یکم مئی کے شہیدوں کو سرخ سلام

آج پاکستان میں مزدور سیاسی جماعتوں کے علاوہ مذہب، فرقہ، زبان، قومیت اور علاقے کے نام پر تقسیم ہو چکے ہیں۔

اس مرتبہ پھر یکم مئی 2021 وبا کورونا کی شدت کے دوران منایا جا رہا ہے ، داستان ظلم و ستم آج بھی جاری ہے جو 135 سال قبل امریکا کے صنعتی شہر شکاگو میں جاری تھی، پاکستان میں بھی تبدیلی سرکار آگئی ہے، ڈھائی برس ہوچکے ہیں، ہماری جدوجہد جاری ہے حکمرانوں کی اپنی اجارہ داری جاری ہے۔

اسپائز نے کہا تھا کہ '' حاکموں غریب انسانوں کی آواز بلند ہونے دو ، نہیں تو پھر ان کی تلواریں بلند ہوں گی۔'' مظلوموں، محنت کشوں، محکوموں اور غلاموں کی یوں تو بڑی طویل اور صبر آزما جدوجہد صدیوں پر محیط ہے، جب سے دنیا تشکیل پائی ہے یہ کشمکش جاری ہے۔ جب پہلی مرتبہ زمین پر چند طاقتور لوگوں نے لکیریں کھینچ کر اپنے حق ملکیت کا دعویٰ کرنا شروع کردیا تھا اورکمزور لوگوں پر ظلم کرکے طاقت کے زور پر انھیں اپنا غلام بنا لیا تب ہی سے دنیا میں طبقاتی فرق پیدا ہو گیا تھا۔

اس وقت طاقتور لوگ جبر کرکے غلاموں ، مظلوموں ، محکوموں اور محنت کشوں سے جبری مشقت لیتے تھے اوقات کارکا تعین بھی نہ تھا۔ اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں تقریباً مزدور طبقہ بھی منظم ہونا شروع ہو گیا تھا یہ وہ دور تھا جب صنعتی ترقی ہو رہی تھی۔ بھاپ سے چلنے والے انجن اور کارخانے مشینی دور میں داخل ہو رہے تھے بڑے کم معاوضے پر مزدوروں سے بیگار لی جاتی تھی، دوسری جانب کارل مارکس کے نظریات بھی پھیل رہے تھے۔

محنت کشوں کے کوئی اوقات کار نہ تھے ، نہ ہی کوئی قانون تھا رات گئے تک کام کرنا پڑتا تھا۔ حادثے اور موت کی صورت میں کوئی معاوضہ نہ تھا ، یورپ میں نئی نئی صنعتیں لگ رہی تھیں ، سائنس بھی ترقی کر رہی تھی،کارخانوں کا جال بچھایا جا رہا تھا مزدور طبقہ ابھر رہا تھا اور انجمن سازی کی طرف بڑھ رہا تھا سب سے پہلے برطانیہ میں مزدوروں نے جدوجہد شروع کی یونین بنائی۔

فیڈریشن بنائی اس سے قبل بھی مزدور جدوجہد کرتے رہے مگر شکاگو ان سب میں پیش پیش رہا، امریکا جس کے ایک شہر میں اس تحریک نے جنم لیا آج وہی امریکا سامراج بن کر دنیا میں دندناتا پھر رہا ہے اور محنت کشوں کا دشمن نمبر ایک بن کر دنیا میں دہشت گردی، لوٹ مار، اسلحہ کی منڈی، نیو ورلڈ آرڈر، آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، ڈبلیو ٹی او کے تحت اپنے احکامات کے ذریعے چھوٹے غریب پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک پر حکمرانی کے خواب دیکھ رہا ہے۔ اسے نہیں معلوم کہ آج سرمایہ دارانہ نظام انسانوں کی بھلائی کے لیے کوئی بھی قابل ذکر کارنامہ انجام نہیں دے رہا ہے۔

