حسنت جمیع خصالہ صلو علیہ وآلہ
بدھ مت میں سرور کونین،صاحب الجمال، سید البشر ﷺ کا روح پرور تذکرہ
دنیائے مغرب میں آئے دن مذہبی وسیاسی انتہا پسند اپنے مفادات کے لیے اسلام بالخصوص نبی کریم ﷺ کی ذات مبارک کو نشانہ بناتے اور اپنی مذموم حرکات سے اربوں مسلمانوں کے جذبات مجروح کرتے ہیں۔
مغرب میں ''ہولوکاسٹ'' کے خلاف بولنا یا لکھنا قانوناً جرم ہے۔پاکستانی وزیراعظم کی یہ سعی قابل تحسین ہے کہ مغربی ممالک میں شافع محشر،سرور کونینﷺ کی ذات گرامی کو بھی قانوناً شر پسندوں سے محفوظ رکھاجائے۔مادر پدر آزاد آزادی سے مغربی لیڈر اپنے مفاد پورے کرتے ہیں۔انھیں اپنی شرانگیزی کی تحریک یوں بھی ملتی ہے کہ مغربی عوام حضور اکرمﷺ کے مقام ومرتبے سے آگاہ نہیں۔جس وقت اہل مغرب رسول مقبولؐؐ کی ٖصفات عالیہ سے شناسا ہوئے، آناً فاناً آپؐ کے گرویدہ ہو جائیں گے۔
قران پاک میں رب کائنات کا ارشاد ہے کہ ہر زمانے اور ہر قوم میں بشیر(خوش خبری دینے والے )اور نذیر(ڈرانے والے)مبعوث فرمائے گئے تاکہ وہ شیطان کے بہکاوے میں آ کر بھٹک جانے والے انسانوں کو راہ راست پر لا سکیں۔(سورہ فاطر ۔24)قران حکیم میں ایسے بعض رسولوں کے نام درج ہیں اور بقیہ کے درج نہیں(سورہ النسا۔163-64)اللہ تعالی نے سبھی پیشواؤں کو عظیم ترین پیغمبر ﷺ کی آمد کی خبر بھی دی جنھیں کامل شریعت کے ساتھ نازل ہونا اور حکومت الہیہ کو حقیقی صورت میں زمین پر قائم کرنا تھا۔مقصد یہ تھا کہ جب سید المرسلین ﷺ کرہ ارض پر تشریف لائیں تو رسولوں کی تمام اقوام آپ ؐ کو پہچان لیں اور آپؐ کی معاون و مددگار بن جائیں۔
ایکسپریس سنڈے میگزین کی پچھلی دو اشاعتوں میں تفصیل سے قارئین کو گوش گذار کیا جا چکا کہ دنیا کے سبھی بڑے مذاہب کی کتب میں تحریف کے باوجود اللہ تعالی کی نازل کردہ تعلیمات کا کچھ حصّہ محفوظ ہے۔یہی تعلیم توحید الہی کے ساتھ ساتھ بعث ِنبویﷺ کی بھی خبر دیتی ہے۔اسی لیے ہندومت،یہودیت،عیسائیت اور بدھ مت ...دور جدید کے سب نمایاں مذاہب میں نبی ِرحمت ﷺ کی آمد کی پیشن گوئیاں موجود ہیں۔یہود ونصاری تو اہل کتاب ہیں۔ہنود اور بدھیوں کی مذہبی کتب میں بھی آسمانی تعلیم کے آثار دکھائی دیتے ہیں۔وجہ یہی کہ اللہ پاک نے ان اقوام میں بھی بشیر ونذیر مبعوث فرمائے۔بعد ازاں مگر ان کے پیروکاروں نے تعلیم الہی میں تحریف کرڈالی۔
انمول پیشن گوئی
بدھ مت کے بانی گوتم بدھ تھے۔اس مذہب اور بانی کے متعلق بعد میں بنیادی معلومات ملاحظہ فرمائیے،پہلے یہ جانیے کہ بدھ مت میں آنحضور ﷺ کا ذکر مبارک کیونکر فرمایا گیا۔اس مذہب کی قدیم ترین مذہبی کتاب ''تری پٹک''(Tripitaka)کہلاتی ہے۔اس کے لفظی معنی ہیں:تین ٹوکریاں۔یہ تین کتابوں کا مجموعہ ہیںجن میں بدھ مت کے بارے میں مختلف النوع باتیں درج ہیں۔تینوں کتابوں میں ''ست پٹک''(Sutta Pitaka)کتاب سب سے قدیم ہے۔کہا جاتا ہے ،بدھ کی موت کے فوراً بعد مرتب ہوئی تھی۔
اسی کتاب کے پہلے حصّے''دیکھ نائے''(Digha Nikaya)کے چھبیسویں باب''ککاوتی شند ست''(Cakkavatti Sihanada Sutta)میں بعث رسول ؐ کی عظیم الشان طریقے سے پیشن گوئی ملتی ہے۔ککاوتی شندا ست میں بدھ اپنے پیروکاروں کو بتاتے ہیں کہ ایک زمانہ آئے گا جب گناہوں کی کثرت کے باعث انسانوں کی عمریں کم ہوتے ہوتے دس سال رہ جائیں گی۔تب اخلاقیات کا نام ونشان نہیں ملے گا۔برائی سّکہ رائج الوقت ہو گی۔تبھی ایک عظیم ترین ہستی کا ظہور ہو گا جن کے دور میں عمریں کثرت نیکی کے سبب اسّی ہزار سال تک جا پہنچیں گی۔پیشن گوئی ملاحظہ فرمائیے:
''انسانوں کی عمر اسّی ہزار سال ہونے کے سمّے دنیا میں ایک برگزیدہ اور اعلی ترین شخصیت جلوہ گر ہوں گی۔وہ عارف باللہ اور کامل معرفت رکھنے والے ہوں گے۔ان کا نام ''میتیا''(Metteyya)ہو گا۔وہ باحکمت،باکردار،اقبال مند اور سبھی دنیا والوں سے زیادہ علم رکھنے والے ہوں گے۔وہ ہدایت کے طلبگاروں کے بے مثال رہنما بنیں گے۔کائنات میں سبھی (جنوں ،فرشتوں وغیرہ)کے استاد ہوں گے۔روشن ضمیر ،پُرنور اور بابرکت ہوں گے۔وہ اپنی فوق البشر قوتوں کی وجہ سے پوری دنیا میں جانے جائیں گے۔
کائنات میں مخفی سبھی علوم اور روحانی تجربات سب لوگوں پر آشکارا کریں گے،چاہے وہ دیو ہوں ،زاہد،برہمن یا بادشاہ اور شہزادے۔وہ انسانوں کو ایسے دھرم کی تعلیم دیں گے جو اول تا آخر ،ظاہر وباطن ،ہر لحاظ سے دلکش و قابل تعریف ہو گا۔ان کے ساتھ ہزاروں محب ہوں گے ،جیسے میرے ساتھ کئی سو راہب ہوتے ہیں۔''
درج بالا پیشن گوئی میں آنے والی جن مقدس ہستی کی صٖفات کا تذکرہ ہے،وہ سبھی نبی کریمﷺ کی ذات اقدس میں جمع دکھائی دیتی ہیں۔پہلے مگران حالات کو سمجھنا ضروری ہے جن کی طرف پیشن گوئی میں اشارہ کیا گیا۔بدھ کے بیان میں دس سال کی عمر سے مراد انسانی عمر کے ابتدائی دس برس ہیں جب انسان خاصی حد تک گناہوں سے پاک ہوتا ہے۔یعنی وہ عموماً دانستہ کوئی گناہ نہیں کرتا۔جبکہ اسّی ہزار سال سے مراد لافانی عمر ہے۔یعنی رب کائنات کی معرفت سے آشنا ہو کر انسان امر ہو سکتا ہے۔
تاریخ شاہد ہے کہ بعث رسول ﷺ سے قبل دنیا گناہ و بدی کا گہوارہ بن چکی تھی۔ہر سو انسان آپس میں لڑ رہے تھے۔بنی نوع انسان میں ہر قسم کی برائی جنم لے چکی تھی۔ایسے ماحول میں صرف بچے ہی پاک باز رہ گئے تھے۔آخرکار انسانیت کی رہنمائی کے لیے اللہ تعالی نے رحمت للعالمینﷺ کو مبعوث فرمیایا۔تب جو کفار عرب آپؐ پر ایمان لائے،وہ جنت میں حیات جاوداں کی عظیم نعمت سے سرفراز ہوئے۔(سورہ توبہ۔22)
آپؐ نے بنی نوع انسان کے سامنے ایسا اعلی ترین توشہ آخرت رکھا کہ جس نے بھی اس سے حصّہ پایا،بلند تر روحانی زندگی پا گیا۔یہی امر بیان کرتے ہوئے اللہ پاک فرماتے ہیں:''اے ایمان والو!اللہ اور رسول ؐ کی دعوت پر لبیک کہو کیونکہ اس کی دعوت تمھیں روحانی طور پہ زندہ کر دے گی۔''(سورہ الانفال۔24)
