مسلم معاشرے کا قیام اور آج کا مسلمان

پورے عالم اسلام کا یہ حال ہے کہ وہ مغرب جیسی ہنرمندی اور نفاست سے ایک اسکرو بھی نہیں بنا سکتے

آج کا مسلمان خواب خرگوش سے بیدار ہونے کو تیار نہیں ہے۔ (فوٹو: فائل)

آج دنیا ایک ایسے دور میں داخل ہوچکی ہے جہاں مسلم دنیا ہر طرف سے تباہی اور بربادی سے دوچار ہے۔ کئی مسلم ممالک کو مکمل طور پر تباہ کردیا گیا ہے۔ آج ان ممالک کے باشندے اپنا سب کچھ اپنی آنکھوں کے سامنے برباد ہوتا دیکھ کر اب ایک مہاجر کیمپ میں اپنی زندگی گزارنے پر مجبور ہوچکے ہیں۔ بے شمار مسلمان دوسرے ملکوں کی سرحدوں پر بے یار و مددگار پڑے ہوئے ہیں، جہاں کوئی ان کا پرسان حال نہیں ہے۔ ان ممالک کا یہ حال ان ملکوں پر حکومت کرنے والے حکمرانوں کے ہوس اقتدار اور ان سے جڑے مغربی مفادات کے ٹکراؤ کا نتیجہ ہیں۔

آج کا مسلمان یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے باوجود خواب خرگوش سے بیدار ہونے کو تیار نہیں ہے۔ کسی بھی مسلم ملک میں کوئی بیداری نظر نہیں آتی ہے۔ نہ ہی اس خوں ریزی کو روکنے کی ضرورت کسی کو محسوس ہوتی ہے۔ جن ملکوں کو اسلام کا ٹھیکیدار سمجھا جاتا تھا وہ اسلام کے ٹائٹل سے ہی جان چھڑانے کی کوششوں میں مصروف نظر آتے ہیں۔ آج تقریباً تمام عرب ممالک یا تو اسرائیل کو تسلیم کرچکے ہیں یا پھر تسلیم کرنے کو تیار بیٹھے ہیں۔ وجہ صرف اپنے اقتدار کو بچانا اور کسی بھی آزمائش سے جان چھڑانا ہے۔

لے دے کر دو مسلم ممالک اسپاٹ لائٹ میں نظر آتے ہیں، جنھیں سوشل میڈیا پر چند نام نہاد یو ٹیوبر اس طرح پیش کررہے ہیں جیسے بس یہی دو ممالک ساری دنیا میں اسلام کے نفاذ کو یقینی بنائیں گے۔ ایک پاکستان، دوسرا ترکی۔

اب اگر ہم غور کریں تو ہمیں نظر آئے گا کہ ترکی تو وہ ملک ہے جس نے سب سے پہلے اسرائیل کو تسلیم کیا تھا۔ آج بھی ترکی کے مکمل سفارتی تعلقات اسرائیل سے قائم ہیں۔

جیسے جیسے پاکستان اور ترکی کے مفادات ایک دوسرے سے جڑتے جارہے ہیں ویسے ویسے یہ دونوں ممالک قریب آتے جارہے ہیں۔ ورنہ یہی وہ ترکی تھا جس نے کبھی پاکستان کو انڈیا پر فوقیت نہیں دی تھی۔ ان سفارتی قربتوں کا ایک فوری اثر تو یہ ہوا ہے کہ آج ہم ترکی کے ڈرامے اپنے ٹی وی چینلز پر دیکھ رہے ہیں۔ پاکستانی ڈراموں کو شاید وہ اس قابل نہیں سمجھتے کہ وہ انہیں ترکش چینلز پر بھی چلائیں۔

یورپی یونین میں شامل ہونے کی سرتوڑ کوشش ترکی نے کی۔ لیکن یورپی ممالک کی سردمہری اور تعصب نے یہ کوشش کامیاب نہ ہونے دی۔ آخر تھک ہار کر ترکی کو اپنا رخ مشرق کی طرف موڑنا پڑا۔

آج ہمارے ملک میں جس ترکش ڈرامے کی دھوم ہے وہ ہے ارطغرل غازی۔ کیا بچہ، کیا بوڑھا، سب اس ڈرامے کے سحر میں گرفتار ہیں۔ ہم روزانہ ہی اس ڈرامے کا اثر اپنی نوجوان نسل پر کسی نہ کسی شکل میں دیکھ رہے ہیں۔ کچھ نوجوان ارطغرل کا ہیئر اسٹائل بناتے پھر رہے ہیں تو کچھ نوجوانوں کو تلوار بازی سیکھنے کا شوق پیدا ہوگیا ہے۔ صرف یہی اثر ہمارے نوجوانوں پر کیوں ظاہر ہوتا ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے نوجوانوں کو بھارتی میڈیا کی ٹریننگ حاصل رہی ہے۔ جس نے انھیں سکھایا ہے کہ اگر کسی ہیرو کی طرح بننا ہے تو اس کے جیسے بال بنا لینا اور حلیہ بنالینا ہی کافی ہے۔

اگر ارطغرل ڈرامے کی کہانی پر غور کریں تو ہمیں سوائے قبائلی سیاست اور اقتدار کی کشمکش کے کچھ نظر نہیں آتا۔ اس ڈرامے میں کہاں اسلام اور اس کی تعلیمات کی روشنی میں کسی اسلامی مملکت کے قیام کی جدوجہد نظر آتی ہے؟ کیا ارطغرل نے کوئی اسلامی معاشی نظام نافذ کردیا تھا؟ یا کیا اس نے اسلامی مساوات پر مبنی کوئی معاشرہ تشکیل دے دیا تھا؟


