اکڑ اور رب کی پکڑ
شرافت اور نجابت کوئی اپنی ماں کے پیٹ سے لے کر نہیں آتا…بلکہ سب ایک سے ہوتے ہیں
ایک بادشاہ کسی فقیر کی خدمت میں ''شاہی کھانا'' لے کر حاضر ہوا...اورفقیر سے کھانے کی درخواست کی...فقیر نے ایک آئینہ منگوایا اورشاہی مرغن کھانے میں سے ایک لقمہ لے کر اس پہ مَل دیا...پورا آئینہ ''دھندلا''پڑگیا...پھر اْس نے ''دھندلے آئینے ''پر اپنی جو کی ''خشک روٹی'' مَل دی تو آئینہ''شفاف'' ہوگیا... فقیر نے اس عمل کے بعد بادشاہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ ''آپ کے کھانے آئینہ دل کو سیاہ کرتے ہیں لیکن نانِ جویں اِسے جِلا دیتی ہے...لہذا مجھے اس سے معاف کیاجائے''...
بادشاہ فقیر کی بات سن کر ایک لحظہ رکا اور پھر یوں گویا ہوا''میرے لائق کوئی کارِ خدمت ہو تو فرمائیے''...فقیر نے بادشاہ پر ایک اچٹتی سی نظر ڈالتے ہوئے کہا کہ ''مکھیاں اور مچھر مجھے بہت دق کرتے ہیں۔ان کو حکم دیجیے کہ مجھے ستایا نہ کریں''... بادشاہ نے لاچارانہ کہاکہ ''میرے حکم سے تو یہ منع نہیں ہوسکتے ''...جس پر فقیر نے فوراً ہی جواب دیاکہ ''اے بادشاہ! جب ایسے حقیر ترین جانور بھی آپ کی اطاعت سے منحرف ہیں... اور آپ کو ان کے دفیعے پر قدرت نہیں تو پھر میں اور کس چیز کے لیے آپ سے امداد طلب کروں''...بادشاہ لاجواب ہوکرمایوس چلاگیا...یعنی معلوم یہ ہوا کہ جاہ و حشمت اور حق حکم رانی کے باوجود انسان سے بڑا ''بے بس'' اس کائنات میں کوئی نہیں... ہر روز ہر انسان کی موت خدا کی قدرت کی گواہی ہے ... امریکا ''سپر پاور''ہی سہی...پوری دنیا میں ''سب سے بڑا'' سہی...مگر کیا وہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی تباہی روک سکا؟ کیا موت کے منڈلاتے سائے امریکیوں سے دور ہوسکے...؟نہیں! کاش کہ لوگ اپنی برائی کے بجائے برائی کے ''نتائج بد'' سے بچنا سیکھیں...کاش! کہ ہم اپنے استقبال کے خواہاں ہونے کے بجائے...موت کے استقبال کے لیے تیار رہاکریں...
شرافت اور نجابت کوئی اپنی ماں کے پیٹ سے لے کر نہیں آتا...بلکہ سب ایک سے ہوتے ہیں...لیکن جو اپنے اخلاق و عادات اور دل و دماغ کی حالت کو اچھا کرلیتا ہے ...وہی اصلی شریف و نجیب ہوجاتا ہے ...اور جو خراب کرلیتا ہے وہ رذیل کہلاتا ہے ...یاد رکھو! کہ دلی سکون خواہشات کے پورا ہونے میں نہیں بلکہ خواہشات کے روکنے میں ہے...خوش خلقی کا اجر صرف قیامت ہی کے لیے مخصوص نہیںبلکہ دنیا میں بھی انسان کے لیے ذریعۂ راحت ہے ...اور یہی وہ ارادہ اور شعور ہے جو ''بے بس انسان'' کو بخشش کی منزل تک پہنچا دیتا ہے ...اس لیے کہ دکھ خود بخود پیدا نہیں ہوجاتا یہ عموماً''گناہ کی پیداوار'' ہے...تم گناہ چھوڑدو...دکھ خود بخود دور ہوجائے گا...کیونکہ گناہ اس لیے نقصان دہ نہیں ہے کہ اس کی ممانعت کردی گئی ہے بلکہ ممانعت ہی اس لیے کی گئی ہے کہ یہ نقصان دہ ہے ...اور یہی شعور ہم سب انسانوں کی سانسوں کا حاصل ہے ...
