کوچۂ سخن
غزل
شامل کسی ادھوری کہانی میں ہو گئے
دن زندگی کے پورے جوانی میں ہو گئے
آنکھوں سے ایک عرصہ بہایا گیا جسے
کچھ مسلے تو حل اُسی پانی میں ہو گئے
تھوڑی سی دیر آنکھ نے جھیلا تمہارا ہجر
قطرے لہو کے جاری روانی میں ہو گئے
آئے ہوئے تھے جو بھی گلابوں کے واسطے
وہ لوگ محو رات کی رانی میں ہو گئے
(اسد رضا سحر۔احمد پور سیال)
۔۔۔
غزل
صحرا سے پوچھتا ہے کوئی سوگوار پیڑ
کیا اب بھی ڈھونڈتے ہیں مجھے سبزہ زار، پیڑ
مٹی میں اتنی تاب کہاں پیڑ بن سکے
دیوار سے نکال کوئی سایہ دار پیڑ
تہذیب اپنی آپ نمو کر رہی ہے آج
پیپل سے اگ پڑے ہیں کھجوروں کے چار پیڑ
بوئے ہیں میں نے بیج رویوں کی فصل کے
دیکھے گی اگلی نسل یہاں بے شمار پیڑ
اس نے چھوا تھا باغ میں بس ایک پیڑ کو
اب تک کھڑے ہوئے ہیں وہاں مشکبار پیڑ
ہجرت کے وقت باپ نے مجھ سے کہا منیرؔ
ساماں تو سب سمیٹ لیا اور یار پیڑ
(منیر جعفری ۔ سرگودھا)
۔۔۔
غزل
ٹھوکر سے دوسروں کو بچانے کا شکریہ
پتھر کو راستے سے ہٹانے کا شکریہ
اب یہ بتائیں آپ کی میں کیا مدد کروں
فرضی کہانی مجھ کو سنانے کا شکریہ
میرے بہت سے کام ادھورے نہیں رہے
اے دوست اتنے روز نہ آنے کا شکریہ
تنہا نہیں رہا ترے جانے کے بعد میں
کچھ اجنبی غموں سے ملانے کا شکریہ
اتنی خوشی ملی کہ سنبھالی نہیں گئی
دو چار لمحے مجھ پہ لٹانے کا شکریہ
محبوب تیرے ہجر میں کرتا ہوں شاعری
مجھ کو کسی ٹھکانے لگانے کا شکریہ
(خالد محبوب۔ بہاولپور)
۔۔۔
''زندگی تھک گئی''
تم نے دیکھا
پرندوں کے پَر جل گئے
روشنی کا سفر تھم گیا
خواب زاروں میں خوابوں کی لاشیں پڑیں
دن مکمل نہیں ہو رہا اور شب
اپنی باہوں میں سورج لیے مر گئی
تم نے دیکھا
محبت ضروری نہیں
خیر کچھ بھی ضروری نہیں
ماسوا ایک تم
اور تم بھی کسی دور کے دیس میں
بانسری کی صداؤں سے نکلی ہوئی
کوک ہو
جھیل بہتی نہیں
ہاں مگر اس کے ٹھہراؤ کا اک سبب تم بھی ہو
تم نے دیکھا
تمہارے لیے پھول بھیجے گئے
پھول بے نام تھے
پھول خوشبو کے معنی نہیں جانتے
ان کو اپنی مہک سے معطر کرو
تم نے دیکھا
سڑک دو طرف جا رہی ہے
ادھر اک طرف مجھ کو گاڑا گیا
میں وہ پتھر ہوں جو راستے میں فقط اس لیے گاڑ دیتے ہیں
کہ آتے جاتے ہوئے لوگ رستے کی لمبائی ماپا کریں
تم نے دیکھا
خداؤں کی جنگوں میں انسان مارے گئے
خوف طاری ہوا
وقت جلدی میں ہے
زندگی تھک گئی
(نذر حسین ناز۔ چکوال)
۔۔۔
غزل
سنی گئی ہے یہ افواہ میرے بارے میں
میں مشوروں سے رہا عمر بھر خسارے میں
تمہارے بعد اسے پڑھ رہا ہوں کثرت سے
لکھی ہے صبر کی تلقین جس سپارے میں
بروزِ حشر اگر بولنے کا موقع ملا
خدا سے بات کروں گا تمہارے بارے میں
میں اس لیے بھی محبت کو ترک کرتا ہوں
کہ مجھ کو ملتا ہے بس ہجر استخارے میں
ہزار باتوں کا مطلب کہیں پہ کچھ بھی نہیں
ہزار راز چھپے ہیں کہیں اشارے میں
ادھورے پن کی اذیت کا کیا کریں عابدؔ
میں بے سہارا جیا ہوں کسی سہارے میں
(علی عابد ۔ بھکر)
۔۔۔
غزل
ہم نے اک بار تمہیں دیکھا تھا
پھر لگا تار تمہیں دیکھا تھا
وار تم نے ہی کیا تھا مجھ پر
پسِ دیوار تمہیں دیکھا تھا
کیوں سزا مجھ کو ملی، سب نے مگر
اک نظر یار تمہیں دیکھا تھا
اے مرے خواب نشیں میں نے کہیں
سرِ بازار تمہیں دیکھا تھا
