کورونا کا پھیلاؤ جاری

کورونا وائرس کے پھیلاؤ میں عوام اس بار زیادہ قصور وار قرار پائے ہیں جنھوں نے ایس اوپیز پر عمل ترک کردیا ہے۔

کورونا وائرس کے پھیلاؤ میں عوام اس بار زیادہ قصور وار قرار پائے ہیں جنھوں نے ایس اوپیز پر عمل ترک کردیا ہے۔ فوٹو: فائل

ISLAMABAD:
وفاقی کابینہ کو آگاہ کیا گیا کہ اب تک20لاکھ افراد کو ویکسین لگ چکی ہے، اس وقت بھی 37لاکھ ویکسین کی خوراکیں دستیاب ہیں، کورونا ویکسین سپوتنک کے دو انجکشن کی ریٹیل قیمت 8449 روپے مقرر کردی گئی ہے ، جب کہ آکسیجن کی فراہمی کے حوالے سے ملکی صلاحیت کو دگنا کردیا گیا ہے۔

کابینہ کا اجلاس وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت ہوا، جب کہ دوسری جانب وزارت داخلہ کے مطابق عید کی چھٹیوں اور 8 سے 16مئی کے دوران سیاحت پر مکمل پابندی ہوگی۔ملک میں کورونا وائرس کی تیسری لہر انتہائی خطرناک روپ اختیار کرتی جارہی ہے ، اگلے روز بھی کورونا وائرس میں مبتلا 142مریض جان کی بازی ہار گئے ۔بلاشبہ حکومت کی ہر ممکن کوشش ہے کہ مکمل لاک ڈاؤن نہ ہو لیکن اگر کورونا وبا کا پھیلاؤ جاری رہا تو پھرمکمل لاک ڈاؤن کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہوگا۔

کورونا وائرس کے پھیلاؤ میں عوام اس بار زیادہ قصور وار قرار پائے ہیں جنھوں نے ایس اوپیز پر عمل ترک کردیا ہے ، جس کی وجہ سے وبا کا پھیلاؤ بہت تیزی سے ہوا ،بے احتیاطی کی روش اپنانے کے بھیانک نتائج سامنے آرہے ہیں ،وبا کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے عوام نے اپنی ذمے داری پوری نہیں کی ، جب تمام حدود پار ہوگئیں تو لامحالہ حکومت کو ایس او پیز پر عملدرآمد کروانے کے لیے فوج طلب کرنی پڑی ہے ۔یعنی ہم پیار ومحبت سے بات سمجھنے کی بجائے ،سختی اور ڈنڈے کے استعمال سے احکامات مانتے ہیں۔ یہ امر انتہائی افسوس ناک ہے ۔

دوسری جانب پاکستان اپنے طور پر ویکسین تیار کرنے میں ناکام رہا ، جو بھی ویکسین تاحال ہمیں ملی ہے وہ امداد کی صورت میں مفت ہاتھ آئی ہے جوکہ بائیس کروڑ آبادی والے ملک کی ضروریات کے لیے انتہائی ناکافی ہے ، کورونا ویکسین سپوتنک کے دوانجکشن کی جو قیمت مقرر کی گئی ہے ، وہ بھی ایسا ہے کہ جیسے کسی برانڈ کی قیمت 999روپے مقرر کی جاتی ہے ، تاکہ ہزار روپے سے کم مالیت ظاہر کرکے ٹیکس کی ادائیگی سے بچا جاسکے۔

ایک ایسا ملک جس میں آبادی کی اکثریت خط غربت سے نیچے زندگی بسر کررہی ہو، جب کہ مڈل کلاس کا مزید چھ فیصد موجودہ حکومت کے دور میں غریب طبقے میں شامل ہوا ، وہاں اتنی بڑی رقم کی ادائیگی آسان نہیں ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو باقاعدہ طور پر فنڈز مختص کرکے جنگی بنیادوں پر ویکسین کی خریداری کے عمل کو تیز تر کرنا چاہیے تاکہ انسانی جانوں کے ضیاع کو روکا جاسکے ۔

دوسری جانب پاکستانی عوام کو صورتحال کی شدت اور سنگینی کا احساس کرتے ہوئے اپنے طرز عمل میں مکمل تبدیلی لانا ہوگی ، اگر ہم بحیثیت قوم آج یہ فیصلہ کرلیں کہ ہم عید سادگی سے منائیں گے ،تو صورتحال میں راتوں رات تبدیلی آسکتی ہے ، زندگی خدا کی عطا کردہ نعمت ہے اس نعمت کی قدر کرنا سیکھیں ،شاپنگ کے جنون میں مبتلا ہوکر اپنی اور دوسروں کی زندگیوں کو داؤ پر نہ لگائیں، کورونا وائرس کی تیسری لہر تشویشناک حد تک بڑھ گئی ہے ، اگر وباء پر قابو نہ پایا گیا تو اسپتالوں میں مریضوںکو رکھنے کی جگہ نہیں ہوگی۔

