رمضان میں بھی مہنگائی
دکاندار حضرات رمضان میں استعمال ہونے والی اشیا کی من مانی قیمت وصول کر کے اپنے لیے عذاب چنتے ہیں۔
رمضان المبارک میں اللہ کے مومن بندے، خدائے رحیم کی رحمتوںکے طلبگار اور اپنی عبادات میں مصروف ہوتے ہیں، ایسے میں ذاتی لالچ میں مگن خوف خدا سے عاری کلمہ گو بیو پاری حضرات اوروں کے لیے زحمت اور اذیت اور اپنے لیے غضب ناک عذاب پر مصر رہتے ہیں۔
دین اسلام روزہ داروں کے لیے آسانیاں اور سہولیات فراہم کرنے کا درس دیتا ہے لیکن منافع خور حضرات رمضان المبارک میں بھی اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں خود ساختہ اضافہ کر کے ان کے لیے معاشی تکلیف کا باعث بنتے ہیں، دکاندار حضرات رمضان میں استعمال ہونے والی اشیا کی من مانی قیمت وصول کر کے اپنے لیے عذاب چنتے ہیں۔ امسال ماہ رمضان میں ناجائز منافع خوروں نے اشیائے صرف اور خورونوش کی قیمتوں میں اضافہ کیا ہوا ہے۔
حکومتی گرفت نہ ہونے کے باعث منافع خور، ذخیرہ اندوز صارفین کو مہنگی اشیا فروخت کر رہے ہیں۔ ہر چندکہ ضلع انتظامیہ ناجائز منافع خوروں کے خلاف کارروائیاں کرتی ہیں اور ان کارروائیوں کے دوران مجسٹریٹ صرف دس منٹ کے لیے کسی بازاریا مارکیٹ میں ٹھہرتا ہے اور مہنگائی کا طوفان بھی اسی دس منٹ کے لیے تھمتا ہے۔
اس طرح حکومت وقت کی جانب سے کیے گئے اقدامات روزمرہ اشیا کی قیمتوں پر نظر رکھنے، ضروری اشیا بروقت اور مناسب قیمت پر لوگوں کو دستیاب ہونے، رمضان المبارک میںعوام کو اربوں روپے رمضان ریلیف پیکیج دینے کے دعوے اور دیگر اقدامات بے کار ثابت ہو رہے ہیں اور عوام کو رمضان میں سستی اشیا کی فراہمی کہیں بھی نظر نہیں آرہی ہے۔ امسال وفاقی حکومت کی جانب سے رمضان پیکیج کا اعلان کیا گیا ہے لیکن رمضان پیکیج سبسڈی والی اشیا یوٹیلٹی اسٹور کے ذریعے فروخت کرنے کے فیصلے سے پورے ملک کے صارفین استفادہ حاصل نہیں کر پارہے ہیں۔
یہ اطلاعات عام ہیں کہ گزشتہ کئی سال سے یوٹیلٹی اسٹورز کے ملازمین سبسڈی والی اشیا صارفین کو فروخت کرنے کے بجائے پچھلے دروازے سے مافیا کے ساتھ ساز بازکرکے کروڑوں روپے کما رہے ہیں۔ ملک کی آبادی بائیس کروڑ ہے اور ملک بھر میں یوٹیلٹی اسٹورز کی کل تعداد 5491 ہے۔ اب ذرا تصور کریں کس طرح ملک کے کروڑوں لوگوں کو سبسڈی سے فائدہ حاصل ہو سکتا ہے، لہٰذا حکومت کا سبسڈی والی اشیا یوٹیلٹی اسٹورز کو فروخت کرنے کا فیصلہ قطعی غلط ہے۔
یہ منصوبہ ہمیشہ کی طرح ناکام نظر آ رہا ہے ہونا یہ چاہیے کہ حکومت رمضان میں اوپن مارکیٹ میں فروخت ہونے والی اشیائے صرف کی قیمتوں میں سبسڈی کا اعلان کرتی تاکہ عام صارف کو اپنے ہی محلے کی دکانوں پر کم قیمت میں اشیا دستیاب ہوتیں اور صارفین روزہ رکھ کر یوٹیلٹی اسٹوروں پر لمبی لمبی لائنوں میں لگنے کے بجائے عبادت میں وقت گزارتے۔ وفاق اور تمام صوبوں کی حکومتیں اور کمشنری نظام مہنگائی کا جن امسال قابو کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں، اللہ کے نیک بندے رمضان میں عبادتوں میں مصروف ہیں تو دوسری طرف ظالم تاجر ناجائز منافع خوری میں مگن ہیں۔
