آبروئے عفت و عصمت سیّدہ عائشہ صدیقہؓ
ﷲ رب العزت کی گواہی کے نزول کیساتھ ہی قیامت تک آیات مقدسہ کی تلاوت ہوتی رہے گی اوررفعت ومقام عائشہؓ آشکارہوتارہے گا۔
سترہ رمضان المبارک حضور ختمی مرتبت سیّدالمرسلین حضرت محمد مصطفی ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہؓ کا یوم وصال ہے جسے حضورؐ پیار سے حمیرا کے لقب سے یاد فرمایا کرتے تھے۔ یہی وہ پاک باز اور پاک نگاہ ہستی ہے جس کے نام کے ساتھ عفت و عصمت، تقدس و تحرم اور پاک نگاہی و پاک دامنی کی آبرو وابستہ ہے۔
یہی وہ مہتمم بالشان شخصیت ہے جس کے والد ماجد کو سرکار رسالت مآبؐ کی حیات طیبہ میں ہی سترہ نمازیں آپؐ کے مصلّے پر کھڑے ہو کر پڑھانے کا اعزاز حاصل ہے۔ آقائے گیتی پناہؐ کی یہی وہ بلند مرتبہ زوجہ محترمہ ہے جس کے حجرہ مبارکہ میں دیگر ازواج مطہراتؓ سے مشورے کے بعد حضور ؐ وصال سے چند یوم قبل اپنی حیات عارضی کے لمحے گزار کر حیات جاوداں کی طرف عازم سفر ہوئے اور خالق حقیقی سے جا ملے۔
یہی وہ حضورؐ کی محبوب ترین زوجہ ہے جب شدید عالم علالت میں عبدالرحمن بن ابی بکر ؓ بارگاہ رسالتؐ میں حاضر ہوئے تو ان کے ہاتھ میں مسواک دیکھ کر آپ نے مسواک کرنے کی تمنا کا اظہار فرمایا تو سیّدہ عائشہ صدیقہؓ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ آپ ؓ نے پہلے مسواک خود چبا کر نرم کرنے کے بعد اپنے شوہر محترم ؐ کو پیش کی۔ یہ لامثال سعادت بھی حضور ؐ کی انہی زوجہ محترمہؓ کو حاصل ہے کہ بہ وقت وصال رحمۃ للعالمینؐ کا سر اقدس ان کی آغوش میں تھا۔ حتیٰ کہ رفعت و عظمت حجر ہ عائشہؓ کے کیا کہنے کہ وہ مدفن رسالتؐ بھی بن گیا۔
اور طلوع آفتاب قیامت تک یہاں ناصرف غلامان محمد عربیؐ کی جبین ارادت جھکتی رہے گی بل کہ صبح و مسا ان گنت ملائکہ کا نزول رہے گا۔ انہی زوجہ محترمہؓ کو پیدائشی مسلمان ہونے کا شرف بھی حاصل ہے کیوں کہ معتبر روایات میں آیا ہے کہ جب سیّدہ عائشہ ؓ نے آنکھ کھولی تو اپنے والدین کو مسلمان پایا۔ والد ماجد بھی ناصرف مسلمان تھے بل کہ قربت بارگاہ رسالت مآبؐ میں غایتوں کی غایت اولیٰ پر تھے۔ والدہ ماجدہ ام رومانؓ بھی ممتاز صحابیات میں شامل تھیں۔ ہمشیرہ حضرت اسماءؓ اور بھائی محمد بن ابوبکرؓ بھی دولت ایمان سے بہرہ یاب تھے۔