جیسا کہ ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں فٹ پاتھوں پر لاشیں اور بیمار افراد موجود ہیںاورآکسیجن کے لیے بھیک مانگنے کے مناظر دیکھنے میں آئے ہیں ۔کورونا وائرس کے باعث بھارت میں مزید 2ہزار 764افراد زندگی کی بازی ہار گئے ہیں، مزید3لاکھ 19 ہزار افراد متاثر ، بھارت کے اسپتالوں میں آکسیجن کے بعد اسٹریچروں کی بھی کمی ہو گئی ہے، ایک انڈین ٹی وی چینل نے مشرقی ریاست بہار میں تین طبی کارکنوں کو دکھایا جو اسٹریچر کی قلت کے باعث ایک لاش کو جلانے کے لیے زمین پر گھسیٹتے ہوئے لے جا رہے تھے۔

دوسری جانب بھارت میں آکسیجن کی کمی کا مسئلہ حل نہیں ہو سکا ہے۔خدانخواستہ پاکستانیوں نے اپنی لاپرواہی کا رویہ تبدیل نہ کیا تو ہمارے یہاں تباہی پھیلنے میں دیر نہیں لگے گی ۔ سمجھ دار قوم ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے ایس اوپیز پر عملدرآمد اپنی ذات پر فرض کرلیں ،کیونکہ احتیاط میں زندگی کے دوام کا پیغام پوشیدہ ہے جب کہ ذرا سے بے احتیاطی موت کی وادی میں لائے جائے گی ، اب فیصلے کی گھڑی آن پہنچی ہے کہ ہمیں زندگی یا موت میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہے ۔یقیناً ہرذی روح کی خواہش زندگی ہے، لہذا احتیاط کا دامن تھامنے میں ہماری بقا ہے ۔

کورونا وائرس اور لاک ڈاؤن کے سبب پاکستانی بچے تعلیمی سلسلے سے مزید دور ہوتے جارہے ہیں۔ یہ سوال پیدا ہورہا ہے کہ آخر تعلیمی اداروں کی مسلسل بندش سے مجموعی طور پر ساڑھے سات کروڑ بچوں کے مستقبل کے بارے میں ارباب اختیارنے کیا سوچا ہے؟ کیا پلاننگ کی ہے تو اس سوال کا کوئی جواب ہمیں حکومتی سطح پر نہیں ملتا ہے۔


گزشتہ ایک سال سے زیادہ عرصے سے اسکولوں کی مسلسل بندش نے ہمارے نظام تعلیم کو نقصان پہنچایا ہے ۔ یہ بھی سوال کیا جا رہا ہے کہ تعلیم کے شعبے میں ''اسمارٹ لاک ڈاؤن''کی پالیسی کیوں اختیار نہیں کی گئی۔ طلبا، اساتذہ اور تعلیمی اداروں کے اسٹاف کو ترجیحی بنیادوں پر ویکسین کیوں نہیں لگائی جا رہی؟ معاشرے کے ان عناصر کو ''فرنٹ لائنرز'' کیوں نہیں سمجھا جا رہا۔پاکستان میں پہلے ہی بہت بڑا معاشی طبقاتی فرق پایا جاتا تھا، تعلیم کا شعبہ بھی اس سے بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔

تاہم کورونا لاک ڈاؤن کے دور میں آن لائن کلاسز کا جو سلسلہ حکومت نے شروع کیا تھا، اس سے تو محض ایک طبقے سے تعلق رکھنے والے بچے ہی فائدہ اٹھا رہے ہیں جن کے پاس لیپ ٹاپ، اینڈروئڈ، اور ایپل مصنوعات اور ہر طرح کے انٹرنیٹ کنکشن سمیت جملہ سہولیات ہوتی ہیں، لیکن ہمارے ہاں دس کروڑ سے زیادہ بچے معاشرے کے اس طبقے سے تعلق رکھتے ہیں، جو ان سہولیات سے محروم ہیں۔ ان کی تعلیم کا سلسلہ بالکل معطل ہو چکا ہے، انھیں کچھ پتا نہیں کہ ان کی تعلیم کیسے آگے بڑھے گی۔ ان کے والدین نے بچوں کو اسکولوں سے ہٹا لیا ہے اور گھروں میں انھیں کوئی سہولت میسر نہیںہے ۔

