غذائی معاملات کو سیاست زدہ نہ کرنا ہی قومی مفاد میں ہے
اپوزیشن اور میڈیا میں سب سے زیادہ تنقید آٹا اور چینی کے حوالے سے ہو رہی ہے۔
وزیر اعظم عمران خان نے اعتراف کیا ہے کہ بعض اوقات ان سے غلط فیصلے سرزد ہو جاتے ہیں جن کے منفی نتائج آنے پر وہ سوچتے رہ جاتے ہیں۔
وزیر اعظم کا یہ اعتراف اس لحاظ سے قابل تحسین ہے کہ ہمارے معاشرے میں اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنے کی جرات نہایت ہی کم ہے بلکہ ہم تو بڑی ڈھٹائی کے ساتھ اپنی غلطیوں کا دفاع کرنے کے عادی ہو چکے ہیں۔کسی دانشور نے کیا خوب کہا ہے کہ غلطی اسی سے ہوتی ہے جو کام کرتا ہے کیونکہ جو کچھ نہیں کرتا اس سے غلطی بھی نہیں ہوتی۔
غلطی ہوجانا خامی نہیں لیکن اسے دہرانا، نالائقی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان غذائی معاملات کے حوالے سے بہت حساس اور فکر مند ہیں کیونکہ اقتدار سنبھالنے سے لیکر آج تک انہیں گندم آٹا چینی سمیت دیگر غذائی اشیاء کی دستیابی اور مہنگائی کے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
اپوزیشن اور میڈیا میں سب سے زیادہ تنقید آٹا اور چینی کے حوالے سے ہو رہی ہے۔گزشتہ دو برس کا جائزہ لیں تو سندھ اور خیبر پختونخوا میں محکمہ خوراک کی غلط پالیسیوں کے سبب بحرانوں نے جنم لیا اور پھر یہ پورے ملک میں پھیل گئے۔ماضی میں سندھ نے گندم نہ خریدی اور وفاق سے لی جبکہ گزشتہ برس تاخیر سے سرکاری گندم کا اجراء شروع کیا۔
اسی طرح خیبر پختونخوا کو آٹا تو پنجاب سے جاتا ہے لیکن اس کی بڑی مقدار ''غائب'' ہو جاتی ہے۔ اس مرتبہ سندھ کا خریداری ہدف 14 لاکھ ٹن ہے اور اس نے ابھی تک 6 لاکھ ٹن سے زائد گندم خریدی ہے اور ہدف مکمل کرنے کی نیت بھی نہیں اور حالات بھی نہیں، سندھ نے صرف سیاسی پوائنٹ سکورنگ کیلئے قیمت 2 ہزار روپے مقرر کی ہے ورنہ انہیں معلوم ہے کہ کراچی کی ضرورت امپورٹ سے پوری ہو گی۔ خیبر پختونخوا حکومت بھی وفاق سے گندم لیکر اپنی ضروریات پوری کرے گی۔
اس مرتبہ پنجاب میں گندم کی ''بمپر'' کراپ ہوئی ہے۔ گزشتہ تین برس میں گندم آٹا بحرانوں کی وجوہات کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اوپن مارکیٹ میں گندم کی قلت اور غیر معمولی قیمت سب سے بڑی وجہ تھی جس نے آٹا کی دستیابی اور قیمتوں کو نہایت بری طرح سے متاثر کیا تھا۔گزشتہ برس جب گندم کی دستیابی اور قیمتوں میں اضافہ کی صورتحال ریڈ لائن کراس کر گئی تب وفاقی حکومت نے صوبوں کی کئی ماہ قبل دی گئی درخواستوں کو منظور کرتے ہوئے سرکاری اور نجی سطح پر گندم امپورٹ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
