مزدور کی خوشحالی کے بغیر ملک ترقی نہیں کرسکتا

شرکاء کا ’’عالمی یوم مزدور‘‘ کے حوالے سے منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہار خیال

شرکاء کا ’’عالمی یوم مزدور‘‘ کے حوالے سے منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہار خیال

مزدوروں کے عالمی دن کے موقع پر ''ایکسپریس فورم'' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا جس میں حکومت ، سول سوسائٹی اور مزدروں کے نمائندوں کو مدعو کیا گیا۔ فورم کی رپورٹ نذر قارئین ہے۔

ضیغم عباس
(ڈائریکٹر لیبر ڈیپارٹمنٹ پنجاب)

2018ء میں آخری لیبر پالیسی بنائی گئی جو آئین پاکستان اور آئی ایل او کنونشز کی روشنی میں ترتیب دی گئی جس میں مزدوروں کو تنظیم سازی کا حق، کام کی جگہ پر تحفظ، سماجی تحفظ، بہبود اورمناسب اجرت سمیت دیگر حقوق کو شامل کیا گیا۔ اس پالیسی میں لیبر انسپکشن اور سوشل سکیورٹی کے نظام کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے اور چائلڈ و بانڈڈ لیبر کے خاتمے پر بھی خصوصی توجہ دی گئی ہے۔

ہم لیبر پالیسی کی روشنی میں لیبر مارکیٹ انفارمیشن سسٹم بھی بنا رہے ہیں جس سے مزدوروں کوفلاح و بہبود، روزگار و دیگر حوالے سے فائدہ ہوگا۔''ایز آف ڈوئنگ بزنس'' کے ذریعے روزگار کے زیادہ مواقع فراہم کرنے کیلئے مزید ترامیم لائی گئیں جن سے پاکستان کی عالمی رینکنگ میں28 درجے بہتری آئی۔

حکومت پنجاب نے لیبر پالیسی کے بعد موثر قانون سازی کی جس میں پانچ قوانین انتہائی اہم ہیں۔ 2019ء میںپنجاب آکوپیشنل سیفٹی ایکٹ لایا گیا تاکہ کام کی جگہ پر مزدور کی صحت کا تحفظ یقینی بنایا جاسکے۔ یہ ایکٹ کورونا کی وباء کے دوران مزید اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ اسی طرح پنجاب ڈومیسٹک ورکرز ایکٹ 2019ء حکومت کا بہت اہم اقدام ہے، اس میں انتہائی پسماندہ طبقہ جو گھروں میں کام کرتا ہے اور جس کا کوئی پرسان حال نہیں، اسے مزدور کا درجہ دیا گیا ۔ اس ایکٹ کے رولز آف بزنس بننے میں کچھ تاخیر آئی ہے کیونکہ اس میں کثیرالجہتی قسم کا کام ہے، ڈسپیوٹ ریزولوشن بھی شامل ہے لہٰذا لوکل باڈیز کے نظام کے بعد یہ موثر ہوجائے گا۔

مزدوروں کے حوالے سے قوانین کو آسان بنانے کیلئے ایک جیسے قوانین کو اکٹھا کیا جارہا ہے۔ مزدور کی کم از کم اجرت کے چار قوانین تھے جنہیں 2019ء میں یکجا کر دیا گیا۔ 18 ویں ترمیم کے بعد ورکرز ویلفیئر فنڈ کے حوالے سے مسائل آرہے تھے، وفاق سے صوبے کو گرانٹ میں تاخیر ہوتی تھی، اس مسئلے کے حل کیلئے پنجاب ورکرز ویلفیئر فنڈ 2019ء منظور ہوچکا ہے،سوشل سکیورٹی ، ہیلتھ انشورنس کے حوالے سے ترامیم لائی گئی، اسی طرح ورکرز پرافٹ پارٹی سپیشن ایکٹ 2019ء کا بل اسمبلی میں موجود ہے، اس کی منظوری کے بعد ورکرز کا یہ فنڈ بھی پنجاب کو منتقل ہوجائے گا جس سے یقینا مزدوروں کی حالت بہتر کرنے میں مدد ملے گی۔ پنجاب حکومت ہوم بیسڈ ورکرز کے حوالے سے بھی اقدامات کر رہی ہے، ہوم بیسڈ ورکرز ایکٹ کا بل کابینہ سے منظور ہوچکا ہے۔