معلوم ہوتا ہے کہ ان ایمان افروز سعادتوں سے مشرف ہونے کی وجہ سے عہد طفولیت سے ہی آپؓ پر کفر و شرک کا سایہ تک نہیں پڑا تھا۔ تمام ازواج مطہراتؓ میں مجرد آپؓ کو یہ سعادت اور انفرادیت حاصل ہے کہ حضور سرور کونین ؐ کو نکاح سے قبل ہی حضرت جبریل امینؑ کے توسط سے حضرت عائشہ ؓ کے حبالہ زوجیت کی اطلاع دے دی گئی تھی۔ چناچہ بخاری شریف باب مناقب عائشہؓ میں اس کی صراحت آئی ہے کہ عالم رویاء میں کوئی فرشتہ ریشم میں ملبوس آپؐ کو کوئی چیز پیش کر رہا ہے۔
حضور ؐ نے وہ کھول کر دیکھا تو سیّدہ عائشہ صدیقہ ؓ تھیں۔ روایات میں آتا ہے کہ حضورؐ کی سیّدہ عائشہ ؓ کے ساتھ غایت محبت کا ادراک دیگر ازواج کو بھی تھا۔ اور اس احساس کا عملی اظہار حضورؐ کے آخری ایام میں حجرہ عائشہ ؓ کا انتخاب تھا۔ جس کی اجازت دیگر امہات المومنینؓ نے بہ رضا و رغبت دی تھی۔ انہی زوجہ محترمہؓ کو یہ شرف بھی حاصل ہے کہ کنج عزلت میں رفاقت نبوتؐ میسر ہوتی تو متعدد مرتبہ وحی کا نزول بھی ہوتا۔ مستدرک الحاکم میں آپؓ کی یہ فضلیت بھی رقم ہے کہ آپؓ نے جبریل امینؑ کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ آپؓ تمام ازواج رسولؐ میں اس اعتبار سے بھی ممیز تھیں کہ آپؓ کنواری تھیں۔
اور سب سے بڑا اعزاز جو تنہا آپؓ کو حاصل ہے وہ کلام اﷲ کا آپؓ کی تقدیس و تحریم پر گواہ ہونا ہے اور صرف ایک دو آیات نہیں سورۃ نُور کا پورا ایک رکوع آپؓ کی شان عصمت کے سلسلے میں نازل ہوا۔ اس کا اجمالی پس منظر یہ ہے کہ جب معاندین اسلام کو معرکہ ہائے حق و باطل میں پے در پے ہزیمت اٹھانا پڑی اور تخت و تاج و کفر کی دھجیاں ہوائے بسیط میں بکھرنے لگیں تو منافقین نے حضورؐ کی ایسی محبوب ترین زوجہ کی ردائے عصمت کو اپنے شر کے ناپاک چھینٹوں سے آلودہ کرنے کی جسارت کی جسے آپؐ احساس محبت سے لبریز لہجے میں حمیرا کہہ کر پکارا کرتے تھے۔
کتب سیرہ میں لفظی اختلاف سے یہ واقعہ درج ہے: ( مفہوم) کہ غزوہ بنو المصطلق میں رفاقت رسولؐ معظمؐ کے لیے قرعہ فال سیّدہ عائشہؓ کے نام نکلا۔ واپسی پر آپؓ فطری تقاضے کے لیے پڑاؤ سے دور نکلیں تو ان کے گلے کا ہار جو ان کی ہمشیرہ نے تحفتاً دیا تھا، گم ہوگیا۔
اس اثناء میں لشکر اسلام آگے نکل گیا آپ ایک عجیب عالم تذبذب میں وہیں لیٹ گئیں اور نیند غالب آگئی۔ حضور ؐ کے صحابی صفوان بن معطلؓ سب سے پیچھے رہ کر جیش اسلام کی گری پڑی چیزیں تلاش کرتے وہاں پہنچ گئے آپؓ نے زوجہ رسولؐ کو محو استراحت دیکھا تو انا ﷲ و انا علیہ راجعون پڑھا تاآنکہ سیّدہ بیدار ہوگئیں، صفوان نے سواری آپؓ کے قریب کھڑی کی تو آپ اس پر سوار ہوگئیں اور لشکر کی اگلی قیام گاہ تک پہنچ گئیں۔ اب ذریت طاغوت کا دجل و فریب اور عیارانہ طرز عمل دیکھیے کہ ان کے ہاتھ ایسا شر پسندانہ ہتھیار آگیا جس نے مزاج نبوتؐ پر زبردست گراں باری پیدا کر دی۔
