حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم بحیثیت معلم

’’اقراء‘‘ (پڑھ) وحی کا پہلا لفظ جس سے انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ ملا۔ علم، عقل۔ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے۔

''اقراء'' (پڑھ) وحی کا پہلا لفظ جس سے انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ ملا۔ علم، عقل۔ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ''اقراء بسم ربک الذی خلق'' (پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے تخلیق کیا)۔

مسلمان کو جو پہلا حکم ملا وہ تھا اقراء (پڑھ) اور اقراء بھی کون سا؟ وہ جو اپنے رب کے نام سے شروع ہو، جو انسان کو اﷲ کی طرف لے جائے، جو انسان کو اﷲ کی صفات سے، اس کے کمالات سے اور اس کی ذات سے آشنا کروائے اور پھر اﷲ نے صرف کتاب ہی نازل نہیں کی بلکہ ساتھ ہی پیغمبر بھی نازل کیا جو کہ اس کتاب کی آیات پڑھ کر سنائے اور اس کی تعلیم دے۔ اسی لیے ایک جگہ حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

''مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے''۔


اسلامی تاریخ میں جب پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یثرب کے لوگوں کی دعوت قبول کی اور یثرب کے لوگوں نے پورا شہر آپ کے حوالے کردیا اور ہجرت کے بعد یثرب مدینۃ النبی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے نام سے مشہور ہوا، وہیں انتظامات سے فارغ ہوتے ہی آپؐ نے مسجد نبوی کی بنیاد ڈالی۔ مکہ سے ہجرت کرکے آنے والے مہاجرین کو مدینہ میں رہنے والے انصار کا بھائی بنا دیا اور یہ بھائی چارہ قائم کرکے اسلامی مواخات کی وہ مثال قائم کی جو آج تک دنیا نہ پیش کرسکی۔ اس کے ساتھ ہی آپؐ نے مسجد کے ساتھ بنے ایک بڑے سے چبوترے پر درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا جس میں وہ اصحاب جو مجرد تھے، شامل تھے، وہ اسی چبوترے پر رہا کرتے تھے اور تعلیم حاصل کیا کرتے تھے۔ ان کی کفالت کی ذمے داری خود حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم اور معاشرہ کیا کرتا تھا۔ چبوترے کو عربی میں ''صفہ'' کہتے ہیں چنانچہ یہ ''اصحاب صفہ'' کہلائے اور اس طرح اسلامی تاریخ کا پہلا اسکول دارِ ارقم کے نام سے اصحاب صفہ کا قائم ہوا۔ یہاں درس و تدریس کا سلسلہ روایتی نہ تھا بلکہ طالب علم پیارے نبی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے درس لیتے۔ ادب سے سنتے اور ذہن نشین کرتے۔ ایک صحابیؓ بیان کرتے ہیں کہ ''ہم اس طرح خاموش مودب بیٹھا کرتے تھے گویا ہمارے سروں پر پرندہ بیٹھا ہو اور ہمارے حرکت کرنے پر وہ اڑ جائے گا''۔

یہاں پیچیدہ نکات پر بحث ہوتی، علمی مسائل بیان کیے جاتے، ذہن کی گتھیوں کو سلجھایا جاتا، تاریخ کے حوالوں پر بحث ہوتی، ماضی کے قصے بیان کیے جاتے، حال کی مثالیں سامنے لائی جاتیں، مستقبل کے خوش آیند امکانات کا ذکر ہوتا، قرآنی قصص پڑھے جاتے، عقائد کا بیان ہوتا، عذاب کا، دوزخ کا ذکر ہوتا، حشر کے ہولناک دن کی حشر سامانیوں سے ڈرایا جاتا، جنت کی نعمتوں کی خوش خبری دی جاتی، نیت کے خالص ہونے پر جزا و سزا کا تعین، نتائج سے بے پروا عمل، سعی مطلوب کا تذکرہ ہوتا۔ یہ روایتی مدرسہ یا خانقاہ تو تھی نہیں بلکہ یہ تو پیارے نبی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی محفل تھی۔ یہاں سب کچھ تھا۔ یہ قومی لیکچر ہال بھی تھا۔ یہ سرکاری مہمان خانہ بھی تھا، یہ جمہوری دارالعلوم بھی تھا، یہ حکومت کا دربار بھی تھا اور یہ مشورے کا ایوان بھی تھا۔ آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا مقصد تھا کہ مسلمان اپنے اﷲ کو پہچانیں۔ اس کی نعمتوں کا احساس کریں اور اس کا شکر ادا کریں۔ اس کی نافرمانی سے بچیں۔ ایک جگہ آپؐ نے فرمایا:''میری مثال اس شخص کی سی ہے جس نے آگ جلائی اور جب آس پاس کا ماحول آگ کی روشنی سے چمک اٹھا تو یہ کیڑے پتنگے اس پر گرنے لگے اور وہ شخص پوری قوت سے ان کیڑے پتنگوں کو روک رہا ہے لیکن پتنگے ہیں کہ اس کی کوشش کو ناکام بنائے دیتے ہیں اور آگ میں گھسے پڑ رہے ہیں اسی طرح میں تمہیں کمر سے پکڑ پکڑ کر آگ سے روک رہا ہوں اور تم ہو کہ آگ میں گرے پڑ رہے ہو''۔ (مشکوٰۃ)

آج معاشرے میں ایک مایوسی کی کیفیت نظر آتی ہے۔ ہر شخص کو دوسرے سے شکوہ شکایت ہے۔ زندگی کی ایک دوڑ ہے جس میں زیادہ سے زیادہ اور خوب سے خوب ترکی تلاش نے سب کو اپنے سحر میں گرفتار کر رکھا ہے۔ پیارے نبی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے کیا خوبصورت انداز میں اس سے بچنے کا طریقہ بتایا ہے، ''ان لوگوں کی طرف دیکھو جو تم سے مال و دولت اور دنیاوی جاہ و مرتبے میں کم ہیں تو تمہارے اندر شکر کا جذبہ پیدا ہوگا اور ان لوگوں کی طرف نہ دیکھو جو تم سے مال و دولت میں اور دنیاوی ساز و سامان میں بڑھے ہوئے ہیں تاکہ جو نعمتیں تمہیں اس وقت ملی ہوئی ہیں وہ تمہاری نگاہ میں حقیر نہ ہوں اور نہ خدا کی ناشکری کا جذبہ پیدا ہوگا''۔

آج 12 ربیع الاول کے اس مبارک دن اگر ہم صرف اسی ایک بات کا عہد کرلیں کہ ہم ہر کام میں، ہر نعمت پر، ہر چیز کے ملنے پر، اپنے ہر کام کے اختتام پر صرف اور صرف اﷲ کا شکر ادا کریں گے تو شاید یہ مبارک دن ہمارے لیے ایک نئے عہد کا پیش خیمہ ثابت ہو اور ہم بھی سیرت محمدؐ کی کسی ایک بات پر تو عمل کرنے کے قابل بن سکیں۔ یہی آج کے دن کا پیغام بھی ہے۔
Load Next Story