حلقہ 249 کے عوام کا امتحان
پیپلز پارٹی اگرچہ عوامی پارٹی ہونے کا دعویٰ کرتی ہے مگر اس کے دور میں کراچی کے عوام بنیادی سہولتوں کے لیے ترس رہے ہیں۔
BEIJING:
29 اپریل کو کراچی کے حلقہ 249 میں ضمنی الیکشن کا میلہ سجنے والا ہے۔ بدقسمتی سے اس وقت ملک کے حالات انتہائی خراب صورتحال اختیارکرتے جا رہے ہیں۔ پھرکراچی ایک حساس شہر ہے یہاں اگر حالات خراب ہوئے تو پھر سنبھالنا مشکل ہوسکتا ہے۔
کراچی پہلے بھی مشکل ترین حالات سے دوچار رہ چکا ہے۔ پورے 35 برس یہاں ہنگاموں، فساد اور تشدد کا راج رہا ہے۔ خوش قسمتی سے اب یہاں پہلے جیسے حالات نہیں رہے ہیں۔ اب یہاں کے انتخابات میں بہت کم دن باقی رہنے کی وجہ سے یہاں حصہ لینے والی ہر جماعت اپنا بھرپور پرچار کر رہی ہے گویا کہ تمام پارٹیاں عوام کو اپنی جانب مائل کرنے کی پوری کوشش کر رہی ہیں۔
اس حلقے کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ ملک کی تمام اہم سیاسی پارٹیوں نے یہاں اپنے امیدوارکھڑے کیے ہیں کئی پارٹیوں نے اپنی حلیف جماعت کو جتانے کے لیے اپنے امیدواروں کو بٹھا دیا ہے۔ اس حلقے میں جوش اور جذبے کا یہ عالم ہے کہ ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزیاں عام ہیں۔ تمام ہی امیدوار اس علاقے کی کایا پلٹ دینے کی بات کر رہے ہیں سب ہی یہاں کے عوام سے وعدہ کررہے ہیں کہ وہ اگر جیت گئے تو علاقے کے سارے مسائل حل کردیں گے۔ واضح ہو کہ اس وقت یہ علاقہ مسائل کا گڑھ بنا ہوا ہے۔ یہاں بنیادی سہولیات کا فقدان ہے۔
پانی کی قلت کا یہ حال ہے کہ لوگ ٹینکروں سے مہنگے داموں پانی خریدنے پر مجبور ہیں یہاں کے کئی علاقے گٹر سسٹم سے محروم ہیں اور جہاں موجود ہے وہاں وہ فیل ہو چکا ہے۔ سڑکوں اور گلیوں میں گندا پانی کھڑا ہونا روز کا معمول ہے۔ سڑکوں کی خستہ حالی کی وجہ سے ٹریفک کی روانی مشکل سے دوچار ہے۔ بجلی کی طویل لوڈ شیڈنگ سے لوگ تنگ آچکے ہیں۔ گیس کی لوڈ شیڈنگ نے یہاں کی خواتین کو لکڑی اور کوئلے پر کھانا پکانے پر مجبور کردیا ہے۔ عوام کی ان پریشانیوں کو کئی سالوں سے نظرانداز کیا جا رہا ہے۔
گزشتہ عام انتخابات میں پی ٹی آئی کے فیصل واؤڈا یہاں سے قومی اسمبلی کی نشست جیت گئے تھے۔ ان کی یہاں انتخابی مہم بھی نہ ہونے کے برابر تھی مگر وہ پھر بھی جیت گئے تھے۔ وہ الیکشن تو جیسے تیسے جیت گئے مگر اس کے بعد سے وہ یہاں کبھی نظر نہیں آئے۔ لوگ ضرور ان کے پاس اپنے مسائل لے کر جاتے تھے مگر انھوں نے یہاں کے مسائل میں کوئی دلچسپی نہیں لی اور مسائل کو حل کرنے کے بجائے علاقے کے کونسلروں کے پاس جانے کا مشورہ دیتے رہے۔
یہاں کے کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اب وہ اپنے پسندیدہ امیدوار کو جتائیں گے مگر بہت دیکھ بھال کر۔ اب وہ ایسے امیدوار کو کامیاب کرائیں گے جو عوامی مسائل کے حل میں دلچسپی رکھتا ہو، انھیں حل کرانے کا اہل ہو ساتھ ہی عوامی مسائل کو حل کرانے کا تجربہ بھی رکھتا ہو۔ اب اگر یہاں کے عوام کی اس بات کو سامنے رکھا جائے تو پھر دیکھنا ہوگا کہ اس علاقے کے عوام کی امیدوں پر کون سا امیدوار پورا اتر سکتا ہے۔
