رحمت للعالمین محمدﷺ

اﷲ تعالیٰ کو اپنی مخلوقات سے کس قدر پیار ہے اور وہ ان کا کس قدر خیال رکھتا ہے اس کا اندازہ کوئی نہیں لگا سکتا۔

اﷲ تعالیٰ کو اپنی مخلوقات سے کس قدر پیار ہے اور وہ ان کا کس قدر خیال رکھتا ہے اس کا اندازہ کوئی نہیں لگا سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ جب اﷲ تعالیٰ نے اس کائنات کی تخلیق کی تو اس کے ساتھ ہی اس کی درستگی اور بہتری کے لیے رشد و ہدایت کا سلسلہ بھی شروع کردیا۔ چنانچہ انبیائے کرام کی دنیا میں آمد اور وحی الٰہی کا سلسلہ اس کرہ ارض کے پہلے نبی حضرت آدم علیہ السلام کی آمد کے ساتھ ہی شروع ہوگیا تھا جو بنی نوع انسان کے جد امجد تھے۔ مگر تمام پیغمبروں اور رسولوں میں نبی کریم محمد صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا درجہ سب سے بلند ہے۔

سورہ بقرہ کی آیت نمبر 124 کے مطابق حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اﷲ تعالیٰ سے دعا مانگی تھی کہ وہ انھیں لوگوں کا امام بنا دے اور ان کی اولاد میں اپنی اطاعت گزار ایک جماعت رکھ لے۔ اﷲ تعالیٰ نے ان کی دعا ان کی اولاد کے نیکو کاروں کے حق میں قبول فرمائی۔ چنانچہ حضرت ابراہیمؑ کے بعد جتنے بھی انبیاء اور رسول آئے وہ سب آپ ہی کی اولاد میں سے تھے اور جتنی الہامی کتابیں نازل ہوئیں وہ سب آپ ہی کی اولاد میں نازل ہوئیں۔ حضرت اسماعیل اور حضرت اسحاق دونوں حضرت ابراہیم کے فرزند ارجمند تھے۔ حضرت اسحاق کے صاحبزادے حضرت یعقوب علیہ السلام تھے اور ان سے جو نسل چلی وہ بنی اسرائیل کہلائی جن میں حضرت موسیٰ علیہ السلام مبعوث ہوئے۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام سے جو نسل چلی وہ عرب کہلائی اور محمد صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ان ہی عرب والوں میں مبعوث ہوئے۔

سرکار دو عالم محمد صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم 12 ربیع الاول 571بروز پیر مکہ مکرمہ میں عرب کے مشہور اور معزز قبیلے قریش میں پیدا ہوئے جو خانہ کعبہ کا متولی اور رکھوالا تھا۔ آپؐ بی بی آمنہ اور حضرت عبداﷲ بن حضرت عبدالمطلب کی اکلوتی اولاد تھے۔ جب آپؐ کی پیدائش کا وقت آیا تو اﷲ تعالیٰ نے فرشتوں سے فرمایا کہ آسمان اور بہشت کے تمام دروازے کھول دو، جنت کو آراستہ کرو اور فرشتوں کو حاضر ہونے کا حکم ہوا۔ پس وہ زمین پر ایک دوسرے کو مبارکباد دیتے تھے۔ پہاڑوں کو سربلندی عطا ہوئی، دریاؤں کو جوش پیدا ہوا، شیاطین مقید کردیے گئے، آفتاب کو بہت بڑا نور دیا گیا، اس کے قریب ستر (70) ہزار حوریں حضور کے انتظار میں معلق کھڑی تھیں۔ آپؐ کی ولادت کی رات کسریٰ کی دیواروں میں زلزلہ محسوس ہوا، اس کے چودہ کنگرے گرگئے۔ ایران کے آتش کدے کی وہ آگ جو ہزار سال سے نہ بجھتی تھی وہ بجھ گئی اور قیصر روم کا تخت کانپ اٹھا۔ ایسا سماں، ایسا نظارہ زمین و آسمان میں کبھی نہیں دیکھا گیا۔ یہ اﷲ کے محبوب ترین بندے اور نبیؐ کا استقبال تھا، جس نے دنیا سے ظلمت اور تاریکی کو مٹا کر اﷲ کا دین حق قائم کیا۔

