شمشان گھاٹ
چاہے کتنے ہی اعداد و شمار چھپائے جائیں مگر ہندوستان کے سارے شمشان گھاٹ بول پڑے۔
ROME:
کتنی تیزی سے مناظر بدلتے ہیں۔ کل کامیاب ہوامودی آج ناکام ہوتا ہوا نظر آرہا ہے۔ اس کے پائوں تلے جیسے زمین نکل گئی ہو۔ ہندوستان میں لگ بھگ پانچ کروڑ لوگوں کو کورونا لگ چکا ہے اور مزید پانچ کروڑ لوگوں کو لگنے کا خدشہ ہے۔
سرکاری اعدادو شمار کے مطابق روزانہ تقریبا دوسے تین ہزار لوگ زندگی گنوا رہے ہیں، جب کہ غیر سرکاری اعداد شمار میں یہ اموات پانچ سے سات ہزار روزانہ کے حساب سے ہورہی ہیں۔ گلی گلی صف ماتم ہے۔ اسپتال بھر چکے، آکسیجن ختم ہوچکی، اتنی بدنظمی ہے کہ لوگ اپنے پیاروں کو خود بچا رہے ہیں اورخود اپنی زندگی کے لیے بھی خطرہ مول لے رہے ہیں۔
ہندوستان کے اعدادوشمار کے مطابق اس وقت پوری دنیا میں اتنے کورونا کے مریض نہیں جتنے فقط ہندوستان میں ہیں۔ یہ ہے مذ ہبی جنون میں ڈوبا ہوا مودی اور اس کا ہندوستان۔ ہر تہوار، مذہبی میلوں اور دیگر دنوں کو منانے کی کھلی اجازت تھی،جب کہ جشن بھی منایا جارہا تھا کہ مودی کورونا کو شکست دے چکے ہیں، لاکھوں لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا کنبھ کا میلہ بھی ہوا، لوگوں نے ماسک اتاردیے ۔ کھیلوں کے دوران لوگوں کو اسٹیڈیم میں جانے کی اجازت تھی۔ یہ تھا مودی کا بیانیہ!
ٹرمپ سے ملتا جلتا بیانیہ ۔ جس نے امریکا کو کوروناکی لپیٹ میں دے دیا۔ یہ ٹھیک ہے کہ جوبائیڈن کے زمانے میں امریکا میں کورونا ویکسین آگئی ہے مگر بائیڈن نے ان تین مہینوں میں بہت کچھ تبدیل کردیا ہے اور بہت کچھ ابھی بھی تبدیل کرنا ہے ۔ ہندوستان ویکسین بنانے میں دنیا میں سب سے آگے ہے مگر ہندوستان اسوقت خود جس مشکل میں ہے اس سے بھی یہ دنیا واقف ہے۔
یہ ہے وہ دائیں بازو والا پاپولر ازم، ہٹلر کا نظریہ جس میں باتیں بڑی بڑی کی جاتی ہیں۔ نفرت کو ہوا دی جاتی ہے۔ پچھلے سال ہند وستان میں مسلمانوں کے ساتھ اچھوتوں سے بھی بدتر سلوک کیا گیا، جیسے کہ ہندوستان کے تمام مسلمانوں کو کورونا لگ گیا ہو اور ان سے دور رہا جائے ورنہ کورونا لگ جائے گا۔ مگر اب حالات وہ ہیں کہ کورونا ہندوستان میں بے قابو ہو چکا ہے۔اب تو کہتے ہیں کوئی معجزہ ہی ہوگا کہ اگر کم از کم دو تہائی آبادی کو یہ مرض نہ لگے۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ دلی میں اس وقت تین افراد میں ایک فرد اوسطاً ایسا ہے جس کو کورونا لاحق ہے۔
