مفاہمتی عمل میں تیزی
ہماری ملکی معیشت بیٹھ چکی ہے، جو بہتر ہوتی نظر نہیں آرہی۔
بڑی عجیب سی بات ہے یہ کہ جب بھی کوئی مشکل اس مملکت خداداد کی دہلیز پر آ ئی، اس سے کچھ دن پہلے یا پھر کچھ دن بعد کوئی ایسا بحران آن پڑتا ہے کہ جو کچھ ہم نے پہلے پایا ہوتا ہے ،وہ بھی کھو جاتا ہے۔
پاکستان کا وجود 1940کی دہائی کے آخری سالوں میں عمل میں آیا مگردس سال پورے ہونے سے قبل ہی ملک مارشل لاء کی نذر ہوا اور یو ں پھر دس سال بعد یہ بحران آہستہ آہستہ اپنی جگہ لیتا گیا۔ جو کچھ جنرل ایوب کے زمانے میں بویا گیا تھا وہ کاٹنا پڑا۔ ستر کی دہائی کے شروع ہوتے ہی ہم مشرقی پاکستان گنوا بیٹھے۔ ابھی کچھ آگے چلے ہی تھے کہ سات سال بعد پھر مارشل لاء نے ملک کو اپنی لپیٹ میں لیا۔ابھی ستر کی دہائی اختتام پر ہی تھی کہ ملک کے منتخب وزیر اعظم اس دار کی خشک ٹہنی پے وارے گئے۔
اس واقعے کے دس سال بعد حادثہ بہاولپور پیش آیا، جنرل ضیاء الحق ہوائی حادثے میں کئی سینیئر جرنیلوں کے ساتھ اللہ کو پیارے ہوگئے۔ اسی حادثے کی بناء پر ملک میں جمہوریت آئی، مگر بدقسمتی سے یہ معذور جمہوریت زیادہ عرصہ نہ چل سکی اور دس سال میں ہی پھر اس ملک پر دوبارہ آمریت مسلط کردی گئی، کہیں دس سال بعد اس آمریت کا خاتمہ ہوا ، جمہوریت کا دور آیا ۔ اب اس صدی کی موجودہ دہائی میں ملک ہائیبرڈ جمہوریت کا شکار ہے اور اس طرح اس دہائی میں ایک نیا بحران اس ملک کی دہلیز پر کھڑا ہے۔
شاید پچاس سال قبل ہم اسی موڑ سے گذرے تھے جب یہ ملک اتنے شدید بحران سے گذرا تھا، لیکن اس موجودہ بحران میں ایک چیز بین الاقوامی طور پر یکساں ہے کہ اب ہر دہائی بعد اس دنیا کو کسی نہ کسی وباء سے گذرنا ہوگا۔ محققین لکھتے ہیں کہ کورونا کی وباء کا پھیلاؤ، دوسری جنگ عظیم کے بعد اس وقت دوسرا بڑا بحران ہے جس کا دنیا سامنا کررہی ہے ۔ 2008 میںجن اداروں نے اس بات کی پیش گوئی کی تھی کہ کورونا جیسی وباء اس دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے ۔
انھی اداروں نے اب کہا ہے کہ بنی نوع انسان آیندہ آنے والے زمانوں میںبہت سے ایسے ہی بحرانوں کا سامنا کرے گا۔ جس میںبدترین وبائیں، ماحولیاتی تبدیلیاں ، بھوک و افلاس وغیرہ وغیرہ۔ یقینا دنیا خانہ جنگیوں کی لپیٹ میں بھی آ سکتی ہے۔ وینزویلا، لاطینی امریکا جیسے کچھ ممالک اس کے علاوہ صومالیہ اور افریقہ یا پھر افغانستان وغیرہ اس زمرے میں آتے ہیں۔ہمارے زر مبادلہ کہ ذخائر ہوں، قرضے ہوں، شرح نمو ہو یا پھر معاشی پیمانے ہوں ان پر اس وقت صرف غالبؔ کا یہ شعر یاد آتا ہے :۔
ان کے دیکھے سے جو آجاتی ہے منہ پر رونق
وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے
یہ بات بھی ریکارڈ پر لے آؤں کہ 24 مارچ 1971کی شام کو ڈھاکا سے آخری جہاز سے جب میرے والد قاضی فیض محمد،میر غوث بخش بزنجو کے ساتھ واپس مغربی پاکستان کے لیے نکلے تھے تو وہ شیخ مجیب کی طرف ایک مفاہمتی پیغام لے کر آئے تھے۔ یہاں آ کرانھوں نے متعلقہ لوگوں کو یہ بتایا کہ شیخ مجیب سے مفاہمت ہوسکتی ہے اگر دارالحکومت ڈھاکا منتقل کیا جائے،پھر باقی پانچ نکاتی پروگرام کو ہم بھی عمل میں نہیں لائیں گے۔
اس بات کے گواہ فتح ملک سابق ایڈووکیٹ جنرل سندھ بھی ہیں،جو اب بھی حیات ہیں، مگر شیخ مجیب سے سمجھوتا نہ ہوسکا ،وہ سرد جنگ کا زمانہ تھا ۔ یہ مملکت دو ٹکڑوں میں تقسیم ہوگئی۔ اتنا شدید گھائو تھا کہ اس قوم و ملک کے لیے جس کے اثرات آج تک باقی ہیں۔
ہمارے پڑوس میں امریکی فوجیں جانے کو ہیں، اس فوج کی واپسی ایک بہت بڑے بحران کو دستک دے رہی ہے اور اس معاملے میں ہم بالکل آنکھیں موندے، بے خبر سو رہے ہیں۔ کوئٹہ میں دھماکا ہمارے لیے بہت کچھ واضح کرتا ہے،اس دھماکے کی ذمے داری طالبان نے قبول کی ہے۔ایک بہت بڑاسیاسی بحران، جو ہم سمجھے کہ شاید پی ڈی ایم کے ختم ہونے سے ختم ہوگیا ہے مگر اس نے ایک مختلف شکل اختیار کرلی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی قیادت کے خلاف جو ہتھیار استعمال ہو اتھا،آج وہ بھی اسی کارڈ پر کھیلنے کی کوشش کررہے ہیں ۔ یوں لگتا ہے کہ اس جنگ میں پی پی پی، پی ایم ایل( این) اور جی یو آئی بھی کودنا چاہتی ہیں۔
اس دوراہے پر اپنے ملک کو ہم نے خود پہنچایا ہے اور کچھ ہماری جغرافیائی حقیقتوں کا کردار ہے۔ اس ملک نے نئی سرد جنگ میں سوویت یونین کو پیچھے دھکیلنے میں کلیدی کردار ادا کیا، مگر سامراج نے اس ملک پر آمریتیں مسلط کیں کیونکہ سول قیادت کو اپنے ہر فیصلے کے لیے پارلیمنٹ سے رجوع کر نا پڑتا تھا، وہ تمام فیصلے خود سے نہیں کرسکتی جیساکہ آمریت کر سکتی ہے۔ سول قیادت کو ووٹ لینے کے لیے واپس عوام کے پاس جانا پڑتا تھا اور ان کو ملک کے مفادات کا زیادہ شعور بھی تھا لیکن آمریتیں اس بوجھ سے عاری تھیں نہ ہی ان کا کوئی آڈٹ ہوتا تھا۔ نہ ہی ان کو عوام کے پاس ووٹ لینے کے لیے جانا پڑتا تھا۔
کیا یہ ممکن ہے کہ اس ملک میں کرپشن اس حد تک ہی وجود رکھتی ہو کہ وہ صرف سول قیادت یا سیاستدانوں تک محدود ہو اور باقی تمام لوگ اس مرض میں مبتلا نہ ہوں؟ ہم نے میاں صاحب کو اقتدار سے زبردستی الگ کیا، مگر ان کو غیر مقبول نہ کرسکے۔ اب کورونا وائرس بے قابو ہوچکاہے۔ ہمارا پڑوسی ملک ہندوستان اس وقت بدترین صورت حال سے گزر رہا ہے اور پڑوسی ہونے کی صورت میں ہم ایسی ہی صورت حال کے دہانے پر کھڑے ہیں۔
ہندوستان کے پاس ویکسین تو ہے، ہمارے پاس وہ بھی نہیں۔ ہماری ملکی معیشت بیٹھ چکی ہے، جو بہتر ہوتی نظر نہیں آرہی۔ آل پارٹیز کانفرنس بلائی جائے سب کو آن بورڈ لیا جا ئے ا ور مفاہمتی عمل کی حکمت عملی کو مضبوط بنایا جائے،صرف افہام تفہیم سے ہی اس ملک کو اس بحران سے نکالا جا سکتا ہے۔