مگر امام الانبیاءؐ نے اپنی بے مثال فطرت سلیمہ اور رفیع الشان شکیبائی کا عدیم لانظیر مظاہرہ فرمایا اور ناقابل بیان تکلیف کے باوجود جس ضبط نفس، بے پایاں عزیمت و حوصلے اور کمال قوت برداشت کا مظاہرہ فرمایا وہ یقینا دانائے سبل، ختم الرسل اور مولائے کُل ﷺ کے ارتفاع تدبّر کا ہی کمال تھا اس حد درجہ حساس معاملے سے عہدہ برآ ہونا خصائص آدمیت کی معراج پر ہونے کے باوجود کسی عام آدمی کے بس کا روگ نہیں تھا۔
آپؐ نے اپنی محبوب زوجہؓ کی انتہائی تشویش اور اپنے انتہائے تذبذب کو کمال بردباری سے برداشت کرتے ہوئے معاملہ وحی حق پر چھوڑ دیا۔ جب بے قراری نبوتؐ حد سے بڑھنے لگی تو سورۃ نور کی آیات کا نزول ہوا جس میں خود خالق ارض و سما نے سیدہ عائشہؓ کی طہارت و عصمت کا ایسا اعلان فرمایا جو حقیقت میں شر پسندوں کے منہ پر ایک زناٹے دار تھپڑ تھا۔ اﷲ رب العزت کی گواہی کے نزول کے ساتھ ہی حضور ؐ کے رخ انور پر مسرت و ابتہاج کی لہر دوڑ گئی اور لب مصطفی ؐ پر تسکین و طمانیت کا ایک ہالہ سا بن گیا۔ اب قیامت تک ان آیات مقدسہ کی تلاوت ہوتی رہے گی اور رفعت و مقام عائشہؓ آشکار ہوتی رہے گی۔
تیری عصمت کی گواہی دی کلام اﷲ نے
تیری عزت کے نشاں ہیں گردش ایام پر
جس کو بخشا تھا پیمبر نے حمیرا کا لقب
مہر و ماہ کی رونقیں قربان اس کے نام پر
جس پہ باندھا تھا خدا کے دشمنوں نے اتہام
آج تک انسان شرمندہ ہے اس الزام پر
سیّدہ عائشہ صدیقہؓ طبعا ً فیاض فطرت تھیں ایسا کیوں نہ ہوتا آپ اس عظیم باپ کی لخت جگر تھیں جس نے اسلام کے دور ابتلاء میں گھر کی کل کائنات بانی اسلام حضور سید المرسلینؐ کے قدموں پر نچھاور کر دی۔ آپؓ اس ذی شان ہستیؐ کی اہلیہ تھیں جو سائل کے دست طلب دراز کرنے پر ریوڑ کے ریوڑ عطا کر دیتا اور خود فاقہ کشی اختیار کرتا۔ چناں چہ فراخ دلی اور وسعت قلبی کے وہی اثرات آپؓ کی فطرت مطہرہ میں پائے جاتے تھے۔ بالخصوص رمضان المبارک میں تو آپ کا دست فیض اور بھی کشادہ ہو جاتا۔ سیّدہ عائشہ زہد و اتقاء، محبت و خشیت الٰہی سے معمور تھیں۔