اس قانون کے ذریعے غیر رسمی شعبے میں کام کرنے والے افراد کو تحفظ ملے گا۔ورکرز ویلفیئر بورڈ ،پنجاب کا پہلا ڈیپارٹمنٹ ہے جسے مکمل طور پر ڈیجیٹلائز کردیا گیا ہے، اب ہر چیز کا مکمل ٹریک ریکارڈ موجود ہے، ہم صوبائی وزیرانصر مجید خان کے ویژن کے مطابق آئی ٹی کے ذریعے اپنے ادارے میں شفافیت کو یقینی بنا رہے ہیں۔

مزدور کا وقار سب سے اہم ہے اور ہم اس حوالے سے بھی اقدامات کر رہے ہیں۔ مزدوروں کو سہولیات دینے اور ان کی حالت بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ ایسے اقدامات بھی کر رہے ہیں جن سے وہ خود کو باوقار محسوس کریں، حکومت انہیں سوشل سکیورٹی کارڈ کے ذریعے مختلف برانڈز پر خصوصی ڈسکاؤنٹ دینے جا رہی ہے، جس کے بعد وہ اپنی پسند کے برانڈز سے شاپنگ کرسکیں گے۔ چائلڈ لیبر بھی ایک بڑا مسئلہ ہے جس کے خاتمے کیلئے کام کیا جارہا ہے۔

اب 15 برس سے کم عمر بچے کو گھریلو ملازم نہیں رکھا جاسکتا، خلاف ورزی کرنے پر جرمانہ اورقید کی سزا رکھی گئی ہے۔ میرے نزدیک قوانین پر عملدرآمد کے ساتھ ساتھ لوگوں کو آگاہی دینا اور ان میں احساس پیدا کرنا ضروری ہے تاکہ وہ خود ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے معاشرے کا کارآمد شہری بنیں اور کسی کے مستقبل کے ساتھ نہ کھیلیں۔ لیبر ڈیپارٹمنٹ کے حوالے سے لیبر انسپکٹر کا بہت خوف ہوتا تھا ،اب ہم انسپکشن فری رجیم کی طرف جا رہے ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ انسپکٹر کا خوف ختم کیا جائے اور وہ سہولت کار کا کردار ادا کرے اور مزدوروں کے حقوق و تحفظ کیلئے فیکٹری مالکان کو گائیڈ کرے لیکن اگر پھر بھی خلاف ورزی ہوتی ہے تو قانون کے مطابق کارروائی کی جائے۔ مزدور کی اجرت کے حوالے سے پنجاب حکومت نے بڑا فیصلہ کیا ہے۔

مزدور کی کم از کم اجرت میں 2 ہزار روپے ماہانہ اضافہ کر دیا ہے، اب مزدور کی کم از کم اجرت 19500 روپے ہوگی، اس اضافے کا اطلاق رواں سال یکم جولائی سے ہوگا۔ اس حوالے سے سٹیک ہولڈرز کو ایک ماہ میں اپنی تجاویز اور اعتراضات سے آگاہ کرنے کیلئے کہہ دیا گیا ہے۔ کم از کم اجرت میں اضافہ مزدوروں کی خوشحالی کیلئے موجودہ حکومت کا عملی قدم ہے۔

خورشید احمد

(سیکرٹری جنرل آل پاکستان ورکرز کنفیڈریشن )


رواں سال جب ہم یوم مزدور منا رہے ہیں تو دنیا سمیت پاکستان کو بے شمارچیلنجز درپیش ہیں جن میں سب سے بڑا مسئلہ کورونا ہے جس کے باعث صنعت بند ہوئی اور لاکھوں مزدور بے روزگار ہوئے۔ مزدور تو پہلے ہی پسہ ہوا طبقہ ہے، اس کے مسائل میں مزید اضافہ ہوگیاہے۔

ہمیں ایک ایسا معاشرہ ترتیب دینا ہے جس میں امیر اور غریب کا فرق ختم ہو ،مزدور کا احترام ہو اور اسے بھی جینے کا پورا حق دیا جائے۔ گزشتہ دو برسوں میں مہنگائی 100 گنا بڑھ گئی ہے ، غریب پس رہا ہے مگر اس طرف کسی کی توجہ نہیں ہے، میرے نزدیک مزدور کی کم از کم اجرت اتنی مقرر کی جائے جس میں اس کی زندگی کا با آسانی گزر ہوسکے۔