یہاں سے الیکشن لڑنے والے تمام امیدواروں میں ایسے شخص کو تلاش کرنا ہوگا جو یہاں کے مسائل سے نمٹنے کی اہلیت رکھتا ہو اور یہاں کے عوام اسے اس حوالے سے پہلے سے جانتے بھی ہوں۔ اگر اس عوامی معیار کو سامنے رکھا جائے تو سوائے ایک امیدوار کے کوئی اور امیدوار ان کے معیار پر پورا اترتا نظر نہیں آتا۔ یہاں کے ایک سماجی کارکن کا کہنا ہے کہ ایسے تو یہاں الیکشن میں حصہ لینے والے تمام ہی امیدوار قابل احترام ہیں مگر چلو مسلم لیگ (ن) کے امیدوار کو ہی لے لیتے ہیں کیا انھیں عوامی مسائل سے نمٹنے کا کوئی تجربہ ہے؟
تاہم وہ میدان معیشت اور سیاست کے ضرور آزمودہ شہسوار ہیں۔ دیگر امیدواروں کو بھی یہاں کے مسائل سے نمٹنا مشکل ہو سکتا ہے پھر یہاں کے مسائل انتہائی گمبھیر ہیں اور وہ روز بروز سنگین صورت حال اختیار کرتے جا رہے ہیں چنانچہ یہاں کے عوام کو بہت دیکھ سمجھ کر اپنے ووٹ کا استعمال کرنا ہوگا۔ اس علاقے کے ایک بااثر شخص کا کہنا ہے کہ خوش قسمتی سے اس حلقے میں ایک ایسا امیدوار بھی ہے جس کا چہرہ عوام کے لیے نیا نہیں ہے عوام اس سے پہلے سے اچھی طرح واقف ہیں وہ عوامی مسائل کو حل کرنے کا وسیع تجربہ بھی رکھتا ہے اور اپنے وعدے کو پورا کرنے کا اہل بھی ہے۔
یہ عوام کا پسندیدہ اور آزمودہ سابق میئر کراچی ہے جس کی کارکردگی اور ایمانداری سے کون واقف نہیں ہے۔ اس علاقے میں پانی کی لائن لانا، سڑکیں بنانا اور گٹر سسٹم کی شروعات کرنا اسی کا کارنامہ ہے۔ اس علاقے کے ایک مذہبی رہنما کا کہنا ہے کہ مصطفیٰ کمال کا اس حلقے سے الیکشن لڑنا ہم اہل علاقہ کے لیے ایک بڑی خوش خبری ہے۔ اس نے ناظم شہر کی حیثیت سے اس شہر میں جو ترقیاتی کام کرائے تھے نہ اس سے پہلے کوئی کر سکا تھا اور نہ اس کے بعد ہوئے۔ اس نے اس شہر کی بلدیہ کی کارکردگی کو دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی بلدیات سے بھی بلند کردیا تھا۔
اس کا جو یہ نعرہ ہے کہ کراچی کو بنایا تھا اب پاکستان کو بنائیں گے انتہائی معقول ہے اور دل کو لگتا ہے۔ دراصل ہمارے معاشرے میں خوف خدا رکھنے والے اور عوام سے محبت کرنے والے بہت کم ہیں اس شخص نے راتوں کو جاگ کر برسات اور کڑاکے کی سردیوں میں بھی ترقیاتی کام اپنے سامنے کروائے تھے۔ افسوس کہ اس کے بعد جو میئر کراچی بنے انھوں نے اس شہر کو کھنڈر اور کچرے کے ڈھیر میں تبدیل کردیا۔ اس دور میں اس شہر کی جو درگت بنی اس کا سلسلہ اب پیپلز پارٹی کے مقرر کردہ ایڈمنسٹریٹر کے دور میں بھی جاری ہے۔
پیپلز پارٹی اگرچہ عوامی پارٹی ہونے کا دعویٰ کرتی ہے مگر اس کے دور میں کراچی کے عوام بنیادی سہولتوں کے لیے ترس رہے ہیں۔ کراچی کی خستہ حالی پر یہاں کے عوام سخت پریشان ہیں مگر حکومت سندھ نے کبھی اس کی پرواہ نہیں کی ہے۔کراچی سے اس طرح کی بے رخی سمجھ سے باہر ہے۔
یہی حال وفاقی حکومت کا بھی ہے اسے اس بات پر ضرور فخر ہے کہ کراچی ملک میں سب سے زیادہ ریونیو فراہم کرتا ہے مگر افسوس کہ یہاں کے عوام کی محرومیوں کو دور کرنے کا اسے کوئی خیال نہیں ہے۔ اس وقت حلقہ 249 کے باسیوں کو ایک نادر موقعہ میسر آیا ہے کہ وہ اپنے علاقے کی پسماندگی دور کرا سکتے ہیں۔ بشرط یہ کہ وہ اپنے علاقے کی نمایندگی کے لیے کسی معقول امیدوارکا انتخاب کرسکیں۔