فقہی امور میں بڑے نام ور اور جلیل القدر صحابہ کرام آپؓ سے مشورہ و راہ نمائی حاصل کرتے۔ اسی لیے سیرت نگار اس بات پر متفق ہیں کہ علمی کمالات، دینی اور خانگی امور کی تشریحات اور حضور سرور کائناتؐ کی تعلیمات کی اشاعت میں تمام ازواج مطہراتؓ میں سیّدہ عائشہ ؓ کا کوئی اور حریف نہیں ہو سکتا۔ آپؐ نے سترہ رمضان المبارک داعی اجل کو لبیک کہا اور جنّت البقیع میں آسودہ ہوئیں۔
یہی وہ مہتمم بالشان شخصیت ہے جس کے والد ماجد کو سرکار رسالت مآبؐ کی حیات طیبہ میں ہی سترہ نمازیں آپؐ کے مصلّے پر کھڑے ہو کر پڑھانے کا اعزاز حاصل ہے۔ آقائے گیتی پناہؐ کی یہی وہ بلند مرتبہ زوجہ محترمہ ہے جس کے حجرہ مبارکہ میں دیگر ازواج مطہراتؓ سے مشورے کے بعد حضور ؐ وصال سے چند یوم قبل اپنی حیات عارضی کے لمحے گزار کر حیات جاوداں کی طرف عازم سفر ہوئے اور خالق حقیقی سے جا ملے۔
یہی وہ حضورؐ کی محبوب ترین زوجہ ہے جب شدید عالم علالت میں عبدالرحمن بن ابی بکر ؓ بارگاہ رسالتؐ میں حاضر ہوئے تو ان کے ہاتھ میں مسواک دیکھ کر آپ نے مسواک کرنے کی تمنا کا اظہار فرمایا تو سیّدہ عائشہ صدیقہؓ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ آپ ؓ نے پہلے مسواک خود چبا کر نرم کرنے کے بعد اپنے شوہر محترم ؐ کو پیش کی۔ یہ لامثال سعادت بھی حضور ؐ کی انہی زوجہ محترمہؓ کو حاصل ہے کہ بہ وقت وصال رحمۃ للعالمینؐ کا سر اقدس ان کی آغوش میں تھا۔ حتیٰ کہ رفعت و عظمت حجر ہ عائشہؓ کے کیا کہنے کہ وہ مدفن رسالتؐ بھی بن گیا۔
اور طلوع آفتاب قیامت تک یہاں ناصرف غلامان محمد عربیؐ کی جبین ارادت جھکتی رہے گی بل کہ صبح و مسا ان گنت ملائکہ کا نزول رہے گا۔ انہی زوجہ محترمہؓ کو پیدائشی مسلمان ہونے کا شرف بھی حاصل ہے کیوں کہ معتبر روایات میں آیا ہے کہ جب سیّدہ عائشہ ؓ نے آنکھ کھولی تو اپنے والدین کو مسلمان پایا۔ والد ماجد بھی ناصرف مسلمان تھے بل کہ قربت بارگاہ رسالت مآبؐ میں غایتوں کی غایت اولیٰ پر تھے۔ والدہ ماجدہ ام رومانؓ بھی ممتاز صحابیات میں شامل تھیں۔ ہمشیرہ حضرت اسماءؓ اور بھائی محمد بن ابوبکرؓ بھی دولت ایمان سے بہرہ یاب تھے۔
معلوم ہوتا ہے کہ ان ایمان افروز سعادتوں سے مشرف ہونے کی وجہ سے عہد طفولیت سے ہی آپؓ پر کفر و شرک کا سایہ تک نہیں پڑا تھا۔ تمام ازواج مطہراتؓ میں مجرد آپؓ کو یہ سعادت اور انفرادیت حاصل ہے کہ حضور سرور کونین ؐ کو نکاح سے قبل ہی حضرت جبریل امینؑ کے توسط سے حضرت عائشہ ؓ کے حبالہ زوجیت کی اطلاع دے دی گئی تھی۔ چناچہ بخاری شریف باب مناقب عائشہؓ میں اس کی صراحت آئی ہے کہ عالم رویاء میں کوئی فرشتہ ریشم میں ملبوس آپؐ کو کوئی چیز پیش کر رہا ہے۔