درج بالا پیشن گوئی میں آمدہ برگزیدہ ہستی کو عارف باللہ اور کامل معرفت رکھنے والی کہا گیا ہے۔اور ہر مسلمان گواہی دے گا کہ حضور اکرم ؐنے جس واضح اور روشن طریقے سے اللہ تعالی کی ذات بابرکات کو جانا اور انسانوں پہ اجاگر فرمایا، اس کی نظیر پوری انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔رسول مقبول ؐ کو اللہ پاک کا جو قرب اور ادراک حاصل ہوا،وہ بے مثال ہے۔حتی کہ رب تعالی اپنے محبوب ترین رسولﷺ کو سدرۃ المنتہی لے گئے جہاں آج تک کوئی نہیں پہنچ سکا تھا اور جہاں فرشتوں تک کے بدن جل اٹھتے ہیں۔
باحکمت اور اقبال مند ہونا بھی ان عظیم ہستی کے وصف ہیں۔اور ہم جانتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے انسانوں کو نہ صرف کتاب مبین کی تعلیم دی بلکہ انھیں مخفی علوم و حکمتیں بھی سکھائیں۔محض دینی علوم پڑھانے پر اکتفا نہیں فرمایا،انسان کو یہ رہنمائی بھی فرمائی کہ دنیا میں کیونکر ترقی کرنا ممکن ہے۔
حقیقتاً آپؐ عام مسلمان کے لیے ہر شعبہ ِ زندگی میں کامل ترین اور آئیڈیل شخصیت بن گئے۔قران کریم میں درج ہے:''ہم نے آپؐ کی خاطر آپؐ کا سینہ (انوار علم وحکمت اور معرفت کے لیے)کشادہ فرما دیا۔''(سورہ الم نشرح۔1تا 8)ایک اور جگہ ارشاد الہی ہوا ہے:''اور وہ (نبی اکرمﷺ )(غیب کے بتانے پر)بالکل بخیل نہیں ۔''یعنی مالک عرش وبریں نے آپ ﷺ پر حکمت کے تمام خزینے وا فرما دئیے۔(سورہ التکویر۔24 )
میتیا روشن ضمیر اور پُرنور بھی ہوں گے۔حضور اکرمﷺ انہی صفات کے بھی حامل ہیں۔رب تعالی نے اہل زمین کو بتایا ہے :''اے لوگو! تمھارے پاس اللہ کی جانب سے ایک حُجت آ چکی اور ہم نے تمھاری طرف ایک نور مبین کو اتار دیا۔(سورہ النسا۔172)اسی طرح سورہ المائدہ آیت 15میں ارشاد فرمایا گیا:''تمھارے پاس یہ رسولؐؐ تشریف لائے ہیں جو تم پر بہت سی باتیں ظاہر فرماتے ہیں۔بے شک تمھارے پاس اللہ کی جانب سے ایک نور آ گیا ہے اور ایک روشن کتاب (قران مجید)۔سورہ النور میں بھی پروردگار نے اپنے نور کی مثال آپﷺ سے دی ہے۔
پیشن گوئی میں یہ تذکرہ بھی ہے، آمدہ ہادی کامل نہ صرف انسانوں بلکہ فرشتوں اور جنوں کو بھی ہدایت دیں گے۔گویا وہ جن وانس،کائنات میں اللہ پاک کی پیدا کردہ ہر زندہ شے کے استاد ہوں گے۔یہ صفت بھی نبی کریمﷺ کا وصف خاص ہے۔قران پاک نے آپؐ کو ''طحہ'' یعنی اے طیب اور ہادی کہہ کر پکارا ہے۔ایک جگہ ''یسیعنی''فرمایا گیا یعنی'' اے سردار۔''ایک حدیث میں آیا ہے'':میں قیامت کے دن تمام نبی آدم کا سردار ہوں گا۔ہر نبی اس دن میرے علم کے نیچے ہو گا۔''نیز ایک دفعہ فرمایا:''روز حشر میں نبیوں کا امام اور ان کا خطیب ہوں گا۔''
یہ بھی ذکر ہوا کہ میتیا فوق البشر قوتوں کے مالک ہوں گے۔یہ خصوصیت بھی رسول اللہﷺ سے وابستہ ہے۔اللہ تعالی نے آپ کو حیران کن معجزے انجام دینے کی قدرت ودیعت فرمائی تھی۔مثال کے طور پر جب آپ ﷺ مکہ سے مدینہ روانہ ہوئے تو ہزارہا کفار آپ ؐ کی جاسوسی پر مامور تھے۔مگر نبی کریم ﷺ اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ ان کے درمیان سے نکل کر غار ثور تشریف لے گئے۔فوق البشر قوتیں رکھنے والی ہستی ہی ایسا معجزہ دکھاسکتی ہیں۔اسی طرح سراقہ بن مالک سر توڑ کوشش کے باوجود اپنا گھوڑا آگے نہیں بڑھا سکا۔حیات رسول اللہ ﷺ میں ہمیں آپ ؐ کے کئی معجزات پڑھنے کو ملتے ہیں۔
ایک صفت یہ بیان کی گئی، میتیا جو کامل علم پائیں گے،وہ انسانیت کو بیان کریں گے۔یہ بھی رسول اللہ ﷺ کی خاصیت رہی۔قران پاک میں رب تعالی فرماتے ہیں:''اور اس نے آپ ؐ کو سب علم عطا کر دیا ہے جو آپؐ نہیں جانتے تھے اور آپؐ اللہ کا بہت بڑا فضل ہیں۔''(سورہ النسا۔113)اسی طرح سورہ الاعراف آیات 155تا 157مطلع کرتی ہیں کہ حضور اکرمﷺ امُی ہونے کے باوجود منجانب اللہ لوگوں کو اخبار غیب اور معاش ومعاد کے علوم ومعارف فرماتے تھے۔
پیشن گوئی کے مطابق میتیا دنیا کے تمام طبقات میں ہدایت کی روشنی پھیلائے گے۔عوام،خواص،بادشاہ،غریب، غرض ہو کوئی ان کے پیغام ِحق سے مستفید ہو گا۔یہ فضلیت بھی صرف رسول اللہﷺ کو حاصل ہوئی۔رب کائنات نے صرف آپ ؐ ہی کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر مبعوث فرمایا۔(سورہ الانبیا۔107)حتی کہ آپﷺ گناہگاروں کی شفاعت کے لیے بھی مقرر فرمائے گئے۔(سورہ محمد۔19)۔یہی وجہ ہے،آپﷺ کو ''سراج منیر''یعنی روشن چراغ بھی فرمایا گیا...ایسا پُرنور چراغ جو دنیا سے تمام اندھیرے دور کر ڈالے گا۔(سورہ احزاب۔46)
بدھ کا بیان ہمیں خبر دیتا ہے کہ آمدہ مبارک ہستی بنی نوع انسان کو ایسا عظیم مذہب عطا فرمائیں گی جو بنیادوں سے اپنی انتہاؤں تک بے مثال اور کامل ہو گا۔یہ تعریف بھی قران و سنت پر مبنی شریعت اسلامی پہ پوری اترتی ہے۔قران حکیم میں اسلام کو ''دین کامل''کہا گیا ہے۔(سورہ المائدہ۔4)اور نبی اکرمﷺ نے اپنے اسوہ حسنہ سے اس کو مذید کامل فرما دیا۔
مثال کے طور پر حضرت موسیؑ کی عائلی زندگی سے متعلق ہمیں کسی قسم کی معلومات نہیں ملتیں۔حضرت عیسیؑ تو ویسے ہی مجرد تھے۔مگر آنحضورﷺ نے شادیاں فرمائیں اور ازدواجی زندگی کے بہترین نمونے اپنے پیروکاروں کو عطا فرمائے۔اسی طرح حضرت موسیؑ اور حضرت عیسیؑ کبھی بادشاہ نہیں رہے۔
جبکہ حضرت داؤدؑ اور حضرت سلیمانؑ بادشاہ ہونے کے ناتے فقر و مزدوری کی زندگی سے ناآشنا تھے۔اس کے برخلاف سرورکائناتﷺ ریاست مدینہ کے امیر رہے تو تیشہ وکدال لے کر خندقیں بھی کھود فرمائیں۔گویا آپ ﷺ نے عام گھریلو کاموں سے لے کر امور سلطنت و تجارت تک،ہر قسم کی ذمے داریاں کمال احسن و خوبی سے ادا فرمائیں۔یہی وجہ ہے ،آج اگر اسلامی حکومت کا حکمران اس بات پر فخر کرے کہ وہ خلیفۃ الرسولؐ ہے تو ایک معمولی مزدور اور کسان بھی سینہ تان کر کہہ سکتا ہے کہ وہ بھی طریق مصطفیﷺ کا محافظ اور سنت نبویؐ کا پشتی بان ہے۔
آخر میں پیشن گوئی بیان کرتی ہے کہ میتیا کے ساتھ ہزاروں نیک لوگ ہوں گے ۔یہ ظاہری علامت بھی نبی اکرمﷺ کی ذات بابرکات سے وابستہ ہوئی۔آپؐ نے جب مکہ مکرمہ فتح فرمایا، تو آپؐ کے ساتھ دس ہزار صحابہ کرام تھے۔اسی طرح غزوہ حنین کے موقع پر بارہ ہزار صحابہ موجود تھے۔گویا بدھ نے جن مقدس ہستی کے آنے کی خبر دی تھی،وہ نبی کریمﷺ کی بعثت سے حقیقت میں ڈھل گئی۔
دوسری پیشن گوئی
