لاہورکے اولڈ ایج ہومز کے مکین
بے آسرا بزرگوں کے لئے اولڈ ایج ہومز بہرحال ایک نعمت ہیں
شہر کے مختلف اولڈ ایج ہومز میں 700 کے قریب بزرگ شہری موجود ہیں جو زندگی کے آخری ایام یہاں گزارنے پر مجبور ہیں، ان بزرگ شہریوں کی رہائش ،خوراک ،علاج اور ادویات کا انتظام اولڈ ایج ہومز کی انتظامیہ مخیر حضرات سے ملنے والی ڈونیشن اور صدقات وعطیات سے کرتی ہیں جبکہ کئی بزرگ شہریوں کے بچے اورخاندان ان کی کفالت کا ماہانہ بنیادوں پرخرچہ ادا کرتے ہیں۔
پنجاب سوشل ویلفیئرڈیپارٹمنٹ کے حکام کے مطابق اس وقت پنجاب میں 6اولڈایج ہومز سرکاری سطح پر کام کررہے ہیں جبکہ 10نجی اولڈایج ہومز ہیں ،ٹاؤن شپ لاہورمیں واقع مرد وخواتین بزرگ شہریوں کے لئے عافیت کے نام سے موجود ہ اولڈایج ہوم 1975 میں قائم کیا گیا تھا۔ اس وقت یہاں 30سے زائد بزرگ شہری مقیم ہیں۔ مردو خواتین کے لئے الگ الگ رہائشی بلاک ہیں۔یہاں مقیم بزرگ شہریوں کوخوراک،کپڑے اوران کے علاج ادویات کا انتظام پنجاب سوشل ویلفیئرڈیپارٹمنٹ کرتا ہے۔پنجاب سوشل ویلفیئرکے زیرانتظام لاہورکے علاوہ ملتان، راولپنڈی، ناروال، ساہیوال اورٹوبہ ٹیک سنگھ میں بھی اولڈایج ہوم موجود ہیں ۔ہرایک اولڈایج ہوم میں 50بزرگ شہریوں کے رہنے کی گنجائش ہے
لاہورکے چندبڑے اولڈایج ہومزکی بات کی جائے توان میں اولڈایج ہیپی ہومزٹاؤن شپ، دارالکفالہ بھٹہ چوک،سینئرسٹیزن فاؤنڈیشن پاکستان ڈی ایچ اے، ہیومن ہومز فیروزپور روڈ ، بنت فاطمہ اولڈایج ہوم، دی سیکنڈ ہوم ،بلقیس ایدھی ہوم اور بحریہ ٹاؤن کا اولڈایج ہوم شامل ہیں۔ان اولڈایج ہومزمیں اس وقت 700 کے قریب بزرگ شہری مقیم ہیں۔پاک عرب سوسائٹی میں واقع ہیون ہومز کے انچارج ڈاکٹرجمیل نے بتایا کہ انہوں نے 16 برس پہلے یہ منصوبہ شروع کیاتھا۔ ان کے پاس ہرسال تقریب100 کے قریب بزرگ شہری آتے ہیں ،اس وقت ان کے پاس 14 بزرگ شہری مقیم ہیں جن میں مرد اورخواتین دونوں شامل ہیں۔
ڈاکٹرجمیل نے بتایا کہ زیادہ ترتین قسم کے بزرگ شہری اولڈایج ہوم میں رہتے ہیں، ایک وہ ہیں جوزندگی بھرشادی نہیں کرتے اورضعیف ہونے پران کی دیکھ بھال کرنے والاکوئی نہیں ہوتا جس کی وجہ سے وہ یہاں آجاتے ہیں ۔ کچھ بزرگ ایسے ہیں جوشادی کرتے ہیں مگران کی اولادنہیں ہوتی اوربوڑھاہونے پرکوئی ان کی دیکھ بھال نہیں کر سکتا جبکہ تیسری قسم ایسے بزرگ شہریوں کی ہے جن کی سگی اولاد خود انہیں یہاں چھوڑجاتی ہے۔ بعض بزرگوں کی اولاد تو یہ بھی نہیں بتاتی کہ جن کو وہ یہاں چھوڑ کر جا رہے ہیں وہ ان کے ماں باپ ہیں۔وہ بتاتے ہیں کہ یہ بزرگ ان کے قریبی رشتہ دارہیں۔