پچھلے سال پاکستان میںکورونا کاپھیلائو، دو بڑے ذرایع سے ہوا ۔ ایک رائیونڈ کا اجتماع اور دوسرے ایران ، تافتان سے لوٹنے والے زائرین۔ سندھ حکومت کورونا کی روک تھام میں سب سے آگے تھی۔ سندھ حکومت دائیں بازو کی پاپولسٹ سیاست کرنے والی پارٹی نہیں تھی۔ سندھ میں لاکھ بری حکمرانی سہی مگر ان کو بیانیہ بنانا آتا تھا، ان کو حکمت عملی جوڑنا آتی تھی۔ آج پاکستان میں کورونا بہت تیزی سے پھیل رہا ہے مگر سندھ میں اس کی تیزی قدرے کم ہے ، ہاں مگر ہمیں کسی خوش فہمی میں بھی نہیں رہنا چاہیے۔
پاکستان اور ہندوستان ہم دونوں ہی ایک دوسرے کا عکس ہے ۔ 1947 کی چودہ اور پندرہ اگست کی درمیانی شب میں ہم دونوں کا جنم ہوا۔ ہم صدیوں سے ایک تھے ، حملہ آوروں کی زد میں رہتے تھے ۔ یہاں کے مقامی لوگوں کا استحصال کیا گیا۔ اکبر اعظم سے پہلے جو حکمراں یہاں آئے ،اپنی بنیادیں مضبوط نہ کرسکے، اکبر اعظم یہاں کے لوگوں اور ثقافت میں تحلیل ہو گیا، وہ سندھ کے شہر عمرکوٹ میں پیدا ہوا تھا،جب اس کے والد ہمایوں کو دہلی سے بھاگنا پڑا تھا۔ اکبر کی بادشاہت پچاس سال تک قائم رہی۔ اس نے مغلیہ سلطنت کی ایسی بنیاد ڈالی کہ آگے صدیوں تک قائم رہی ۔ جب بادشاہ اورنگ زیب نے مذہبی جنونیت کا پتہ کھیلا او ر اقتدار پر قبضہ جمانے کے لیے اپنے والد شاہ جہاں کو بھی قیدوبند میں رکھا۔
ہندوستان کو اورنگزیب کمزور کر چلا اور پھر اس کا فائد ہ انگریزوںیا یوں کہیے ایسٹ انڈیا کمپنی نے اٹھایا۔ انگریزوں نے بھی اپنے اقتدار کو مضبوط کرنے کے لیے نفرتوں کا بیوپار کرنا تھا۔ کئی مذہبی فرقے تھے جو اس زمانے میں بنے۔ ہندوستان کے لوگ اگر یکجا ہو جاتے تو انگریز سامراج کے لیے اپنا اقتدار برقرار رکھنا مشکل ہوجاتا۔ لہذا انھوں نے بھی ''لڑائو اور حکومت کرو'' کی پالیسی کو اپنایا، جس کی بنیادیں پاکستان میں جنرل ضیاء الحق نے ڈالیں۔
نفرتوں میں بٹے برصغیر کا بٹوارہ ہوگیا، مگر بات یہاں نہیںٹھہری ۔ گاندھی کو پاکستان کی وکالت کرنے پر ایک ہندو انتہا پرست نے گولیاں مار دیں۔ ہندوستان کا باپو آخری باری شمشان گھاٹ پہ ایک چتا کی صورت میں پایا گیا ، میں نے وہ منظر کسی فلم میں دیکھے تھے ۔ یہ منظر میں نے تب بھی دیکھا تھا جب اندرا گاندھی کو اس کے سکھ باڈی گارڈوں نے شانتی بھون کے اندر مارا تھا ۔ اس کی چتا کو جب شمشان گھاٹ میں آگ لگائی گئی تو اس کا بیٹا راجیو وہاں تھا۔ تمام دنیا کے سربراہ ان کے انتم سنسکار میںشریک ہوئے تھے ،ہمارے جنرل ضیاء الحق بھی گئے ۔ جنرل ضیاء الحق وہاں روس کے صدر آندرروپوف کے برابر میں کھڑے تھے۔ اس وقت سویت یونین کی فوجیں افغانستان میں تھیں اور ہم پاکستان سے امریکا کی جنگ جہادکے نام پر لڑ رہے تھے۔
