کا ہے جو اپنے اوپر ظلم کر رہے ہیں اور کپڑوں کا بوجھ اٹھا کر جا رہے ہیں۔ یہ گندگی پھیلانے پر کبھی افسردہ نہیں ہوتے۔ انھیں کیا معلوم کہ جب بچے بغیر کسی سیکیورٹی کے اسکول جاتے ہیں تو ماں باپ کے دل پر کیا گزرتی ہے۔ ایک اعتزاز حسن کتنی بار شہید ہو گا؟ جمہوریت کا مطلب کیا ہوتا ہے اور جمہوری انداز سے حکومت کے انتخاب کا کیا معنی ہوتا ہے۔ یہ ہی نہیں کہ عوام نے آپ کو سچا مان لیا۔ آپ کو اختیار دے دیا کہ آپ ان کے فیصلے کریں تو پھر یہ ڈرامہ بازیاں کیوں ہوتی ہے۔ کبھی آل پارٹیز کانفرنس تو کبھی کسی مولانا کو اتھارٹی لیٹر دینا ۔ یہ لوگ سمجھنا نہیں چاہتے یا پھر انھیں معلوم نہیں۔ یہ نہیں جاننا چاہتے کہ لوگ اپنے عقائد کے اظہار میں بھی کس قدر خوفزدہ ہیں۔ یہ بالکل افسردہ نہیں نہ ہی یہ ہونا چاہتے ہیں۔ کاش انصاف کے علمبردار اور شیر کی طرح دھاڑنے والے یہ بھی تو دیکھتے کہ ضلع مردان میں کیا ہو رہا ہے۔
شہید غازی بابا کی زیارت کرنیوالوں کو شہید کر دیا گیا۔ وہاں تو نہیں کہا گیا کہ خیبر پختون خوا حکومت نااہل ہے۔ یا پھر یہ بھی ڈرون حملے کا نتیجہ ہے؟ میڈیا بھی ظالم ہے اس کی بھی کوریج اسی طرح کردیتی جیسے اعتزاز کا خیال انھیں تین دن بعد آیا تھا اور حکمرانوں کو چار دن بعد سمجھ آیا کہ وہ کتنا بڑا ہیرو تھا۔ ایک اور صاحب نے بہت اچھا کیا جو انھوں نے کہا کہ شہید ہونے والا چوہدری اسلم ان کا سپاہی تھا۔ مگر کچھ اپنے اوپر جان قربان کرنے والوں کو بھی دیکھ لیتے۔ جناب لیاری میں آپ کے چاہنے والوں میں شیدی بھی ہیں۔ یہ وہ ہیں جن کی اکثریت جاں نثاران میں شامل رہی۔ یہ وہ ہی شیدی ہے جو گھروں میں کھانا ہو یا نہ ہو لیکن پارٹی کی حمایت کے نعرے لگاتے ہیں۔ آپ کو معلوم ہے کہ جناب یہ لوگ اپنے پیر کے مزار کا عرس نہیں مناسکتے۔ پورے پاکستان میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں یہ مگر مچھوں والی مزار کے نام سے مشہور ہیں لیکن منگھو پیر کے علاقے میں اب یہ اس مزار میں نہیں جاسکتے۔ یہ منگھو پیر پنجاب کے شیروں کے پاس نہیں جسے آپ فیصلہ کن کارروائی کا کہتے ہیں۔ محترم یہ بزدل خان کا بھی علاقہ نہیں یہ سندھ اور کراچی ہے، جہاں آپ کے اپنے ووٹر، اپنے شہر اور صوبے میں اپنے عقیدے پر عمل نہیں کر سکتے۔ لیکن سارا قصور ان شیدیوں کا ہے جو بیچارے اب تک ٹوئٹر چلانا نہیں جانتے۔
کہیں سے کوئی انصاف کا ڈنڈا لے کر اٹھتا ہے اور ہمیں بتاتا ہے کہ مذاکرا ت ہونے چاہیے، کوئی ٹوئٹر پر چلاتا ہے آپریشن ہونا چاہیے، کسی کا کوٹ کالا ہو جائے تو ہمیں سکھاتا ہے کہ عدالتوں میں پیش ہونا چاہیے، کہیں سے کوئی غیر سرکاری آنٹی کہتی ہے ہتھیار پھینک دینے چاہیے، کسی کو ٹی وی میں اپنا چہرہ دکھانا ہوتا ہے تو درس دیتا ہے کہ آئین پر بات ہونی چاہیے، جب مسخروں کو اپنی دکان کا سامان بیچنا ہو تو پرانی زنبیل سے ایک کاغذ نکل آتا ہے کہ جمہوریت اولین ترجیح ہے ، جب اپنے بھائیوں کے گناہ دھونے ہوتے ہیں تو رٹا رٹایا جملہ کہ امریکا سے ہاتھ نہیں ملانا چاہیے، جب پرانی دوستی نبھانی ہوتی ہے تو روس کا سبق یاد دلانے لگتے ہیں۔ جھگڑالو پڑوسی کی روح کبھی جسم میں اتر آتی ہے تو کہنے لگ جاتے ہیں کہ ادھار اُس وقت تک نہیں ملے گا جب تک کشمیر آزاد نہ ہو جائے۔ بات اپنے گریبان پر آکر پیروں سے چپکے موٹے بوٹوں تک آجائے تو آپ کو معلوم ہو گا کہ جب افغانستان سے امریکا چلا جائے گا سارا مسئلہ رفو چکر ہو جائیگا، بڑے بڑے محلوں میں بیٹھیں بادشاہوں کو جب اپنے ملازموں کو تنخواہ دینی ہو تو یاد آتا ہے کہ غربت ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ جس دن معاشی پالیسی ٹھیک ہو جائے گی امن ہو جائے گا ،اور جب ٹوپی سے جن نکالنا ہو تو، یہ سیاسی نظام فرسودہ ہے نیا نظام آنا چاہیے۔ یہ سب سن سن کر ہم بھی لگتا ہے سُن ہو گئے ہیں۔ مگر انھیں شرم نہیں آئیگی اور مجھے تو بالکل نہیں آتی اس لیے پاکستان کا کرکٹ میچ دیکھتے ہیں۔