اْن سانسوں کا جورب العزت کی جانب سے ہمیں بخشی گئیں ...نیکی کے ساتھ زندہ رہنے کے لیے ...نہ کہ روزِحشرگناہوں کے بوجھ تلے شرمندہ رہنے کے لیے...بس پروردگار کی قدرت چاہتے ہوتو''فقیر''بن جاؤ...اپنی بے بسی پر ''بے بسی کا اظہار''نہ کرو...نازاں ہو اور فخر کروکہ صرف تمہارا خالق ہی بااختیارہے اور تم سب بے اختیار...اور اپنی اِسی بے اختیاری کو محسوس کرتے ہوئے ظلم سے دور رہو... اگر تمہارے وجود سے ''صاحبِ اختیار'' کا لاحقہ جڑ ہی گیاہے توجان لو کہ تم سے کہیں بڑا''صاحبِ اختیار'' چاہے تولمحے کے ہزارویں حصے میںتمہاری جان جس پر تم اکڑتے ہوتمہاری نہ رہے ...جس ماٹی سے تمہیں بنایا گیا ہے جب تم اپنی مٹھی میں اسے تھام کر نہیں رکھ سکتے تو یہ جان تو بہت ہی کم تر ہے ...جس طرح ریت تمہاری مٹھی سے نکلتی جاتی ہے۔
اْسی طرح روح بھی وجودِ انسانی سے ہمیشہ کے لیے منسلک نہیں رہتی اور اس کا حکم ملتے ہی تمہیں اس طرح چھوڑجاتی ہے کہ جیسے تم میںاس کا کبھی بسیرا ہی نہ تھا...لیکن تم سب خودفریبی میں مبتلا انجام کی تکلیف سے بے خبر '' اختیارات کی لگام'' اس طرح تھامے رہتے ہو کہ جیسے تمہیں مرنا ہی نہیں ہے ...جب جس کا بس چلتا ہے وہ طاقت کے بَل پر اسیری اور رہائی کے پروانے تمکنت اور تکبر کے رگ و ریشے میں بندھ کر یوں جاری کرتا ہے کہ جیسے یہ اس کا پیدائشی حق ہو... اختیارات کے مالک شاید یہ سمجھ بیٹھے ہیںکہ ان کی زشت خوئی ان کی خوبیوں میں شمارہوتی ہے...لیکن وہ نہیں جانتے کہ اْن کے عالیشان محلات کی زمین کوچومتے حریری پردے بھی ان کے مزاج کی بے حیائی کو چھپانے سے قاصر ہیں...نہ جانے طاقت کی کنجی ملتے ہی ہم بے قابو کیوں ہوجاتے ہیں...نہ جانے گھوڑے کی پشت پہ سوار سب صاحبِ اقتدار ''ہلاکو''کیوں بن جاتے ہیں؟... کیا کسی کو روزِ حساب کا احساس نہیں...کیا کسی کو ''خدا کے نائب'' ہونے کا پاس نہیں...لوہے کو کوئی خراب نہیں کرتا لوہا خود اپنے زنگ سے خراب ہوتاہے، تم خود اپنے آپ کو پڑھنا سیکھو، کتاب ہستی کا ایک ورق موڑ کر روز ابھرا سیکھو ، محبت کی رعایت تو صرف آپ کے لیے تھی آپ نے تو ہمیں سستا ہی سمجھ لیا بس اتنا جان رکھیے گا کہ جب کھونے کی عادت ہوجائے پھر چیزوں کے کھونے، یادوں کے مٹ جانے اور لوگوں کے چلے جانے سے زیادہ تکلیف نہیں ہوتی ۔!
بادشاہ فقیر کی بات سن کر ایک لحظہ رکا اور پھر یوں گویا ہوا''میرے لائق کوئی کارِ خدمت ہو تو فرمائیے''...فقیر نے بادشاہ پر ایک اچٹتی سی نظر ڈالتے ہوئے کہا کہ ''مکھیاں اور مچھر مجھے بہت دق کرتے ہیں۔ان کو حکم دیجیے کہ مجھے ستایا نہ کریں''... بادشاہ نے لاچارانہ کہاکہ ''میرے حکم سے تو یہ منع نہیں ہوسکتے ''...جس پر فقیر نے فوراً ہی جواب دیاکہ ''اے بادشاہ! جب ایسے حقیر ترین جانور بھی آپ کی اطاعت سے منحرف ہیں... اور آپ کو ان کے دفیعے پر قدرت نہیں تو پھر میں اور کس چیز کے لیے آپ سے امداد طلب کروں''...بادشاہ لاجواب ہوکرمایوس چلاگیا...یعنی معلوم یہ ہوا کہ جاہ و حشمت اور حق حکم رانی کے باوجود انسان سے بڑا ''بے بس'' اس کائنات میں کوئی نہیں... ہر روز ہر انسان کی موت خدا کی قدرت کی گواہی ہے ... امریکا ''سپر پاور''ہی سہی...پوری دنیا میں ''سب سے بڑا'' سہی...مگر کیا وہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی تباہی روک سکا؟ کیا موت کے منڈلاتے سائے امریکیوں سے دور ہوسکے...؟نہیں! کاش کہ لوگ اپنی برائی کے بجائے برائی کے ''نتائج بد'' سے بچنا سیکھیں...کاش! کہ ہم اپنے استقبال کے خواہاں ہونے کے بجائے...موت کے استقبال کے لیے تیار رہاکریں...
