کورونا کی خراب ہوتی صورتحال اور ہماری ترجیحات

پاکستان اور بھارت دونوں ممالک اس وقت نئے کیسز کے حوالے سے دنیا کے ٹاپ فائیو ممالک میں آچکے ہیں

کورونا شرح اموات کے حوالے سے پاکستان اور بھارت دن بدن درجہ بندی میں اوپر آرہے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

آج بھارت جس صورتحال سے دوچار ہے یہ صورتحال کسی بھی ملک کو درپیش ہوسکتی ہے۔ امریکا کے بعد بھارت دوسرا بڑا ملک بن چکا ہے کورونا کے مثبت کیسز کے حوالے سے۔ لیکن یاد رکھیے ایسا صرف اس صورت میں ہوتا ہے جب آپ کی ترجیحات مختلف ہوں۔

یورپی ممالک ہوں یا امریکا، سب کا صحت کا نظام اس وبا سے بیٹھ گیا لیکن ان کی کوششیں ثابت کرتی ہیں کہ ان کی ترجیحات کیا ہیں۔ وہ دنیا کے جھمیلوں میں اس وقت الجھے جب اندرونی طور پر خود کر مضبوط کرلیا۔ اور بنیادی انتظامہ ڈھانچہ تشکیل پا جانے کے بعد وہ ممالک کسی بھی مسئلے میں الجھ سکتے تھے۔

جنوبی ایشیا میں مقابلے کی دوڑ نے اس خطے میں اسلحے کے انبار لگا دیے۔ اور جو ممالک بظاہر ہمارے دوست تھے ان کا کاروبار بھی خوب چمکا۔ دوستی کا معیار اسلحہ فراہمی سے منسلک کرنا پڑا۔ اور کبھی فرانس سے آگسٹا آبدوزیں ہمیں ملیں تو وہیں فرانس سے رافیل طیارے بھارت کو ملے۔ کہیں چین سے جے ایف 17 تھنڈر ہمارے حصے میں آئے تو امریکی اسلحہ بھارت کا نصیب بنادیا گیا۔ اور پھر وقت نے دیکھا کہ دو ایٹمی قوتیں کس طرح ایک دوسرے کے آمنے سامنے آگئیں۔ وجہ تنازعہ کشمیر ہے۔ ہم باہمی لڑائی میں کشمیریوں کی مرضی کی فکر کرنا چھوڑ گئے۔ جس بھی حد تک ہو لیکن آزاد کشمیر ایک خودمختار ریاست کی صورت اپنا وجود قائم رکھے ہوئے ہے۔ ایسا ہی مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھی ہوجائے تو پورے خطے کو اعتراض کیسا؟ کیا گولی و بارود کی خوشبو ہمیں اتنی مسحور کردیتی ہے کہ ہم امن کا پھول اگانے کو تیار نہیں ہو پا رہے؟

بھارت میں مریضوں کی تعداد ڈیڑھ کروڑ سے اوپر جاچکی ہے۔ یومیہ نئے کیسز کی تعداد ایک لاکھ سے متجاوز ہے۔ شمشان گھاٹ میں میتیں جلانے کےلیے لکڑیاں کم ہوگئی ہیں۔ قبرستانوں میں اب اجتماعی تدفین کا مرحلہ آن پہنچا ہے۔ اور پوری صورتحال نے کچھ ایسے برے انداز سے پلٹا کھایا ہے کہ بھارت دنیا میں دوسرا سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک بن گیا ہے، جب کہ نئے کیسز کے حوالے سے یہ دنیا میں پہلا ملک بن چکا ہے۔ 23 اپریل کو بھارت میں تین لاکھ پینتالیس ہزار ایک سو سینتالیس کیسز ریکارڈ کیے گئے (بحوالہ ورلڈ میٹر)۔ اسی طرح دو ہزار سے زائد جانیں ایک دن میں چلی گئیں۔ یہ صورتحال ہمیں بتانے کےلیے کافی ہے کہ ہمیں گولی و بارود سے نکل کر انسانیت کی طرف بڑھنا ہوگا۔

