کورونا کی تباہ کاریاں

جب سے یہ وبا شروع ہوئی ہے کبھی ایک دن میں اتنی اموات نہیں ہوئیں جتنی اب روزانہ کی بنیاد پر ہونا شروع ہو گئی ہیں۔

gfhlb169@gmail.com

کورونا کی تیسری لہر کی تباہ کاریاں عروج پر ہیں۔اب کی بار کورونا نے اپنے آپ کو تبدیل Mutateکر کے انتہائی مہلک بنا لیا ہے۔اب وہ اپنے شکار کو گھائل کرنے کے لیے دو تین ہفتے بھی نہیں لے رہا بلکہ ایسے بے شمار کیس سامنے آ رہے ہیں جہاں علامات اس وقت ظاہر ہوئیں جب پھیپھڑے پہلے ہی ناکارہ ہو چکے تھے۔

پہلے اس کا شکار زیادہ تر وہ افراد تھے جن کو سینئر شہری کہا جا سکتا ہے۔ پر اب چند دنوں کے نو مولود بھی اس کی بھینٹ چڑھ کر جان سے جا رہے ہیں۔نومبر 2019میں جب کورونا کی وبا نے ووہان چین سے اپنی تباہ کاریوں کا آغاز کیا اور اگر آپ اس وقت کے مناظر کو اپنی یاد میں تازہ کر سکیں تو پردے کی اسکرین پر دیکھ پائیں گے کہ لوگ کھڑے کھڑے اور راہ چلتے گر کر موت کی آغوش میں جا رہے ہیں۔اب بالکل وہی مناظر بھارت میں دیکھے جا سکتے ہیں۔

ووہان میں تو جو ہوا اس پر چین کی حکومت نے اپنی بہترین کارکردگی کی وجہ سے بہت جلد قابو پا لیا لیکن بھارت میں ایک دوسرا ہی منظر دیکھنے کو مل رہا ہے۔کہا جاتا تھا کہ بھارت میں ہیلتھ کیئر کا نظام کافی مضبوط ہے۔ بمبئی،دہلی اور کول کتہ کے اسپتال اپنی طبی سہولتوں کے لیے مشہور ہیں لیکن کورونا کی موجودہ لہر کا دھاوا اتنا شدید تھا کہ اس نے بھارت کے ہیلتھ کیئر کے سارے نظام کو مفلوج کر کے رکھ دیا۔

اسپتالوں میں مریضوں کی تعداد گنجائش سے کہیں زیادہ ہے۔ مریضوں کے لواحقین رو رہے ہیں،دھاڑیں مار رہے ہیں،فریادیں کر رہے ہیں لیکن بہت سے مریض ضروری طبی امداد بر وقت نہ ملنے کی وجہ سے اسپتالوں کے برآمدوں میں مر رہے ہیں جب کہ کھڑے کھڑے گر کر مرنے والوں کی ایک بڑی تعداد سرِ راہ دیکھی جا سکتی ہے۔ہر طرف ایک چیخ و پکار ہے،ایک بے بسی ہے۔

برِ صغیر میں اور باتوں کے ساتھ یہ ایک چیز بھی مشترک ہے کہ یہاں مذہبی شدت پسندی اور ضعیف الاعتقادی بہت ہے۔ بھارت میں ایسے بے شمار مناظر دیکھنے کو ملے ہیں جہاں مریض کو طبی امداد تو نہیں مل پا رہی لیکن پنڈت مریضوں کے منہ میں گائے کا پیشاب ڈال کر انھیں شفا یاب ہونے کا مژدہ سنا رہے ہیں البتہ یہ الگ بات ہے کہ ایسے مریض تھوڑی ہی دیر بعد دم توڑ رہے ہیں۔ اس جہالت اور اس مکروہ ضعیف الاعتقادی کا کوئی کیا کرے۔ہندو کھمب میلہ ہر بارہ سال بعد منایا جاتا ہے۔


اسے اب اگلے سال منعقد ہونا تھا لیکن ہندو جوتشیوں کے کہنے پر کہ اس وقت ستاروں کی چال اور پوزیشن زبردست ہے اس لیے یہ میلہ اسی سال منا لیا جائے تو ایک ایسے وقت میں جب کہ کورونا کی تباہ کاریاں زور پکڑ رہی تھیں میلہ شروع کر دیا گیا اور لاکھوں لوگ جوق در جوق گنگا پر جمع ہو کر اشنان کرنے سمیت دوسری رسومات ادا کرنے شروع ہو گئے۔ننگے دھڑنگے سادھوؤں کے جلوس پولیس کی حفاظت میں امڈ آئے۔بس پھر کیا تھا،وبا کو پھیلنے کے لیے ایسے موافق حالات مل گئے کہ خداکی پناہ۔ جب اس کے نتیجے میں لوگ راہ چلتے مرنے لگے تو تب جا کر میلے کی باقی رسومات ملتوی کی گئیں۔

