کیا یہ چیز Matterکرتی ہے

ہم لاکھ اپنے آپ کو محبِ اردو کہیں، اردو گو کہیں، اردو داں کہیں، اردووالا کہیں۔

ہم لاکھ اپنے آپ کو محبِ اردو کہیں، اردو گو کہیں، اردو داں کہیں، اردووالا کہیں۔ فوٹو : فائل

زباں فہمی نمبر 94

ہم لاکھ اپنے آپ کو محبِ اردو کہیں، اردو گو کہیں، اردو داں کہیں، اردووالا کہیں، رواجِ عام کے مطابق Urdu-speakingکہیں، حقیقت یہی ہے کہ ہم اپنی نجی زندگی میں، عوامی، سرکاری ودفتری معاملات میں، غرضیکہ ہر موقع پر، ہر مقام پر، 'فادری' زبان کا جا بے جا استعمال کرکے اپنی علمیت یا آسان الفاظ میں پڑھے لکھے ہونے کا رعب جماتے ہیں (کہیں رعب گانٹھنا بھی سنا تھا)، یہ بتاتے ہوئے نہیں تھکتے کہ U know، ہم کوئی Backward، کم پڑھے لکھے، پِیلے (یعنی سرکاری) اسکول کے پڑھے ہوئے Urdu medium بدتمیز (بقول فاروق قیصر) نہیں۔

{ محبِ اردو یعنی اردو سے محبت کرنے والا، اردو گو یعنی اردو بولنے والا، اردو داں یعنی اردو جاننے والا۔ اگر 'دان' کہیں گے تو 'برتن ' ہوجائے گا}۔ لطف تب آتا ہے کہ سیدھی سیدھی بات اردو میں کرنے کی بجائے، سوچ سوچ کر، پورا زور لگاکر، فرنگی زبان کا حُلیہ بِگاڑتے ہوئے کچھ اس طرح کی گفتگو دوسروں کے کانوں تک پہنچتی ہے، بلکہ ہم ایسے لوگوں کے دل دماغ پر ہتھوڑے برساتی ہے: ارے Sir آپ مجھے یہ بتائیں کہ کیا یہ چیز Matterکرتی ہے؟....یہ بات Matterکرتی ہے؟....فُلاں شخص اس Matter میں اتنا Matterکرتا ہے؟....وغیرہ وغیرہ ، بلکہ So on, so forth!۔ پیارے اردو والو! (جب مخاطب کرنا ہوتو نون غُنّہ نہیں لگاتے) سیدھے سیدھے کیوں نہیں کہتے: کیا یہ چیز اَہم ہے؟، کیا یہ بات/معاملہ اہم ہے؟ کیا فُلاں شخص اس معاملے میں اتنا اَہم ہے؟۔

اکثر ہمارے یہاں کوئی لفظ انگریزی کا سوچ کر، اردو میں ترجمہ کرکے، پھر انگریزی کا پیوند لگاتے ہوئے ہی کوئی جملہ بنادیا جاتا ہے، خواہ وہ عام بول چال ہو، رسمی گفتگو ہو، کوئی مقالہ پڑھا جارہا ہو، انٹرویو ہورہا ہو ، تدریسی عمل جاری ہو یا کسی سیاست داں]یعنی اہل سیاست/سیاست جاننے والے[ کی پریس کانفرنس ہو (سیاہ+سَت+دان یعنی 'کالے سَت کا برتن' بھی کہہ لیں تو کیا فرق پڑے گا)، سب جگہ یہی وَتِیرا (ناکہ وطیرہ) اختیار کیا جاتا ہے۔ لوگ لفظ Matterاور Issueکو اردو میں چیز کہہ کر اپنی انگریزی دانی کا ثبوت دیتے ہیں (شکر ہے کہ یہاں کچھ اور 'دانی' کا دخل نہیں)۔