میتیا کے بارے میں ست پٹک کے پانچویں حصے''خودک نائک'' (Khuddaka Nikaya) کی چودہویں کتاب''بدھ وسم''(Buddhavasma)میں بھی ایک پیشن گوئی موجود ہے۔اس میں گوتم بدھ اپنے پیروکاروں کو بتاتے ہیں:''اس وقت میں مکمل طور پر باشعور ہوں۔(یعنی زندگی اور موت کے حقائق سے آشنا)اور میرے بعد ایک میتیا آئیں گے۔وہ باحکمت اور موجب رحمت ہوںگے۔''
اس پیشن گوئی میں میتیا کی خاص علامتیں پُر حکمت اور باعث رحمت ہونا بیان ہوئی ہیں۔جیسا کہ بتایا گیا،یہ نبی کریم ﷺ کی خصوصی صفات ہیں۔آپؐ کی حکمت بے حساب ہے اور اسی طرح رحمت بھی!ان دونوں صفات عالیہ کا دائرہ کُل کائنات میں پھیلا ہے۔(سورہ الابنیا۔107)جبکہ سورہ توبہ آیت128میں ارشاد باری تعالی ہے:''تمھارے پاس تم ہی میں سے ایک رسولؐؐ آ چکا جس پر تمھارا ہلاکت میں پڑنا بہت شاق گذرتا ہے۔وہ تمھارے ایمان کا حریض اور اہل ایمان کے لیے سراپا شفقت و رحمت ہے۔''
تیسری پیشن گوئی
''انگت ومس''(Anagata Vamsa)بدھ مت کی قدیم مذہبی کتاب ہے۔اس میں بھی میتیا کے متعلق پیشن گوئی ملتی ہے۔ایک موقع پر بدھ کا پیروکار راہب ،ساریپت اپنے گرو سے آنے والے بدھ کے بارے میں پوچھتا ہے۔بدھ بتاتے ہیں:''میرے بعد بھی کامل بدھ آئیں گے۔اور وہ انسانوں کے سردار ہوں گے۔ان کا نام میتریا ہو گا۔''اس پیشن گوئی کی رو سے میتیریا یا میتیا تمام انسانوں کے سردار ہوں گے۔یہ مقام ِبلند بھی سرور کونین ﷺ کو عطا ہوا۔سچ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے آپﷺ کو جس مقام محمود پر فائز فرمایا،کوئی اور رسول یا انسان اس تک نہیں پہنچ سکتا۔اسی باعث قران پاک میں ارشاد ہوا:''وہ اللہ کے رسولؐ اور نبیوں کی مہر ہیں۔''(سورہ الاحزاب۔40)
چوتھی پیشن گوئی
دیوودن(Divyavadana)بدھ مت کی ایک اور قدیم مذہبی کتاب ہے جس میں میتیا کے پیروکاروں کی نشانیاں بتائی گئی ہیں۔:''تمام انسان،دیوتا اور سبھی مخلوقات میتیا کی پیروی کریں گی۔ان کے شبہات دور ہوں گے۔نفسانی خواہشات ختم ہوجائیں گی۔میتیا کی تعلیم پہ عمل کر کے وہ پاکیزہ زندگی گذاریں گے۔کسی چیز کو اپنی ملکیت نہیں سمجھیں گے،نہ سونے چاندی اور نہ گھربار کو۔تمناؤں کا جال توڑ کر وہ ابدی سکون پائیں گے۔انھیں لامحدود خوشی اور اطمینان کی زندگی حاصل ہو گی۔''
درج بالا تمام علامات صحابہ کرام ؓ پر پوری اترتی ہیں۔رسول اللہ ؐ کی آمد سے قبل تمام عرب اجڈ اور وحشی بن چکے تھے۔ان میں ہر قسم کی بدی پائی جاتی تھی۔حضور اکرمﷺ کی تعلیم نے مگر سبھی اہل عرب کو اعلی اخلاقی کردار کا مالک بنا دیا۔کل کے جاہل اب دنیا کی بہترین امت بن گئے۔اور صفحات تاریخ شاہد ہیںکہ صحابہ کرامؓ دنیاوی خواہشات سے مبرا تھے بلکہ انھوں نے دین کی سربلندی و فروغ کے لیے اپنا مال واسباب وقف کر دیا۔
میتیا کے دعوی دار
واضح رہے کہ گوتم بدھ کی زبان ''پالی''تھی جو تب مشرقی ہندوستان میں عام بولی جاتی۔مستقبل میں آنے والی مقدس ہستی اس زبان میں ''میتیا'' کہلائی۔ سنسکرت میں ان کو ''میتیریا''(Maitreya)کہا گیا۔جنوب مشرقی ایشیا کی دیگر زبانوں میںمیتیو،میلی پویا،میلی فو بھی کہلائے گئے۔میتیا پالی لفظ ''میتا'' (metta)اور میتیریا سنسکرت لفظ ''میتری''(maitri)سے نکلے ہیں۔تعجب خیز بات یہ کہ دونوں الفاظ کے معنی ہیں:رحم دلی،محبت،شفقت۔گویا میتیا اور میتیریا کے لغوی معنی ہوئے:''رحم دل،محبت وشفقت کرنے والا۔جبکہ بدھ مت کی مذہبی کتب کا مختلف زبانوں میں ترجمہ کرنے والے مترجمین نے ان الفاظ کے اصطلاحی معنی یہ لکھے ہیں:''ایسے عظیم مصلح جو انسانیت کے لیے مجسم رحمت و شفقت ہوں۔اور ان کی تعلیم محبت ودوستی کے خمیر سے گندھی ہو۔''
پچھلے دو ہزار برس میں کئی مردوزن میتیا ہونے کا دعوی کر چکے۔بعض رہنماؤں کے پیروکاروں نے انھیں میتیا بنا ڈالا۔مثال کے طور پر شنکر اچاریہ (متوفی 750ء )،ہندوؤں کا مشہور عالم جس نے ہندوستان میں بدھ مت کو شکست دے کر برہمن مت کو حیات نو دی۔مگر مغربی ماہرین کے نزدیک یہ دعوی غلط ہے۔پہلی وجہ یہ کہ شنکر اچاریہ نے کبھی میتیا ہونے کا دعوی نہیں کیا۔دوسرے وہ بدھ مت کا کٹر مخالف تھا کیونکہ بدھ نے اپنی گفتگؤوں میں ویدوں پر تنقید کی ہے۔بدھ کہتے ہیں کہ ان میں فضول باتیں بھی درج ہیں۔مذید براں بدھ کی پیشن گوئیوں میں میتیا کی جو ظاہری وباطنی صفات ملتی ہیں،وہ شنکر اچاریہ میں نہیں پائی جاتیں۔
حضرت عیسیؑ کے متبعین نے بھی انھیں میتیا قرار دیا مگر ان پر بھی پیشن گوئیاں پوری نہیں اترتیں۔پہلی وجہ یہ کہ حضرت عیسیؑ نے کبھی میتیا یا میتیریا ہونے کا دعوی نہیں کیا۔دوسری وجہ یہ کہ عیسائی عقیدے کی رو سے حضرت عیسیؑ صلیب پر قتل ہو گئے۔جبکہ میتیا کی ایک اہم نشانی یہ ہے کہ وہ طبعی طور پر وفات پائیں گے۔بعض عیسائی علما کا دعوی ہے،نزول مسیحؑ میتیا کی آمد کے مترادف ہے۔یہ بھی درست نہیں کیونکہ بدھ کی پیشن گوئیوں سے عیاں ہے،میتیا زمین پر جنم لیں گے اور ان کے ماں باپ،دونوں ہوں گے۔
نبیوں میں رحمت لقب پانے والا
قبل ازیں بتایا گیا، میتیا سراپا رحمت وشفقت ہوں گے۔اور یہ صفات رسول اکرمﷺ کی ذات اقدس سے خاص طور پہ وابستہ ہیں۔آپؐ بنی نوع انسان سے اتنی محبت فرماتے تھے کہ ایک بار صحابہ نے فرمایا:''یا رسول اللہ، مشرکین اتنا ظلم وستم کرتے ہیں۔آپؐ ان پر لعنت فرمائیے تاکہ اللہ تعالی انھیں تباہ وبرباد کر دیں۔''یہ سن کر نبی کریمؐ نے متبسم فرمایا اور کہا:''مجھے لعنت دینے والا نہیں بلکہ رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے۔''(صحیح مسلم)اسی لیے مفکرین و علما نے عربی لفظ ''رحمت''کو میتیا یا میتیریاکا ہم مترادف اور ہم معنی بتایا ہے۔
نبی کریم ﷺ نے بھی کئی بار ارشاد فرمایا:''میں رحمت(میتیا) ہوں جسے دنیا والوں کی طرف نازل کیا گیا۔''غیر مسلم دانشوروں نے بھی رسول اللہﷺ کی اس خوبی کا تفصیلی ذکر کیا ہے۔ممتاز برطانوی مستشرق،ڈیوڈ مارگولیوتھ اپنی کتاب''Mohammed and the rise of Islam''میں لکھتا ہے: ''(حضرت) محمدﷺ ہر وقت ہمیں سراپا رحمت دکھائی دیتے ہیں اور انھوں نے اپنی اس خوبی کو عملی شکل میں بھی ڈھال دیا۔(صفحہ70 )قران مجید میں بار بار ذکر ہوا ہے کہ آپؐ اللہ تعالی کی رحمت ہیں جنھیں اہل زمین پر مبعوث فرمایا گیا۔'' (صفحہ52)