پاکستان کے حوالے سے جائزہ لیجیے تو صورتحال حوصلہ افزا نہیں۔ کورونا کی تیسری لہر قابو سے باہر ہورہی ہے۔ لوگ پریشان ہیں۔ سات لاکھ سے زائد افراد میں کورونا کی تشخیص ہوچکی ہے۔ سترہ ہزار افراد جان سے جا چکے ہیں۔ اور تئیس اپریل کو پاکستان میں پانچ ہزار آٹھ سو ستر نئے کیسز رپورٹ ہوئے۔ لوگوں کو آکسیجن کی جو مشکل بھارت میں درپیش ہے ویسا حال پاکستان میں ابھی نہیں۔ لیکن اندازے اور جائزے اسی جانب اشارہ کر رہے ہیں کہ ہوش کے ناخن نہ لیے تو ایسا ہو بھی سکتا ہے۔ اور اسی لیے این سی او سی کے تازہ ترین اجلاس کے بعد نئی پابندیاں سامنے آئی ہیں۔ اور عید کے قریب مکمل لاک ڈاؤن کو بھی خارج از امکان قرار نہیں دیا گیا۔


ایسا کیوں ہورہا ہے؟ کیوں کہ ہم ایک لاپرواہ قوم ہیں۔ بطور مجموعی ہمارے معاشرتی رویے ہمیں ایک ایسے نقصان کی طرف لے جارہے ہیں جس کا ازالہ ممکن نہیں ہوگا۔ ہم ویکسی نیشن کے عمل کو بھی سبک رفتار بنانے سے قاصر ہیں۔ ہم اس حوالے سے ویکسین خریدنے کے بجائے ویکسین عطیات کی طرف زیادہ دیکھ رہے ہیں۔ جب کہ روزانہ اموات کے حوالے سے صرف 144 افراد جان سے چلے گئے۔ یہ یقینی طور پر خطرے کا الارم ہے۔ اور ہم نے احتیاط سے کام نہ لیا تو آنے والے دن بہت مشکل ہوں گے۔ اور ہم یقینی طور پر ان کو سنبھالنے کی سکت سے باہر ہوں گے۔

ذکر صرف پاکستان اور بھارت کا ہی کیوں؟ کیوں کہ دونوں ممالک اس وقت نئے کیسز کے حوالے سے دنیا کے ٹاپ فائیو ممالک میں آچکے ہیں۔ اور کچھ ایسی ہی صورتحال شرح اموات کے حوالے سے بھی ہے کہ پاکستان اور بھارت دن بدن درجہ بندی میں اوپر آرہے ہیں۔ یہ ایک المیے کی طرف اشارہ ہے۔ ایک انسانی المیے کی طرف۔ جس کی جانب ہم نے آج توجہ نہیں کی تو آنے والی نسلوں کے بھی ہم گنہگار ہوں گے۔

ہم نے ایک دوسرے پہ اپنی دھاک بٹھا دی۔ بہت اچھا کیا۔ بہتر ہوگیا۔ اب آگے بڑھیے؟ اور مل کر اس وبا سے نمٹنے کی کوئی سبیل کیجئے۔ ہم نے ایک دوسرے کے خلاف اسلحے کے انبار لگا لیے۔ بہت اچھا کیا۔ یہ بھی بہتر ہوگیا۔ اب ہمارے اسلحہ خانے بھر چکے ہیں۔ تو کیا ہم کچھ وقت طبی تحقیق کی جانب لگاتے ہوئے اس وبا کے خلاف ایک محاذ قائم کرسکتے ہیں؟ کشمیر، سیاچن، لائن آف کنٹرول، اور نجانے کہاں کہاں ہم ایک دوسرے پر آگ برسا رہے ہیں۔ لیکن ہم ایک حقیقت سے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرکے بیٹھے ہیں کہ یہ وبا ہی ہمیں چاٹ گئی تو ہمارے پاس بچے گا کیا؟

ایدھی فاؤنڈیشن کا بھارت کو مدد کی پیشکش کرتے ہوئے اپنی پچاس ایمبولینسز اور طبی عملہ بھارت بھیجنے کا اعلان کرنا یقینی طور پر بارش کے اس قطرے کی طرح ہے جو مٹی پہ گرتا ہے تو ہر طرف ایک سوندھی اور میٹھی خوشبو پھیل جاتی ہے۔ بھارت سرکار کو لکھا گیا ایدھی فاؤنڈیشن کا خط ایک نیا نقطہ آغاز بھی ثابت ہوسکتا ہے۔ لیکن ایسا اسی صورت ہوگا اگر ہماری نیتوں میں ایک دوسرے کو سہنا، برداشت کرنا موجود ہو۔ اور ہم واقعی پڑوسی بن کر رہنا چاہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story