جب اندرا کے بیٹے سنجے گاندھی کا انتقال ہوا تھا تو اس کی چتا کو آگ راجیو گاندھی نے لگائی تھی ، ماں ساتھ کھڑی ہوئی تھی اور جب راجیو گاندھی کا قتل ہوا تو اس کی چتا کو آگ بھی شمشان گھاٹ میں لگی، یہ تینوں مارے گئے،جس طرح یہاں بھٹوز مارے گئے۔ ہاں مگر ماتم کدہ جو اب ہے، وہ دل کو جھنجوڑ دیتا ہے۔ کورونا نے ہندوستان میں ہندو دیکھا نہ سکھ،نہ کرسچن دیکھا نہ مسلمان۔ کورونا کو مارنے کے لیے ہندوستان کا سیکیولر ہونا لازمی تھا ، جو ہندوستان مودی کی حکومت میں نہیں ہے۔ اور پھر مودی کے ہندوستان نے اعداد و شمار غائب کرنا شروع کردیے ۔ لوگ مریں کورونا سے اسپتال والے کہیں کہ دل کا مرض لاحق تھا ، اخباروں کو ہراساں کیا گیا، صحافیوں کی پکڑ دھکڑ کی گئی۔
کیا کیا نہ ہوا اس مودی کے ہندوستان میں ۔ بمبئی فلم انڈسٹری تباہ ہوگئی کیونکہ ان کو مودی کا بیانیہ قبول نہ تھا وہ تو گاندھی والے بیانیے پرچلنا چاہتے تھے، جس کے تحت مودی خود ''رانگ نمبر'' تھا ۔ ہندوستان کی سپریم کورٹ ہندوستان میں جس طرح اندرا گاندھی کے وقت میں کیش وندہ کیس کی صورت میں ڈٹ کر کھڑی ہو گئی تھی۔ اس وقت مودی کے دور میں کشمیر میں ظلم و ستم پر خاموش رہی،دلی میں مسلمانوں کو مارا گیا ۔ گجرات میں جب یہ موصوف وزیر اعلیٰ تھے تو کیا ہوا تھا۔
چاہے کتنے ہی اعداد و شمار چھپائے جائیں مگر ہندوستان کے سارے شمشان گھاٹ بول پڑے۔ اسپتال کیا شمشان گھاٹ بھی بھر گئے۔لاشوں کی چتا کو آگ لگانے کے لیے لکڑیاں تو میسر نہ تھیں، ایک گز جگہ بھی کم پڑ گئی۔ قطار در قطار لاشے۔ ہزار سالوں کی تاریخ میںایسا نہ ہوا ۔ شمشان گھاٹ بول پڑے ۔ شمشان گھاٹ یہاں بھٹی کی طرح جلتے رہے۔ وہ ڈرون کیمرے سے کہکشاں کی مانند لگتے تھے۔انسانی لاشوں کو چتا کی نظر کا منظر، مودی کے ہندوستان کی تشریح کا المیہ۔
ایک نظم میں نے لکھی ہے اس شمشان کی شب پر جو مختصرا یہاں رقم کردیتا ہوں :
شمشان گھاٹ کی شب تو دیکھو
ہندوستان پے آئی ماتم کدے کی سیاہ شب
نہ جنگ ہوئی نہ جنگ کے طبل بجے
نہ خون بہا نہ گولی چلی
فقط سانس گھٹی اور پھر دھڑکن رکی
بتائو کے کتنی لاشیں اور اٹھانی ہیں
کتنے بچے اور ابھی یتیم ہونے کو ہیں
کتنی مائوں کی گود ابھی خالی ہونی ہیں
ہمیں بم و بارود نہیں
ہمیں اسپتال اور اسکول چاہیے
آکسیجن اور ویکسین چاہیے
ہندوستان میںاس غم کی شام