پاکستان کا وجود 1940کی دہائی کے آخری سالوں میں عمل میں آیا مگردس سال پورے ہونے سے قبل ہی ملک مارشل لاء کی نذر ہوا اور یو ں پھر دس سال بعد یہ بحران آہستہ آہستہ اپنی جگہ لیتا گیا۔ جو کچھ جنرل ایوب کے زمانے میں بویا گیا تھا وہ کاٹنا پڑا۔ ستر کی دہائی کے شروع ہوتے ہی ہم مشرقی پاکستان گنوا بیٹھے۔ ابھی کچھ آگے چلے ہی تھے کہ سات سال بعد پھر مارشل لاء نے ملک کو اپنی لپیٹ میں لیا۔ابھی ستر کی دہائی اختتام پر ہی تھی کہ ملک کے منتخب وزیر اعظم اس دار کی خشک ٹہنی پے وارے گئے۔
اس واقعے کے دس سال بعد حادثہ بہاولپور پیش آیا، جنرل ضیاء الحق ہوائی حادثے میں کئی سینیئر جرنیلوں کے ساتھ اللہ کو پیارے ہوگئے۔ اسی حادثے کی بناء پر ملک میں جمہوریت آئی، مگر بدقسمتی سے یہ معذور جمہوریت زیادہ عرصہ نہ چل سکی اور دس سال میں ہی پھر اس ملک پر دوبارہ آمریت مسلط کردی گئی، کہیں دس سال بعد اس آمریت کا خاتمہ ہوا ، جمہوریت کا دور آیا ۔ اب اس صدی کی موجودہ دہائی میں ملک ہائیبرڈ جمہوریت کا شکار ہے اور اس طرح اس دہائی میں ایک نیا بحران اس ملک کی دہلیز پر کھڑا ہے۔
شاید پچاس سال قبل ہم اسی موڑ سے گذرے تھے جب یہ ملک اتنے شدید بحران سے گذرا تھا، لیکن اس موجودہ بحران میں ایک چیز بین الاقوامی طور پر یکساں ہے کہ اب ہر دہائی بعد اس دنیا کو کسی نہ کسی وباء سے گذرنا ہوگا۔ محققین لکھتے ہیں کہ کورونا کی وباء کا پھیلاؤ، دوسری جنگ عظیم کے بعد اس وقت دوسرا بڑا بحران ہے جس کا دنیا سامنا کررہی ہے ۔ 2008 میںجن اداروں نے اس بات کی پیش گوئی کی تھی کہ کورونا جیسی وباء اس دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے ۔
انھی اداروں نے اب کہا ہے کہ بنی نوع انسان آیندہ آنے والے زمانوں میںبہت سے ایسے ہی بحرانوں کا سامنا کرے گا۔ جس میںبدترین وبائیں، ماحولیاتی تبدیلیاں ، بھوک و افلاس وغیرہ وغیرہ۔ یقینا دنیا خانہ جنگیوں کی لپیٹ میں بھی آ سکتی ہے۔ وینزویلا، لاطینی امریکا جیسے کچھ ممالک اس کے علاوہ صومالیہ اور افریقہ یا پھر افغانستان وغیرہ اس زمرے میں آتے ہیں۔ہمارے زر مبادلہ کہ ذخائر ہوں، قرضے ہوں، شرح نمو ہو یا پھر معاشی پیمانے ہوں ان پر اس وقت صرف غالبؔ کا یہ شعر یاد آتا ہے :۔
ان کے دیکھے سے جو آجاتی ہے منہ پر رونق
وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے
یہ بات بھی ریکارڈ پر لے آؤں کہ 24 مارچ 1971کی شام کو ڈھاکا سے آخری جہاز سے جب میرے والد قاضی فیض محمد،میر غوث بخش بزنجو کے ساتھ واپس مغربی پاکستان کے لیے نکلے تھے تو وہ شیخ مجیب کی طرف ایک مفاہمتی پیغام لے کر آئے تھے۔ یہاں آ کرانھوں نے متعلقہ لوگوں کو یہ بتایا کہ شیخ مجیب سے مفاہمت ہوسکتی ہے اگر دارالحکومت ڈھاکا منتقل کیا جائے،پھر باقی پانچ نکاتی پروگرام کو ہم بھی عمل میں نہیں لائیں گے۔
اس بات کے گواہ فتح ملک سابق ایڈووکیٹ جنرل سندھ بھی ہیں،جو اب بھی حیات ہیں، مگر شیخ مجیب سے سمجھوتا نہ ہوسکا ،وہ سرد جنگ کا زمانہ تھا ۔ یہ مملکت دو ٹکڑوں میں تقسیم ہوگئی۔ اتنا شدید گھائو تھا کہ اس قوم و ملک کے لیے جس کے اثرات آج تک باقی ہیں۔
ہمارے پڑوس میں امریکی فوجیں جانے کو ہیں، اس فوج کی واپسی ایک بہت بڑے بحران کو دستک دے رہی ہے اور اس معاملے میں ہم بالکل آنکھیں موندے، بے خبر سو رہے ہیں۔ کوئٹہ میں دھماکا ہمارے لیے بہت کچھ واضح کرتا ہے،اس دھماکے کی ذمے داری طالبان نے قبول کی ہے۔ایک بہت بڑاسیاسی بحران، جو ہم سمجھے کہ شاید پی ڈی ایم کے ختم ہونے سے ختم ہوگیا ہے مگر اس نے ایک مختلف شکل اختیار کرلی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی قیادت کے خلاف جو ہتھیار استعمال ہو اتھا،آج وہ بھی اسی کارڈ پر کھیلنے کی کوشش کررہے ہیں ۔ یوں لگتا ہے کہ اس جنگ میں پی پی پی، پی ایم ایل( این) اور جی یو آئی بھی کودنا چاہتی ہیں۔
اس دوراہے پر اپنے ملک کو ہم نے خود پہنچایا ہے اور کچھ ہماری جغرافیائی حقیقتوں کا کردار ہے۔ اس ملک نے نئی سرد جنگ میں سوویت یونین کو پیچھے دھکیلنے میں کلیدی کردار ادا کیا، مگر سامراج نے اس ملک پر آمریتیں مسلط کیں کیونکہ سول قیادت کو اپنے ہر فیصلے کے لیے پارلیمنٹ سے رجوع کر نا پڑتا تھا، وہ تمام فیصلے خود سے نہیں کرسکتی جیساکہ آمریت کر سکتی ہے۔ سول قیادت کو ووٹ لینے کے لیے واپس عوام کے پاس جانا پڑتا تھا اور ان کو ملک کے مفادات کا زیادہ شعور بھی تھا لیکن آمریتیں اس بوجھ سے عاری تھیں نہ ہی ان کا کوئی آڈٹ ہوتا تھا۔ نہ ہی ان کو عوام کے پاس ووٹ لینے کے لیے جانا پڑتا تھا۔
کیا یہ ممکن ہے کہ اس ملک میں کرپشن اس حد تک ہی وجود رکھتی ہو کہ وہ صرف سول قیادت یا سیاستدانوں تک محدود ہو اور باقی تمام لوگ اس مرض میں مبتلا نہ ہوں؟ ہم نے میاں صاحب کو اقتدار سے زبردستی الگ کیا، مگر ان کو غیر مقبول نہ کرسکے۔ اب کورونا وائرس بے قابو ہوچکاہے۔ ہمارا پڑوسی ملک ہندوستان اس وقت بدترین صورت حال سے گزر رہا ہے اور پڑوسی ہونے کی صورت میں ہم ایسی ہی صورت حال کے دہانے پر کھڑے ہیں۔
ہندوستان کے پاس ویکسین تو ہے، ہمارے پاس وہ بھی نہیں۔ ہماری ملکی معیشت بیٹھ چکی ہے، جو بہتر ہوتی نظر نہیں آرہی۔ آل پارٹیز کانفرنس بلائی جائے سب کو آن بورڈ لیا جا ئے ا ور مفاہمتی عمل کی حکمت عملی کو مضبوط بنایا جائے،صرف افہام تفہیم سے ہی اس ملک کو اس بحران سے نکالا جا سکتا ہے۔