پڑھنے لکھنے کی ابتدا کہاں سے کریں

لکھنے اور پڑھنے کے لیے فطری رجحان کی ضرورت ہوتی ہے، اگر انسان کی فطرت میں لکھنے کی طرف راغب ہونے اور پڑھنے...

khurram.sohail99@gmail.com

SUKKUR:
لکھنے اور پڑھنے کے لیے فطری رجحان کی ضرورت ہوتی ہے، اگر انسان کی فطرت میں لکھنے کی طرف راغب ہونے اور پڑھنے کی طرف جانے کی کشش ہے، تو پھر اسے کوئی نہیں روک سکتا، لیکن فطرت کی طرف سے ودیعت ہونے والی اس خوبی کو مزید نکھارا جاسکتا ہے، اگر کچھ باتوں پر عمل کرلیا جائے۔ مجھے اکثر دوست اور قارئین، خاص طور پر جو مجھ سے کم عمر ہیں، وہ پوچھتے ہیں کہ پڑھنے کے لیے کہاں سے ابتدا کی جائے؟ اس کاجواب دینے کے لیے کچھ باتوں کا ذکر ناگزیر ہے۔

مطالعہ کرنے کے لیے سب سی بنیادی بات یہ ہے کہ آپ کیا پڑھنا چاہتے ہیں، اس کا جواب کوئی دوسرا نہیں دے سکتا۔ لہٰذا وہ کون سے موضوعات ہیں، جن کی طرف آپ کی رغبت ہے یا وہ کون سی کتابیں ہیں، جنھیں پڑھ کر آپ کی تشفی ہوتی ہے، وہیں سے آپ کو مطالعے کی باقاعدہ ابتدا کرنا ہوگی۔ مثال کے طور پر میں جب کسی کتب میلے میں جاتا ہوں یا مجھے کسی لائبریری میں کتابیں دیکھنے کا موقع ملتا ہے، تو میں سب سے پہلے ادبی کتابیں دیکھنا اور انھیں پڑھنا پسند کرتا ہوں۔

ادب کی بھی دو مرکزی اصناف ہیں۔ ایک وہ ادب جو تصوراتی طور پر تخلیق کیا جاتا ہے، دوسری طرح کا ادب وہ ہوتا ہے، جس میں تخلیق کے بجائے تحقیق، تنقید اور دیگر پہلوؤں سے لکھا جاتا ہے۔ میں تصوراتی ادب میں ناول اور غیر تصوراتی ادب میں خودنوشت بہت شوق سے پڑھتا ہوں، اس لیے سب سے پہلے میں ان دونوں اصناف کی ذیلی اقسام کو منتخب کرتا ہوں۔ اس کے بعد دیگر اصناف کی کتب کو دیکھتا ہوں۔

مطالعے کے لیے جب سمت مقرر کرلی جائے اور طے کرلیا جائے کہ پہلے کیا پڑھنا ہے، تو پھر مطالعہ کرنا بھی آسان ہوجاتا ہے، کم وقت میں زیادہ مطالعہ کیا جاسکتا ہے اور متعلقہ موضوع پر زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کی جاسکتی ہے، پھر اگر آپ کتابیں خریدنے جاتے ہیں، تو اس فارمولے کے تحت کم پیسوں میں زیادہ اور اپنے شوق سے قریب تر کتابیں خریدنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ جب آپ کے مطالعے کی شہرت بھی ہونے لگے، تو یار دوست آپ کی مدد کو آتے ہیں اور جس موضوع پر آپ پڑھتے ہیں، اس کے متعلق نئی اور پرانی کتابوں اور لکھنے والوں کے بارے میںآپ کے علم میں اضافہ کرتے ہیں۔ یہ وہ بنیادی باتیں ہیں، مطالعے کی جستجو رکھنے والے کو خاص طور پر جنھیں یہ مرض حال ہی میں لاحق ہوا ہے، وہ ان باتوں پر عمل کرکے مطالعے کی سرگرمی کو اپنے لیے بہت آسان اور مفید بناسکتے ہیں۔