میں اپنے بھائی سے سب کچھ
ہار گیا ہوں محبت کے نام
کتنی تیزی سے مناظر بدلتے ہیں۔ کل کامیاب ہوامودی آج ناکام ہوتا ہوا نظر آرہا ہے۔ اس کے پائوں تلے جیسے زمین نکل گئی ہو۔ ہندوستان میں لگ بھگ پانچ کروڑ لوگوں کو کورونا لگ چکا ہے اور مزید پانچ کروڑ لوگوں کو لگنے کا خدشہ ہے۔
سرکاری اعدادو شمار کے مطابق روزانہ تقریبا دوسے تین ہزار لوگ زندگی گنوا رہے ہیں، جب کہ غیر سرکاری اعداد شمار میں یہ اموات پانچ سے سات ہزار روزانہ کے حساب سے ہورہی ہیں۔ گلی گلی صف ماتم ہے۔ اسپتال بھر چکے، آکسیجن ختم ہوچکی، اتنی بدنظمی ہے کہ لوگ اپنے پیاروں کو خود بچا رہے ہیں اورخود اپنی زندگی کے لیے بھی خطرہ مول لے رہے ہیں۔
ہندوستان کے اعدادوشمار کے مطابق اس وقت پوری دنیا میں اتنے کورونا کے مریض نہیں جتنے فقط ہندوستان میں ہیں۔ یہ ہے مذ ہبی جنون میں ڈوبا ہوا مودی اور اس کا ہندوستان۔ ہر تہوار، مذہبی میلوں اور دیگر دنوں کو منانے کی کھلی اجازت تھی،جب کہ جشن بھی منایا جارہا تھا کہ مودی کورونا کو شکست دے چکے ہیں، لاکھوں لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا کنبھ کا میلہ بھی ہوا، لوگوں نے ماسک اتاردیے ۔ کھیلوں کے دوران لوگوں کو اسٹیڈیم میں جانے کی اجازت تھی۔ یہ تھا مودی کا بیانیہ!
ٹرمپ سے ملتا جلتا بیانیہ ۔ جس نے امریکا کو کوروناکی لپیٹ میں دے دیا۔ یہ ٹھیک ہے کہ جوبائیڈن کے زمانے میں امریکا میں کورونا ویکسین آگئی ہے مگر بائیڈن نے ان تین مہینوں میں بہت کچھ تبدیل کردیا ہے اور بہت کچھ ابھی بھی تبدیل کرنا ہے ۔ ہندوستان ویکسین بنانے میں دنیا میں سب سے آگے ہے مگر ہندوستان اسوقت خود جس مشکل میں ہے اس سے بھی یہ دنیا واقف ہے۔
یہ ہے وہ دائیں بازو والا پاپولر ازم، ہٹلر کا نظریہ جس میں باتیں بڑی بڑی کی جاتی ہیں۔ نفرت کو ہوا دی جاتی ہے۔ پچھلے سال ہند وستان میں مسلمانوں کے ساتھ اچھوتوں سے بھی بدتر سلوک کیا گیا، جیسے کہ ہندوستان کے تمام مسلمانوں کو کورونا لگ گیا ہو اور ان سے دور رہا جائے ورنہ کورونا لگ جائے گا۔ مگر اب حالات وہ ہیں کہ کورونا ہندوستان میں بے قابو ہو چکا ہے۔اب تو کہتے ہیں کوئی معجزہ ہی ہوگا کہ اگر کم از کم دو تہائی آبادی کو یہ مرض نہ لگے۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ دلی میں اس وقت تین افراد میں ایک فرد اوسطاً ایسا ہے جس کو کورونا لاحق ہے۔