ناجائزمنافع خوروں کو صرف تنبیہ کر کے چھوڑنے سے مہنگائی کو قابو نہیں کیا جا سکتا۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں فوری طور پر ناجائز منافع خوروں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کریں اور ناجائز منافع خور تاجروں پر جرمانہ عائد کرنے کے بجائے سخت ترین سزاؤں کے اقدامات کیے جائیں۔ ادارہ شماریات کا کام صرف بڑھتی گھٹتی مہنگائی کے اعدادو شمار بیان کرنا ہے ایک غریب آدمی جس کی مہینے بھر کی کمائی پندرہ سے بیس ہزار روپے ہے زندگی کس الم میں گزارنے پر مجبور ہیں؟ کیا کسی حکمران کو اس کا احساس بھی ہے؟ سب کے سب اپنی نوٹنکیوں میں مصروف ہیں اور ان کے اللے تللے تالیاں بجا بجا کر غریبوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کا کام کر رہے ہیں۔
کوئی تو ہو جو غریبوں کی داد و فریاد پر کان دھرے! سرکاری محکموں کے بیشتر افسران اور نچلے درجے کے ملازمین کی بھی اکثریت اپنی اوپر کی کمائیوں میں مصروف ہیں، اوپر سے لے کر نیچے تک گند ہی گند ہے صفائی کون کرے گا؟ کھجور جس سے افطارکرنا مسنون ہے، رمضان المبارک میں اس کی قیمتیں بھی آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔
قابل غور بات یہ ہے کہ ملک میں پیدا ہونے والی کھجوروں کی مانگ درآمدی کھجوروں سے زیادہ ہے۔ پاکستان میں کھجور کی فصل پندرہ جولائی سے پندرہ اگست تک تیار ہوتی ہے جس کے بعد اسے اسٹور کر کے رمضان المبارک کے قریب مارکیٹ میں لایا جاتا ہے۔ روزہ داروں کے لیے اس سوغات اور افطار کے وقت دستر خوان کی زینت کھجور کی قیمت غریب صارف کے دسترس سے باہر ہوتی جا رہی ہے۔
کچھ تو خوف خدا کریں! بازاروں میں پھل فروشوں نے بھی جو لوٹ مار مچا رکھی ہے اس نے تو مہنگائی کو پر لگا دیے ہیں۔ علاوہ ازیں سبزیاں، ٹماٹر، پیاز، آلو، مرغی، گوشت، دودھ، دہی، انڈے اور دیگر کھانے پینے کی اشیا کے علاوہ کپڑے، ری ڈی میڈ ملبوسات، چپل جوتے، میڈیکل ادویات سمیت بچوں کے ٹوفیاں وغیرہ سمیت دیگر اشیا کی قیمتوں میں بھی آگ لگا دی گئی ہے۔
پیٹرولیم مصنوعات میں اضافہ کرنا ہمارے یہاں معمول کی بات بن چکی ہے جس کے بڑھتے ہی ہر چیزکی قیمت خود بہ خود بڑھ جاتی ہے۔ ہمارے حکمرانوں کے بقول دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں پاکستان میں مہنگائی کم ہے یعنی ابھی تک ملک کے غریب عوام زندہ کیوں ہیں والی بات ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ غریبوں سے ان کے جینے کا حق چھین لیا گیا ہے، آبادی کے ایک بڑے طبقے کے لیے دو وقت پیٹ بھرنا دشوار ہوچکا ہے۔ تاہم اسی ملک (پاکستان) میں امیر طبقہ اپنے پالتو کتے بلیوں کا پیٹ بھرنے کے لیے بیرون ملک سے لاکھوں روپے کی خوراک منگواتے ہیں یعنی غریب بھوک سے مر رہے ہیں اور امیروں کے پالتو جانور زائد خوراک کھانے سے پھل پھول رہے ہیں۔