آپؐ کی ساری زندگی، سیرت اور شکل مبارک ایسی تھی کہ اکثر لوگ آپ کا سراپا اور اخلاق دیکھ کر ہی مسلمان ہوجاتے تھے۔ آپ ؐ محور وحی تھے جس سے دنیا فیض یاب ہوئی۔ آپؐ نے اﷲ کا پیغام اور احکامات نہ صرف لوگوں تک پہنچائے بلکہ ان پر عمل بھی کروایا۔ آخری الہامی کتاب قرآن مجید جو آپ ؐ پر نازل ہوئی آپ اس کی عملی صورت تھے۔ اﷲ کا دین اسلام آپؐ پر مکمل ہوا اور اس دین کو پھیلانے اور فتح یاب کرنے کے لیے آپؐ نے کفار سے جنگیں بھی لڑیں۔ اﷲ تعالیٰ نے آپ کو کامیابی عطا فرمائی اور نبوت و رسالت آپؐ پر ختم ہوئی۔ آپؐ نے مدینے میں اسلام کی پہلی ریاست قائم کی اور عبودیت سمیت ریاست و معاشرت کے ہر پہلو کا عملی نمونہ دنیا کے سامنے پیش کیا اور دنیا کی ہدایت کے لیے اﷲ کی کتاب قرآن اور اپنی سنت چھوڑدی۔ پیغمبر ہونے کے ساتھ ساتھ آپ نے دنیا کو ایک عظیم اور درست سربراہ ریاست کا عملی نمونہ بھی پیش کیا۔ حضور اکرمؐ کی تمام تر زندگی عمل اور تعلیمات ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔ آپؐ کی تمام تر تعلیمات اور عمل کا منبع وحی الٰہی اور قرآن ہیں جن کا مکمل احاطہ اس مختصر سی تحریر میں ممکن نہیں۔ یہاں میں کچھ پہلوؤں اور واقعات پر روشنی ڈالوںگی جن پر عمل کرکے ہم اپنی دنیا اور عاقبت سنوار سکتے ہیں۔

سرور کائناتؐ نے اپنی زندگی میں جس امر کا بہت زیادہ خیال رکھا اور جس کے لیے آپ خاص اہتمام کرتے تھے وہ پانچ وقت کی نمازوں کی اول وقت میں ادائیگی ہے۔ آپؐ کا فرمان ہے کہ جب نماز کا وقت آجائے تو اس میں دیر نہیں کرنی چاہیے۔ فرض نماز مسجد میں باجماعت اور نفل نمازیں گھر میں پڑھنا آپؐ کے معمولات میں شامل تھا۔ نماز انسانیت کے لیے خالق حقیقی کا تحفہ ہے جو اس نے اپنے پیارے رسولؐ محمد صلی اﷲ علیہ آلہ وسلم کو معراج کے موقع پر دنیا میں ان کی واپسی کے وقت عطا کیا تھا۔ چنانچہ نماز اﷲ کی عبادت اور رسول اﷲؐ کی اطاعت کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے لیے بڑی نعمت اور رحمت بھی ہے جو انھیں ہزاروں مشکلات، پریشانیوں اور بیماریوں سے بچاتی ہے۔ نماز سکون قلب ہے اور اﷲ اور بندے کے درمیان براہ راست رابطہ ہے۔ فتح مکہ کے موقعے پر خانہ کعبہ میں 360 بت تھے جن کی پوجا کی جاتی تھی۔ آپؐ اپنی چھڑی سے بتوں کو گراتے جاتے تھے اور کہتے جاتے تھے ''حق آگیا اور باطل چلا گیا'' اس طرح آپؐ نے مسلمانوں پر واضح کردیا کہ ان کا دین اسلام ہی دین حق ہے جو ہمیشہ رہے گا اور مسلمانوں کو اسی دین پر جینا اور اسی پر مرنا ہے۔