ایک اور مثال ملاحظہ فرمائیں۔ انگریزی میں کہا جاتا ہے: Things are not going in right direction.، تو اس کا بھونڈا ترجمہ یوں کیا جاتا ہے: چیزیں صحیح سمت میں نہیں چل رہیں۔ درست یوں ہوگا: معاملات صحیح سمت /جہت میں نہیں چل رہے۔ یا۔طے ہورہے۔

اسی طرح لوگ بجائے سیدھا سیدھا یہ پوچھنے کہ کہ آپ کونسا مضمون پڑھاتے /پڑھاتی ہیں ، یوں انگریزیت بگھارتے ہیں: Sir، آپ کون سا Subject، Teachکرتے ہیں؟ جب بندہ انگریزی میں جواب دے تو ''بری طرح'' متأثر / مرعوب یا ششدر[Puzzled] ہوکر کہتے ہیں: Sirآپ نے کس Subject، میں Mastersکیا ہے؟ کیا English میں؟۔ (معاف کیجئے گا قارئین کرام اس طرح کے شگوفے لامحالہ دُہرانے پڑتے ہیں)۔ بچے کو استاد یا والدین بجائے یہ کہنے کے کہ 'بیٹا! کتاب سے پڑھ کر سنائو' کہتے ہیں، 'Book سے Readکرو'۔ سیدھی سی بات کہنی ہو کہ جناب! گفتگو کا موضوع کیا ہے یا مقالے کا عنوان کیا ہے تو کہتے ہیں: Conversationکا Topicکیا ہے؟ Thesis کس Topicپر Based ہے۔

کرکٹ کی بات کریں تو ہر ٹی وی چینل خبریں پیش کرتے ہوئے بتاتا ہے کہ فُلاں کھلاڑی Fieldingکرتے ہوئے Injured ہوگیا، اُسے Injuryآئی ہے، وہ Series سے Out یا باہر ہوگیا ہے۔ یا تو چوٹ لگی ہو گی یا زخم لگا ہوگا، تو بھئی یہ کہتے ہوئے کیا دِقّت ہے یا شرم آتی ہے کہ اُسے چوٹ لگی ہے یا وہ زخمی ہوگیا ہے اور باقی میچ نہیں کھیل سکے گا۔ اس طرح کی بے شمار مثالیں ہیں۔ اب لوگ بجائے سیدھا سیدھا یہ کہنے کے کہ بیٹا ہاتھ دھولو، ٹی وی کے اشتہار کی تقلید میں کہتے ہیں، Hand, Wash کرلو۔ بڑے لوگ بات بے بات کہتے ہیں، پہلے آپ یہ Make sureکرلیں کہ فُلاں چیز ہوئی کہ نہیں۔ متعدد بار لکھنے کے باوجود، ایک بار پھر عرض کرتا ہوں کہ حضور! اس کی اردو موجود ہے۔ پھر زبردستی اس کا ترجمہ بناتے ہیں، فُلاں بات کو یقینی بنائیں یا بنایا جائے گا۔

اردو میں یوں ہوگا کہ فُلاں اَمر کا التزام کیا جائے۔ اگر التزام مشکل ہے تو کہیں، فُلاں کام لازماً کیا جائے گا، فُلاں بات کا خاص اہتمام کریں یا فُلاں بات کا خاص خیال رکھیں۔ یہ جو دن رات اذہان پر ہتھوڑے برس رہے ہیں: SOPsکی پابندی یقینی بنائیں، (اس کم بخت اصطلاح پر کئی بار لکھا، مگر جنھیں پڑھنا چاہیے، وہ تو خود اپنا لکھا ہوا ٹوئیٹ ہی نہیں پڑھتے)، اسے سیدھی سادی، آسان اور عام فہم اردو میں کہتے ہیں: احتیاطی تدابیر کا خاص خیال رکھیں یا احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔ یقین کریں آپ کو Coronaکچھ نہیں کہے گا، ایسی زبان بولنے اور لکھنے کی صورت میں۔ اسی طرح بجائے ناخن تراشنے یا کاٹنے کے Nailکو Cutکرنا بھی بالکل بے تُکی بات ہے۔ لوگ بجائے یہ کہنے کے کہ ہاتھ ملائیں (مصافحہ کریں تو مشکل لگتا ہے نا)، اسی مخلوط زبان میں کہتے ہیں:Handshakeکرو!۔ گلے ملنا کس قدر معنی خیز اور دل نشیں ہوا کرتا تھا، اب توHugکرنا ایسا چل پڑا ہے کہ سُن کر ہی کراہت ہوتی ہے (یہ کراہیت نہیں ہے)۔