پچھلے سال پاکستان میںکورونا کاپھیلائو، دو بڑے ذرایع سے ہوا ۔ ایک رائیونڈ کا اجتماع اور دوسرے ایران ، تافتان سے لوٹنے والے زائرین۔ سندھ حکومت کورونا کی روک تھام میں سب سے آگے تھی۔ سندھ حکومت دائیں بازو کی پاپولسٹ سیاست کرنے والی پارٹی نہیں تھی۔ سندھ میں لاکھ بری حکمرانی سہی مگر ان کو بیانیہ بنانا آتا تھا، ان کو حکمت عملی جوڑنا آتی تھی۔ آج پاکستان میں کورونا بہت تیزی سے پھیل رہا ہے مگر سندھ میں اس کی تیزی قدرے کم ہے ، ہاں مگر ہمیں کسی خوش فہمی میں بھی نہیں رہنا چاہیے۔
پاکستان اور ہندوستان ہم دونوں ہی ایک دوسرے کا عکس ہے ۔ 1947 کی چودہ اور پندرہ اگست کی درمیانی شب میں ہم دونوں کا جنم ہوا۔ ہم صدیوں سے ایک تھے ، حملہ آوروں کی زد میں رہتے تھے ۔ یہاں کے مقامی لوگوں کا استحصال کیا گیا۔ اکبر اعظم سے پہلے جو حکمراں یہاں آئے ،اپنی بنیادیں مضبوط نہ کرسکے، اکبر اعظم یہاں کے لوگوں اور ثقافت میں تحلیل ہو گیا، وہ سندھ کے شہر عمرکوٹ میں پیدا ہوا تھا،جب اس کے والد ہمایوں کو دہلی سے بھاگنا پڑا تھا۔ اکبر کی بادشاہت پچاس سال تک قائم رہی۔ اس نے مغلیہ سلطنت کی ایسی بنیاد ڈالی کہ آگے صدیوں تک قائم رہی ۔ جب بادشاہ اورنگ زیب نے مذہبی جنونیت کا پتہ کھیلا او ر اقتدار پر قبضہ جمانے کے لیے اپنے والد شاہ جہاں کو بھی قیدوبند میں رکھا۔
ہندوستان کو اورنگزیب کمزور کر چلا اور پھر اس کا فائد ہ انگریزوںیا یوں کہیے ایسٹ انڈیا کمپنی نے اٹھایا۔ انگریزوں نے بھی اپنے اقتدار کو مضبوط کرنے کے لیے نفرتوں کا بیوپار کرنا تھا۔ کئی مذہبی فرقے تھے جو اس زمانے میں بنے۔ ہندوستان کے لوگ اگر یکجا ہو جاتے تو انگریز سامراج کے لیے اپنا اقتدار برقرار رکھنا مشکل ہوجاتا۔ لہذا انھوں نے بھی ''لڑائو اور حکومت کرو'' کی پالیسی کو اپنایا، جس کی بنیادیں پاکستان میں جنرل ضیاء الحق نے ڈالیں۔
نفرتوں میں بٹے برصغیر کا بٹوارہ ہوگیا، مگر بات یہاں نہیںٹھہری ۔ گاندھی کو پاکستان کی وکالت کرنے پر ایک ہندو انتہا پرست نے گولیاں مار دیں۔ ہندوستان کا باپو آخری باری شمشان گھاٹ پہ ایک چتا کی صورت میں پایا گیا ، میں نے وہ منظر کسی فلم میں دیکھے تھے ۔ یہ منظر میں نے تب بھی دیکھا تھا جب اندرا گاندھی کو اس کے سکھ باڈی گارڈوں نے شانتی بھون کے اندر مارا تھا ۔ اس کی چتا کو جب شمشان گھاٹ میں آگ لگائی گئی تو اس کا بیٹا راجیو وہاں تھا۔ تمام دنیا کے سربراہ ان کے انتم سنسکار میںشریک ہوئے تھے ،ہمارے جنرل ضیاء الحق بھی گئے ۔ جنرل ضیاء الحق وہاں روس کے صدر آندرروپوف کے برابر میں کھڑے تھے۔ اس وقت سویت یونین کی فوجیں افغانستان میں تھیں اور ہم پاکستان سے امریکا کی جنگ جہادکے نام پر لڑ رہے تھے۔