آج سرمایہ دارانہ، جاگیردارانہ نظام اپنے عروج پر پہنچ کر زوال پذیر ہے ، آج دنیا کے غریب ملکوں کے عوام کو بھوک ، غربت ، جہالت ، بیماری ، بے روزگاری اور مہنگائی سے نجات دلانے کے لیے ملکی حکمرانوں سمیت عالمی سامراج کے پاس، عوام کو غربت کی دلدل سے نکالنے کا کوئی واضح پروگرام نہیں ہے۔

آج عالمی سرمایہ داری نظام اپنی آخری اور بھیانک شکل میں عوام کو بدحالی کی طرح دھکیل رہا ہے لیکن اسی سامراجی ملک میں آج سے ٹھیک 135 سال قبل ایسے جوشیلے انقلابی نوجوان مزدور اور سیاسی رہنما پیدا ہوئے تھے جنھوں نے شکاگو میں پہلی مکمل ہڑتال کرکے اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ دے کر دنیا کی مزدور تحریک کو ایک نیا موڑ دیا تھا اور اپنا خون دے کر محنت کش طبقے کا سر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے فخر سے بلند کردیا تھا۔

انھوں نے اس وقت کے حکمرانوں، مل مالکوں، سرمایہ داروں اور صنعت کاروں کو للکارتے ہوئے کہا تھا کہ '' ظالم حاکمو! ہمیں بھی زندہ رہنے کا حق دو، ہم بھی انسان ہیں، ہمارے بھی اوقات کار مقررکرو، ہماری تنخواہوں میں اضافہ کرو، ہمارے مطالبات پورے کرو۔'' یہ نعرے لگاتے ہوئے مزدور جلوس کی شکل میں مشہور زمانہ (HAY) مارکیٹ کی جانب بڑھ رہے تھے وہ نعرے لگا رہے تھے کہ دنیا کے مزدورو! ایک ہو جاؤ۔ وہ بلا رنگ و نسل و مذہب ایک تھے اپنے حقوق اور مطالبات کی بات کر رہے تھے، پورا صنعتی شہر شکاگو جام ہو گیا تھا، ملوں اورکارخانوں کی چمنیوں سے دھواں نکلنا بند ہو گیا تھا۔


دنیا میں یہ پہلا موقعہ تھا جب محنت کرنے والوں نے اپنے اتحاد کے ذریعے علم بغاوت بلند کرکے مکمل ہڑتال کردی تھی اور پھر یکم مئی 1886 کو صبح کے اخبار میں کسی گمنام صحافی نے اپنا فرض ادا کرتے ہوئے اخبار کے صفحہ اول پر مزدوروں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا۔ ''مزدورو! تمہاری لڑائی شروع ہوچکی ہے، فیصلہ تو آنے والا وقت کرے گا، آگے بڑھو، اپنے مطالبات منوانے کے لیے اپنے اوقات کارکے لیے جدوجہد جاری رکھو، حاکموں کو جھکنا پڑے گا، جیت اور فتح تمہاری ہوگی، ہمت نہ ہارنا، متحد رہنا، اسی میں تمہاری بقا اور اسی میں تمہاری فتح ہے۔''

صحافی کی اس تحریر نے محنت کشوں میں مزید جذبہ اور ابھار پیدا کردیا اور انھوں نے زوردار نعرے کے ساتھ آٹھ گھنٹہ اوقات کارکا مطالبہ کردیا اور یوں پہلی مرتبہ 24 گھنٹوں کے دورانیے کو اس طرح تقسیم کیا گیا کہ ہم 8 گھنٹے کام کریں گے، 8 گھنٹے آرام کریں گے، 8 گھنٹے اپنے اہل خانہ اور بیوی بچوں میں گزاریں گے۔حکمرانوں، مل مالکوں، سرمایہ داروں کو محنت کشوں کا یہ نعرہ اور اتحاد پسند نہ آیا اور انھوں نے مزدوروں کے خلاف ایکشن لیتے ہوئے ان پر گولیوں کی بوچھاڑ کردی ، نہتے کمزور اور پر امن محنت کشوں کو لہو لہان کردیا گیا۔