دنیا کے بیشتر ممالک میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کی روک تھام کے لیے جو اقدامات کیے گئے، ان میں تعلیمی شعبے پر خصوصی توجہ دی گئی۔ پاکستانی حکومت یقیناً ترقی یافتہ ممالک کی حکومتوں کی طرح ہر گھر کے بچوں کو لیپ ٹاپ اور انٹرنیٹ کی سہولیات تو مہیا نہیں کر سکتی لیکن اس کے پاس اس کا متبادل کیا ہے؟ کچھ نہ کرنا اور اسکول بند کر کے بچوں کو بے یار و مددگار چھوڑ دینا، یہ کیسی حکمت عملی ہے؟کورونا کی وبا کے دوران پاکستان میں لاکھوں اساتذہ بے روزگار ہو چکے ہیں۔ صرف اشرافیہ کے بچوں کی آن لائن تعلیم و تدریس جاری ہے۔

ظاہر ہے کہ جو والدین ان بہت مہنگے اسکولوں کالجوں کی فیسیں ادا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، وہ یہ کر رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ 90 فیصد سے زیادہ اسکول بہت کم خرچ یا معمولی فیس والے ہیں، جہاں ایک یا ڈیڑھ ہزار روپے فیس لی جاتی ہے۔

لاک ڈاؤن کے دوران پرائیویٹ اسکولوں کے مالکان اپنی جیبوں سے اساتذہ کو یہ معمولی تنخواہ دے رہے ہیں، اب ان کی یہ صلاحیت بھی ختم ہوتی جا رہی ہے۔ نچلے اور متوسط طبقے کے اسکولوں کی معاشی صورت حال بہت خراب ہے۔ ایک سال ہونے کو آیا ہے، والدین فیس ادا نہیں کر رہے، ان سطور کے ذریعے حکومت سے اپیل ہے کہ وہ بے روزگار اساتذہ اور گھروں میں بے کار بیٹھے بچوں کے بارے میں کچھ سوچے اور ضروری اقدامات اٹھائے۔

اگر ہم دیکھیں تو جب سے اسکول بند ہیں، بچے شاپنگ مالز، شادی کی تقاریب، پارکوں اور دیگر مقامات کی طرف زیادہ جا رہے ہیں اور انھی جگہوں سے کورونا زیادہ پھیل رہا ہے۔عالمی بینک کے تعاون سے پنجاب میں کورونا سے تعلیم بالخصوص بچیوں کی تعلیم پرپڑنے والے اثرات کے بارے میں سروے جاری کیا گیا ۔ سروے کے مطابق کوویڈ19 کی عالمگیر وبا کے نتیجے میں پنجاب میں تقریباً ایک تہائی یعنی 36 فیصدگھرانوں کی آمدنی میں خاصی کمی ہوئی۔

ایک فیصد گھرانوں کا کوئی فرد کورونا میں مبتلا یا جاںبحق ہواتھا۔ حکومت نے وبا کے بعد فاصلاتی تعلیم کے لیے اگرچہ پروگرام کا جلد آغازکیا تاہم سروے میں 82 فیصد خاندانوں کو ٹیلی اسکولوں اورتعلیم گھرکے بارے میں علم نہیں تھا۔یہ رپورٹ چشم کشا ہے ، دوسری جانب بچوں کو یہ بتانا کہ وبا سے بچنے کا بہترین طریقہ تعلیمی اداروں اور تعلیم سے دوری اختیار کرنا ہے، درست نہیں ہے۔

پاکستان میں پہلے ہی بنیادی تعلیم سے محروم بچوں کی تعداد بہت زیادہ ہے، اس تعداد میں کمی کی کوشش کے بجائے اضافہ کرنا غلط حکمت عملی ہو گی۔مناسب حکمت عملی کے تحت تعلیمی سلسلہ جاری رہنا چاہیے۔ اقوام متحدہ کے بہبود اطفال کے ادارے یونیسیف اور انٹرنیشنل ٹیلی کمیونیکیشن یونین کی ایک تازہ مشترکہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں کووڈ انیس کی وبا کے باعث اسکولوں کی بندش سے 40 ملین بچے متاثر ہوئے ہیں۔

کورونا وائرس کی تیسری لہر کی شدت سے بچاؤ کا واحدراستہ ایس او پیز پر عمل کرنا ہے ، ہمیں اپنے روزمرہ معمولات میں مثبت انداز میں تبدیلی لانا ہوگی ، اپنے طرز زندگی کو احتیاطی تدابیر کے مطابق ڈھالنا ہوگا، صرف اور صرف اسی طرح ہم کورونا وائرس کے پھیلاؤ کی شدت میں کمی لاسکتے ہیں۔
Load Next Story