ہم نے اُس رات بہت دیر اعظم ؔ
پسِ انوار تمہیں دیکھا تھا
(اعظم شاہد۔ منڈی بہا ء ُالدّین)
۔۔۔
غزل
بات یہ ہے کہ کسی بات سے واقف ہی نہیں
وہ محبت کی روایات سے واقف ہی نہیں
ان کو بھی عمر کی تقویم میں کرتا ہوں شمار
وہ ترے دن جو مری رات سے واقف ہی نہیں
کسی موسم میں نہیں برگ و ثمر کے امکاں
سوختہ پیڑ ہوں برسات سے واقف ہی نہیں
دل کے صحرا میں جو ہے صرصرِ غم سرگرداں
تیری خوشبو تیرے باغات سے واقف ہی نہیں
کیسی ہوتی ہے سحر کیسے یہاں شام کے رنگ
شہر کے لوگ مضافات سے واقف ہی نہیں
رکھنا پڑتا ہے نگاہوں میں کسی کو ہر وقت
تو محبت کی عبادات سے واقف ہی نہیں
(سہیل رائے ۔ جڑانوالہ)
۔۔۔
غزل
قطرہ قطرہ ہو جائے گا
دل اک دریا ہو جائے گا
میں جو تیرا ہو جاؤں گا
تُو بھی میرا ہو جائے گا
چندا آؤ گھر چلتے ہیں
یار اندھیرا ہو جائے گا
شاید چڑیاں چہک رہی ہیں
ڈر کچھ ہلکا ہو جائے گا
کرنوں کی سانسیں پھولی ہیں
سورج بوڑھا ہو جائے گا
جونہی نوک پہ سر آئے گا
نیزہ اونچا ہو جائے گا
گھاٹے پر اِس بار بھی عَلمی
دل کا سودا ہو جائے گا
(علمدار حسین عَلمی۔ بھکر)
۔۔۔
غزل
اک عشق ترے نام سے منسوب کریں ہم
بدنام تجھے دنیا میں پھر خوب کریں ہم
اے کاش کبھی پوری ہو حسرت ہے یہ دل کی
پلکوں سے ترے کوچے میں جاروب کریں ہم
رو رو کے ترے ہجر میں بینائی گنوا دیں
یوں پیرویِ حضرتِ یعقوب کریں ہم
ہے اپنا عقیدہ کہ وہ آئیں گے مدد کو
ارسال اگر آج بھی مکتوب کریں ہم
برسوں سے ہے عثمانؔ کی فرقت میں یہ حالت
اب ختم بتا کیسے بھلا اُوب کریں ہم
(محمد عثمانؔ علی اسد۔پنڈی گھیپ،اٹک)
۔۔۔
غزل
جو تری نظر مرا آئنہ تھی کہیں وہ آئینہ گم ہوا
مری آنکھ کو جو نہ مل سکی وہ ضیا کا سلسلہ گم ہوا
جو تری لگن میں بچھڑ گئے جسے لوگ کہتے ہیں زندگی
جو تھا درمیان حدود کے وہ نہیں ہے رابطہ گم ہوا
کوئی نقش نقش طلسم ہیں نہیں مل رہا مجھے راستہ
کسی رہگزر کی تلاش میں مرے گھر کا راستہ گم ہوا
ہائے بیتے لمحوں کی یاد اب مجھے مجھ میں کرتی ہے مضطرب
ہاں مگر جو وصل کا یاد تھا مرے دل سے واقعہ گم ہوا
مری زندگی بھی ہے شاخ سے کوئی ٹوٹتا ہوا زرد پھول
میں اکیلا پنچھی ہوں باغ کا کہیں میرا قافلہ گم ہوا
(تطہیر ملک ۔ حافظ آباد)
۔۔۔
غزل
الفت نہ آرزو ہے، چلو کُوچ کر چلیں
وحشت سی کو بہ کُو ہے، چلو کوچ کر چلیں
دنیا کو زد میں لے لیا جب سے وبا نے دوست
اک شور چارسُو ہے، چلوکوچ کر چلیں
کیوں ہم رہیں وہاں پہ جہاں پر ہماری دوست
عزّت نہ آبرو ہے، چلو کوچ کر چلیں
تیرے خیال اپنے تئیں ٹھیک ہیں مگر
آزردگی کی بُو ہے، چلو کوچ کر چلیں
اُس حادثے کے بعد کبھی پھر بھرا نہیں
اک زخم دوبدو ہے، چلو کوچ کر چلیں
جیتا ہے جس کے واسطے اس شخص کو معاذؔ
مرنے کی آرزو ہے، چلوکوچ کر چلیں
(معاذ فرہاد۔وہاڑی)
کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے اور یہ صفحہ آپ کے جذبات سے آراستہ تخلیقات سے سجایا جارہا ہے۔ آپ اپنی نظم ، غزل مع تصویر ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں، معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
صفحہ ''کوچہ سخن ''
روزنامہ ایکسپریس (سنڈے ایکسپریس) ، 5 ایکسپریس وے ، کورنگی روڈ ، کراچی