ایک امریکی محقق،ایڈتھ ہالینڈ اپنی کتاب''The story of Muhammed''میں لکھتا ہے:''یہ نہایت حیران کن بات ہے کہ (حضرت)محمدﷺ ایسے معاشرے میں پیدا ہوئے جہاں قتل وغارت گری معمول تھا۔ہر قبیلہ دوسرے قبائل سے برسرپیکار رہتا۔عربوں نے نہایت ظالمانہ عادتیں اختیار کر لی تھیں۔اس کے باوجود (حضرت)محمدﷺ ہمیں بچپن سے سراپا رحمت وشفقت نظر آتے ہیں۔آپ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالی کی صفات میں رحمت ہی قدیم ترین ہے۔اور آپؐ بار بار تذکرہ فرماتے اور رب کائنات کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس نے انسان میں رحم وہمدردی کے جذبات پیدا فرمائے۔حتی کہ قران حکیم کی ہر آیت کا ٓآغاز ان الفاظ سے ہوتا ہے:شروع اللہ کے پاک نام سے جو بڑا رحمن ورحیم ہے۔''
گوتم بدھ کون تھے؟
پانچویں صدی قبل مسیح میں گوتم بدھ نے نیپال یا ہندوستان میں جنم لیا۔ان کی پرورش کپل وستو نامی مقام پر ہوئی۔نامور مسلم مورخین وعلمائے کرام نے انھیں اللہ تعالی کا نبی قرار دیا ہے۔ان میں الطبری،المقدسی،بلاذری،البیرونی،ابن الندیم،الشہرستانی،الہمدانی اور ڈاکٹر حمید اللہ قابل ذکر ہیں۔ڈاکٹر حمید اللہ اپنی کتاب ''محمد رسول اللہﷺ''میں رقم طراز ہیں:''قران حکیم میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ ہم نے بہت سے نبی بھجوائے۔بعض کے نام کتاب میں درج ہیں اوردوسروں کے نہیں لکھے گئے۔اور یہ بھی فرمایا گیا کہ ہر نبی اپنی قوم کے لسان پر تھے۔یعنی وہ اپنی قوم کی زبان بولتے تھے۔''
سورہ التین کی انجیر
بعض علما کا خیال ہے کہ قران پاک میں جن ذوالکفلؑ نبی کا ذکر ہے،وہ ''کفل''اور کپل''میں مماثلت کی وجہ سے بدھ ہو سکتے ہیں۔اسی طرح سورہ التین بدھ کو اللہ پاک کا فرستادہ سمجھنے والے علما کے مدنظر رہی ہے۔اس سورہ میں چار مقامات...بلد امین،طور سینین،الزیتون اور التین کی مناسبت سے چار رسولوں کا ذکر آیا ہے۔ ۔بلد امین سے مراد نبی کریمﷺ ہیں۔طور سینا سے حضرت موسیؑ اور الزیتون (یروشلم)سے حضرت عیسیؑ مراد ہیں۔التین کی بابت مفسرین کوئی قطعی فیصلہ نہیں کر پائے۔بعض کی رائے کہ یہ انجیر کا وہ درخت ہے کہ جس کے نیچے بدھ کو عرفان حاصل ہوا۔وہ درخت انجیر کے خاندان سے تعلق رکھتا تھا اور سائنسی اصطلاح میں''فیکس رلیگیوسا''( ficus religiosa)کہلاتا ہے۔اسی لیے یہ مفسر بدھ کو نبی سمجھتے ہیں۔
اہل کتاب میں شمولیت
دور حاضر میں باون کروڑ سے زائد انسان بدھی ہیں۔یہ دنیا کا چوتھا بڑا مذہب ہے۔محمد بن قاسم جب عرب سے سندھ پہنچے تو وہاں بدھیوں سے ملاقات ہوئی۔انھوں نے پھر اموی خلافت کے وزیراعظم،حجاج بن یوسف کو خط لکھ کر دریافت کیا کہ ان لوگوں سے کیسا سلوک کیا جائے؟حجاج نے جواب دیا:''اول انھیں اہل کتاب میں شامل کر لو۔دوم ان کے راہبوں پر حملہ نہ کرو۔سوم ان کے معبد نہ گراؤ۔چہارم ان سے جزیہ لو۔''اس طرح مسلمانوں نے بدھیوں کے ساتھ عمدہ سلوک کیا اور انھیں اپنی پناہ میں لے آئے۔
گوتم بدھ خدا نہیں
عام خیال یہ ہے کہ بدھ مت میں خدا وجود نہیں رکھتا۔اگرچہ بدھی بدھ کی پوجا کرتے ہیں۔یہ نظریہ بدھ مت کے بارے میں سطحی معلومات رکھنے سے پیدا ہوا۔نظریے نے یوں بھی جنم لیا کہ ہر قدیم مذہب کی طرح بعد میں آنے والے مذہبی لیڈروں نے اپنے مفادات کی خاطر بدھ مت میں بھی ذاتی نظریات داخل کر دیئے،یوں بدھ کی تعلیم مسخ ہو گئی۔حقیقت یہ ہے کہ بدھ نے خود کو کبھی خدا نہیں کہا بلکہ وہ اپنے آپ کو گرو یعنی استاد کہتے تھے۔دور جدید کے بدھیوں کا بھی کہنا ہے کہ وہ بدھ کے بت کے سامنے کھڑے ہو کر ان کی عبادت نہیں کرتے بلکہ تعظیم دیتے ہیں۔دوم بدھ نے بھی توحید الہی کی تعلیم دی تھی جو تحریفات میں کھو گئی۔مگر اس کے آثار آج بھی بدھی مذہبی کتب میں محفوظ ہیں۔
انڈونیشیا اور ملائشیا کے علمائے کرام نے بدھ مت کا عمیق مطالعہ کیا ہے تاکہ دونوں مذہبی گروہ قریب آ سکیں۔وہ کہتے ہیں کہ بدھ مت میں دو نظریے، ''دھرم'' (Dharma) اور'' سونیاتا'' (sunyata )توحید سے مماثل ہیں۔بدھ کہتے ہیں :''ایک دائمی وجود موجود ہے اور اسی نے ہر شے کو پیدا فرمایا۔وہ قطعی حقیقت ہے۔''اسی فرمان کی بنیاد پر نظریہ دھرم یعنی دائمی قانون نے جنم لیا۔بدھ مت میں دھرم اور خدا ہم معنی ہیں۔یہ دونوں دائمی ہیں۔دھرم کوئی شخص نہیں اور اللہ پاک بھی۔گو کچھ مسلمان عیسائیوں کی دیکھا دیکھی اللہ تعالی کو کوئی ہستی سمجھنے لگتے ہیں جو کفر ہے۔
سونیاتا کے معنی ہیں:''لامحدود،خلا۔''اللہ تعالی کی ذات بھی بے پایاں ہے،جس کی کوئی حد نہیں۔جنوب مشرقی ایشیا کے علما کا کہنا ہے:''اسلام اور بدھ مت میں بہت مماثلت ہے۔اسی لیے وہاں کے بدھیوں کو اسلام قبول کرنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آئی۔وہ بہ جبر نہیں بہ رضا ورغبت مسلمان ہوئے۔''مذید براں قران مجید میں مسلمانوں کو ''امت وسطا'' یعنی اعتدال پسند قوم کہا گیا ہے۔بدھ بھی اپنے پیروکاروں کو'' مجہیم پتیپد''(majjhima-pattipada)اختیار کر کے ''درمیانی راہ''پہ چلنے کی تلقین کرتے ہیں ۔
بودھی ستو اور انسان الکامل
بدھ مت میں بودھی ستو(bodhisattva)کا تصّور موجود ہے۔ایک ایسی اعلی ہستی جو عرفان پا کر حقیقت کے قریب ہو جائے اور پھر عوام الناس کی دستگیری و رہنمائی کرنے لگے۔بودھی ستو کی چار خصوصیات ہیں:''رحم دل،شفیق،ہم درد اور عادل۔''ہمارے خصوصاً صوفیائے کرام میں ''انسان الکامل''کی اصطلاح مشہور ہے۔ ابتداً نبی پاک ﷺ کو یہ خطاب دیا گیا تھا۔آپؐ کے صدقے پھر غیر معمولی مسلمان بھی کامل انسان کہلانے لگے۔بدھ مت میں ''تتھاگٹ'' (Tathagata) کا تصّور بھی ملتا ہے۔گوتم بدھ نے بعض مواقع پر خود کو یہ نام دیا۔اس کے معنی یہ ہے کہ بدھ کی تعلیم سدا رہے گی۔اسی طرح ہمارے صوفیا میں ''نور محمدﷺ''کا تصّور موجود ہے۔معنی یہ کہ رب کریم نے نور محمدیﷺ تخلیق فرمایا اور اب وہ پوری کائنات کے باسیوں کی رہنمائی کر رہا ہے۔