ہمارے یہاں کسی بھی محکمے یا شعبے کے دفتر میں جب کوئی استفسار کرنا ہو، سوال کرنا ہو ، شکایت درج کرانی ہو تو ٹیلی فون پر نمبر ملاتے ہی دوسری طرف سے کہا جاتا ہے:This is.........How may I help you?۔ خواہ آپ نے اردو میڈیم بنتے ہوئے زبان کے انتخاب میں اردو ہی چُنی ہو۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ایسا بہت مرتبہ ہوا (حتیٰ کہ ملاقات میں بھی) کہ اگر جواباً فرنگی زبان میں بات شروع کی تو دیسی انگریز، اردو یا Minglish میں رَواں ہوگئے۔ ابھی ٹی وی پر ایک خبر رساں [News reporter]فرما رہے تھے کہ فُلاں مُلزِم (مُلزَم درست ہے) نے عدالت میں Application (بجائے درخواست کے) Moveکرادی ہے (یعنی جمع کرادی ہے)۔ اسی طرح کئی سال ہم ٹی وی پر ضمانت کے معاملے میں Parole کا لفظ بہت سن رہے ہیں۔

اکثر خبررساں اور خبر خواں [News reader/Caster/Anchor]اسے Payroll بنادیتے ہیں یعنی ''انگریز بنتے نہیں، انگریزی کو بدل دیتے ہیں'' (واہ واہ صاحب کیا آمد ہوئی ہے، ابھی کے ابھی)۔ کیا کہیں صاحبو! جب محبت کی جگہ Love نے لے لی ہو اور گھر گھر Loveria پھیل چکا ہو (ویسے یہ لویریا ہم ایسے قدرداں لوگوں کی ایجاد ہے)، Datingکو دوستی کہا جاتا ہو، گفتگو کی بجائے Chat/Chit-chatہوتی ہو، رشتوں کے نام ہی بدل گئے ہوں ، امی ابا کی جگہ Mom/Dadاور بھائی کی جگہ Bro ، بہن کی جگہ Sisنے لے لی ہو تو کیا کیا اصلاح کی جائے۔ شعبہ تشہیر کی ایک ممتاز شخصیت اظہر عزمی صاحب ہمارے حلقہ دوستان ِ فیس بک میں شامل ہیں۔

اُن کی ایک تحریر سے اقتباس پیش کرتا ہوں:''ہمارے آفس میں ایک کشمیری لڑکا منظور حسین Peon ہوا کرتا تھا۔ اسے انگریزی بولنے کا بہت شوق تھا۔ لنچ ٹائم کے وقت وہ Receptionپر بیٹھا کرتا تھا اور ضروری فون ملا کر کے دے دیا کرتا۔ یار رہے کہ اس وقت تک موبائل فون نہیں آئے تھے اور Reception کے ذریعے ہی بات ہوا کرتی تھی۔ اتفاق دیکھیں کہ ایک دن لنچ ٹائم پر ایم ڈی صاحب کو کلائنٹ سے ضروری بات کرنی تھی۔ منظور کو انٹرکام کر کے نمبر ملانے کو کہا۔ منظور نے کلائنٹ کے Reception پر فون ملایا اور انگریزی جھاڑ دی:


May I talk to Mr. Jawed?

