ملک پر لٹکتی تلوار اور اک تماشہ ہے برپا…

ملک کی پارلیمنٹ سے منظور کرائے گئے قانون کے باوجود عالمی برادری پاکستان کے اقدامات سے مطمئن نہیں۔

ISLAMABAD:
ایف اے ٹی ایف کی جانب سے پاکستان کو گرے لسٹ میں تاحال شامل رکھنے کے حوالے سے ملکی مشکلات میں مزید اضافہ ہوا ہے ، اب تک کی تمام تر کوششیں کامیاب نہیں ہو سکی ہیں۔

ملک کی پارلیمنٹ سے منظور کرائے گئے قانون کے باوجود عالمی برادری پاکستان کے اقدامات سے مطمئن نہیں اور ملک کو گرے لسٹ سے نکالنے کے لیے مزید کام کرنے اور اقدامات کرنے کا ہدایت نامہ پکڑا دیا ہے، جس کی رو سے پاکستان نے اب تک ایف اے ٹی ایف کے 27 میں سے 24نکات پر عملدرآمد کیا ہے اور بقیہ شرائط پر پورا اترنے کے لیے چار ماہ کی مدت دی ہے جو جون 2021 ہے ، اس کے بعد اگلے اجلاس میں ہمارے ملک کی قسمت کا فیصلہ کیا جائے گا۔

ایسے حالات میں ملک میں ایک نئے قسم کی تکرار اور تصادم کی صورتحال کا سامنا ہے، تمام تر دبائو اور مطالبہ ہی یہ ہے کہ''فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کیا جائے'' اس حوالے سے مجوزہ قرارداد بھی قومی اسمبلی میں لائی جاچکی ہے۔

ملک کے حالات یقیناً تشویشناک ہیں، حکومت کی کوئی سمت نظر آتی ہے اور نہ ہی ریاست اپنی رٹ کی عملداری پر فخر کرسکتی ہے، ملک میں مسلح جتھے جب چاہیں حکومت کو پسپائی پر مجبور کردیتے ہیں۔ ملک میں جاری حالیہ دنوں کی صورتحال اس کی عکاس اور واضح مثال ہے۔

محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی مدبرانہ اور دلیرانہ سیاست، جدوجہد اور اپنے خون کے نذرانے کی بدولت سوا دہائی قبل جنرل مشرف کے آمرانہ دور کے پنجوں سے چھڑاکر آزاد کی جانے والی جمہوریت اور عوام کی حکمرانی اور آئین اور قانون کی بالادستی کا حاصل یہ ہے کہ ملک میں تسلسل کے ساتھ جمہوری حکومتوںکے ادوار جاری ہیں اور لولی لنگڑی جمہوریت، کمزور پارلیمان اور سسکتے عوام اپنی پریشانیوں کے حل کے لیے حیران اور پریشان ہیں۔

ملک اور عوام کے لیے خوفناک حقائق یقینا اپنی تمام تر طاقت ، قوت اور شدت کے ساتھ سامنے موجود ہیں اور اپنی ایک رفتار کے ساتھ ہم سے ٹکرانے کے لیے ملک کی جانب بڑھ رہے ہیں، ان کا ادراک نہ کرنے یا ان کے تصادم سے بچ نکلنے کی کوشش نہ کرنے سے خطرات کہیںغائب یاٹل نہیں جائیں گے۔ کبوتر کی طرح اپنی آنکھیں بند کرلینے سے مشکلات خواب کی طرح تحلیل نہیں ہوجائیں گے۔

ملک کا کیاحال کردیا گیا ہے ، اس حکومت کی کارکردگی کی کیا بات کی جائے، جہاںزرعی خطہ اور خوراک وا جناس سے مالامال ملک کے عوام یوٹیلٹی اسٹورز اور حکومتی چینی کے اسٹالوں سے دوکلوگرام چینی کے حصول کے لیے مرد و خواتین لمبی لائنوں میں لگے رسوا ہو رہے ہیں۔


ملک میں مہنگائی، بیروزگاری، بڑھتی ہوئی بھوک اور افلاس کے حوالے سے حکومت اپنی جانب سے کی گئی غفلت اور کوتاہیوں کو پچھلی حکومتوں پر ڈال کر نکل بھاگنے کی گردان سے اب اپنی گردن کسی طور پر چھڑانے کے قابل اس لیے بھی نہیں رہ گئی کہ کھلاڑیوں کی حکومت اپنے کھیل کی اننگ پوری کرنے جار ہی ہے ،پوری ٹیم آئوٹ ہونے کے قریب ہے اور حکومت کی کارکردگی سخت مایوس کن اور ناکامیوں کے نئے ریکارڈز بناتی ہوئی نظر آر ہی ہے ۔