درج بالا حقائق سے آشکارا ہے کہ اسلام اور بدھ مت کافی مماثلت رکھتے ہیں۔بدھی اور مسلمان مذہبی ربط ضبط نہ ہونے کے سبب انھیں جان نہیں پاتے۔اگر بدھی اسلام اور حیات رسول اللہﷺ کا گہرائی وگیرائی سے مطالعہ کرلیں،تو یقیناً وہ سچائی جان کر اس دین کے شیدائی ہو جائیں ۔
مغرب میں ''ہولوکاسٹ'' کے خلاف بولنا یا لکھنا قانوناً جرم ہے۔پاکستانی وزیراعظم کی یہ سعی قابل تحسین ہے کہ مغربی ممالک میں شافع محشر،سرور کونینﷺ کی ذات گرامی کو بھی قانوناً شر پسندوں سے محفوظ رکھاجائے۔مادر پدر آزاد آزادی سے مغربی لیڈر اپنے مفاد پورے کرتے ہیں۔انھیں اپنی شرانگیزی کی تحریک یوں بھی ملتی ہے کہ مغربی عوام حضور اکرمﷺ کے مقام ومرتبے سے آگاہ نہیں۔جس وقت اہل مغرب رسول مقبولؐؐ کی ٖصفات عالیہ سے شناسا ہوئے، آناً فاناً آپؐ کے گرویدہ ہو جائیں گے۔
قران پاک میں رب کائنات کا ارشاد ہے کہ ہر زمانے اور ہر قوم میں بشیر(خوش خبری دینے والے )اور نذیر(ڈرانے والے)مبعوث فرمائے گئے تاکہ وہ شیطان کے بہکاوے میں آ کر بھٹک جانے والے انسانوں کو راہ راست پر لا سکیں۔(سورہ فاطر ۔24)قران حکیم میں ایسے بعض رسولوں کے نام درج ہیں اور بقیہ کے درج نہیں(سورہ النسا۔163-64)اللہ تعالی نے سبھی پیشواؤں کو عظیم ترین پیغمبر ﷺ کی آمد کی خبر بھی دی جنھیں کامل شریعت کے ساتھ نازل ہونا اور حکومت الہیہ کو حقیقی صورت میں زمین پر قائم کرنا تھا۔مقصد یہ تھا کہ جب سید المرسلین ﷺ کرہ ارض پر تشریف لائیں تو رسولوں کی تمام اقوام آپ ؐ کو پہچان لیں اور آپؐ کی معاون و مددگار بن جائیں۔
ایکسپریس سنڈے میگزین کی پچھلی دو اشاعتوں میں تفصیل سے قارئین کو گوش گذار کیا جا چکا کہ دنیا کے سبھی بڑے مذاہب کی کتب میں تحریف کے باوجود اللہ تعالی کی نازل کردہ تعلیمات کا کچھ حصّہ محفوظ ہے۔یہی تعلیم توحید الہی کے ساتھ ساتھ بعث ِنبویﷺ کی بھی خبر دیتی ہے۔اسی لیے ہندومت،یہودیت،عیسائیت اور بدھ مت ...دور جدید کے سب نمایاں مذاہب میں نبی ِرحمت ﷺ کی آمد کی پیشن گوئیاں موجود ہیں۔یہود ونصاری تو اہل کتاب ہیں۔ہنود اور بدھیوں کی مذہبی کتب میں بھی آسمانی تعلیم کے آثار دکھائی دیتے ہیں۔وجہ یہی کہ اللہ پاک نے ان اقوام میں بھی بشیر ونذیر مبعوث فرمائے۔بعد ازاں مگر ان کے پیروکاروں نے تعلیم الہی میں تحریف کرڈالی۔
انمول پیشن گوئی
بدھ مت کے بانی گوتم بدھ تھے۔اس مذہب اور بانی کے متعلق بعد میں بنیادی معلومات ملاحظہ فرمائیے،پہلے یہ جانیے کہ بدھ مت میں آنحضور ﷺ کا ذکر مبارک کیونکر فرمایا گیا۔اس مذہب کی قدیم ترین مذہبی کتاب ''تری پٹک''(Tripitaka)کہلاتی ہے۔اس کے لفظی معنی ہیں:تین ٹوکریاں۔یہ تین کتابوں کا مجموعہ ہیںجن میں بدھ مت کے بارے میں مختلف النوع باتیں درج ہیں۔تینوں کتابوں میں ''ست پٹک''(Sutta Pitaka)کتاب سب سے قدیم ہے۔کہا جاتا ہے ،بدھ کی موت کے فوراً بعد مرتب ہوئی تھی۔
اسی کتاب کے پہلے حصّے''دیکھ نائے''(Digha Nikaya)کے چھبیسویں باب''ککاوتی شند ست''(Cakkavatti Sihanada Sutta)میں بعث رسول ؐ کی عظیم الشان طریقے سے پیشن گوئی ملتی ہے۔ککاوتی شندا ست میں بدھ اپنے پیروکاروں کو بتاتے ہیں کہ ایک زمانہ آئے گا جب گناہوں کی کثرت کے باعث انسانوں کی عمریں کم ہوتے ہوتے دس سال رہ جائیں گی۔تب اخلاقیات کا نام ونشان نہیں ملے گا۔برائی سّکہ رائج الوقت ہو گی۔تبھی ایک عظیم ترین ہستی کا ظہور ہو گا جن کے دور میں عمریں کثرت نیکی کے سبب اسّی ہزار سال تک جا پہنچیں گی۔پیشن گوئی ملاحظہ فرمائیے:
''انسانوں کی عمر اسّی ہزار سال ہونے کے سمّے دنیا میں ایک برگزیدہ اور اعلی ترین شخصیت جلوہ گر ہوں گی۔وہ عارف باللہ اور کامل معرفت رکھنے والے ہوں گے۔ان کا نام ''میتیا''(Metteyya)ہو گا۔وہ باحکمت،باکردار،اقبال مند اور سبھی دنیا والوں سے زیادہ علم رکھنے والے ہوں گے۔وہ ہدایت کے طلبگاروں کے بے مثال رہنما بنیں گے۔کائنات میں سبھی (جنوں ،فرشتوں وغیرہ)کے استاد ہوں گے۔روشن ضمیر ،پُرنور اور بابرکت ہوں گے۔وہ اپنی فوق البشر قوتوں کی وجہ سے پوری دنیا میں جانے جائیں گے۔
کائنات میں مخفی سبھی علوم اور روحانی تجربات سب لوگوں پر آشکارا کریں گے،چاہے وہ دیو ہوں ،زاہد،برہمن یا بادشاہ اور شہزادے۔وہ انسانوں کو ایسے دھرم کی تعلیم دیں گے جو اول تا آخر ،ظاہر وباطن ،ہر لحاظ سے دلکش و قابل تعریف ہو گا۔ان کے ساتھ ہزاروں محب ہوں گے ،جیسے میرے ساتھ کئی سو راہب ہوتے ہیں۔''
درج بالا پیشن گوئی میں آنے والی جن مقدس ہستی کی صٖفات کا تذکرہ ہے،وہ سبھی نبی کریمﷺ کی ذات اقدس میں جمع دکھائی دیتی ہیں۔پہلے مگران حالات کو سمجھنا ضروری ہے جن کی طرف پیشن گوئی میں اشارہ کیا گیا۔بدھ کے بیان میں دس سال کی عمر سے مراد انسانی عمر کے ابتدائی دس برس ہیں جب انسان خاصی حد تک گناہوں سے پاک ہوتا ہے۔یعنی وہ عموماً دانستہ کوئی گناہ نہیں کرتا۔جبکہ اسّی ہزار سال سے مراد لافانی عمر ہے۔یعنی رب کائنات کی معرفت سے آشنا ہو کر انسان امر ہو سکتا ہے۔
تاریخ شاہد ہے کہ بعث رسول ﷺ سے قبل دنیا گناہ و بدی کا گہوارہ بن چکی تھی۔ہر سو انسان آپس میں لڑ رہے تھے۔بنی نوع انسان میں ہر قسم کی برائی جنم لے چکی تھی۔ایسے ماحول میں صرف بچے ہی پاک باز رہ گئے تھے۔آخرکار انسانیت کی رہنمائی کے لیے اللہ تعالی نے رحمت للعالمینﷺ کو مبعوث فرمیایا۔تب جو کفار عرب آپؐ پر ایمان لائے،وہ جنت میں حیات جاوداں کی عظیم نعمت سے سرفراز ہوئے۔(سورہ توبہ۔22)
آپؐ نے بنی نوع انسان کے سامنے ایسا اعلی ترین توشہ آخرت رکھا کہ جس نے بھی اس سے حصّہ پایا،بلند تر روحانی زندگی پا گیا۔یہی امر بیان کرتے ہوئے اللہ پاک فرماتے ہیں:''اے ایمان والو!اللہ اور رسول ؐ کی دعوت پر لبیک کہو کیونکہ اس کی دعوت تمھیں روحانی طور پہ زندہ کر دے گی۔''(سورہ الانفال۔24)
درج بالا پیشن گوئی میں آمدہ برگزیدہ ہستی کو عارف باللہ اور کامل معرفت رکھنے والی کہا گیا ہے۔اور ہر مسلمان گواہی دے گا کہ حضور اکرم ؐنے جس واضح اور روشن طریقے سے اللہ تعالی کی ذات بابرکات کو جانا اور انسانوں پہ اجاگر فرمایا، اس کی نظیر پوری انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔رسول مقبول ؐ کو اللہ پاک کا جو قرب اور ادراک حاصل ہوا،وہ بے مثال ہے۔حتی کہ رب تعالی اپنے محبوب ترین رسولﷺ کو سدرۃ المنتہی لے گئے جہاں آج تک کوئی نہیں پہنچ سکا تھا اور جہاں فرشتوں تک کے بدن جل اٹھتے ہیں۔