حضور ؐ نے وہ کھول کر دیکھا تو سیّدہ عائشہ صدیقہ ؓ تھیں۔ روایات میں آتا ہے کہ حضورؐ کی سیّدہ عائشہ ؓ کے ساتھ غایت محبت کا ادراک دیگر ازواج کو بھی تھا۔ اور اس احساس کا عملی اظہار حضورؐ کے آخری ایام میں حجرہ عائشہ ؓ کا انتخاب تھا۔ جس کی اجازت دیگر امہات المومنینؓ نے بہ رضا و رغبت دی تھی۔ انہی زوجہ محترمہؓ کو یہ شرف بھی حاصل ہے کہ کنج عزلت میں رفاقت نبوتؐ میسر ہوتی تو متعدد مرتبہ وحی کا نزول بھی ہوتا۔ مستدرک الحاکم میں آپؓ کی یہ فضلیت بھی رقم ہے کہ آپؓ نے جبریل امینؑ کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ آپؓ تمام ازواج رسولؐ میں اس اعتبار سے بھی ممیز تھیں کہ آپؓ کنواری تھیں۔
اور سب سے بڑا اعزاز جو تنہا آپؓ کو حاصل ہے وہ کلام اﷲ کا آپؓ کی تقدیس و تحریم پر گواہ ہونا ہے اور صرف ایک دو آیات نہیں سورۃ نُور کا پورا ایک رکوع آپؓ کی شان عصمت کے سلسلے میں نازل ہوا۔ اس کا اجمالی پس منظر یہ ہے کہ جب معاندین اسلام کو معرکہ ہائے حق و باطل میں پے در پے ہزیمت اٹھانا پڑی اور تخت و تاج و کفر کی دھجیاں ہوائے بسیط میں بکھرنے لگیں تو منافقین نے حضورؐ کی ایسی محبوب ترین زوجہ کی ردائے عصمت کو اپنے شر کے ناپاک چھینٹوں سے آلودہ کرنے کی جسارت کی جسے آپؐ احساس محبت سے لبریز لہجے میں حمیرا کہہ کر پکارا کرتے تھے۔
کتب سیرہ میں لفظی اختلاف سے یہ واقعہ درج ہے: ( مفہوم) کہ غزوہ بنو المصطلق میں رفاقت رسولؐ معظمؐ کے لیے قرعہ فال سیّدہ عائشہؓ کے نام نکلا۔ واپسی پر آپؓ فطری تقاضے کے لیے پڑاؤ سے دور نکلیں تو ان کے گلے کا ہار جو ان کی ہمشیرہ نے تحفتاً دیا تھا، گم ہوگیا۔
اس اثناء میں لشکر اسلام آگے نکل گیا آپ ایک عجیب عالم تذبذب میں وہیں لیٹ گئیں اور نیند غالب آگئی۔ حضور ؐ کے صحابی صفوان بن معطلؓ سب سے پیچھے رہ کر جیش اسلام کی گری پڑی چیزیں تلاش کرتے وہاں پہنچ گئے آپؓ نے زوجہ رسولؐ کو محو استراحت دیکھا تو انا ﷲ و انا علیہ راجعون پڑھا تاآنکہ سیّدہ بیدار ہوگئیں، صفوان نے سواری آپؓ کے قریب کھڑی کی تو آپ اس پر سوار ہوگئیں اور لشکر کی اگلی قیام گاہ تک پہنچ گئیں۔ اب ذریت طاغوت کا دجل و فریب اور عیارانہ طرز عمل دیکھیے کہ ان کے ہاتھ ایسا شر پسندانہ ہتھیار آگیا جس نے مزاج نبوتؐ پر زبردست گراں باری پیدا کر دی۔