29 اپریل کو کراچی کے حلقہ 249 میں ضمنی الیکشن کا میلہ سجنے والا ہے۔ بدقسمتی سے اس وقت ملک کے حالات انتہائی خراب صورتحال اختیارکرتے جا رہے ہیں۔ پھرکراچی ایک حساس شہر ہے یہاں اگر حالات خراب ہوئے تو پھر سنبھالنا مشکل ہوسکتا ہے۔
کراچی پہلے بھی مشکل ترین حالات سے دوچار رہ چکا ہے۔ پورے 35 برس یہاں ہنگاموں، فساد اور تشدد کا راج رہا ہے۔ خوش قسمتی سے اب یہاں پہلے جیسے حالات نہیں رہے ہیں۔ اب یہاں کے انتخابات میں بہت کم دن باقی رہنے کی وجہ سے یہاں حصہ لینے والی ہر جماعت اپنا بھرپور پرچار کر رہی ہے گویا کہ تمام پارٹیاں عوام کو اپنی جانب مائل کرنے کی پوری کوشش کر رہی ہیں۔
اس حلقے کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ ملک کی تمام اہم سیاسی پارٹیوں نے یہاں اپنے امیدوارکھڑے کیے ہیں کئی پارٹیوں نے اپنی حلیف جماعت کو جتانے کے لیے اپنے امیدواروں کو بٹھا دیا ہے۔ اس حلقے میں جوش اور جذبے کا یہ عالم ہے کہ ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزیاں عام ہیں۔ تمام ہی امیدوار اس علاقے کی کایا پلٹ دینے کی بات کر رہے ہیں سب ہی یہاں کے عوام سے وعدہ کررہے ہیں کہ وہ اگر جیت گئے تو علاقے کے سارے مسائل حل کردیں گے۔ واضح ہو کہ اس وقت یہ علاقہ مسائل کا گڑھ بنا ہوا ہے۔ یہاں بنیادی سہولیات کا فقدان ہے۔
پانی کی قلت کا یہ حال ہے کہ لوگ ٹینکروں سے مہنگے داموں پانی خریدنے پر مجبور ہیں یہاں کے کئی علاقے گٹر سسٹم سے محروم ہیں اور جہاں موجود ہے وہاں وہ فیل ہو چکا ہے۔ سڑکوں اور گلیوں میں گندا پانی کھڑا ہونا روز کا معمول ہے۔ سڑکوں کی خستہ حالی کی وجہ سے ٹریفک کی روانی مشکل سے دوچار ہے۔ بجلی کی طویل لوڈ شیڈنگ سے لوگ تنگ آچکے ہیں۔ گیس کی لوڈ شیڈنگ نے یہاں کی خواتین کو لکڑی اور کوئلے پر کھانا پکانے پر مجبور کردیا ہے۔ عوام کی ان پریشانیوں کو کئی سالوں سے نظرانداز کیا جا رہا ہے۔
گزشتہ عام انتخابات میں پی ٹی آئی کے فیصل واؤڈا یہاں سے قومی اسمبلی کی نشست جیت گئے تھے۔ ان کی یہاں انتخابی مہم بھی نہ ہونے کے برابر تھی مگر وہ پھر بھی جیت گئے تھے۔ وہ الیکشن تو جیسے تیسے جیت گئے مگر اس کے بعد سے وہ یہاں کبھی نظر نہیں آئے۔ لوگ ضرور ان کے پاس اپنے مسائل لے کر جاتے تھے مگر انھوں نے یہاں کے مسائل میں کوئی دلچسپی نہیں لی اور مسائل کو حل کرنے کے بجائے علاقے کے کونسلروں کے پاس جانے کا مشورہ دیتے رہے۔
یہاں کے کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اب وہ اپنے پسندیدہ امیدوار کو جتائیں گے مگر بہت دیکھ بھال کر۔ اب وہ ایسے امیدوار کو کامیاب کرائیں گے جو عوامی مسائل کے حل میں دلچسپی رکھتا ہو، انھیں حل کرانے کا اہل ہو ساتھ ہی عوامی مسائل کو حل کرانے کا تجربہ بھی رکھتا ہو۔ اب اگر یہاں کے عوام کی اس بات کو سامنے رکھا جائے تو پھر دیکھنا ہوگا کہ اس علاقے کے عوام کی امیدوں پر کون سا امیدوار پورا اتر سکتا ہے۔