وطن عزیز میں مزدوروں کے حوالے سے بہت ساری قانون سازی ہوئی ہے، اس وقت لیبر کے 72 قوانین موجود ہیں مگر ان پر عملدرآمد کا فقدان ہے اور اس حوالے سے حکومت کے پاس کوئی میکنزم نہیں ہے۔ یہ کام لیبر انسپکٹر کے ذمے ہے مگر اس وقت صرف ایک ہزار لیبر انسپکٹر ہیں لہٰذا وہ کس طرح اتنے بڑے پیمانے پر قوانین پر عملدرآمد یقینی بنائیں گے؟ مزدور کو صرف تنخواہ ہی کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ کام کے اوقات ، سازگار ، محفوظ اور صحتمند ماحول و دیگر اہم معاملات اس کا حق ہیں جو یقینی بنانا ریاست کی ذمہ داری ہے۔

افسوس ہے کہ دنیا بھر میں کوئلے کی کان میں سب سے زیادہ حادثے پاکستان میں ہوتے ہیں جبکہ ٹریفک حادثوں میں ہمارا آٹھواں نمبر ہے، بجلی، کنسٹرکشن و دیگر شعبوں کی حالت بھی زیادہ بہتر نہیں ہے لہٰذا مزدوروں کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔ تنظیم سازی مزدور کا بنیادی حق ہے مگر ارباب اختیار اور فیکٹری مالکان اسے اپنے خلاف سمجھتے ہیں لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ مزدوروں کی آواز یقینی بنائے۔ILO کے سیکشن 144 کے تحت ہر سال قومی لیبر کانفرنس بلانا حکومت کی ذمہ داری ہے تاکہ مزدوروں کو ان کی آواز دی جائے مگر افسوس ہے کہ یہاں گزشتہ 11 برس سے کوئی کانفرنس نہیں بلائی گئی۔ مزدوروں کے مسائل حل کرنے کیلئے حکومت کو چاہیے کہ جلد قومی لیبر کانفرنس کا انعقاد کرے۔

ورکرز ویلفیئر فنڈ میں مزدوروں کاایک کھرب روپے سے زائدموجود ہے مگر وفاق اور صوبے میں جھگڑے کی وجہ سے یہ مزدوروں کی فلاح کے لیے استعمال نہیں ہورہا، اسے فوری بحال کیا جائے۔ خواتین مزدوروں کے مسائل حل کیے جائیں، انہیں مساوی معاوضہ دیا جائے، ملک کی نصف آبادی کی ترقی کے بغیر ملک ترقی نہیں کرسکتا لہٰذا ان کی ٹریڈ یونینز میں بھی نمائندگی یقینی بنائی جائے۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے دباؤ کی وجہ سے اداروں کی نجکاری نہ کی جائے، منافع بخش اداروں کی نجکاری بڑا سوالیہ نشان ہے۔ حکومت سے مطالبہ ہے کہ مزدوروں کے آئینی و بین الاقوامی حقوق کیلئے موجود قوانین کی پاسداری کرے۔

بشریٰ خالق

(نمائندہ سول سوسائٹی )

دنیا بھر کی ریاستیں مزدوروں کے حقوق تو تسلیم کرچکی ہیں مگر سرمایہ دارانہ معاشی نظام میں مزدور نظر انداز ہورہا ہے، اس کی حق تلفی ہوتی ہے اور خوشحالی کے اثرات اس تک نہیں پہنچتے۔ دنیا کو یہ سمجھنا چاہیے کہ مزدور کی خوشحالی کے بغیر ملک خوشحال نہیں ہوسکتا ۔ ہر سال مزدور جن میں مرد و خواتین دونوں شامل ہیں، یوم مزدور پر نہ صرف اپنے ہیروز کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں بلکہ اپنی ریاست سے اپنے حقوق کا مطالبہ بھی کرتے ہیں۔

