گلوکارہ اقبال بانو کو مداحوں سے بچھڑے 12 سال بیت گئے

خبر نگار  منگل 20 اپريل 2021
انھوں نے غزل کو بھی اپنے مخصوص نیم کلاسیکی انداز میں گایا۔(ٖفوٹو: ٖفائل)

انھوں نے غزل کو بھی اپنے مخصوص نیم کلاسیکی انداز میں گایا۔(ٖفوٹو: ٖفائل)

 لاہور: غزل کی گائیکی میں اپنے منفرد انداز کے لیے شہرت یافتہ گلوکارہ اقبال بانو کو مداحوں سے بچھڑے 12 سال گزر گئے لیکن ان کے گائے ہوئے گیت آج بھی سامعین کے کانوں میں رس گھولتے ہیں۔

اقبال بانو نے فیض احمد فیض اور احمد فراز کی غزلوں کے ساتھ ساتھ بلند پایہ اشعار پر مبنی کئی دیگر غزلیں گا کر شہرت حاصل کی اور ان کی گائی ہوئی کچھ غزلوں کے مصرعے بہترین گائیکی کے باعث زباںِ زدِ عام ہوئے۔ اقبال بانو کے فن نے برسوں پہلے آل انڈیا ریڈیو کے دہلی سٹیشن میں پہلا اظہار پایا۔

1952 میں اس نو عمر گلوکارہ نے شادی کے بعد بھی فن سے اپنا رابطہ قائم رکھا۔ پچاس کے عشرے میں اقبال بانو نے پاکستان کی نو زائیدہ فلم انڈسٹری میں ایک پلے بیک سنگر کے طور پر اپنی جگہ بنالی تھی لیکن اُن کا طبعی رجحان ہلکی پھلکی موسیقی کی بجائے نیم کلاسیکی گلوکاری کی طرف رہا۔

ٹھمری اور دادرے کے ساتھ ساتھ انھوں نے غزل کو بھی اپنے مخصوص نیم کلاسیکی انداز میں گایا۔ ضیاالحق کے آخری دِنوں میں فیض کی نظم ’لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے‘ ان کا ٹریڈ مارک بن چکی تھی اور ہر محفل میں اسکی فرمائش کی جاتی تھی۔ یہ سلسلہ انکی وفات سے چند برس پہلے تک جاری رہا۔

اقبال بانو نے اردو کے علاوہ فارسی غزلیں بھی گائیں جو کہ ایران اور افغانستان میں بہت مقبول ہوئیں۔وہ21 اپریل 2009 کو خالق حقیقی سے جا ملیں۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