یقین محکم

عاشقان رسول اس سنہری تاریخ کو بھول گئے جو صحیح معنوں میں عشق نبی اور غلامی رسول کی اساس اور روح ہے۔

WUHAN:
زبان حرص و ہوس سے پاک ہو دل کو عالم غیب سے فیوض و برکات حاصل ہوتے ہیں ورنہ کچھ نہیں۔ حقیقت ازلی کی مثال ایسے ہے جیسے کوئی سجا سجایا کھانا ہوتا ہے۔ مگر اس کوگرد و غبار نے ڈھانک رکھا ہو تو اس کے حسن سے کوئی شخص لطف اندوز نہیں ہو سکتا۔

اسی طرح حرص و ہوس بھی گرد و غبار کا نام ہے جس کے ہوتے ہوئے حقیقت ازلی یعنی اللہ تعالیٰ کا دیدار ناممکن ہے۔ درحقیقت عاشقان حق اور ولی اللہ براہ راست خدا کی حفاظت اور دستگیری میں ہوتے ہیں اس لیے وہ ظاہری اسباب کے اتنے محتاج نہیں ہوتے۔ حضرت شیخ سعدی اور ان کے ایک فارابی دوست ملک شام میں کسی دریا کے کنارے پہنچے۔ شیخ کے پاس چونکہ کرائے کے لیے درہم تھے اس لیے کشتی والوں نے انھیں سوارکرا لیا اور ان کا دوست فارابی جو خالی ہاتھ تھا اسے چھوڑ دیا۔

جب کشتی چلنے لگی تو دوست کی یاد سے بے چین ہو کر حضرت شیخ سعدی کا دل بھر آیا۔ ملاحوں نے فوراً ہی لنگر اٹھا دیا تھا اورکشتی ہوا کی طرح تیز چل رہی تھی۔ شیخ کے دوست فارابی نے اس وقت ان سے کہا'' اے دوست ! میرا غم نہ کھا مجھے تو وہ ذات لائے گی جس کی قدرت سے کشتیاں چلتی ہیں۔'' اس نے یہ کہہ کر اپنا مصلیٰ پانی پر بچھا لیا اور تیرنے لگا۔ فکر اور پریشانی کی وجہ سے ساری رات شیخ سعدی کو نیند نہ آئی۔ صبح کو وہ فقیر (فارابی) شیخ سے کہنے لگا'' یار اس میں تعجب کی کیا بات ہے تُو کشتی میں آگیا اور مجھے میرا خدا یہاں لے آیا۔''

ظاہر پرست شاید اس بات پر یقین نہ کریں مگر ابدال تو آگ میں گھس جاتے ہیں ، وہ پانی پر تیر جاتے ہیں ، جو بحر معرفت میں ڈوب جائیں ان کے لیے دریا کیا چیز ہے۔ ان لوگوں کو ہر جگہ خدا کی قدرت اپنی آغوش میں رکھتی ہے۔ جس خدا نے تابوت میں حضرت موسیٰؑ کو نیل میں غرق ہونے سے بچا لیا تھا اسی خدا نے آگ کے الاؤ میں خلیل اللہ کی حفاظت کی۔ اگر بچے کو کسی ماہر تیراک نے اٹھا رکھا ہو تو وہ دریا کی وسعتوں سے نہیں ڈرتا۔ دریا کی سطح پر بے خوفی کے ساتھ وہی قدم رکھتا ہے جس کو یقین نہ ہو کہ پانی ڈبونے والا نہیں ہے خدا ڈبو سکتا ہے۔ جب تیرا علم و یقین اتنا محکم نہیں تو پھر پانی میں تو کیا خشکی ہی میں ڈوب جائے گا۔ یعنی تیرے ڈوبنے کی وجہ پانی نہیں بلکہ بے یقینی و اضطراب ہے۔

یہی بے چینی اور اضطراب آج دنیا بھر کے 55 سے زائد مسلم ممالک اور ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمانوں کا المیہ ہے جس نے مسلم امہ کی یکجہتی و اتحاد کو پارہ پارہ کرکے رکھ دیا ہے اور دکھ و افسوس کی بات یہ ہے کہ اکابرین امہ کو اس امرکا نہ ادراک ہے اور نہ ہی احساس ہے۔ آج کے مسلم حکمران مادہ پرستی کا شکار ہوگئے۔