حکومت نے ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان اور گورنمنٹ ٹو گورنمنٹ ذرائع کے تحت 22 لاکھ50 ہزار ٹن سے زیادہ گندم امپورٹ کی جبکہ نجی شعبہ نے 14 لاکھ65 ہزار ٹن گندم امپورٹ کی اور یوں اوپن مارکیٹ میں صورتحال معمول پر آئی ۔
اس مرتبہ نہایت عمدہ پیداوار ہونے کے باوجود آڑھتی اور کسانوں نے بہت بڑی مقدار میں گندم کو اس نیت سے ذخیرہ کر لیا ہے کہ اس مرتبہ بھی اوپن مارکیٹ میں قیمت 2100 یا2200 روپے فی من تک جائے گی اور وہ اپنی ذخیرہ شدہ گندم کو اس وقت فروخت کر کے زائد منافع کمائیں گے۔ ان کی یہ خواہش اس مرتبہ پوری ہونا بہت مشکل ہے کیونکہ حکومت اور نجی شعبہ کو گزشتہ سال گندم امپورٹ کا کامیاب تجربہ ہو چکا ہے اور وہ اب ذخیرہ اندوزوں کو مارکیٹ غیر مستحکم کرنے نہیں دیں گے۔
محکمہ خوراک پنجاب کا خریداری ہدف 35 لاکھ ٹن مقرر ہے اور گزشتہ روز تک وہ 26 لاکھ70 ہزار ٹن سے زائد گندم خرید چکا ہے اور آئندہ دس روز میں اس کا یہ ہدف آسانی سے مکمل ہو سکتا ہے۔ پنجاب کی فلورملز پر اس مرتبہ ماضی جیسی سختیاں اور پابندیاں نہیں ہیں تاہم اضلاع کے انتظامی افسروں سمیت بعض فوڈ اہلکاروں کی جانب سے چند زیادتیاں سامنے آرہی ہیں جبکہ وفاقی محکمہ پاسکو کی جانب سے بلا جواز پکڑ دھکڑ کے واقعات سامنے آئے ہیں ،سب سے زیادہ خرابی سپیشل اہلکاروں کی جانب سے دیکھنے میں آرہی ہیں۔
یہ نکتہ غور طلب ہے کہ پاسکو کا خریداری ہدف 12 لاکھ ٹن رکھا گیا ہے اور اس نے یہ تمام پنجاب سے پورا کرنا ہے کیونکہ سندھ اور بلوچستان میں قیمت خرید دو ہزار روپے مقرر ہونے سے وہاں خریداری ممکن نہیں۔اصولی بات کی جائے تو پنجاب میں پاسکو کا ہدف 7 یا8 لاکھ ٹن ہونا چاہئے تھا لیکن آجکل پاسکو میں ''شہنشائیت'' چل رہی ہے، ریٹائر ہوجانے والے افسروں کو بدستور خریداری مہم میں اہم ذمہ داریاں دی گئی ہیں اور یوں لگتا ہے کہ جیسے کوئی ذاتی ''ریکوری'' زیادہ اہم ہے کسی کیلئے۔ سیکرٹری فوڈ شہریار سلطان اور ڈائریکٹر فوڈ دانش افضال کی سوچ بہت واضح اور درست سمت میں ہے کہ فلورملز پر گندم خریدنے کی پابندی سے صورتحال خراب تو ہوسکتی ہے مگر اس سے بہتری نہیں آئے گی۔
یہی وجہ ہے کہ دونوں اعلی افسر اس وقت ایک جانب اپنے سرکاری اہداف کی تکمیل کیلئے کوشاں ہیں تو دوسری جانب وہ فلورملز کی گندم خریداری میں پیش آنے والی رکاوٹوں کو بھی دور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں،ماضی قریب میں کسی سیکرٹری یا ڈائریکٹر فوڈ نے اس طرح کی عمدہ حکمت عملی نہیں اپنائی تھی۔
لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ فلورملز کو خریداری کیلئے'' فری ہینڈ'' ابھی حاصل نہیں ہے عید کے بعد شاید انہیں یہ موقع دے دیا جائے گا۔ فلورملز کو اندیشہ ہے کہ جب محکمہ خوراک اپنی خریداری بند کرکے انہیں مکمل آزادی دے گا تب مارکیٹ قیمت دو ہزار روپے سے اوپر چلی جائے گی۔
وزیر اعظم عمران خان نے بہت عمدہ اقدام کیا ہے کہ گزشتہ دنوں انہوں نے چاروں صوبوں سے فلورملز ایسوسی ایشن کے اہم ترین رہنماوں کو مدعو کر کے براہ راست ان کے ساتھ گندم آٹا کی صورتحال پر گفتگو کی۔ وزیر اعظم نے ایسوسی ایشن کی جانب سے گندم کی امپورٹ فار ایکسپورٹ کی تجویز کو سراہتے ہوئے اس کی اصولی منظوری بھی دے دی ہے۔
اس موقع پر چیئرمین فلورملز ایسوسی ایشن عاصم رضا، مرکزی رہنما لیاقت علی خان نے وزیر اعظم کو ملکی و غیر ملکی گندم مارکیٹ کے حوالے سے بہت اہم حقائق سے آگاہ کیا ہے،عاصم رضا نے امپورٹ فار ایکسپورٹ کی تجویز کو ایسے معاشی حقائق اور دلائل کے ساتھ پیش کیا کہ وزیر اعظم سمیت اجلاس میں موجود تمام وزراء اور افسروں نے بھی اس کی حمایت کی۔ لیاقت علی خان نے عالمی مارکیٹ کی صورتحال بیان کرتے ہوئے زور دیا کہ ملک میں گندم آٹا کی فری ٹریڈ اور لانگ ٹرم پالیسیاں ہی تمام بحرانوں کا حل ہیں۔
اجلاس میں خیبر پختونخوا سے نعیم بٹ، محمد طارق، بلوچستان سے ظہور آغا،سندھ سے حاجی محمد یوسف، عنصر جاوید جبکہ پنجاب سے عاصم رضا، لیاقت علی خان، میاں ریاض، حافظ احمد قادر، ریاض اللہ خان، عاطف ندیم، افتخار مٹو شریک ہوئے تھے۔ کسی وزیر اعظم کی جانب سے چاروں صوبوں کے فلورملز نمائندوں سے براہ راست ملاقات کا یہ پہلا موقع ہے۔
وفاقی سیکرٹری نیشنل فوڈ سکیورٹی غفران میمن نے حکومت سے 30 لاکھ ٹن گندم امپورٹ کی اجازت حاصل کر کے اس لحاظ سے عمدہ اقدام کیا ہے کہ اب منظوری کے حصول میں وقت ضائع نہیں ہوگا اور حکومتی ادارے مقامی مارکیٹ کی صورتحال کے مطابق فوری گندم امپورٹ کر سکیں گے۔
وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان بزدار ، سینئر وزیر عبدالعلیم خان اور چیف سیکرٹری جواد رفیق ملک نے گندم آٹا کے معاملات کو قابو میں رکھنے کیلئے بہت محنت کی ہے اگر چند ایک رنگ باز وزراء کی بات مان کر سرکاری گندم کی قیمت فروخت کو انتہائی کم نہ رکھا جاتا اور علیم خان کی 1600 روپے والی تجویز مان لی جاتی تو حکومت ایک سال تک گندم آٹا کے چکروں میں خوار نہ ہوتی ۔
امید ہے کہ وزیر اعظم عمران خان، وزیر اعلی سردار عثمان بزدار اس مرتبہ معاشی حقائق کے مطابق فیصلہ کریں گے، سرکاری گندم کا قبل از وقت اجراء کرنے سے گریز کیا جائے گا اور اوپن مارکیٹ کو اپنی رسد وطلب کے مطابق نارمل ورکنگ کرنے دی جائے گی جبکہ حکومت آئندہ ریلیز سیزن میں سرکاری گندم اورآٹا کی قیمتوں کو غیر معمولی کم مقرر کر کے سیاسی فوائد حاصل کرنے کی کوشش کی بجائے ایک مناسب اور قابل عمل قیمت مقرر کرے گی ۔