شکاگوکی سڑکوں پر مزدوروں کا خون بہنے لگا ، محنت کشوں کا امن کا پرچم خون سے سرخ ہو گیا، ایک محنت کش کی قمیض لہو سے تر ہوگئی پھر انھوں نے لہو میں ڈوبے ہوئے سرخ پرچم کو ہی اپنا پرچم بنا لیا اور فیصلہ کیا کہ ہم اس وقت تک کام پر واپس نہیں جائیں گے جب تک ہمارے مطالبات تسلیم نہیں کرلیے جاتے اب یہ سرخ پرچم ہی ہمارا پرچم ہوگا۔

اس موقع پر محنت کشوں کے سرکردہ رہنماؤں فشر اینجل پٹرسنز اور اسپائیز نے مزدوروں سے خطاب کرتے ہوئے حکمرانوں اور مل مالکوں کو للکارا تھا آخرکار حکمرانوں نے محنت کشوں کے مطالبات تسلیم کیے اور یوں پہلی مرتبہ 8 گھنٹے اوقات کار کو تسلیم کیا گیا بعد میں حکمرانوں نے مزدوروں کے 7سرکردہ رہنماؤں کو گرفتار کرکے ان پر جھوٹا مقدمہ بنایا کہ انھوں نے جلسے میں بم چلایا تھا 4 رہنماؤں کو سزائے موت دے کر پھانسی کے پھندے پر چڑھا دیا گیا اور باقی تین رہنماؤں کو رہا کردیا گیا۔

یہ عظیم مزدور رہنما دنیا سے تو چلے گئے مگر اپنا نام اور اپنا کام اور اپنی تحریک چھوڑ کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے امر ہوگئے دنیا بھر میں بعدازاں محنت کش اپنی جدوجہد کے ذریعے کئی تبدیلیاں لائے اور مراعات حاصل کیں اور روس میں انقلاب برپا کیا یورپ میں تو اب بھی 5 اور 6 گھنٹے اوقات کار ہیں جب کہ ہمارے ملک میں آج بھی اوقات کار 8 گھنٹے کے بجائے 12 اور 16 گھنٹے ہیں۔

پاکستان میں حکمرانوں، سرمایہ داروں اور فرقہ پرستوں نے مزدوروں کو تقسیم در تقسیم کردیا ہے، آج پاکستان میں مزدور سیاسی جماعتوں کے علاوہ مذہب، فرقہ، زبان، قومیت اور علاقے کے نام پر تقسیم ہو چکے ہیں ٹریڈ یونین تحریک کمزور پڑ گئی ہے بلکہ اب تو دم توڑ رہی ہے۔ ملک کی معیشت روبہ زوال ہے تبدیلی سرکار نے نہ ایک کروڑ ملازمتیں دیں اور نہ ہی 50 لاکھ گھر بنا کر دیے بلکہ ہزاروں بلکہ لاکھوں لوگوں کو بے روزگارکیا۔

ہزاروں کو کچی آبادیوں سے بے دخل کرکے بے گھر کردیا گیا ہے۔ قومی اداروں کی خرید و فروخت جاری ہے ،وہگروی رکھ کر آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک، ڈبلیو ٹی او کے احکامات کے تحت فروخت کیے جا رہے ہیں۔ مہنگائی ، بے روزگاری ، بیماری اورکورونا نے پاکستان کے عوام سمیت محنت کشوں کی زندگی اجیرن کردی ہے کسی بھی سیاسی جماعت نے اپنے منشور میں محنت کشوں اور کسانوں کے لیے مخصوص نشستیں نہیں رکھی ہیں۔ اس لیے صوبائی، قومی اسمبلی اور سینیٹ میں ہماری کوئی آواز نہیں ہے۔ ضروری ہے کہ ہم شکاگو کے محنت کشوں کا راستہ اختیار کرکے اپنی جدوجہد تیز ترکریں اور انھیں خراج عقیدت پیش کریں۔

چند اشیائے ضرورت کو ترستے ہوئے لوگ

آخری جنگ کا اعلان تو کرسکتے ہیں
Load Next Story