باحکمت اور اقبال مند ہونا بھی ان عظیم ہستی کے وصف ہیں۔اور ہم جانتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے انسانوں کو نہ صرف کتاب مبین کی تعلیم دی بلکہ انھیں مخفی علوم و حکمتیں بھی سکھائیں۔محض دینی علوم پڑھانے پر اکتفا نہیں فرمایا،انسان کو یہ رہنمائی بھی فرمائی کہ دنیا میں کیونکر ترقی کرنا ممکن ہے۔
حقیقتاً آپؐ عام مسلمان کے لیے ہر شعبہ ِ زندگی میں کامل ترین اور آئیڈیل شخصیت بن گئے۔قران کریم میں درج ہے:''ہم نے آپؐ کی خاطر آپؐ کا سینہ (انوار علم وحکمت اور معرفت کے لیے)کشادہ فرما دیا۔''(سورہ الم نشرح۔1تا 8)ایک اور جگہ ارشاد الہی ہوا ہے:''اور وہ (نبی اکرمﷺ )(غیب کے بتانے پر)بالکل بخیل نہیں ۔''یعنی مالک عرش وبریں نے آپ ﷺ پر حکمت کے تمام خزینے وا فرما دئیے۔(سورہ التکویر۔24 )
میتیا روشن ضمیر اور پُرنور بھی ہوں گے۔حضور اکرمﷺ انہی صفات کے بھی حامل ہیں۔رب تعالی نے اہل زمین کو بتایا ہے :''اے لوگو! تمھارے پاس اللہ کی جانب سے ایک حُجت آ چکی اور ہم نے تمھاری طرف ایک نور مبین کو اتار دیا۔(سورہ النسا۔172)اسی طرح سورہ المائدہ آیت 15میں ارشاد فرمایا گیا:''تمھارے پاس یہ رسولؐؐ تشریف لائے ہیں جو تم پر بہت سی باتیں ظاہر فرماتے ہیں۔بے شک تمھارے پاس اللہ کی جانب سے ایک نور آ گیا ہے اور ایک روشن کتاب (قران مجید)۔سورہ النور میں بھی پروردگار نے اپنے نور کی مثال آپﷺ سے دی ہے۔
پیشن گوئی میں یہ تذکرہ بھی ہے، آمدہ ہادی کامل نہ صرف انسانوں بلکہ فرشتوں اور جنوں کو بھی ہدایت دیں گے۔گویا وہ جن وانس،کائنات میں اللہ پاک کی پیدا کردہ ہر زندہ شے کے استاد ہوں گے۔یہ صفت بھی نبی کریمﷺ کا وصف خاص ہے۔قران پاک نے آپؐ کو ''طحہ'' یعنی اے طیب اور ہادی کہہ کر پکارا ہے۔ایک جگہ ''یسیعنی''فرمایا گیا یعنی'' اے سردار۔''ایک حدیث میں آیا ہے'':میں قیامت کے دن تمام نبی آدم کا سردار ہوں گا۔ہر نبی اس دن میرے علم کے نیچے ہو گا۔''نیز ایک دفعہ فرمایا:''روز حشر میں نبیوں کا امام اور ان کا خطیب ہوں گا۔''
یہ بھی ذکر ہوا کہ میتیا فوق البشر قوتوں کے مالک ہوں گے۔یہ خصوصیت بھی رسول اللہﷺ سے وابستہ ہے۔اللہ تعالی نے آپ کو حیران کن معجزے انجام دینے کی قدرت ودیعت فرمائی تھی۔مثال کے طور پر جب آپ ﷺ مکہ سے مدینہ روانہ ہوئے تو ہزارہا کفار آپ ؐ کی جاسوسی پر مامور تھے۔مگر نبی کریم ﷺ اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ ان کے درمیان سے نکل کر غار ثور تشریف لے گئے۔فوق البشر قوتیں رکھنے والی ہستی ہی ایسا معجزہ دکھاسکتی ہیں۔اسی طرح سراقہ بن مالک سر توڑ کوشش کے باوجود اپنا گھوڑا آگے نہیں بڑھا سکا۔حیات رسول اللہ ﷺ میں ہمیں آپ ؐ کے کئی معجزات پڑھنے کو ملتے ہیں۔
ایک صفت یہ بیان کی گئی، میتیا جو کامل علم پائیں گے،وہ انسانیت کو بیان کریں گے۔یہ بھی رسول اللہ ﷺ کی خاصیت رہی۔قران پاک میں رب تعالی فرماتے ہیں:''اور اس نے آپ ؐ کو سب علم عطا کر دیا ہے جو آپؐ نہیں جانتے تھے اور آپؐ اللہ کا بہت بڑا فضل ہیں۔''(سورہ النسا۔113)اسی طرح سورہ الاعراف آیات 155تا 157مطلع کرتی ہیں کہ حضور اکرمﷺ امُی ہونے کے باوجود منجانب اللہ لوگوں کو اخبار غیب اور معاش ومعاد کے علوم ومعارف فرماتے تھے۔
پیشن گوئی کے مطابق میتیا دنیا کے تمام طبقات میں ہدایت کی روشنی پھیلائے گے۔عوام،خواص،بادشاہ،غریب، غرض ہو کوئی ان کے پیغام ِحق سے مستفید ہو گا۔یہ فضلیت بھی صرف رسول اللہﷺ کو حاصل ہوئی۔رب کائنات نے صرف آپ ؐ ہی کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر مبعوث فرمایا۔(سورہ الانبیا۔107)حتی کہ آپﷺ گناہگاروں کی شفاعت کے لیے بھی مقرر فرمائے گئے۔(سورہ محمد۔19)۔یہی وجہ ہے،آپﷺ کو ''سراج منیر''یعنی روشن چراغ بھی فرمایا گیا...ایسا پُرنور چراغ جو دنیا سے تمام اندھیرے دور کر ڈالے گا۔(سورہ احزاب۔46)
بدھ کا بیان ہمیں خبر دیتا ہے کہ آمدہ مبارک ہستی بنی نوع انسان کو ایسا عظیم مذہب عطا فرمائیں گی جو بنیادوں سے اپنی انتہاؤں تک بے مثال اور کامل ہو گا۔یہ تعریف بھی قران و سنت پر مبنی شریعت اسلامی پہ پوری اترتی ہے۔قران حکیم میں اسلام کو ''دین کامل''کہا گیا ہے۔(سورہ المائدہ۔4)اور نبی اکرمﷺ نے اپنے اسوہ حسنہ سے اس کو مذید کامل فرما دیا۔
مثال کے طور پر حضرت موسیؑ کی عائلی زندگی سے متعلق ہمیں کسی قسم کی معلومات نہیں ملتیں۔حضرت عیسیؑ تو ویسے ہی مجرد تھے۔مگر آنحضورﷺ نے شادیاں فرمائیں اور ازدواجی زندگی کے بہترین نمونے اپنے پیروکاروں کو عطا فرمائے۔اسی طرح حضرت موسیؑ اور حضرت عیسیؑ کبھی بادشاہ نہیں رہے۔
جبکہ حضرت داؤدؑ اور حضرت سلیمانؑ بادشاہ ہونے کے ناتے فقر و مزدوری کی زندگی سے ناآشنا تھے۔اس کے برخلاف سرورکائناتﷺ ریاست مدینہ کے امیر رہے تو تیشہ وکدال لے کر خندقیں بھی کھود فرمائیں۔گویا آپ ﷺ نے عام گھریلو کاموں سے لے کر امور سلطنت و تجارت تک،ہر قسم کی ذمے داریاں کمال احسن و خوبی سے ادا فرمائیں۔یہی وجہ ہے ،آج اگر اسلامی حکومت کا حکمران اس بات پر فخر کرے کہ وہ خلیفۃ الرسولؐ ہے تو ایک معمولی مزدور اور کسان بھی سینہ تان کر کہہ سکتا ہے کہ وہ بھی طریق مصطفیﷺ کا محافظ اور سنت نبویؐ کا پشتی بان ہے۔
آخر میں پیشن گوئی بیان کرتی ہے کہ میتیا کے ساتھ ہزاروں نیک لوگ ہوں گے ۔یہ ظاہری علامت بھی نبی اکرمﷺ کی ذات بابرکات سے وابستہ ہوئی۔آپؐ نے جب مکہ مکرمہ فتح فرمایا، تو آپؐ کے ساتھ دس ہزار صحابہ کرام تھے۔اسی طرح غزوہ حنین کے موقع پر بارہ ہزار صحابہ موجود تھے۔گویا بدھ نے جن مقدس ہستی کے آنے کی خبر دی تھی،وہ نبی کریمﷺ کی بعثت سے حقیقت میں ڈھل گئی۔
دوسری پیشن گوئی
میتیا کے بارے میں ست پٹک کے پانچویں حصے''خودک نائک'' (Khuddaka Nikaya) کی چودہویں کتاب''بدھ وسم''(Buddhavasma)میں بھی ایک پیشن گوئی موجود ہے۔اس میں گوتم بدھ اپنے پیروکاروں کو بتاتے ہیں:''اس وقت میں مکمل طور پر باشعور ہوں۔(یعنی زندگی اور موت کے حقائق سے آشنا)اور میرے بعد ایک میتیا آئیں گے۔وہ باحکمت اور موجب رحمت ہوںگے۔''