مگر امام الانبیاءؐ نے اپنی بے مثال فطرت سلیمہ اور رفیع الشان شکیبائی کا عدیم لانظیر مظاہرہ فرمایا اور ناقابل بیان تکلیف کے باوجود جس ضبط نفس، بے پایاں عزیمت و حوصلے اور کمال قوت برداشت کا مظاہرہ فرمایا وہ یقینا دانائے سبل، ختم الرسل اور مولائے کُل ﷺ کے ارتفاع تدبّر کا ہی کمال تھا اس حد درجہ حساس معاملے سے عہدہ برآ ہونا خصائص آدمیت کی معراج پر ہونے کے باوجود کسی عام آدمی کے بس کا روگ نہیں تھا۔
آپؐ نے اپنی محبوب زوجہؓ کی انتہائی تشویش اور اپنے انتہائے تذبذب کو کمال بردباری سے برداشت کرتے ہوئے معاملہ وحی حق پر چھوڑ دیا۔ جب بے قراری نبوتؐ حد سے بڑھنے لگی تو سورۃ نور کی آیات کا نزول ہوا جس میں خود خالق ارض و سما نے سیدہ عائشہؓ کی طہارت و عصمت کا ایسا اعلان فرمایا جو حقیقت میں شر پسندوں کے منہ پر ایک زناٹے دار تھپڑ تھا۔ اﷲ رب العزت کی گواہی کے نزول کے ساتھ ہی حضور ؐ کے رخ انور پر مسرت و ابتہاج کی لہر دوڑ گئی اور لب مصطفی ؐ پر تسکین و طمانیت کا ایک ہالہ سا بن گیا۔ اب قیامت تک ان آیات مقدسہ کی تلاوت ہوتی رہے گی اور رفعت و مقام عائشہؓ آشکار ہوتی رہے گی۔
تیری عصمت کی گواہی دی کلام اﷲ نے
تیری عزت کے نشاں ہیں گردش ایام پر
جس کو بخشا تھا پیمبر نے حمیرا کا لقب
مہر و ماہ کی رونقیں قربان اس کے نام پر
جس پہ باندھا تھا خدا کے دشمنوں نے اتہام
آج تک انسان شرمندہ ہے اس الزام پر
سیّدہ عائشہ صدیقہؓ طبعا ً فیاض فطرت تھیں ایسا کیوں نہ ہوتا آپ اس عظیم باپ کی لخت جگر تھیں جس نے اسلام کے دور ابتلاء میں گھر کی کل کائنات بانی اسلام حضور سید المرسلینؐ کے قدموں پر نچھاور کر دی۔ آپؓ اس ذی شان ہستیؐ کی اہلیہ تھیں جو سائل کے دست طلب دراز کرنے پر ریوڑ کے ریوڑ عطا کر دیتا اور خود فاقہ کشی اختیار کرتا۔ چناں چہ فراخ دلی اور وسعت قلبی کے وہی اثرات آپؓ کی فطرت مطہرہ میں پائے جاتے تھے۔ بالخصوص رمضان المبارک میں تو آپ کا دست فیض اور بھی کشادہ ہو جاتا۔ سیّدہ عائشہ زہد و اتقاء، محبت و خشیت الٰہی سے معمور تھیں۔
فقہی امور میں بڑے نام ور اور جلیل القدر صحابہ کرام آپؓ سے مشورہ و راہ نمائی حاصل کرتے۔ اسی لیے سیرت نگار اس بات پر متفق ہیں کہ علمی کمالات، دینی اور خانگی امور کی تشریحات اور حضور سرور کائناتؐ کی تعلیمات کی اشاعت میں تمام ازواج مطہراتؓ میں سیّدہ عائشہ ؓ کا کوئی اور حریف نہیں ہو سکتا۔ آپؐ نے سترہ رمضان المبارک داعی اجل کو لبیک کہا اور جنّت البقیع میں آسودہ ہوئیں۔