دوسری طرف سے خاتون کی انتہائی سحرانگیز آواز آئی۔
May I know who is speaking?
منظور اس ہوشربا جواب کی توقع نہیں کر رہا تھا۔ جواب تو کیا دیتا، گھبرا کر بولا۔
Sorry, madam ... I am Urdu speaking.
(آئیے! انگریزی انگریزی کھیلیں: https://daanish.pk/43586)

ایسی بے شمار مثالیں مزید دی جاسکتی ہیں۔ ابھی کل کی بات ہے کہ رمضان شریف کی آمد سے ایک روز پہلے ، دفتر کے بیت الخلاء یعنی Washroom میں ایک صاحب دوسرے سے کہہ رہے تھے، یار! یہ رمضان شریف میں Washroom بہت آتا ہے۔ انھوں نے بھی تائید کی، ہاں Washroom تو بہت آتا ہے۔ بیت الخلاء نہ سہی، واش روم اور باتھ روم اور ریسٹ روم ہی سہی، مگر صاحبو! جو چیز آتی ہے، وہ بھی انگریزی میں یوں نہیں ہوتی۔ یہ کہتے ہوئے کیوں شرم آتی ہے کہ پیشاب بہت آتا ہے یا چلیں یوں کہہ لیں کہ حاجت بہت محسوس ہوتی ہے یا باربار حاجت (محسوس) ہوتی ہے یا باربار بیت الخلاء جانا پڑتا ہے۔

مدتوں پہلے ہمارے ایک بے تکلف، مگر بزرگ دوست نے کئی بار ہمیں ہنسایا یہ کہہ کر کہ مجھے باتھ روم آرہا ہے۔ میں نے قدرے حیرت اور شرارت سے کہا:.....بھائی آپ کو پورا Bathroomآتا ہے؟ (کل تک بچے کو Pottyآتی تھی، اب بڑوں کو بھی یہی آتی ہے، دیگر مثالیں لکھوں تو لوگ کہیں گے O' my God!یہ کالم میں اتناFilthکیوں ہے)۔ کئی دیگر باتوں کی طرح اس کا اعادہ بھی ضروری ہے (یعنی یہ بات بھی دُہرانا ضروری معلوم ہوتا ہے) کہ اب ہمارے یہاں باورچی خانہ Kitchen بن چکا ہے، البتہ کچھ لوگ ہندی کی محبت میں اسے رسوئی بھی کہہ دیتے ہیں۔ خواب گاہ یا سونے کا کمرا (کمرہ غلط ہے) تو مدتوں پہلے Bedroom قرار پایا، مہمان خانہ /مہمانوں کا کمرا Drawing room بنے ہوئے ایک زمانہ بیت گیا، ٹی وی لائونج کی اردو ہم نے سوچی ہی نہیں.....اور تو اور...اب چھت بھی چھت نہ رہیRoof ہوچکی ہے۔ پنکھا اتنا اہم لفظ ہے کہ آکسفرڈ ڈکشنری میں PUNKAHکے غلط ہجوں سے شامل ہے، مگر ہم تو زیادہ انگریز ہیں.

اس لیے Fanکہتے ہیں اور پھر مزے سے مدّاح کو بھی Fanہی کہتے ہیں تو مزاحاً کوئی ہم ایسا 'پنکھا' کہہ دیتا ہے۔ پہلے گوشت ہوا کرتا تھا، اب Chicken/Mutton/Beefہے اور پہلے بغیر ہڈی کے بھی ملتا تھا، اب Boneless ہے۔ ہوسکتا ہے کہ کچھ عرصے کے بعد، ٹی وی پر کھانا پکانا سکھانے والی شخصیات کے طفیل قِیمہ بھی Minced mutton etc.کہلانے لگے۔ ویسے بھی Garnishاور Mashجیسے الفاظ بہت زیادہ بولے جانے لگے ہیں۔Deep-fry or Half-fryبھی عام ہوگئے ہیں۔Sautéجیسا خالص فرینچ لفظ بھی برگر کلاس کے طفیل اردو میں جبراً داخل کیا جاچکا ہے۔ اس معاملے میں مختصراً یہ تبصرہ کرنا بہت آسان ہے کہ 'اس حمام میں تقریباً سبھی ننگے ہیں'۔ تقریباً اس لیے کہ کچھ باورچی، اوہ معاف کیجئے گا Chefایسے ہیں جو زیادہ اردو میں کم انگریزی کی ملاوٹ کرتے ہیں۔

