- اسٹاک ایکسچینج میں کاروباری میں تیزی، انڈیکس 72 ہزار 742 پوائنٹس پر بند
- بلدیہ پلازہ میں بیٹھے وکلا کمرے کا ماہانہ کرایہ 55 روپے دیتے ہیں، وزیراعلیٰ بلوچستان
- انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر کی نسبت روپیہ تگڑا
- کچے کے ڈاکوؤں سے رابطے رکھنے والے 78 پولیس اہلکاروں کا کراچی تبادلہ
- ایک ہفتے کے دوران 15 اشیا کی قیمتیں بڑھ گئیں
- چینائی میں پاکستانی 19 سالہ عائشہ کو بھارتی شخص کا دل لگادیا گیا
- ڈی جی ایس بی سی اے نے سنگین الزامات کا سامنا کرنے والے افسر کو اپنا اسسٹنٹ مقرر کردیا
- مفاہمت یا مزاحمت، اب ن لیگ کا بیانیہ وہی ہوگا جو نواز شریف دیں گے، رانا ثنا
- پی ایس کیو سی اے کے عملے کی ہڑتال، بندرگاہ پر سیکڑوں کنٹینرپھنس گئے
- ڈھائی گھنٹے میں ہیرے بنانے کا طریقہ دریافت
- پول میں تیزی سے ایک میل فاصلہ طے کرنے کے ریکارڈ کی کوشش
- پروسٹیٹ کینسر کی تشخیص کے لیے نیا ٹیسٹ وضع
- غزہ پالیسی پر امریکی وزارت خارجہ کی خاتون ترجمان نے احتجاجاً استعفی دیدیا
- راولپنڈی: خاکروب کی لیڈی ڈاکٹر کو جنسی ہراساں کرنے اور تیزاب پھینکنے کی دھمکی
- یومِ مزدور: سندھ میں یکم مئی کو عام تعطیل کا اعلان
- منفی پروپیگنڈا ہمیں ملک کی ترقی کے اقدامات سے نہیں روک سکتا، آرمی چیف
- پاکستان میں افغانستان سے لائے غیر ملکی اسلحے کے استعمال کے ثبوت پھر منظرِ عام پر
- بھارتی ٹیم کے ہیڈکوچ کی ووٹ کاسٹ کرنے کی ویڈیو وائرل
- وزیرداخلہ کا غیر قانونی مقیم غیر ملکیوں کے خلاف آپریشن تیز کرنے کا حکم
- سندھ حکومت نے 54 نجی اسکولوں کی رجسٹریشن روک دی
گلوکارہ اقبال بانو کو مداحوں سے بچھڑے 12 سال بیت گئے
لاہور: غزل کی گائیکی میں اپنے منفرد انداز کے لیے شہرت یافتہ گلوکارہ اقبال بانو کو مداحوں سے بچھڑے 12 سال گزر گئے لیکن ان کے گائے ہوئے گیت آج بھی سامعین کے کانوں میں رس گھولتے ہیں۔
اقبال بانو نے فیض احمد فیض اور احمد فراز کی غزلوں کے ساتھ ساتھ بلند پایہ اشعار پر مبنی کئی دیگر غزلیں گا کر شہرت حاصل کی اور ان کی گائی ہوئی کچھ غزلوں کے مصرعے بہترین گائیکی کے باعث زباںِ زدِ عام ہوئے۔ اقبال بانو کے فن نے برسوں پہلے آل انڈیا ریڈیو کے دہلی سٹیشن میں پہلا اظہار پایا۔
1952 میں اس نو عمر گلوکارہ نے شادی کے بعد بھی فن سے اپنا رابطہ قائم رکھا۔ پچاس کے عشرے میں اقبال بانو نے پاکستان کی نو زائیدہ فلم انڈسٹری میں ایک پلے بیک سنگر کے طور پر اپنی جگہ بنالی تھی لیکن اُن کا طبعی رجحان ہلکی پھلکی موسیقی کی بجائے نیم کلاسیکی گلوکاری کی طرف رہا۔
ٹھمری اور دادرے کے ساتھ ساتھ انھوں نے غزل کو بھی اپنے مخصوص نیم کلاسیکی انداز میں گایا۔ ضیاالحق کے آخری دِنوں میں فیض کی نظم ’لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے‘ ان کا ٹریڈ مارک بن چکی تھی اور ہر محفل میں اسکی فرمائش کی جاتی تھی۔ یہ سلسلہ انکی وفات سے چند برس پہلے تک جاری رہا۔
اقبال بانو نے اردو کے علاوہ فارسی غزلیں بھی گائیں جو کہ ایران اور افغانستان میں بہت مقبول ہوئیں۔وہ21 اپریل 2009 کو خالق حقیقی سے جا ملیں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