شرافت اور نجابت کوئی اپنی ماں کے پیٹ سے لے کر نہیں آتا...بلکہ سب ایک سے ہوتے ہیں...لیکن جو اپنے اخلاق و عادات اور دل و دماغ کی حالت کو اچھا کرلیتا ہے ...وہی اصلی شریف و نجیب ہوجاتا ہے ...اور جو خراب کرلیتا ہے وہ رذیل کہلاتا ہے ...یاد رکھو! کہ دلی سکون خواہشات کے پورا ہونے میں نہیں بلکہ خواہشات کے روکنے میں ہے...خوش خلقی کا اجر صرف قیامت ہی کے لیے مخصوص نہیںبلکہ دنیا میں بھی انسان کے لیے ذریعۂ راحت ہے ...اور یہی وہ ارادہ اور شعور ہے جو ''بے بس انسان'' کو بخشش کی منزل تک پہنچا دیتا ہے ...اس لیے کہ دکھ خود بخود پیدا نہیں ہوجاتا یہ عموماً''گناہ کی پیداوار'' ہے...تم گناہ چھوڑدو...دکھ خود بخود دور ہوجائے گا...کیونکہ گناہ اس لیے نقصان دہ نہیں ہے کہ اس کی ممانعت کردی گئی ہے بلکہ ممانعت ہی اس لیے کی گئی ہے کہ یہ نقصان دہ ہے ...اور یہی شعور ہم سب انسانوں کی سانسوں کا حاصل ہے ...
اْن سانسوں کا جورب العزت کی جانب سے ہمیں بخشی گئیں ...نیکی کے ساتھ زندہ رہنے کے لیے ...نہ کہ روزِحشرگناہوں کے بوجھ تلے شرمندہ رہنے کے لیے...بس پروردگار کی قدرت چاہتے ہوتو''فقیر''بن جاؤ...اپنی بے بسی پر ''بے بسی کا اظہار''نہ کرو...نازاں ہو اور فخر کروکہ صرف تمہارا خالق ہی بااختیارہے اور تم سب بے اختیار...اور اپنی اِسی بے اختیاری کو محسوس کرتے ہوئے ظلم سے دور رہو... اگر تمہارے وجود سے ''صاحبِ اختیار'' کا لاحقہ جڑ ہی گیاہے توجان لو کہ تم سے کہیں بڑا''صاحبِ اختیار'' چاہے تولمحے کے ہزارویں حصے میںتمہاری جان جس پر تم اکڑتے ہوتمہاری نہ رہے ...جس ماٹی سے تمہیں بنایا گیا ہے جب تم اپنی مٹھی میں اسے تھام کر نہیں رکھ سکتے تو یہ جان تو بہت ہی کم تر ہے ...جس طرح ریت تمہاری مٹھی سے نکلتی جاتی ہے۔
اْسی طرح روح بھی وجودِ انسانی سے ہمیشہ کے لیے منسلک نہیں رہتی اور اس کا حکم ملتے ہی تمہیں اس طرح چھوڑجاتی ہے کہ جیسے تم میںاس کا کبھی بسیرا ہی نہ تھا...لیکن تم سب خودفریبی میں مبتلا انجام کی تکلیف سے بے خبر '' اختیارات کی لگام'' اس طرح تھامے رہتے ہو کہ جیسے تمہیں مرنا ہی نہیں ہے ...جب جس کا بس چلتا ہے وہ طاقت کے بَل پر اسیری اور رہائی کے پروانے تمکنت اور تکبر کے رگ و ریشے میں بندھ کر یوں جاری کرتا ہے کہ جیسے یہ اس کا پیدائشی حق ہو... اختیارات کے مالک شاید یہ سمجھ بیٹھے ہیںکہ ان کی زشت خوئی ان کی خوبیوں میں شمارہوتی ہے...لیکن وہ نہیں جانتے کہ اْن کے عالیشان محلات کی زمین کوچومتے حریری پردے بھی ان کے مزاج کی بے حیائی کو چھپانے سے قاصر ہیں...نہ جانے طاقت کی کنجی ملتے ہی ہم بے قابو کیوں ہوجاتے ہیں...نہ جانے گھوڑے کی پشت پہ سوار سب صاحبِ اقتدار ''ہلاکو''کیوں بن جاتے ہیں؟... کیا کسی کو روزِ حساب کا احساس نہیں...کیا کسی کو ''خدا کے نائب'' ہونے کا پاس نہیں...لوہے کو کوئی خراب نہیں کرتا لوہا خود اپنے زنگ سے خراب ہوتاہے، تم خود اپنے آپ کو پڑھنا سیکھو، کتاب ہستی کا ایک ورق موڑ کر روز ابھرا سیکھو ، محبت کی رعایت تو صرف آپ کے لیے تھی آپ نے تو ہمیں سستا ہی سمجھ لیا بس اتنا جان رکھیے گا کہ جب کھونے کی عادت ہوجائے پھر چیزوں کے کھونے، یادوں کے مٹ جانے اور لوگوں کے چلے جانے سے زیادہ تکلیف نہیں ہوتی ۔!