{بھئی بات سمجھ میں آگئی نا؟ اب خواہ مخواہ سہیل صاحب اردو سکھا رہے ہیں...ہاہاہا}۔ بہت سی دیگر مثالوں کی طرح منصوبہ بندی بھی ہے جو Planning بن چکی ہے، کیونکہ اب منصوبے نہیں بنتے، Plans بنتے ہیں۔ سالانہ امتحانات،نہیں ہوتے، بلکہ Annual exams ہوتے ہیں۔ سہ ماہی، شش ماہی کا تو ذکر ہی کیا، Mid-term/First term/Second term/Third term نے اُن کی جگہ جو لے لی ہے۔ اب اگر ایک جملے میں ہمارے لسانی زوال مع اخلاقی زوال کا خلاصہ پیش کرنا مقصود ہوتو کہہ سکتے ہیں (کہ سکتے نہیں...کہ اور کہہ کا صوتی ومعنوی فرق برقرار رکھنا لازم ہے): ہماری تربیت Media (ذرائع ابلاغ) کرتا ہے۔ کل تک یہ خاکسار یہ کہتا تھا کہ ماں باپ نے تربیت سے ہاتھ اٹھالیا ہے اور اَب یہ کام ٹیلی وژن کا ہے۔

اَب یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ کیا عام کیا خاص، کیا مشہور کیا غیرمعروف، کیا ادیب، شاعر، صحافی، کیا ادبی قاری، کیا استاد، کیا شاگرد....سبھی ٹی وی چینلز (خصوصاً ماضی قریب میں ہندوستانی چینلز) پر پیش کیے جانے والے مواد ، بشمول ڈرامے، گفتگو کے پروگرام، کھیلوں پر ہونے والے رواں تبصرے، غرضیکہ ہر مواد سے (آنکھ کان اور ذہن بند کرتے ہوئے) اس طرح 'متأثر' ہورہے ہیں کہ اچھے بھلے آدمی کو بتانا پڑتا ہے کہ جناب! یہ کہنا غلط ہے /یوں کہنا غلط ہے۔ معاملہ محض انگریزی کے بالجبر 'دخول' اور رومن اردو کے بے وجہ استعمال تک محدود نہیں، بلکہ نوبت بہ ایں جا رسید کہ اچھی بھلی، آسان اردو کا ستیاناس کردیا گیا ہے۔

بعض علاقائی زبانوں کے زیرِاثر، عوام کو مؤنث بنایا گیا تو سبھی اندھی تقلید میں عوام کو مؤنث کہنے اور لکھنے لگے۔ آج کا قلم کار جب عوام کو مؤنث لکھتا ہے تو گویا سینے میں تیِر پیوست ہوجاتا ہے۔ اب لوگ جاننے کی زحمت کم کم ہی گوارا کرتے ہیں۔ انگریزی کے غلط اور بے جا استعمال کی بات کرتے ہوئے یہ بھی دُہرانا لازم ہے کہ ہم اپنی پیاری اور منفرد زبان کی گنتی سے تقریباً محروم ہوتے جارہے ہیں۔ ہر کوئی انگریزی گنتی لکھتا اور بولتا دکھائی اور سنائی دے رہا ہے۔ ایک اَن پڑھ یا کم پڑھا لکھا، نِیم خواندہ یا بہت زیادہ خواندہ، تعلیم یافتہ، اعلیٰ تعلیم یافتہ شخص، حتیٰ کہ دیگر زبانوں سے کماحقہ' واقف شخص یہی سمجھنے لگا ہے کہ اگر اردو گنتی بولی اور لکھی جائے تو شاید بہت بڑا مسئلہ ہوجائے گا۔Is it a big problem, guys?کیا یہ واقعی بڑا مسئلہ ہے؟ یا (ہندوستانی بولی ٹھولی میں) 'کیا اس میں بہت دِقت ہے؟' (آپس کی بات ہے کہ ہم جتنا Problemبول بول کر پرابلم بڑھاتے ہیں، وہ سیدھا سیدھا دِقّت کہہ کر آسان کردیتے ہیں)۔