وزیر اعظم کا یہ اعتراف اس لحاظ سے قابل تحسین ہے کہ ہمارے معاشرے میں اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنے کی جرات نہایت ہی کم ہے بلکہ ہم تو بڑی ڈھٹائی کے ساتھ اپنی غلطیوں کا دفاع کرنے کے عادی ہو چکے ہیں۔کسی دانشور نے کیا خوب کہا ہے کہ غلطی اسی سے ہوتی ہے جو کام کرتا ہے کیونکہ جو کچھ نہیں کرتا اس سے غلطی بھی نہیں ہوتی۔
غلطی ہوجانا خامی نہیں لیکن اسے دہرانا، نالائقی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان غذائی معاملات کے حوالے سے بہت حساس اور فکر مند ہیں کیونکہ اقتدار سنبھالنے سے لیکر آج تک انہیں گندم آٹا چینی سمیت دیگر غذائی اشیاء کی دستیابی اور مہنگائی کے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
اپوزیشن اور میڈیا میں سب سے زیادہ تنقید آٹا اور چینی کے حوالے سے ہو رہی ہے۔گزشتہ دو برس کا جائزہ لیں تو سندھ اور خیبر پختونخوا میں محکمہ خوراک کی غلط پالیسیوں کے سبب بحرانوں نے جنم لیا اور پھر یہ پورے ملک میں پھیل گئے۔ماضی میں سندھ نے گندم نہ خریدی اور وفاق سے لی جبکہ گزشتہ برس تاخیر سے سرکاری گندم کا اجراء شروع کیا۔
اسی طرح خیبر پختونخوا کو آٹا تو پنجاب سے جاتا ہے لیکن اس کی بڑی مقدار ''غائب'' ہو جاتی ہے۔ اس مرتبہ سندھ کا خریداری ہدف 14 لاکھ ٹن ہے اور اس نے ابھی تک 6 لاکھ ٹن سے زائد گندم خریدی ہے اور ہدف مکمل کرنے کی نیت بھی نہیں اور حالات بھی نہیں، سندھ نے صرف سیاسی پوائنٹ سکورنگ کیلئے قیمت 2 ہزار روپے مقرر کی ہے ورنہ انہیں معلوم ہے کہ کراچی کی ضرورت امپورٹ سے پوری ہو گی۔ خیبر پختونخوا حکومت بھی وفاق سے گندم لیکر اپنی ضروریات پوری کرے گی۔
اس مرتبہ پنجاب میں گندم کی ''بمپر'' کراپ ہوئی ہے۔ گزشتہ تین برس میں گندم آٹا بحرانوں کی وجوہات کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اوپن مارکیٹ میں گندم کی قلت اور غیر معمولی قیمت سب سے بڑی وجہ تھی جس نے آٹا کی دستیابی اور قیمتوں کو نہایت بری طرح سے متاثر کیا تھا۔گزشتہ برس جب گندم کی دستیابی اور قیمتوں میں اضافہ کی صورتحال ریڈ لائن کراس کر گئی تب وفاقی حکومت نے صوبوں کی کئی ماہ قبل دی گئی درخواستوں کو منظور کرتے ہوئے سرکاری اور نجی سطح پر گندم امپورٹ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
حکومت نے ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان اور گورنمنٹ ٹو گورنمنٹ ذرائع کے تحت 22 لاکھ50 ہزار ٹن سے زیادہ گندم امپورٹ کی جبکہ نجی شعبہ نے 14 لاکھ65 ہزار ٹن گندم امپورٹ کی اور یوں اوپن مارکیٹ میں صورتحال معمول پر آئی ۔