یہاں سے الیکشن لڑنے والے تمام امیدواروں میں ایسے شخص کو تلاش کرنا ہوگا جو یہاں کے مسائل سے نمٹنے کی اہلیت رکھتا ہو اور یہاں کے عوام اسے اس حوالے سے پہلے سے جانتے بھی ہوں۔ اگر اس عوامی معیار کو سامنے رکھا جائے تو سوائے ایک امیدوار کے کوئی اور امیدوار ان کے معیار پر پورا اترتا نظر نہیں آتا۔ یہاں کے ایک سماجی کارکن کا کہنا ہے کہ ایسے تو یہاں الیکشن میں حصہ لینے والے تمام ہی امیدوار قابل احترام ہیں مگر چلو مسلم لیگ (ن) کے امیدوار کو ہی لے لیتے ہیں کیا انھیں عوامی مسائل سے نمٹنے کا کوئی تجربہ ہے؟
تاہم وہ میدان معیشت اور سیاست کے ضرور آزمودہ شہسوار ہیں۔ دیگر امیدواروں کو بھی یہاں کے مسائل سے نمٹنا مشکل ہو سکتا ہے پھر یہاں کے مسائل انتہائی گمبھیر ہیں اور وہ روز بروز سنگین صورت حال اختیار کرتے جا رہے ہیں چنانچہ یہاں کے عوام کو بہت دیکھ سمجھ کر اپنے ووٹ کا استعمال کرنا ہوگا۔ اس علاقے کے ایک بااثر شخص کا کہنا ہے کہ خوش قسمتی سے اس حلقے میں ایک ایسا امیدوار بھی ہے جس کا چہرہ عوام کے لیے نیا نہیں ہے عوام اس سے پہلے سے اچھی طرح واقف ہیں وہ عوامی مسائل کو حل کرنے کا وسیع تجربہ بھی رکھتا ہے اور اپنے وعدے کو پورا کرنے کا اہل بھی ہے۔
یہ عوام کا پسندیدہ اور آزمودہ سابق میئر کراچی ہے جس کی کارکردگی اور ایمانداری سے کون واقف نہیں ہے۔ اس علاقے میں پانی کی لائن لانا، سڑکیں بنانا اور گٹر سسٹم کی شروعات کرنا اسی کا کارنامہ ہے۔ اس علاقے کے ایک مذہبی رہنما کا کہنا ہے کہ مصطفیٰ کمال کا اس حلقے سے الیکشن لڑنا ہم اہل علاقہ کے لیے ایک بڑی خوش خبری ہے۔ اس نے ناظم شہر کی حیثیت سے اس شہر میں جو ترقیاتی کام کرائے تھے نہ اس سے پہلے کوئی کر سکا تھا اور نہ اس کے بعد ہوئے۔ اس نے اس شہر کی بلدیہ کی کارکردگی کو دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی بلدیات سے بھی بلند کردیا تھا۔
اس کا جو یہ نعرہ ہے کہ کراچی کو بنایا تھا اب پاکستان کو بنائیں گے انتہائی معقول ہے اور دل کو لگتا ہے۔ دراصل ہمارے معاشرے میں خوف خدا رکھنے والے اور عوام سے محبت کرنے والے بہت کم ہیں اس شخص نے راتوں کو جاگ کر برسات اور کڑاکے کی سردیوں میں بھی ترقیاتی کام اپنے سامنے کروائے تھے۔ افسوس کہ اس کے بعد جو میئر کراچی بنے انھوں نے اس شہر کو کھنڈر اور کچرے کے ڈھیر میں تبدیل کردیا۔ اس دور میں اس شہر کی جو درگت بنی اس کا سلسلہ اب پیپلز پارٹی کے مقرر کردہ ایڈمنسٹریٹر کے دور میں بھی جاری ہے۔
پیپلز پارٹی اگرچہ عوامی پارٹی ہونے کا دعویٰ کرتی ہے مگر اس کے دور میں کراچی کے عوام بنیادی سہولتوں کے لیے ترس رہے ہیں۔ کراچی کی خستہ حالی پر یہاں کے عوام سخت پریشان ہیں مگر حکومت سندھ نے کبھی اس کی پرواہ نہیں کی ہے۔کراچی سے اس طرح کی بے رخی سمجھ سے باہر ہے۔
یہی حال وفاقی حکومت کا بھی ہے اسے اس بات پر ضرور فخر ہے کہ کراچی ملک میں سب سے زیادہ ریونیو فراہم کرتا ہے مگر افسوس کہ یہاں کے عوام کی محرومیوں کو دور کرنے کا اسے کوئی خیال نہیں ہے۔ اس وقت حلقہ 249 کے باسیوں کو ایک نادر موقعہ میسر آیا ہے کہ وہ اپنے علاقے کی پسماندگی دور کرا سکتے ہیں۔ بشرط یہ کہ وہ اپنے علاقے کی نمایندگی کے لیے کسی معقول امیدوارکا انتخاب کرسکیں۔