ملک میں سویلین بالادستی اور عوام کی منتخب کردہ حکومتوں کا تواتر کے ساتھ تیسری منتخب حکومت کا دور دورہ ہے، جنرل پرویز مشرف کے دور کے بعد ، ملک میں عام انتخابات کے نتائج کے تحت پہلی پانچ سال کی مدت پاکستان پیپلز پارٹی، دوسری معیاد مسلم لیگ (ن) ، تیسری پانچ سالہ مدت کے لیے پی ٹی آئی کی حکومت ،اپنی پانچ سال معیاد کا اپنا تیسر ا سال مکمل کررہی ہے۔ حکمران جماعت کے لیڈر نے 2018 کے انتخابات جیتنے کے لیے کیا کیا نہ وعدے کیے تھے ؟

ان ایام کے ویڈیو کلپ دیکھیں یا بیانات اور خطابات کا نظارہ کیا جائے تو بندہ دنگ رہ جاتا ہے۔ دعویداروں نے کیا زمین اور آسمان کے قلابے اور قافیے نہیں ملائے تھے ؟ ایسے لگتا ہے کہ ہمارے ملک اور عوام کوبڑی کاریگری کے ساتھ اور اس اہتمام کے ساتھ ''ماموں ''بنایا گیا ہے کہ ہمیں آئینے میں اپنی صورت بھی ڈرائونی لگنے لگی ہے۔ اب جب کہ چڑیاں اپنا کھیت چگ چکی ہیں تو دیکھتے ہیں کہ گلشن کی کیا حالت ہے اور اپنی بے سروسامانی کا کیا تماشہ بنا ہواہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ملک کی باگ ڈور اب کرکٹرز کے بعد لٹھ برداروں کے حوالے کرنے کے انتظامات کیے جارہے ہوں۔ ہمارے ملک اور عوام کے ساتھ جو واردات ہوئی ہے اور جس طرح قافلہ لٹا ہے اس کا نوحہ کس طرح بیان کیا جائے ؟

کیا وعدے اور دعوے کیے گئے تھے ؟ صد افسوس کہ یہ سب کھلی آنکھوں کا دھوکا اور صحرا کا سراب ثابت ہوا۔ملک کے داخلی طور پر ناہموار حالات اور خارجی معاملات میں بھی بے دست و پا سرکار کی کیا بات کی جائے؟ اس حکومت کو حزب اختلاف یا کوئی اور طاقت بھی کام کرنے اور اپنی اہلیت اور کارکردگی دکھانے سے نہیں روک رہی۔

گذشتہ تین سالوں سے یہ عالم ہے کہ حکومت کی کمر میں چک پڑی ہوئی ہے اور وہ چلنے پھرنے سے اس لیے بھی گریزاں ہے کہ مخالفین اس کا مذاق اڑاتے ہیں اور لوگ تماشہ لگاتے ہیں۔ پھر اس پر مصداق یہ کہ عمران خان حکومتی اجلاس میں یہ خود ہی یہ فرما چکے ہیںکہ ان کو ملک کے معاملات اور حالات کا ٹھیک طرح سے ادراک اور واقفیت نہ تھی۔ یقینا ہم اپنے ہیرو کی اس بات سے دو سو فیصد اتفاق کرتے ہیں کہ آپ کو بھی سمندر کی گہرائی کا اندازہ نہیں تھا، تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ آپ کو تیرنا بھی نہیں آتا تھا۔

اس کے باوجود کرکٹ کے سابق کپتان نے ملک کے جہاز کا کپتان بننے کی ٹھان لی اور آخرکار انھیں ملک کے جہاز کا کپتان بنادیا گیا۔ اس طرح اس کپتان نے اپنے زعم میں اسی خستہ حال جہاز کو گہرے پانیوں میں لے جانے کا جذباتی اقدام بھی اٹھالیا۔ ملک کو جب طلاطم خیز سمندر اور اس کی اونچی اٹھتی ہوئی موجوں کا سامنا ہوا تو کپتان نے اسے اپنا وہم سمجھ لیا اور مزید طوفانی موجوں پر اپنا سفر جاری رکھا۔

اب جب کہ ملک کا جہاز بڑے گرداب میں پھنس چکا ہے تو ایک ذمے دار کپتان کی طرح ہنگامی حالات میں جہاز اور مسافروں کی سلامتی کے لیے ضروری تدابیر نہیں کرتے اور نہ بچائو کے لیے چیخ و پکار اور مدد طلب کرنے کی جستجوکرتے ہیں اور ملک کے جہاز کو زمانہ ماضی کے غرقاب سفینہ ''ٹائی ٹینک'' کی طرح طلاطم خیز طوفانوں اور حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے اور یوں ملک ہر روز ایک نئی قیامت سے نبرد آزما ہو رہا ہے ۔

خنجر پہ داغ ،نہ دامن پر چھینٹ، تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
Load Next Story