جہاں تک لکھنے کا سوال ہے۔ میں نے بھی کافی لوگوں سے پوچھا کہ لکھا کیسے جاتا ہے، مگر کسی نے خاطر خواہ جواب نہیں دیا، البتہ چند ایک تجربات کے بعد معاملات سمجھ آنے لگے۔ علم بانٹنے سے کم نہیں ہوتا، لیکن کچھ سینئر لکھنے والوں کا خیال ہے کہ شاید کسی نوجوان کو کچھ بتادینے سے کم ہوجاتا ہے، اس لیے نہ وہ کسی موضوع پر لب کشائی کرتے ہیں اور نہ ہی کوئی اچھی کتاب پڑھنے کو دیتے ہیں، نہ ہی یہ بتاتے ہیں کہ فلاں کتاب خرید لو اور پڑھو، اس سے تمہیں فائدہ ہوگا، مگر پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں، لیکن اس معاملے میں زیادہ تر انگلیاں ایک جیسی ہی ہیں۔

انگریزی کے ایک بہت عمدہ اور معروف ناول نگار مشرف علی فاروقی جنھوں نے انگریزی میں کئی ناول لکھے ہیں، مگر ان کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے انگریزی زبان کے قارئین کے لیے ''طلسم ہوشربا'' کا انگریزی میں ترجمہ کیا۔ یہ کئی بین الاقوامی ادبی اعزازات کے لیے بھی نامزد ہوتے رہے ہیں۔ میری جب ان سے ملاقات ہوئی، تو میں نے ان سے پوچھا کہ سینئر لکھنے والوں میں ایسے لوگوں کے بارے میں آپ کا کیا موقف ہے، جو علم کو اس لیے محدود رکھتے ہیں تاکہ دوسرا ان کے علم کے رعب میں رہے۔ اس سوال کا جواب انھوں نے بہت سادہ سا دیا کہ مجھے ایسے لوگوں سے کبھی کوئی امید نہیں رہی، نہ میں نے رکھی ہے، اسی لیے میں نوجوانوں سے بات کرنا زیادہ بہتر سمجھتا ہوں۔ اس بات کے پیچھے بہت حکمت ہے اور اس پہلو کے حوالے سے مزید بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے، مگر ابھی واپس اپنے موضوع پر آتا ہوں۔


آپ اگر اچھا لکھنا چاہتے ہیں تو اچھی تحریریں پڑھیں، اچھی کتابوں کا مطالعہ کریں۔ جس موضوع میں رغبت ہے، اس کے تمام پہلوؤں کو دیکھیں اور پڑھیں۔ مطالعے کے لیے وقت مقرر کریں، اس کے مطابق پڑھیں، ورنہ آپ کا تسلسل ٹوٹتا رہے گا۔ جس موضوع پر آپ کی دلچسپی ہے، اس کے مختلف لکھنے والوں کو پڑھیں اور پھر ان کی تحریروں کا موازنہ بھی کریں۔ مقامی لکھنے والوں کے علاوہ بین الاقوامی لکھنے والوں کو بھی پڑھیں کیونکہ ہمارے ہاں اکثریت لکھنے والوں کی جن میں کئی صحافی، ادیب، محقق اور مورخ شامل ہیں، جو اپنی تحریروں کا خاصا مواد غیرملکی لکھنے والوں کے ہاں سے سرقہ کرتے ہیں۔ اس کارخیر میں پاکستان کے بڑے نامور لوگوں نے حصہ لیا ہے۔ لہٰذا جب اس انداز میں پڑھنا لکھنا شروع کریں گے، تو آپ کو اپنے پسندیدہ موضوع پر گرفت ہوجائے گی اور اس موضوع پر اظہار خیال بھی کرسکیں گے۔

علم کے اکتساب کا ایک بہترین ذریعہ اور بھی ہے اور وہ حقیقی معنوں میں پڑھے لکھے لوگوں کی صحبت میں بیٹھنا ہے۔ ابھی بھی بہت سارے پڑھنے لکھنے والے ایسے علما و دانش ور ہیں، جن کے ہاں محفل کی روایت باقی ہے، جہاں بیٹھ کر کسی ایک موضوع پر گفتگو ہوتی ہے اور نئے نئے پہلو کھل کر سامنے آتے ہیں۔

نئی کتابوں کے حوالے سے مختلف اخبارات میں کتابوں کے تبصرے پڑھنا بھی سودمند رہتا ہے، جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ کون سی کتاب کس نوعیت کی ہے اور اسے پڑھنا بھی چاہیے کہ نہیں۔ اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ بہت سے ایسے موضوعات بھی ہوتے ہیں، جن کے بارے میں ہمارا علم محدود ہوتا ہے، مگر باقاعدگی سے کتابوں کے تبصرے پڑھنے سے یہ اندازہ ضرور ہوجاتا ہے کہ کس موضوع پر کون سی کتاب دستیاب ہے یا پڑھی جاسکتی ہے، پھر کون سے موضوعات پر بھرتی کی کتابیں بھی شایع ہوئی ہیں، وہ بھی ہمارے علم میں آجاتا ہے۔