اولڈایج ہوم میں مقیم بزرگ شہریوں کی خوراک، رہائش اوربیمارہونے کی صورت میں علاج معالجہ کی اخرات مختلف طریقوں سے پورے کئے جاتے ہیں۔ ڈاکٹرجمیل کے مطابق سب سے بڑا ذریعہ مخیرحضرات کی طرف سے ملنے والی ڈونیشن،صدقات وعطیات ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ بزرگ شہری ایسے بھی ہوتے ہیں جو سرکاری یا غیرسرکاری ملازمت سے ریٹائرڈہوتے ہیں ان کو ملنے والی پنشن میں سے وہ کچھ رقم ادارے کو دیتے ہیں جس سے ان کے اخراجات پورے کئے جاتے ہیں۔ اسی طرح بعض بزرگ ایسے ہیں جن کی اولاد انہیں اپنے ساتھ تونہیں رکھ سکتی لیکن وہ ان کی دیکھ بھال اورخوراک کے لئے ماہانہ معقول رقم اداکرتی ہے۔تاکہ ان کے بزرگوں کا بہترخیال رکھاجاسکے۔ ڈاکٹرجمیل کے مطابق حکومت کی طرف سے نجی اولڈایج ہومزکوکوئی امداد نہیں دی جاتی ہے۔
ان اولڈایج ہومز میں 60 سال سے زائدعمرکے بزرگ شہریوں کو رہنے کی اجازت دی جاتی ہے ،اگرکوئی بزرگ شدیدبیماریاکسی مستقل بیماری اورمعذوری کاشکارہوتواسے بھی اولڈایج ہوم میں داخل نہیں کیاجاتا ہے۔اولڈایج ہوم میں رہنے کے لئے ایسے بزرگ شہریوں کو ترجیح دی جاتی ہے جن کی کوئی اولاد،رشتہ دار اوردیکھ بھال کرنے والاکوئی نہیں ہوتا ہے۔
ٹاؤن شپ میں واقع اولڈہوم میں مقیم ایک بزرگ عبدالرحمان نے بتایا وہ گزشتہ چارسال سے یہاں مقیم ہیں، 25 سال تک بیرون ملک نوکری کی اورپیسے اپنی بیوی اوربچوں کو بھیجتے رہے۔ انہوں نے لاہور کے پوش علاقوں میں بہترین گھربنائے ہیں ،چارسال پہلے جب وہ واپس پاکستان آئے تو بیوی اوربچوں نے گھرمیں رہنے ہی نہیں دیا۔ تمام جائیداد بیوی نے اپنے اوربچوں کے نام کروالی ہے اورمیں تب سے یہاں مقیم ہوں۔ ملک واپسی پران کے پا س جو پیسے تھے وہ سیونگ میں لگارکھے ہیں وہاں سے ہرماہ جومنافع ملتا ہے وہ میں دارالامان والوں کو دے دیتا ہوں ،کیونکہ یہ میرا خیال رکھتے ہیں۔
ایک خاتون بشری بی بی کا کہنا ہے گھران کی کوئی اولاد نہیں تھی ، شوہربھی فوت ہوچکا ہے، ساری زندگی کرائے کے مکان میں گزاری ،شوہرکی وفات کے بعد کرایہ دینے کے لئے تو دور کی بات دو وقت کی روٹی کے لئے بھی پیسے نہیں ہوتے تھے، اس لئے پھریہاں آگئی۔ یہاں ان کوصبح، دوپہر اورشام کو اچھا اورمعیاری کھانا ملتا ہے۔ آج کل چونکہ روزے ہیں تو سحری اورافطاری کا اہتمام ہوتا ہے ، چند بزرگ جوزیادہ عمرکے ہیں اور تھوڑے بیمار ہیں وہ چونکہ روزہ نہین رکھ سکتے تو ان کے لئے روٹین کے مطابق ہی کھانا تیار ہوتا ہے، یہاں ہمارے لئے دینی تعلیم کا بھی اہتمام ہے، صبح واک کروائی جاتی ہے۔ٹی وی دیکھتے ہیں اگر کہیں باہرگھومنے جانے کا پروگرام ہوتو انتظامیہ اس کی بھی اجازت دے دیتی ہے۔
صوبائی وزیر سماجی بہبود پنجاب سید یاور عباس نے کہتے ہیں بزرگوں کو محکمہ سوشل ویلفئیر کے زیرانتظام اولڈ ایج ہومز میں ضروری سہولتوں کی فراہمی یقینی بنائی جائے گی، انہوں نے کہا کہ بڑھاپے میں گھر کے سوا کہیں اور بزرگوں کا قیام المیہ ہے۔ بزرگوں کے حقوق کا تحفظ یقینی بنانا ہوگا۔ وزیر سماجی بہبود نے کہا کہ اولڈ ایج ہومز کا مشرقی معاشرے میں تصور افسوسناک ہے۔ پہلے ایسے ہومز صرف مغربی معاشرے میں ملتے تھے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ والدین کے احترام کیلئے نوجوانوں کی کونسلنگ کی جائے۔ سید یاور عباس بخاری نے کہا کہ آخری عمر میں صرف اپنوں کے پاس قیام ہی سکون بخش ہوتا ہے تاہم بے آسرا بزرگوں کے لئے اولڈ ایج ہومز بہرحال ایک نعمت ہیں۔