عشق رسول سے قلبی اب رسمِ دنیا بن کر رہ گیا ، نہ جذب اندروں اور نہ سوزوگداز۔ مسلمان اپنے ماضی اور تاریخ پر نظر ڈالیں کہ صدیوں پہلے عربوں نے چین، اسپین اور افریقہ تک فتوحات حاصل کیں اسلام کو ملکوں ملکوں تک پھیلایا۔ جب عربوں کو زوال ہوا تو پھر ترکوں نے عروج حاصل کیا ان کی فتوحات کا دائرہ پھیلتا گیا کئی ترک سلطنتیں قائم ہوئیں جن میں سلطنت عثمانیہ سب سے بڑی اور عظیم سلطنت شمار ہوتی تھی جس کی حدود میں یورپ کے بھی کئی ممالک شامل تھے۔

آج کے مسلمانوں نے اپنے اجداد کے کارناموں کو بھلا دیا۔ عاشقان رسول اس سنہری تاریخ کو بھول گئے جو صحیح معنوں میں عشق نبی اور غلامی رسول کی اساس اور روح ہے۔ مسلمان قوم عشق رسول میں پیغام رسول کو بھلا بیٹھی، پیروی سنتِ رسول کو طاق پر رکھ دیا۔ آج دنیا کے ڈیڑھ ارب مسلمان اسلام اور نبی آخر الزماں کے فرمودات پر اخلاص نیت کے ساتھ عمل کرنے کی بجائے مغرب کی ظاہری ترقی اور معاشرتی بگاڑ کی اندھی تقلید کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں جو مسلم امہ کے لیے بحیثیت مجموعی زہر قاتل ہے۔ علامہ ڈاکٹر محمد اقبال کہتے ہیں:


حکمتِ مغرب سے ملت کی یہ کیفیت ہوئی

ٹکڑے ٹکڑے جس طرح سونے کو کردیتا ہے گاز

اقبال مسلم قوم کو سونے سے تشبیہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ جس طرح کیمیکل (گاز) سونے کو گلا دیتا ہے، اسی طرح مغربی تہذیب کو اپنانے اور اس کی اندھی تقلید نے مسلمانوں کو گلا کر ٹکڑے ٹکڑے کردیا ہے۔ ایک اور جگہ اقبال کہتے ہیں:

نسل اگر مسلم کی مذہب پر مقدم ہوگئی

اڑ گیا دنیا سے تُو مانندِ خاکِ رہ گزر

اقبال مسلمانوں کو مخاطب کرکے کہتے ہیں کہ اگر تُو نے آپؐ کی تعلیمات کو فراموش کرکے اپنی نسل کو اولیت دی تو دنیا سے تیرا نام و نشان مٹ جائے گا۔ کفر و الحاد کی طاغوتی قوتیں تمہیں روند کر آگے نکل جائیں گی۔ اب بھی وقت ہے ہوش کے ناخن لو اور قرآن مجید اور سنت رسول کو تھام لو ،کہیں ایسا نہ ہو کہ اللہ بھی تمہیں فراموش کردے۔ آپ مسلم امہ کا اجمالی جائزہ لیں تو ہمیں مسلمانوں کے زوال اور پستی کی ایسی ہی صورتحال نظر آرہی ہے جیساکہ اقبال نے بیان کیا ہے۔

دنیا کے 55 سے زائد اسلامی ممالک مغرب کی ترقی سے مرعوب اور اس کی معاشرتی اقدار کے اسیر ہیں۔ دین اسلام کی تعلیمات اور عشق رسول کا دعویٰ زبان و کلام تک محدود ہو گیا ہے۔ فرانس میں حکومتی سطح پر نبی کریمؐ کی شان میں کلمات کہے گئے لیکن آپ دیکھیے کہ کتنے اسلامی ممالک میں احتجاج ہوا؟ کسی نے فرانس کے خلاف آواز اٹھائی؟ ماسوائے پاکستان کے! وزیر اعظم نے اپنے خطاب میں درست کہا کہ ''گستاخی کا مسئلہ ہولوکاسٹ کی طرح مسلمان ممالک کے ساتھ مل کر عالمی سطح پر اٹھائیں گے''.

سوال یہ ہے کہ کتنے مسلم لیڈر اپنے مفادات کی قربانی دے کر عشق رسول کی اس جدوجہد میں پاکستان کا ساتھ دیتے ہیں۔ کون کون سے رہنما طیب اردگان ثانی کا کردار ادا کرتے ہیں جس نے عالمی فورم پر فرانسیسی صدر سے بطور احتجاج ہاتھ ملانا عشق رسول کی توہین سمجھا تھا۔ دیکھنا یہ ہے کہ کس کا علم و یقین محکم ہے۔
Load Next Story