افراطِ زر کے بغیر پاکستان میں اقتصادی ترقی دکھانا مشکل

پالیسی ساز مہنگائی کو کنٹرول کرنا نہیں چاہتے جب تک کہ یہ قابو سے باہر نہ ہوجائے

مہنگائی کا توڑ جامع سماجی معاشی رسپانس اور شفاف مکینزم کے نفاذ کے ذریعے کرنا ضروری ‘۔ فوٹو: فائل

پاکستان میں افراطِ زر کی سطح بلند ہورہی ہے۔ اپریل میں افراط زر 11.1 فیصد رہا اور اسی مناسبت سے اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوا۔


پاکستان جیسی معیشت میں جہاں حقیقی پیداواری شعبوں کی کمی ہے اور معیشت ریئل اسٹیٹ، کنزیومر فنانس وغیرہ جیسے شعبوں پر پروان چڑھتی ہے وہاں مہنگائی کا ہونا نہ صرف یقینی ہے بلکہ وہاں اقتصادی اہداف بھی افراطِ زر کے ذریعے ہی حاصل کیے جاتے ہیں۔ افراطِ زر سے جڑی نمو نہ ہو تو پاکستان میں وزیرخزانہ کے لیے اقتصادی ترقی دکھانا بہت مشکل ہوجائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ وزرائے خزانہ اور مالیاتی پالیسی ساز اس وقت تک افراطِ زر یعنی مہنگائی کو کنٹرول کرنا نہیں چاہتے جب تک کہ یہ قابو سے باہر نہ ہوجائے۔

کنزیومر پرائس انڈیکس ٹریکنگ اوربنیادی اجناس کی قیمتوں کا تعین وفاقی اور صوبائی سطح پر اور اس کا نفاذ بڑے شہروں میں ہوتا ہے۔ چھوٹے چھوٹے اور دورافتادہ دیہات اور قصبوں میں ان قیمتوں کا اطلاق کیسے یقینی بنایا جائے؟ اس کا واحد راستہ شفاف اور دیانت دارانہ پرائس مجسٹریسی سسٹم ہے۔ افراطِ زر یا مہنگائی پاکستان کا بنیادی سماجی معاشی مسئلہ ہے جس کا توڑ جامع سماجی معاشی رسپانس اور شفاف و دیانت دارانہ مکینزم کے نفاذ کے ذریعے کرنا بہت ضروری ہے۔
Load Next Story