اس مرتبہ نہایت عمدہ پیداوار ہونے کے باوجود آڑھتی اور کسانوں نے بہت بڑی مقدار میں گندم کو اس نیت سے ذخیرہ کر لیا ہے کہ اس مرتبہ بھی اوپن مارکیٹ میں قیمت 2100 یا2200 روپے فی من تک جائے گی اور وہ اپنی ذخیرہ شدہ گندم کو اس وقت فروخت کر کے زائد منافع کمائیں گے۔ ان کی یہ خواہش اس مرتبہ پوری ہونا بہت مشکل ہے کیونکہ حکومت اور نجی شعبہ کو گزشتہ سال گندم امپورٹ کا کامیاب تجربہ ہو چکا ہے اور وہ اب ذخیرہ اندوزوں کو مارکیٹ غیر مستحکم کرنے نہیں دیں گے۔
محکمہ خوراک پنجاب کا خریداری ہدف 35 لاکھ ٹن مقرر ہے اور گزشتہ روز تک وہ 26 لاکھ70 ہزار ٹن سے زائد گندم خرید چکا ہے اور آئندہ دس روز میں اس کا یہ ہدف آسانی سے مکمل ہو سکتا ہے۔ پنجاب کی فلورملز پر اس مرتبہ ماضی جیسی سختیاں اور پابندیاں نہیں ہیں تاہم اضلاع کے انتظامی افسروں سمیت بعض فوڈ اہلکاروں کی جانب سے چند زیادتیاں سامنے آرہی ہیں جبکہ وفاقی محکمہ پاسکو کی جانب سے بلا جواز پکڑ دھکڑ کے واقعات سامنے آئے ہیں ،سب سے زیادہ خرابی سپیشل اہلکاروں کی جانب سے دیکھنے میں آرہی ہیں۔
یہ نکتہ غور طلب ہے کہ پاسکو کا خریداری ہدف 12 لاکھ ٹن رکھا گیا ہے اور اس نے یہ تمام پنجاب سے پورا کرنا ہے کیونکہ سندھ اور بلوچستان میں قیمت خرید دو ہزار روپے مقرر ہونے سے وہاں خریداری ممکن نہیں۔اصولی بات کی جائے تو پنجاب میں پاسکو کا ہدف 7 یا8 لاکھ ٹن ہونا چاہئے تھا لیکن آجکل پاسکو میں ''شہنشائیت'' چل رہی ہے، ریٹائر ہوجانے والے افسروں کو بدستور خریداری مہم میں اہم ذمہ داریاں دی گئی ہیں اور یوں لگتا ہے کہ جیسے کوئی ذاتی ''ریکوری'' زیادہ اہم ہے کسی کیلئے۔ سیکرٹری فوڈ شہریار سلطان اور ڈائریکٹر فوڈ دانش افضال کی سوچ بہت واضح اور درست سمت میں ہے کہ فلورملز پر گندم خریدنے کی پابندی سے صورتحال خراب تو ہوسکتی ہے مگر اس سے بہتری نہیں آئے گی۔
یہی وجہ ہے کہ دونوں اعلی افسر اس وقت ایک جانب اپنے سرکاری اہداف کی تکمیل کیلئے کوشاں ہیں تو دوسری جانب وہ فلورملز کی گندم خریداری میں پیش آنے والی رکاوٹوں کو بھی دور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں،ماضی قریب میں کسی سیکرٹری یا ڈائریکٹر فوڈ نے اس طرح کی عمدہ حکمت عملی نہیں اپنائی تھی۔
لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ فلورملز کو خریداری کیلئے'' فری ہینڈ'' ابھی حاصل نہیں ہے عید کے بعد شاید انہیں یہ موقع دے دیا جائے گا۔ فلورملز کو اندیشہ ہے کہ جب محکمہ خوراک اپنی خریداری بند کرکے انہیں مکمل آزادی دے گا تب مارکیٹ قیمت دو ہزار روپے سے اوپر چلی جائے گی۔