یہ امر قابل غور ہے کہ ملک میں کتوں اور بلیوں کی غذا کی درآمدات پر سالانہ کروڑوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں اور اسی پاکستان میں ایک مزدور کی ماہانہ تنخواہ پندرہ سے اٹھارہ ہزار ہے جسے اپنے کنبے کی ماہ بھر کفالت کرنا ہے تو ذرا غورکریں یہ کیسے ممکن ہے؟ دوسرے معنوں میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہمارے یہاں غریبوں سے زیادہ پالتو جانوروںکی قدر ہے۔ کہتے ہیں کہ کورونا نے تباہی مچائی ہوئی ہے، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت مہنگائی نے لوگوں کو مرنے پر مجبور کیا ہوا ہے، اگر کورونا اور بھوک کا موازنہ کیا جائے تو یہ بات عیاں ہو گی کہ بھوک سے لوگ زیادہ مر رہے ہیں۔
لہذا کورونا کے ساتھ ساتھ بھوک پر بھی توجہ کریں تاکہ انسانی جانوں کو بھوک سے بچایا جا سکے۔ دولت کی یہ غیر منصفانہ تقسیم ہمیں کہاں لے جا کر ڈبو دے گی کچھ نہیںکہا جاسکتا۔ البتہ اتنا ضرورکہا جا سکتا ہے اس کا انجام قدرت کا فیصلہ ہو گا، جب غریب غالب آئیں گے۔ یہ کیسے ہوگا؟ یہی تو قدرت کا کمال ہو گا جس کے یہاں ہمیشہ انصاف ہوا ہے اور انصاف ہوتا رہے گا۔ اس کے یہاں دیر ہے اندھیرنہیں، بس صبر شرط ہے۔
دین اسلام روزہ داروں کے لیے آسانیاں اور سہولیات فراہم کرنے کا درس دیتا ہے لیکن منافع خور حضرات رمضان المبارک میں بھی اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں خود ساختہ اضافہ کر کے ان کے لیے معاشی تکلیف کا باعث بنتے ہیں، دکاندار حضرات رمضان میں استعمال ہونے والی اشیا کی من مانی قیمت وصول کر کے اپنے لیے عذاب چنتے ہیں۔ امسال ماہ رمضان میں ناجائز منافع خوروں نے اشیائے صرف اور خورونوش کی قیمتوں میں اضافہ کیا ہوا ہے۔
حکومتی گرفت نہ ہونے کے باعث منافع خور، ذخیرہ اندوز صارفین کو مہنگی اشیا فروخت کر رہے ہیں۔ ہر چندکہ ضلع انتظامیہ ناجائز منافع خوروں کے خلاف کارروائیاں کرتی ہیں اور ان کارروائیوں کے دوران مجسٹریٹ صرف دس منٹ کے لیے کسی بازاریا مارکیٹ میں ٹھہرتا ہے اور مہنگائی کا طوفان بھی اسی دس منٹ کے لیے تھمتا ہے۔