پنجاب سوشل ویلفیئرڈیپارٹمنٹ کے حکام کے مطابق اس وقت پنجاب میں 6اولڈایج ہومز سرکاری سطح پر کام کررہے ہیں جبکہ 10نجی اولڈایج ہومز ہیں ،ٹاؤن شپ لاہورمیں واقع مرد وخواتین بزرگ شہریوں کے لئے عافیت کے نام سے موجود ہ اولڈایج ہوم 1975 میں قائم کیا گیا تھا۔ اس وقت یہاں 30سے زائد بزرگ شہری مقیم ہیں۔ مردو خواتین کے لئے الگ الگ رہائشی بلاک ہیں۔یہاں مقیم بزرگ شہریوں کوخوراک،کپڑے اوران کے علاج ادویات کا انتظام پنجاب سوشل ویلفیئرڈیپارٹمنٹ کرتا ہے۔پنجاب سوشل ویلفیئرکے زیرانتظام لاہورکے علاوہ ملتان، راولپنڈی، ناروال، ساہیوال اورٹوبہ ٹیک سنگھ میں بھی اولڈایج ہوم موجود ہیں ۔ہرایک اولڈایج ہوم میں 50بزرگ شہریوں کے رہنے کی گنجائش ہے
لاہورکے چندبڑے اولڈایج ہومزکی بات کی جائے توان میں اولڈایج ہیپی ہومزٹاؤن شپ، دارالکفالہ بھٹہ چوک،سینئرسٹیزن فاؤنڈیشن پاکستان ڈی ایچ اے، ہیومن ہومز فیروزپور روڈ ، بنت فاطمہ اولڈایج ہوم، دی سیکنڈ ہوم ،بلقیس ایدھی ہوم اور بحریہ ٹاؤن کا اولڈایج ہوم شامل ہیں۔ان اولڈایج ہومزمیں اس وقت 700 کے قریب بزرگ شہری مقیم ہیں۔پاک عرب سوسائٹی میں واقع ہیون ہومز کے انچارج ڈاکٹرجمیل نے بتایا کہ انہوں نے 16 برس پہلے یہ منصوبہ شروع کیاتھا۔ ان کے پاس ہرسال تقریب100 کے قریب بزرگ شہری آتے ہیں ،اس وقت ان کے پاس 14 بزرگ شہری مقیم ہیں جن میں مرد اورخواتین دونوں شامل ہیں۔
ڈاکٹرجمیل نے بتایا کہ زیادہ ترتین قسم کے بزرگ شہری اولڈایج ہوم میں رہتے ہیں، ایک وہ ہیں جوزندگی بھرشادی نہیں کرتے اورضعیف ہونے پران کی دیکھ بھال کرنے والاکوئی نہیں ہوتا جس کی وجہ سے وہ یہاں آجاتے ہیں ۔ کچھ بزرگ ایسے ہیں جوشادی کرتے ہیں مگران کی اولادنہیں ہوتی اوربوڑھاہونے پرکوئی ان کی دیکھ بھال نہیں کر سکتا جبکہ تیسری قسم ایسے بزرگ شہریوں کی ہے جن کی سگی اولاد خود انہیں یہاں چھوڑجاتی ہے۔ بعض بزرگوں کی اولاد تو یہ بھی نہیں بتاتی کہ جن کو وہ یہاں چھوڑ کر جا رہے ہیں وہ ان کے ماں باپ ہیں۔وہ بتاتے ہیں کہ یہ بزرگ ان کے قریبی رشتہ دارہیں۔
اولڈایج ہوم میں مقیم بزرگ شہریوں کی خوراک، رہائش اوربیمارہونے کی صورت میں علاج معالجہ کی اخرات مختلف طریقوں سے پورے کئے جاتے ہیں۔ ڈاکٹرجمیل کے مطابق سب سے بڑا ذریعہ مخیرحضرات کی طرف سے ملنے والی ڈونیشن،صدقات وعطیات ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ بزرگ شہری ایسے بھی ہوتے ہیں جو سرکاری یا غیرسرکاری ملازمت سے ریٹائرڈہوتے ہیں ان کو ملنے والی پنشن میں سے وہ کچھ رقم ادارے کو دیتے ہیں جس سے ان کے اخراجات پورے کئے جاتے ہیں۔ اسی طرح بعض بزرگ ایسے ہیں جن کی اولاد انہیں اپنے ساتھ تونہیں رکھ سکتی لیکن وہ ان کی دیکھ بھال اورخوراک کے لئے ماہانہ معقول رقم اداکرتی ہے۔تاکہ ان کے بزرگوں کا بہترخیال رکھاجاسکے۔ ڈاکٹرجمیل کے مطابق حکومت کی طرف سے نجی اولڈایج ہومزکوکوئی امداد نہیں دی جاتی ہے۔