وزیر اعظم عمران خان نے بہت عمدہ اقدام کیا ہے کہ گزشتہ دنوں انہوں نے چاروں صوبوں سے فلورملز ایسوسی ایشن کے اہم ترین رہنماوں کو مدعو کر کے براہ راست ان کے ساتھ گندم آٹا کی صورتحال پر گفتگو کی۔ وزیر اعظم نے ایسوسی ایشن کی جانب سے گندم کی امپورٹ فار ایکسپورٹ کی تجویز کو سراہتے ہوئے اس کی اصولی منظوری بھی دے دی ہے۔
اس موقع پر چیئرمین فلورملز ایسوسی ایشن عاصم رضا، مرکزی رہنما لیاقت علی خان نے وزیر اعظم کو ملکی و غیر ملکی گندم مارکیٹ کے حوالے سے بہت اہم حقائق سے آگاہ کیا ہے،عاصم رضا نے امپورٹ فار ایکسپورٹ کی تجویز کو ایسے معاشی حقائق اور دلائل کے ساتھ پیش کیا کہ وزیر اعظم سمیت اجلاس میں موجود تمام وزراء اور افسروں نے بھی اس کی حمایت کی۔ لیاقت علی خان نے عالمی مارکیٹ کی صورتحال بیان کرتے ہوئے زور دیا کہ ملک میں گندم آٹا کی فری ٹریڈ اور لانگ ٹرم پالیسیاں ہی تمام بحرانوں کا حل ہیں۔
اجلاس میں خیبر پختونخوا سے نعیم بٹ، محمد طارق، بلوچستان سے ظہور آغا،سندھ سے حاجی محمد یوسف، عنصر جاوید جبکہ پنجاب سے عاصم رضا، لیاقت علی خان، میاں ریاض، حافظ احمد قادر، ریاض اللہ خان، عاطف ندیم، افتخار مٹو شریک ہوئے تھے۔ کسی وزیر اعظم کی جانب سے چاروں صوبوں کے فلورملز نمائندوں سے براہ راست ملاقات کا یہ پہلا موقع ہے۔
وفاقی سیکرٹری نیشنل فوڈ سکیورٹی غفران میمن نے حکومت سے 30 لاکھ ٹن گندم امپورٹ کی اجازت حاصل کر کے اس لحاظ سے عمدہ اقدام کیا ہے کہ اب منظوری کے حصول میں وقت ضائع نہیں ہوگا اور حکومتی ادارے مقامی مارکیٹ کی صورتحال کے مطابق فوری گندم امپورٹ کر سکیں گے۔
وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان بزدار ، سینئر وزیر عبدالعلیم خان اور چیف سیکرٹری جواد رفیق ملک نے گندم آٹا کے معاملات کو قابو میں رکھنے کیلئے بہت محنت کی ہے اگر چند ایک رنگ باز وزراء کی بات مان کر سرکاری گندم کی قیمت فروخت کو انتہائی کم نہ رکھا جاتا اور علیم خان کی 1600 روپے والی تجویز مان لی جاتی تو حکومت ایک سال تک گندم آٹا کے چکروں میں خوار نہ ہوتی ۔
امید ہے کہ وزیر اعظم عمران خان، وزیر اعلی سردار عثمان بزدار اس مرتبہ معاشی حقائق کے مطابق فیصلہ کریں گے، سرکاری گندم کا قبل از وقت اجراء کرنے سے گریز کیا جائے گا اور اوپن مارکیٹ کو اپنی رسد وطلب کے مطابق نارمل ورکنگ کرنے دی جائے گی جبکہ حکومت آئندہ ریلیز سیزن میں سرکاری گندم اورآٹا کی قیمتوں کو غیر معمولی کم مقرر کر کے سیاسی فوائد حاصل کرنے کی کوشش کی بجائے ایک مناسب اور قابل عمل قیمت مقرر کرے گی ۔