اس پیشن گوئی میں میتیا کی خاص علامتیں پُر حکمت اور باعث رحمت ہونا بیان ہوئی ہیں۔جیسا کہ بتایا گیا،یہ نبی کریم ﷺ کی خصوصی صفات ہیں۔آپؐ کی حکمت بے حساب ہے اور اسی طرح رحمت بھی!ان دونوں صفات عالیہ کا دائرہ کُل کائنات میں پھیلا ہے۔(سورہ الابنیا۔107)جبکہ سورہ توبہ آیت128میں ارشاد باری تعالی ہے:''تمھارے پاس تم ہی میں سے ایک رسولؐؐ آ چکا جس پر تمھارا ہلاکت میں پڑنا بہت شاق گذرتا ہے۔وہ تمھارے ایمان کا حریض اور اہل ایمان کے لیے سراپا شفقت و رحمت ہے۔''
تیسری پیشن گوئی
''انگت ومس''(Anagata Vamsa)بدھ مت کی قدیم مذہبی کتاب ہے۔اس میں بھی میتیا کے متعلق پیشن گوئی ملتی ہے۔ایک موقع پر بدھ کا پیروکار راہب ،ساریپت اپنے گرو سے آنے والے بدھ کے بارے میں پوچھتا ہے۔بدھ بتاتے ہیں:''میرے بعد بھی کامل بدھ آئیں گے۔اور وہ انسانوں کے سردار ہوں گے۔ان کا نام میتریا ہو گا۔''اس پیشن گوئی کی رو سے میتیریا یا میتیا تمام انسانوں کے سردار ہوں گے۔یہ مقام ِبلند بھی سرور کونین ﷺ کو عطا ہوا۔سچ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے آپﷺ کو جس مقام محمود پر فائز فرمایا،کوئی اور رسول یا انسان اس تک نہیں پہنچ سکتا۔اسی باعث قران پاک میں ارشاد ہوا:''وہ اللہ کے رسولؐ اور نبیوں کی مہر ہیں۔''(سورہ الاحزاب۔40)
چوتھی پیشن گوئی
دیوودن(Divyavadana)بدھ مت کی ایک اور قدیم مذہبی کتاب ہے جس میں میتیا کے پیروکاروں کی نشانیاں بتائی گئی ہیں۔:''تمام انسان،دیوتا اور سبھی مخلوقات میتیا کی پیروی کریں گی۔ان کے شبہات دور ہوں گے۔نفسانی خواہشات ختم ہوجائیں گی۔میتیا کی تعلیم پہ عمل کر کے وہ پاکیزہ زندگی گذاریں گے۔کسی چیز کو اپنی ملکیت نہیں سمجھیں گے،نہ سونے چاندی اور نہ گھربار کو۔تمناؤں کا جال توڑ کر وہ ابدی سکون پائیں گے۔انھیں لامحدود خوشی اور اطمینان کی زندگی حاصل ہو گی۔''
درج بالا تمام علامات صحابہ کرام ؓ پر پوری اترتی ہیں۔رسول اللہ ؐ کی آمد سے قبل تمام عرب اجڈ اور وحشی بن چکے تھے۔ان میں ہر قسم کی بدی پائی جاتی تھی۔حضور اکرمﷺ کی تعلیم نے مگر سبھی اہل عرب کو اعلی اخلاقی کردار کا مالک بنا دیا۔کل کے جاہل اب دنیا کی بہترین امت بن گئے۔اور صفحات تاریخ شاہد ہیںکہ صحابہ کرامؓ دنیاوی خواہشات سے مبرا تھے بلکہ انھوں نے دین کی سربلندی و فروغ کے لیے اپنا مال واسباب وقف کر دیا۔
میتیا کے دعوی دار
واضح رہے کہ گوتم بدھ کی زبان ''پالی''تھی جو تب مشرقی ہندوستان میں عام بولی جاتی۔مستقبل میں آنے والی مقدس ہستی اس زبان میں ''میتیا'' کہلائی۔ سنسکرت میں ان کو ''میتیریا''(Maitreya)کہا گیا۔جنوب مشرقی ایشیا کی دیگر زبانوں میںمیتیو،میلی پویا،میلی فو بھی کہلائے گئے۔میتیا پالی لفظ ''میتا'' (metta)اور میتیریا سنسکرت لفظ ''میتری''(maitri)سے نکلے ہیں۔تعجب خیز بات یہ کہ دونوں الفاظ کے معنی ہیں:رحم دلی،محبت،شفقت۔گویا میتیا اور میتیریا کے لغوی معنی ہوئے:''رحم دل،محبت وشفقت کرنے والا۔جبکہ بدھ مت کی مذہبی کتب کا مختلف زبانوں میں ترجمہ کرنے والے مترجمین نے ان الفاظ کے اصطلاحی معنی یہ لکھے ہیں:''ایسے عظیم مصلح جو انسانیت کے لیے مجسم رحمت و شفقت ہوں۔اور ان کی تعلیم محبت ودوستی کے خمیر سے گندھی ہو۔''
پچھلے دو ہزار برس میں کئی مردوزن میتیا ہونے کا دعوی کر چکے۔بعض رہنماؤں کے پیروکاروں نے انھیں میتیا بنا ڈالا۔مثال کے طور پر شنکر اچاریہ (متوفی 750ء )،ہندوؤں کا مشہور عالم جس نے ہندوستان میں بدھ مت کو شکست دے کر برہمن مت کو حیات نو دی۔مگر مغربی ماہرین کے نزدیک یہ دعوی غلط ہے۔پہلی وجہ یہ کہ شنکر اچاریہ نے کبھی میتیا ہونے کا دعوی نہیں کیا۔دوسرے وہ بدھ مت کا کٹر مخالف تھا کیونکہ بدھ نے اپنی گفتگؤوں میں ویدوں پر تنقید کی ہے۔بدھ کہتے ہیں کہ ان میں فضول باتیں بھی درج ہیں۔مذید براں بدھ کی پیشن گوئیوں میں میتیا کی جو ظاہری وباطنی صفات ملتی ہیں،وہ شنکر اچاریہ میں نہیں پائی جاتیں۔
حضرت عیسیؑ کے متبعین نے بھی انھیں میتیا قرار دیا مگر ان پر بھی پیشن گوئیاں پوری نہیں اترتیں۔پہلی وجہ یہ کہ حضرت عیسیؑ نے کبھی میتیا یا میتیریا ہونے کا دعوی نہیں کیا۔دوسری وجہ یہ کہ عیسائی عقیدے کی رو سے حضرت عیسیؑ صلیب پر قتل ہو گئے۔جبکہ میتیا کی ایک اہم نشانی یہ ہے کہ وہ طبعی طور پر وفات پائیں گے۔بعض عیسائی علما کا دعوی ہے،نزول مسیحؑ میتیا کی آمد کے مترادف ہے۔یہ بھی درست نہیں کیونکہ بدھ کی پیشن گوئیوں سے عیاں ہے،میتیا زمین پر جنم لیں گے اور ان کے ماں باپ،دونوں ہوں گے۔
نبیوں میں رحمت لقب پانے والا
قبل ازیں بتایا گیا، میتیا سراپا رحمت وشفقت ہوں گے۔اور یہ صفات رسول اکرمﷺ کی ذات اقدس سے خاص طور پہ وابستہ ہیں۔آپؐ بنی نوع انسان سے اتنی محبت فرماتے تھے کہ ایک بار صحابہ نے فرمایا:''یا رسول اللہ، مشرکین اتنا ظلم وستم کرتے ہیں۔آپؐ ان پر لعنت فرمائیے تاکہ اللہ تعالی انھیں تباہ وبرباد کر دیں۔''یہ سن کر نبی کریمؐ نے متبسم فرمایا اور کہا:''مجھے لعنت دینے والا نہیں بلکہ رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے۔''(صحیح مسلم)اسی لیے مفکرین و علما نے عربی لفظ ''رحمت''کو میتیا یا میتیریاکا ہم مترادف اور ہم معنی بتایا ہے۔
نبی کریم ﷺ نے بھی کئی بار ارشاد فرمایا:''میں رحمت(میتیا) ہوں جسے دنیا والوں کی طرف نازل کیا گیا۔''غیر مسلم دانشوروں نے بھی رسول اللہﷺ کی اس خوبی کا تفصیلی ذکر کیا ہے۔ممتاز برطانوی مستشرق،ڈیوڈ مارگولیوتھ اپنی کتاب''Mohammed and the rise of Islam''میں لکھتا ہے: ''(حضرت) محمدﷺ ہر وقت ہمیں سراپا رحمت دکھائی دیتے ہیں اور انھوں نے اپنی اس خوبی کو عملی شکل میں بھی ڈھال دیا۔(صفحہ70 )قران مجید میں بار بار ذکر ہوا ہے کہ آپؐ اللہ تعالی کی رحمت ہیں جنھیں اہل زمین پر مبعوث فرمایا گیا۔'' (صفحہ52)