عثمانی خلافت بھی ایک ملوکیت ہی تھی جس میں رہنے والے عوام کی اکثریت اپنی حکومت اور اس کی طرز حکمرانی سے خوش نہیں تھی۔ اسی قبائلی سیاست اور اقتدار کی کشمکش نے عثمانی خلافت کے انہدام میں اہم کردار ادا کیا تھا۔

اس قسم کے ڈرامے دیکھ کر ایک احمقانہ سی جذباتیت نوجوانوں میں پیدا ہورہی ہے۔ عثمانی دور میں جن جن ملکوں پر ترکی نے قبضہ کیا ہوا تھا ان ملکوں کے رہنے والے اس قسم کے ڈراموں کے نتیجے میں پیدا ہونے والی جذباتیت کو اپنے لیے نیا خطرہ تصور کر رہے ہیں۔

آخر کیا وجہ ہے کہ جب بھی ہمیں اپنی عظمت رفتہ یاد آتی ہے تو صرف اقتدار کےلیے آپس کی جنگیں اور اقتدار کی رسہ کشی ہی دکھائی جاتی ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ ہم بھی غیر مسلموں کے اس پروپیگنڈے سے متاثر ہیں جو کہتا ہے کہ اسلام صرف تلوار کے زور سے پھیلا ہے۔

آج نئی نسل اپنے اکابرین سے اتنی لاعلم ہے کہ وہ کسی مسلم سائنسدان کا نام تک نہیں جانتی۔ اگر انھیں کسی مسلم سائنسدان کی تصویر بھی دکھا دی جائے تو اکثر بچوں کی تو ہنسی نکل جاتی ہے۔ انھیں اس بات پر یقین ہی نہیں آتا کہ کوئی داڑھی والا جس نے پگڑی بھی باندھ رکھی ہو سائنسدان بھی ہوسکتا ہے۔ آج نئی نسل کا مسلمان نہیں جانتا کہ جب مسلمان علم و ہنر کے عروج پر تھے اس وقت مغرب اپنے تاریک دور سے گزر رہا تھا۔

پاکستان میں اگر کوئی تاریخی ڈرامہ بنایا جاتا ہے تو لے دے کر ہمیں نیم مسلم مغل بادشاہوں کی کہانیاں یاد آنے لگتی ہیں۔ جنہوں نے بادشاہت تو ہندوستان پر خوب کی لیکن اسلام اور تعلیمی نظام کو کبھی کوئی اہمیت نہیں دی۔

آج ہم جن اقوام سے لڑ کر اپنا حق اور دنیا میں اپنا وقار واپس لینا چاہتے ہیں، وہ ہم سے صرف ایک ہی چیز میں آگے ہیں اور وہ ہے علم و ہنر۔ اور ایک یہی وہ چیز ہے جس سے ہمیں چڑ ہے- آج ہمارے ملک میں تعلیم کا جو حال ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ ٹیکنیکل تعلیم کا بھی یہی حال ہے۔ مغرب کا نظام تعلیم وہاں اسکالر اور سائنسدان پیدا کررہا ہے، جبکہ ہمارا نظام تعلیم ڈگری یافتہ جاہل پیدا کررہا ہے۔ مغرب کا طالب علم اپنے ہاتھ سے کتاب نہیں چھوڑتا جبکہ ہمارا طالب علم کتاب ہاتھ میں لینا ہی نہیں چاہتا۔ وہ صرف اس بات کا استاد ہے کہ بغیر پڑھے پاس کیسے ہوتے ہیں۔

پورے عالم اسلام کا یہ حال ہے کہ وہ مغرب جیسی ہنرمندی اور نفاست سے ایک اسکرو بھی نہیں بنا سکتے۔ آج ہمیں وہ قوم انسانی حقوق کا سبق پڑھاتی ہے جسے 1959 میں جاکر معلوم ہوا تھا کہ کالا اور گورا دونوں ہی انسان ہیں، اس لیے بس کی اگلی سیٹوں پر کالا بھی بیٹھ سکتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آج کا مسلمان حجۃ الوداع کے موقعے پر دیے جانے والے خطبے سے ناواقف ہے۔ اس لیے وہ نہیں جانتا کہ اسلام نے ہی سب سے پہلے انسانی مساوات اور انسانی حقوق کا اصول دنیا کو دیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ مغرب کا مادرپدر آزاد انسانی حقوق کا فلسفہ آج ہماری نئی نسل کو زیادہ بھاتا ہے۔

آج دنیا جتنی مادہ پرست ہوچکی ہے، اس کےلیے صرف وہی نظام قابل قبول ہے جس میں اسے سکون کے ساتھ ساتھ معاشی فوائد بھی نظر آرہے ہوں۔ اگر ہم واقعی اسلام کو ساری دنیا میں نافذ کرنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے ہمیں اسلام کا معاشی نظام بنا کر دنیا کو دکھانا ہوگا۔ یہی وہ وقت ہے جہاں دنیا ایک نئے معاشی نظام کی تلاش میں ہے۔ کیونکہ کمیونزم اور امپیریل ازم دونوں نظام ہی فیل ہوچکے ہیں۔ اگر ہم کوئی ایسا اسلامی معاشی نظام دنیا میں رائج کرکے دکھا دیتے ہیں جو واقعی انسانوں کے درمیان دولت کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنا دے تو ہم بغیر کسی جنگ و جدل کے پوری دنیا میں اسلام کو نافذ کرسکتے ہیں۔ ورنہ اگر ہم تلواریں اور گھوڑے ہی اسلام کے نفاذ کےلیے ضروری سمجھتے ہیں تو یقین کیجئے تلوار بازی اور گھڑ سواری میں بھی مغرب ہم سے کہیں آگے ہے۔ ہم اس میدان میں بھی ان سے نہیں جیت سکتے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story