جب اندرا کے بیٹے سنجے گاندھی کا انتقال ہوا تھا تو اس کی چتا کو آگ راجیو گاندھی نے لگائی تھی ، ماں ساتھ کھڑی ہوئی تھی اور جب راجیو گاندھی کا قتل ہوا تو اس کی چتا کو آگ بھی شمشان گھاٹ میں لگی، یہ تینوں مارے گئے،جس طرح یہاں بھٹوز مارے گئے۔ ہاں مگر ماتم کدہ جو اب ہے، وہ دل کو جھنجوڑ دیتا ہے۔ کورونا نے ہندوستان میں ہندو دیکھا نہ سکھ،نہ کرسچن دیکھا نہ مسلمان۔ کورونا کو مارنے کے لیے ہندوستان کا سیکیولر ہونا لازمی تھا ، جو ہندوستان مودی کی حکومت میں نہیں ہے۔ اور پھر مودی کے ہندوستان نے اعداد و شمار غائب کرنا شروع کردیے ۔ لوگ مریں کورونا سے اسپتال والے کہیں کہ دل کا مرض لاحق تھا ، اخباروں کو ہراساں کیا گیا، صحافیوں کی پکڑ دھکڑ کی گئی۔
کیا کیا نہ ہوا اس مودی کے ہندوستان میں ۔ بمبئی فلم انڈسٹری تباہ ہوگئی کیونکہ ان کو مودی کا بیانیہ قبول نہ تھا وہ تو گاندھی والے بیانیے پرچلنا چاہتے تھے، جس کے تحت مودی خود ''رانگ نمبر'' تھا ۔ ہندوستان کی سپریم کورٹ ہندوستان میں جس طرح اندرا گاندھی کے وقت میں کیش وندہ کیس کی صورت میں ڈٹ کر کھڑی ہو گئی تھی۔ اس وقت مودی کے دور میں کشمیر میں ظلم و ستم پر خاموش رہی،دلی میں مسلمانوں کو مارا گیا ۔ گجرات میں جب یہ موصوف وزیر اعلیٰ تھے تو کیا ہوا تھا۔
چاہے کتنے ہی اعداد و شمار چھپائے جائیں مگر ہندوستان کے سارے شمشان گھاٹ بول پڑے۔ اسپتال کیا شمشان گھاٹ بھی بھر گئے۔لاشوں کی چتا کو آگ لگانے کے لیے لکڑیاں تو میسر نہ تھیں، ایک گز جگہ بھی کم پڑ گئی۔ قطار در قطار لاشے۔ ہزار سالوں کی تاریخ میںایسا نہ ہوا ۔ شمشان گھاٹ بول پڑے ۔ شمشان گھاٹ یہاں بھٹی کی طرح جلتے رہے۔ وہ ڈرون کیمرے سے کہکشاں کی مانند لگتے تھے۔انسانی لاشوں کو چتا کی نظر کا منظر، مودی کے ہندوستان کی تشریح کا المیہ۔
ایک نظم میں نے لکھی ہے اس شمشان کی شب پر جو مختصرا یہاں رقم کردیتا ہوں :
شمشان گھاٹ کی شب تو دیکھو
ہندوستان پے آئی ماتم کدے کی سیاہ شب
نہ جنگ ہوئی نہ جنگ کے طبل بجے
نہ خون بہا نہ گولی چلی
فقط سانس گھٹی اور پھر دھڑکن رکی
بتائو کے کتنی لاشیں اور اٹھانی ہیں
کتنے بچے اور ابھی یتیم ہونے کو ہیں
کتنی مائوں کی گود ابھی خالی ہونی ہیں
ہمیں بم و بارود نہیں
ہمیں اسپتال اور اسکول چاہیے
آکسیجن اور ویکسین چاہیے
ہندوستان میںاس غم کی شام
میں اپنے بھائی سے سب کچھ
ہار گیا ہوں محبت کے نام