پاکستان کے اندر بھی کورونا وبا دن بدن زور پکڑتی جا رہا ہے۔جب سے یہ وبا شروع ہوئی ہے کبھی ایک دن میں اتنی اموات نہیں ہوئیں جتنی اب روزانہ کی بنیاد پر ہونا شروع ہو گئی ہیں۔حکومت صرف ایس او پیز جاری کرنے تک رہتی ہے لیکن عوام ان ایس او پیز پر دھیان ہی نہیں دیتے۔ شروع میں ایک خوف کا عالم تھا لیکن جب پہلی لہر میں اموات اندازے سے کم رہیں تو لوگوں کے اندر سے خوف اُٹھ گیا اور ساتھ ہی ایسی تھیوریوں نے غضب ڈھایا کہ کورونا وبا ہے ہی نہیں۔

ایسے میں ہمارے مذہبی رہنماؤں اور مساجد کے اماموں نے اپنا کردار بالکل نہیں نبھایا۔حرمین شریفین میں پہلے تو داخلے پرپابندی لگی اور پھر پورے ایس او پیز کے ساتھ عمرہ اور نمازوں کی ادائیگی شروع ہوئی۔وہاں پر تو کوئی بھی آدمی دوسرے کے ساتھ نہ تو جڑ کر کھڑا ہو سکتا ہے اور نہ ہی ماسک کے بغیر داخل ہو سکتا ہے۔ماسک کو ٹھوڑی کے نیچے رکھ کر ناک کو کھلا بھی نہیں چھوڑ سکتا لیکن پاکستان میں ہمارے امام حضرات نے منبر کی طاقت و قوت کو عوام کی زندگیاں بچانے کے لیے نہیں استعمال کیا۔ اب فوج کو ایس او پیز پرعمل درآمد کے لیے بلا لیا گیا ہے۔ اس لیے ایک امید بندھ چلی ہے۔

پاکستان نے بھارت میں کورونا کی تباہ کاریوں کو دیکھتے ہوئے بہترین ہمسائیگی کا ثبوت دیا اور ایمبولنسوں،وینٹی لیٹروں سمیت پیرا میڈکس اسٹاف فراہمی کی پیش کش کر دی۔سربراہ ایدھی فاؤنڈیشن نے کہا ہے کہ اگر بھارت راضی ہو تو ایدھی والے 50ایمبولینسوں کے ساتھ فوراً مدد کے لیے پہنچ سکتے ہیں۔ پاکستان کی اس خیرسگالی پیش کش پر بھارتی ابھی انگشت بدنداں ہیں۔ ادھر ہمارے وزیرِ خارجہ نے پچھلے دنوں کئی مسلمان ممالک کا دورہ کیا۔اسی دورے کے دوران انھوں نے ایک بیان میں کہا کہ انڈیا اور پاکستان کے مابین کسی بھی قسم کی اور کسی بھی سطح پر بیک ڈور ڈپلومیسی نہیں ہو رہی حالانکہ اب یہ بات طشت از بام ہو چکی ہے کہ 25فروری کو ایل او سی پر ہونے والی جنگ بندی دونوں ممالک کے درمیاں بیک ڈور چینل کی وجہ سے ہی ہوئی۔

ہماری قیادت کو یہ باور کر لینا چاہیے کہ اطلاعات کی فراہمی میں اتنی تیزی آ گئی ہے کہ کوئی بھی بات یا خبر اب زیادہ دیر چھپی نہیں رہ سکتی۔جنرل باجوہ اور ان کے رفقائے کار نے کوئی تیس اینکرز اورصحافیوں کے ساتھ ایک لمبا سیشن کیا۔ یہ سیشن افطاری پر تھا۔ اس کے دوران ہماری فوجی قیادت نے صحافیوں کو اس بات پر آن بورڈ لیا کہ بھارت کے ساتھ حالات بہتر کیے جائیں اور دوستی نہ بھی ہو تو اچھی ہمسائیگی کا ماحول تو ضرور ہو۔یہ بات انتہائی خوش آیند ہے کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ اس کی قائل ہو چکی ہے کہ بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی اشد ضرورت ہے۔ اس سے بہتر اور کوئی بات ہو ہی نہیں سکتی ۔
Load Next Story