خطبہ حجۃ الوداع کے موقعے پر نبی کریمؐ نے فرمایا کہ آج کے دن میں تمام نسلی امتیازات کا خاتمہ کرتا ہوں۔ تم سب آدمؑ کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے بنے ہیں۔ کالے کو گورے پر اور گورے کو کالے پر، عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر کوئی امتیاز اور برتری حاصل نہیں ہے۔ تم میں بڑا وہ ہے جو سب سے زیادہ نیک اور متقی ہے۔ یہ کہہ کر آپؐ نے انسانوں کے مابین حقیقی انصاف کردیا۔

ہمارے نبیؐ نے بڑی سادہ زندگی بسر کی اور مسلمانوں کو بھی سادہ زندگی بسر کرنے کی تلقین کی۔ ایک دفعہ راستے میں ریشمی کپڑا بک رہا تھا۔ حضرت عمرؓ نے آپؐ سے کہا کہ آپؐ اپنے پہننے کے لیے یہ کپڑا خرید لیں۔ آپؐ نے فرمایا کہ یہ کپڑا پہننے کے لیے وہ خریدے گا جس کو آخرت کی کوئی فکر نہیں۔ اسی طرح رہنے کے لیے بلند اور عالیشان مکانوں کو بھی آپؐ نے ناپسند کیا۔

رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے جب حضرت معاذ کو یمن کا عامل مقرر کیا تو آپ نے حضرت معاذ سے فرمایا جب تیرے پاس کوئی مقدمہ آئے گا تو اس کا تو کس طرح فیصلہ کرے گا؟ حضرت معاذ نے عرض کیا اﷲ کی کتاب کے موافق، آپؐ نے پھر فرمایا جو کتاب اﷲ میں نہ پائے تو ؟ پھر حضرت معاذ نے عرض کیا کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کے مطابق ، پھر آپؐ نے فرمایا جو تو سنت رسول اﷲ میں بھی نہ پائے اور کتاب اﷲ میں بھی نہ پائے، پھر حضرت معاذ نے عرض کیا کہ پھر میں اپنی عقل سے غور و فکر سے اور راست سے کروںگا اور کوتاہی نہ کروںگا یعنی مقدمے کا فیصلہ بہت سوچ کر کروںگا اور ناانصافی نہ کروں گا۔ اس پر آپؐ نے حضرت معاذ کا کاندھا تھپتھپایا اور خوشی کا اظہار کیا۔

سرکار دو عالمؐ نے اﷲ کے رسولؐ اور پیغمبر ہونے کے ساتھ ساتھ دنیا کو ایک عظیم سربراہ مملکت کا اعلیٰ نمونہ بھی پیش کیا جس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ آپؐ نے دنیا کو بے مثال اور اعلیٰ قانون دیا جس کا کوئی ثانی نہیں، آپؐ نے انتظامی اور عدالتی نظام کا بھی عملی نمونہ دنیا کے سامنے پیش کیا جس کا کوئی ثانی نہیں اور اپنے وصال کے وقت بھی ایک زریں اصول دنیا کو دیا کہ آپؐ نے لوگوں کے اصرار کے باوجود اپنا کوئی جانشین مقرر نہیں کیا کہ حکمرانی کا اختیار کسی فرد یا خاندان کا ورثہ نہیں۔ حکمرانی صرف اﷲ کی ہے اور انسان اس کا نائب ہے جس کا کام دنیا میں اﷲ کے قانون کو نافذ کرنا ہے۔

آج 12 ربیع الاول کے دن اﷲ کے رسول حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا یوم پیدائش مناتے ہوئے ہمیں اس امر کی طرف خاص توجہ دینی چاہیے کہ تمام مسلمان آپؐ کی سنت اور تعلیمات پر عمل کریں، جن کا منبع وحی الٰہی اور قرآن ہے اور آپؐ خدا کے محبوب ترین بندے اور رسولؐ ہیں جن پر اﷲ تعالیٰ خود درود و سلام بھیجتا ہے۔ سورہ احزاب میں اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے ''اﷲ اور فرشتے نبیؐ پر درود و سلام پڑھتے ہیں، اے ایمان والو! تم بھی آپؐ پر خوب درود و سلام بھیجو''۔
Load Next Story