اس طرح حکومت وقت کی جانب سے کیے گئے اقدامات روزمرہ اشیا کی قیمتوں پر نظر رکھنے، ضروری اشیا بروقت اور مناسب قیمت پر لوگوں کو دستیاب ہونے، رمضان المبارک میںعوام کو اربوں روپے رمضان ریلیف پیکیج دینے کے دعوے اور دیگر اقدامات بے کار ثابت ہو رہے ہیں اور عوام کو رمضان میں سستی اشیا کی فراہمی کہیں بھی نظر نہیں آرہی ہے۔ امسال وفاقی حکومت کی جانب سے رمضان پیکیج کا اعلان کیا گیا ہے لیکن رمضان پیکیج سبسڈی والی اشیا یوٹیلٹی اسٹور کے ذریعے فروخت کرنے کے فیصلے سے پورے ملک کے صارفین استفادہ حاصل نہیں کر پارہے ہیں۔
یہ اطلاعات عام ہیں کہ گزشتہ کئی سال سے یوٹیلٹی اسٹورز کے ملازمین سبسڈی والی اشیا صارفین کو فروخت کرنے کے بجائے پچھلے دروازے سے مافیا کے ساتھ ساز بازکرکے کروڑوں روپے کما رہے ہیں۔ ملک کی آبادی بائیس کروڑ ہے اور ملک بھر میں یوٹیلٹی اسٹورز کی کل تعداد 5491 ہے۔ اب ذرا تصور کریں کس طرح ملک کے کروڑوں لوگوں کو سبسڈی سے فائدہ حاصل ہو سکتا ہے، لہٰذا حکومت کا سبسڈی والی اشیا یوٹیلٹی اسٹورز کو فروخت کرنے کا فیصلہ قطعی غلط ہے۔
یہ منصوبہ ہمیشہ کی طرح ناکام نظر آ رہا ہے ہونا یہ چاہیے کہ حکومت رمضان میں اوپن مارکیٹ میں فروخت ہونے والی اشیائے صرف کی قیمتوں میں سبسڈی کا اعلان کرتی تاکہ عام صارف کو اپنے ہی محلے کی دکانوں پر کم قیمت میں اشیا دستیاب ہوتیں اور صارفین روزہ رکھ کر یوٹیلٹی اسٹوروں پر لمبی لمبی لائنوں میں لگنے کے بجائے عبادت میں وقت گزارتے۔ وفاق اور تمام صوبوں کی حکومتیں اور کمشنری نظام مہنگائی کا جن امسال قابو کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں، اللہ کے نیک بندے رمضان میں عبادتوں میں مصروف ہیں تو دوسری طرف ظالم تاجر ناجائز منافع خوری میں مگن ہیں۔
ناجائزمنافع خوروں کو صرف تنبیہ کر کے چھوڑنے سے مہنگائی کو قابو نہیں کیا جا سکتا۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں فوری طور پر ناجائز منافع خوروں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کریں اور ناجائز منافع خور تاجروں پر جرمانہ عائد کرنے کے بجائے سخت ترین سزاؤں کے اقدامات کیے جائیں۔ ادارہ شماریات کا کام صرف بڑھتی گھٹتی مہنگائی کے اعدادو شمار بیان کرنا ہے ایک غریب آدمی جس کی مہینے بھر کی کمائی پندرہ سے بیس ہزار روپے ہے زندگی کس الم میں گزارنے پر مجبور ہیں؟ کیا کسی حکمران کو اس کا احساس بھی ہے؟ سب کے سب اپنی نوٹنکیوں میں مصروف ہیں اور ان کے اللے تللے تالیاں بجا بجا کر غریبوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کا کام کر رہے ہیں۔
کوئی تو ہو جو غریبوں کی داد و فریاد پر کان دھرے! سرکاری محکموں کے بیشتر افسران اور نچلے درجے کے ملازمین کی بھی اکثریت اپنی اوپر کی کمائیوں میں مصروف ہیں، اوپر سے لے کر نیچے تک گند ہی گند ہے صفائی کون کرے گا؟ کھجور جس سے افطارکرنا مسنون ہے، رمضان المبارک میں اس کی قیمتیں بھی آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔
قابل غور بات یہ ہے کہ ملک میں پیدا ہونے والی کھجوروں کی مانگ درآمدی کھجوروں سے زیادہ ہے۔ پاکستان میں کھجور کی فصل پندرہ جولائی سے پندرہ اگست تک تیار ہوتی ہے جس کے بعد اسے اسٹور کر کے رمضان المبارک کے قریب مارکیٹ میں لایا جاتا ہے۔ روزہ داروں کے لیے اس سوغات اور افطار کے وقت دستر خوان کی زینت کھجور کی قیمت غریب صارف کے دسترس سے باہر ہوتی جا رہی ہے۔
کچھ تو خوف خدا کریں! بازاروں میں پھل فروشوں نے بھی جو لوٹ مار مچا رکھی ہے اس نے تو مہنگائی کو پر لگا دیے ہیں۔ علاوہ ازیں سبزیاں، ٹماٹر، پیاز، آلو، مرغی، گوشت، دودھ، دہی، انڈے اور دیگر کھانے پینے کی اشیا کے علاوہ کپڑے، ری ڈی میڈ ملبوسات، چپل جوتے، میڈیکل ادویات سمیت بچوں کے ٹوفیاں وغیرہ سمیت دیگر اشیا کی قیمتوں میں بھی آگ لگا دی گئی ہے۔
پیٹرولیم مصنوعات میں اضافہ کرنا ہمارے یہاں معمول کی بات بن چکی ہے جس کے بڑھتے ہی ہر چیزکی قیمت خود بہ خود بڑھ جاتی ہے۔ ہمارے حکمرانوں کے بقول دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں پاکستان میں مہنگائی کم ہے یعنی ابھی تک ملک کے غریب عوام زندہ کیوں ہیں والی بات ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ غریبوں سے ان کے جینے کا حق چھین لیا گیا ہے، آبادی کے ایک بڑے طبقے کے لیے دو وقت پیٹ بھرنا دشوار ہوچکا ہے۔ تاہم اسی ملک (پاکستان) میں امیر طبقہ اپنے پالتو کتے بلیوں کا پیٹ بھرنے کے لیے بیرون ملک سے لاکھوں روپے کی خوراک منگواتے ہیں یعنی غریب بھوک سے مر رہے ہیں اور امیروں کے پالتو جانور زائد خوراک کھانے سے پھل پھول رہے ہیں۔
یہ امر قابل غور ہے کہ ملک میں کتوں اور بلیوں کی غذا کی درآمدات پر سالانہ کروڑوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں اور اسی پاکستان میں ایک مزدور کی ماہانہ تنخواہ پندرہ سے اٹھارہ ہزار ہے جسے اپنے کنبے کی ماہ بھر کفالت کرنا ہے تو ذرا غورکریں یہ کیسے ممکن ہے؟ دوسرے معنوں میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہمارے یہاں غریبوں سے زیادہ پالتو جانوروںکی قدر ہے۔ کہتے ہیں کہ کورونا نے تباہی مچائی ہوئی ہے، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت مہنگائی نے لوگوں کو مرنے پر مجبور کیا ہوا ہے، اگر کورونا اور بھوک کا موازنہ کیا جائے تو یہ بات عیاں ہو گی کہ بھوک سے لوگ زیادہ مر رہے ہیں۔
لہذا کورونا کے ساتھ ساتھ بھوک پر بھی توجہ کریں تاکہ انسانی جانوں کو بھوک سے بچایا جا سکے۔ دولت کی یہ غیر منصفانہ تقسیم ہمیں کہاں لے جا کر ڈبو دے گی کچھ نہیںکہا جاسکتا۔ البتہ اتنا ضرورکہا جا سکتا ہے اس کا انجام قدرت کا فیصلہ ہو گا، جب غریب غالب آئیں گے۔ یہ کیسے ہوگا؟ یہی تو قدرت کا کمال ہو گا جس کے یہاں ہمیشہ انصاف ہوا ہے اور انصاف ہوتا رہے گا۔ اس کے یہاں دیر ہے اندھیرنہیں، بس صبر شرط ہے۔