خواتین کے حوالے سے بات کی جائے تو تعلیم اور صحت کے شعبوں میں خواتین کی بڑی تعداد کام کر رہی ہے، گلوبلائزیشن کے اس دور میں اب خواتین ایسے شعبوں میں بھی کام کر رہی ہیں جہاں پہلے کبھی تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ ایک رپورٹ کے مطابق 25 فیصد خواتین نے نئے شعبوں کو اختیار کیا ہے، گزشتہ 5 سے 7 برسوں میں خواتین کا کاروبار کی طرف رجحان پیدا ہوا ہے، اب وہ خود بڑے عہدوں پر کام کرکے دوسری خواتین کی حوصلہ افزائی کر رہی ہیں مگر اس کے باوجود خواتین کو بے شمار مسائل کا سامنا ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا ریاستی ادارے اور انتظامیہ اس حوالے سے تیار ہے کہ وہ تمام شعبوں میں خواتین کے مسائل حل کرسکیں۔ مردوں کے مقابلے میں خواتین کو کم معاوضہ ملتا ہے، خواتین صرف 16.3 فیصد کماتی ہیں جو واضح کرتا ہے کہ خواتین کا کس قدر معاشی استحصال ہورہا ہے۔ 2010ء میں کام کی جگہ پر ہراساں کیے جانے کے حوالے سے قانون سازی ہوئی، اس کے تحت سرکاری و نجی اداروں کو پابند کیا گیا کہ وہ ہراسمنٹ کمیٹیاں بنائیں اور اپنے سٹاف کو تربیت دیں مگر اس پر موثر کام نہیں ہوا اور بے شمار خواتین ہراسانی کے باعث ملامت چھوڑنے پر مجبور ہوگئیں۔

فیکٹریوں اور دیگر مختلف اداروں میں خواتین کو مخصوص شعبوں تک محدود کردیا جاتا ہے، اس کے علاوہ ان کے لیے علیحدہ ٹائلٹ بھی نہیں ہیں، ڈے کیئر سینٹر کے مسائل بھی موجود ہیں، بیشتر جگہ یہ سینٹرز ہی نہیں ہیں لہٰذا ان مسائل پر توجہ دی جائے۔ خواتین کا سب سے بڑا مسئلہ ٹرانسپورٹ کا ہے، خصوصاََ رات کے اوقات میں وہ کام نہیں کرسکتی، اس حوالے سے ڈاکٹرز اور نرسز کو بھی مسائل درپیش ہیں لہٰذا خواتین کیلئے محفوظ ٹرانسپورٹ کا انتظام کیا جائے۔

غیر رسمی شعبے میں کام کرنے والی خواتین کا استحصال ہورہا ہے، شعبہ زراعت خواتین کے بغیر نہیں چل سکتا مگر انہیں ان کا جائز معاوضہ نہیں ملتا، ڈومیسٹک ورکز کے حوالے سے پنجاب2019ء میں قانون منظور کیا گیا جس پر اسمبلی اور لیبر ڈیپارٹمنٹ مبارکباد کے مستحق ہیں مگر بدقسمتی سے تاحال اس کے رولز آف بزنس نہیں بن سکے، اس قانون میں مزدوروں کے تحفظ کے ساتھ ساتھ 15 برس سے کم عمر ملازم رکھنے پر جرمانہ و قید کی سزا ہے، چائلڈ لیبر کے خاتمے کیلئے تیزی سے کام کرنا ہوگا۔

جنوری 2019ء سے مارچ 2021ء تک 18 اور 15 برس سے کم عمر 71 بچوں کے خلاف جنسی تشدد، زیادتی، قتل و دیگر کیس رپورٹ ہوئے جو افسوسناک ہے۔ کورونا کی وجہ سے ڈومیسٹک ورکرز سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں، ان میں 90 فیصد خواتین اور بچیاں ہیں جو شدید مشکل میں ہیں، تمام مزدوروں کے حوالے سے موثر اور فوری اقدامات کیے جائیں۔

22.6 پاکستانی خواتین لیبر فورس کا حصہ ہیں جو جنوبی ایشیاء میں کم ترین ہے، خواتین کی معاشی شمولیت کے حوالے سے پاکستان 156 ممالک میں سے 152 ویں نمبر پر ہے لہٰذا ملکی ترقی کیلئے آئین پاکستان اور عالمی کنونشنز کی پاسداری کرتے ہوئے خواتین کو ورک فورس میں شامل کرنے کیلئے سازگار ماحوال فراہم کیا جائے، ٹریڈ یوننز میں میں خواتین کی حوصلہ افزائی کی جائے۔
Load Next Story