ان اولڈایج ہومز میں 60 سال سے زائدعمرکے بزرگ شہریوں کو رہنے کی اجازت دی جاتی ہے ،اگرکوئی بزرگ شدیدبیماریاکسی مستقل بیماری اورمعذوری کاشکارہوتواسے بھی اولڈایج ہوم میں داخل نہیں کیاجاتا ہے۔اولڈایج ہوم میں رہنے کے لئے ایسے بزرگ شہریوں کو ترجیح دی جاتی ہے جن کی کوئی اولاد،رشتہ دار اوردیکھ بھال کرنے والاکوئی نہیں ہوتا ہے۔
ٹاؤن شپ میں واقع اولڈہوم میں مقیم ایک بزرگ عبدالرحمان نے بتایا وہ گزشتہ چارسال سے یہاں مقیم ہیں، 25 سال تک بیرون ملک نوکری کی اورپیسے اپنی بیوی اوربچوں کو بھیجتے رہے۔ انہوں نے لاہور کے پوش علاقوں میں بہترین گھربنائے ہیں ،چارسال پہلے جب وہ واپس پاکستان آئے تو بیوی اوربچوں نے گھرمیں رہنے ہی نہیں دیا۔ تمام جائیداد بیوی نے اپنے اوربچوں کے نام کروالی ہے اورمیں تب سے یہاں مقیم ہوں۔ ملک واپسی پران کے پا س جو پیسے تھے وہ سیونگ میں لگارکھے ہیں وہاں سے ہرماہ جومنافع ملتا ہے وہ میں دارالامان والوں کو دے دیتا ہوں ،کیونکہ یہ میرا خیال رکھتے ہیں۔
ایک خاتون بشری بی بی کا کہنا ہے گھران کی کوئی اولاد نہیں تھی ، شوہربھی فوت ہوچکا ہے، ساری زندگی کرائے کے مکان میں گزاری ،شوہرکی وفات کے بعد کرایہ دینے کے لئے تو دور کی بات دو وقت کی روٹی کے لئے بھی پیسے نہیں ہوتے تھے، اس لئے پھریہاں آگئی۔ یہاں ان کوصبح، دوپہر اورشام کو اچھا اورمعیاری کھانا ملتا ہے۔ آج کل چونکہ روزے ہیں تو سحری اورافطاری کا اہتمام ہوتا ہے ، چند بزرگ جوزیادہ عمرکے ہیں اور تھوڑے بیمار ہیں وہ چونکہ روزہ نہین رکھ سکتے تو ان کے لئے روٹین کے مطابق ہی کھانا تیار ہوتا ہے، یہاں ہمارے لئے دینی تعلیم کا بھی اہتمام ہے، صبح واک کروائی جاتی ہے۔ٹی وی دیکھتے ہیں اگر کہیں باہرگھومنے جانے کا پروگرام ہوتو انتظامیہ اس کی بھی اجازت دے دیتی ہے۔
صوبائی وزیر سماجی بہبود پنجاب سید یاور عباس نے کہتے ہیں بزرگوں کو محکمہ سوشل ویلفئیر کے زیرانتظام اولڈ ایج ہومز میں ضروری سہولتوں کی فراہمی یقینی بنائی جائے گی، انہوں نے کہا کہ بڑھاپے میں گھر کے سوا کہیں اور بزرگوں کا قیام المیہ ہے۔ بزرگوں کے حقوق کا تحفظ یقینی بنانا ہوگا۔ وزیر سماجی بہبود نے کہا کہ اولڈ ایج ہومز کا مشرقی معاشرے میں تصور افسوسناک ہے۔ پہلے ایسے ہومز صرف مغربی معاشرے میں ملتے تھے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ والدین کے احترام کیلئے نوجوانوں کی کونسلنگ کی جائے۔ سید یاور عباس بخاری نے کہا کہ آخری عمر میں صرف اپنوں کے پاس قیام ہی سکون بخش ہوتا ہے تاہم بے آسرا بزرگوں کے لئے اولڈ ایج ہومز بہرحال ایک نعمت ہیں۔