ایک امریکی محقق،ایڈتھ ہالینڈ اپنی کتاب''The story of Muhammed''میں لکھتا ہے:''یہ نہایت حیران کن بات ہے کہ (حضرت)محمدﷺ ایسے معاشرے میں پیدا ہوئے جہاں قتل وغارت گری معمول تھا۔ہر قبیلہ دوسرے قبائل سے برسرپیکار رہتا۔عربوں نے نہایت ظالمانہ عادتیں اختیار کر لی تھیں۔اس کے باوجود (حضرت)محمدﷺ ہمیں بچپن سے سراپا رحمت وشفقت نظر آتے ہیں۔آپ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالی کی صفات میں رحمت ہی قدیم ترین ہے۔اور آپؐ بار بار تذکرہ فرماتے اور رب کائنات کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس نے انسان میں رحم وہمدردی کے جذبات پیدا فرمائے۔حتی کہ قران حکیم کی ہر آیت کا ٓآغاز ان الفاظ سے ہوتا ہے:شروع اللہ کے پاک نام سے جو بڑا رحمن ورحیم ہے۔''
گوتم بدھ کون تھے؟
پانچویں صدی قبل مسیح میں گوتم بدھ نے نیپال یا ہندوستان میں جنم لیا۔ان کی پرورش کپل وستو نامی مقام پر ہوئی۔نامور مسلم مورخین وعلمائے کرام نے انھیں اللہ تعالی کا نبی قرار دیا ہے۔ان میں الطبری،المقدسی،بلاذری،البیرونی،ابن الندیم،الشہرستانی،الہمدانی اور ڈاکٹر حمید اللہ قابل ذکر ہیں۔ڈاکٹر حمید اللہ اپنی کتاب ''محمد رسول اللہﷺ''میں رقم طراز ہیں:''قران حکیم میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ ہم نے بہت سے نبی بھجوائے۔بعض کے نام کتاب میں درج ہیں اوردوسروں کے نہیں لکھے گئے۔اور یہ بھی فرمایا گیا کہ ہر نبی اپنی قوم کے لسان پر تھے۔یعنی وہ اپنی قوم کی زبان بولتے تھے۔''
سورہ التین کی انجیر
بعض علما کا خیال ہے کہ قران پاک میں جن ذوالکفلؑ نبی کا ذکر ہے،وہ ''کفل''اور کپل''میں مماثلت کی وجہ سے بدھ ہو سکتے ہیں۔اسی طرح سورہ التین بدھ کو اللہ پاک کا فرستادہ سمجھنے والے علما کے مدنظر رہی ہے۔اس سورہ میں چار مقامات...بلد امین،طور سینین،الزیتون اور التین کی مناسبت سے چار رسولوں کا ذکر آیا ہے۔ ۔بلد امین سے مراد نبی کریمﷺ ہیں۔طور سینا سے حضرت موسیؑ اور الزیتون (یروشلم)سے حضرت عیسیؑ مراد ہیں۔التین کی بابت مفسرین کوئی قطعی فیصلہ نہیں کر پائے۔بعض کی رائے کہ یہ انجیر کا وہ درخت ہے کہ جس کے نیچے بدھ کو عرفان حاصل ہوا۔وہ درخت انجیر کے خاندان سے تعلق رکھتا تھا اور سائنسی اصطلاح میں''فیکس رلیگیوسا''( ficus religiosa)کہلاتا ہے۔اسی لیے یہ مفسر بدھ کو نبی سمجھتے ہیں۔
اہل کتاب میں شمولیت
دور حاضر میں باون کروڑ سے زائد انسان بدھی ہیں۔یہ دنیا کا چوتھا بڑا مذہب ہے۔محمد بن قاسم جب عرب سے سندھ پہنچے تو وہاں بدھیوں سے ملاقات ہوئی۔انھوں نے پھر اموی خلافت کے وزیراعظم،حجاج بن یوسف کو خط لکھ کر دریافت کیا کہ ان لوگوں سے کیسا سلوک کیا جائے؟حجاج نے جواب دیا:''اول انھیں اہل کتاب میں شامل کر لو۔دوم ان کے راہبوں پر حملہ نہ کرو۔سوم ان کے معبد نہ گراؤ۔چہارم ان سے جزیہ لو۔''اس طرح مسلمانوں نے بدھیوں کے ساتھ عمدہ سلوک کیا اور انھیں اپنی پناہ میں لے آئے۔
گوتم بدھ خدا نہیں
عام خیال یہ ہے کہ بدھ مت میں خدا وجود نہیں رکھتا۔اگرچہ بدھی بدھ کی پوجا کرتے ہیں۔یہ نظریہ بدھ مت کے بارے میں سطحی معلومات رکھنے سے پیدا ہوا۔نظریے نے یوں بھی جنم لیا کہ ہر قدیم مذہب کی طرح بعد میں آنے والے مذہبی لیڈروں نے اپنے مفادات کی خاطر بدھ مت میں بھی ذاتی نظریات داخل کر دیئے،یوں بدھ کی تعلیم مسخ ہو گئی۔حقیقت یہ ہے کہ بدھ نے خود کو کبھی خدا نہیں کہا بلکہ وہ اپنے آپ کو گرو یعنی استاد کہتے تھے۔دور جدید کے بدھیوں کا بھی کہنا ہے کہ وہ بدھ کے بت کے سامنے کھڑے ہو کر ان کی عبادت نہیں کرتے بلکہ تعظیم دیتے ہیں۔دوم بدھ نے بھی توحید الہی کی تعلیم دی تھی جو تحریفات میں کھو گئی۔مگر اس کے آثار آج بھی بدھی مذہبی کتب میں محفوظ ہیں۔
انڈونیشیا اور ملائشیا کے علمائے کرام نے بدھ مت کا عمیق مطالعہ کیا ہے تاکہ دونوں مذہبی گروہ قریب آ سکیں۔وہ کہتے ہیں کہ بدھ مت میں دو نظریے، ''دھرم'' (Dharma) اور'' سونیاتا'' (sunyata )توحید سے مماثل ہیں۔بدھ کہتے ہیں :''ایک دائمی وجود موجود ہے اور اسی نے ہر شے کو پیدا فرمایا۔وہ قطعی حقیقت ہے۔''اسی فرمان کی بنیاد پر نظریہ دھرم یعنی دائمی قانون نے جنم لیا۔بدھ مت میں دھرم اور خدا ہم معنی ہیں۔یہ دونوں دائمی ہیں۔دھرم کوئی شخص نہیں اور اللہ پاک بھی۔گو کچھ مسلمان عیسائیوں کی دیکھا دیکھی اللہ تعالی کو کوئی ہستی سمجھنے لگتے ہیں جو کفر ہے۔
سونیاتا کے معنی ہیں:''لامحدود،خلا۔''اللہ تعالی کی ذات بھی بے پایاں ہے،جس کی کوئی حد نہیں۔جنوب مشرقی ایشیا کے علما کا کہنا ہے:''اسلام اور بدھ مت میں بہت مماثلت ہے۔اسی لیے وہاں کے بدھیوں کو اسلام قبول کرنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آئی۔وہ بہ جبر نہیں بہ رضا ورغبت مسلمان ہوئے۔''مذید براں قران مجید میں مسلمانوں کو ''امت وسطا'' یعنی اعتدال پسند قوم کہا گیا ہے۔بدھ بھی اپنے پیروکاروں کو'' مجہیم پتیپد''(majjhima-pattipada)اختیار کر کے ''درمیانی راہ''پہ چلنے کی تلقین کرتے ہیں ۔
بودھی ستو اور انسان الکامل
بدھ مت میں بودھی ستو(bodhisattva)کا تصّور موجود ہے۔ایک ایسی اعلی ہستی جو عرفان پا کر حقیقت کے قریب ہو جائے اور پھر عوام الناس کی دستگیری و رہنمائی کرنے لگے۔بودھی ستو کی چار خصوصیات ہیں:''رحم دل،شفیق،ہم درد اور عادل۔''ہمارے خصوصاً صوفیائے کرام میں ''انسان الکامل''کی اصطلاح مشہور ہے۔ ابتداً نبی پاک ﷺ کو یہ خطاب دیا گیا تھا۔آپؐ کے صدقے پھر غیر معمولی مسلمان بھی کامل انسان کہلانے لگے۔بدھ مت میں ''تتھاگٹ'' (Tathagata) کا تصّور بھی ملتا ہے۔گوتم بدھ نے بعض مواقع پر خود کو یہ نام دیا۔اس کے معنی یہ ہے کہ بدھ کی تعلیم سدا رہے گی۔اسی طرح ہمارے صوفیا میں ''نور محمدﷺ''کا تصّور موجود ہے۔معنی یہ کہ رب کریم نے نور محمدیﷺ تخلیق فرمایا اور اب وہ پوری کائنات کے باسیوں کی رہنمائی کر رہا ہے۔
درج بالا حقائق سے آشکارا ہے کہ اسلام اور بدھ مت کافی مماثلت رکھتے ہیں۔بدھی اور مسلمان مذہبی ربط ضبط نہ ہونے کے سبب انھیں جان نہیں پاتے۔اگر بدھی اسلام اور حیات رسول اللہﷺ کا گہرائی وگیرائی سے مطالعہ کرلیں،تو یقیناً وہ سچائی جان کر اس دین کے شیدائی ہو جائیں ۔