پاکستان کے مختلف شہروں میں پرانی کتابوں کے اتوار بازار لگائے جاتے ہیں، ان سے بھی استفادہ کیا جاسکتا ہے، لیکن یہ بازار کسی زمانے میں بچت کے نقطہ نظر سے لگتے تھے، یعنی اس میں اچھی کتابیں خاصی معقول قیمت پر مل جایا کرتی تھیں، اب یہ بازار والے بھی خاصے بازاری ہوگئے ہیں۔ یہ کتاب خریدنے والے کے اشتیاق اور جستجو کو مدنظر رکھتے ہوئے قیمت کا تعین کرتے ہیں اور اس کام میں یہ خاصے مشاق ہیں، انھیں اندازہ ہوتا ہے کہ کس کتاب کی نوعیت اور اہمیت کیا ہے، اس لیے یہ بجائے سستے کرنے کے عام قیمت سے بھی زیادہ قیمت مانگتے ہیں، یہ ایک قسم کی کتاب دشمنی ہے۔ اس لیے وہ کتابیں جو عام قیمت میں مل جایا کرتی تھیں، اب کئی گنا زیادہ دام دے کر مطالعے کے شائقین حضرات کو خریدنا پڑتی ہیں۔

کراچی میں ریگل بازار اور فرئیرہال میں پرانی کتابوں کے بازار لگتے ہیں، جہاں پرانی کتابوں کے علاوہ نئی کتابیں بھی مل جاتی ہیں۔ ان کے علاوہ دو بازار مزید لگتے ہیں، جن میں سے ایک گارڈن اور دوسرا اردو سائنس یونیورسٹی کے قریب یونیورسٹی روڈ پر لگتا ہے۔ یہاں بھی قیمتوں کا وہی حال ہے۔ لاہور میں پرانی انار کلی میں بھی اتوار کو ایک بازار سجتا ہے، جہاں بہت ساری کتابیں مل جایا کرتی ہیں۔

مطالعے کا وصف اور ظرف دونوں خاصے کی چیزیں ہیں۔ وصف میں اگر ظرف بھی حل ہوجائے، تھوڑی سی عاجزی اور علم کے پھیلاؤ کا جذبہ بھی مل جائے تو پھر یہ مطالعہ صرف پڑھنے لکھنے کی عادت تک محدود نہیں رہتا، بلکہ شجر سایہ دار بن جاتا ہے۔ مطالعہ ایک ایسی بلندی ہے، جو جتنے قدم آگے ہے، پیچھے سے آنے والا اسے پیچھے نہیں چھوڑ سکتا، کیونکہ علم کی بلندی اتنی آسانی سے حاصل نہیں ہوتی، اس میں تحقیق، جستجو، عاجزی، محنت، ریاضت اور دیگر عناصر شامل ہوتے ہیں، پھر کہیں علمی بلندی اور قابلیت حاصل ہوتی ہے۔

ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے سے کم عمر نوجوانوں کے دوست بن کر رہنمائی کریں ناکہ علمی تکبر جھاڑیں۔ سینئراور حقیقی دانشوروں کی صحبت میں بیٹھیں، ان سے کچھ سیکھ کر اٹھیں۔ اپنے آپ کو ہمیشہ طفل مکتب ہی سمجھیں، تو پھر علم کا پودا بہت تیزی سے پھلتا پھولتا ہے اور آپ کو اندر سے سرسبز و شاداب کردیتا ہے، لیکن جن کو بات سمجھ نہیں آتی، ان کے لیے پھر بنجر پن کا موسم زیادہ دور نہیں ہوتا اور جس کی ذہنیت علم دشمنی پر مامور ہوجائے، اس کی روح بنجر ہوجایا کرتی ہے۔ ایسے لوگ عقل مندوں والے اشارے کو بھی اپنے لیے طعنہ سمجھ لیتے ہیں اور صفائی دینے کی ناکام کوشش کرتے ہیں مختلف حیلوں بہانوں سے، یہیں سے ان کے زوال کی ابتدا ہوجاتی ہے۔
Load Next Story