یہاں یہ وضاحت مکرّر کردوں کہ میری تحریروں میں انگریزی گنتی کے استعمال کی وجہ اخبار کیPolicy ہے، مگر پھر بھی جہاںجہاں موقع ملتا ہے، بندہ اردو گنتی لکھنے سے باز نہیں آتا۔ اردو کے ہمہ جہتی نفاذ وترویج کی مہم چلانے والے تمام افراد اور تنظیموں سے، ہمیشہ براہ راست اور بالواسطہ یہ بات کہتا رہا ہوں اور آج پھر کہتا ہوں کہ اردو کی بقاء کے لیے، اس کی گنتی کا احیاء بھی ضروری ہے۔ اسی طرح شعبہ تشہیر [Advertising] میں بھی غیرضروری انگریزی کے ساتھ ساتھ Romanاردو کے استعمال کے خلاف مہم چلانا بھی اَشدّ ضروری ہے۔ یہ 'برگربچے' یا بڑی عمروالے 'آدھا تیتر، آدھا بٹیر' کے مصداق الٹی سیدھی زبان لکھنے والے اگر پورے اشتہار کا متن فقط ایک ہی زبان میںلکھنا چاہیں تو ظاہر ہے کہ پھنس جائیں گے۔

ان کی اطلاع کے لیے ہم ایسے کچھ سرپھِرے ابھی باقی ہیں/ زندہ ہیں جو اِنھیں بتاسکتے ہیں کہ فُلاں لفظ یا فقرے کی جگہ آسان اردو میں یا ضرورت کے مطابق، معیاری اردو میں، فُلاں اردو لفظ یا عبارت لکھی جاسکتی ہے۔ ٹی وی پر جلوہ افروز لوگو ں کا ایک مشترک مسئلہ یہ بھی ہے کہ جب کوئی برمحل اردو لفظ استعمال کرنا چاہیں تو اکثر یا تو تلفظ غلط ہوتا ہے یا سِرے سے بے محل بول جاتے ہیں۔ ابھی ابھی، اثنائے تحریر، میری سماعت سے ایک ٹی وی چینل پر پروگرام کرنے والی خاتون میزبان کا 'شاندار' تلفظ باقاعدہ 'ٹکرایا': اشارے کنائی یوں.....ان کے والدین ریڈیو پاکستان سے مدتوں وابستہ رہے اور خاکسار کو اِن سے سابقہ پڑا، نیز اِن کے والد سے تو خاکسار کا واسطہ ، ایک ٹی وی کوئز پروگرام (مقابلہ معلومات) میں بھی پڑا(محترمہ نے بھی ایک معلوماتی پروگرام کے سلسلے میں رابطہ کیا تھا، مگر بات نہیں بنی)....جن کو اِن کا نام جاننے کا تجسس ہو، شوق ہو یا خواہ مخواہ ہی تصدیق کرنا چاہیں تو ایک اشارہ یہ دیتا ہو ں کہ وہ ایک ایسے ٹی وی چینل پر سیاسی گفتگو کا پروگرام گزشتہ کئی سال سے کررہی ہیں جس کے نام کے ساتھ،''ایک'' لگا ہوا ہے۔
Load Next Story