پاکستان اسٹاک مارکیٹ پر31 خاندان قابض پی آئی ڈی ای
ڈاکٹر محبوب الحق نے 1967 میں 22 خاندانوں کی مالی اجارہ داری کی نشاندہی کی تھی۔
پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس (پی آئی ڈی ای) کے ایک مطالعے سے انکشاف ہوا ہے کہ صرف 31 خاندان پاکستان اسٹاک ایکسچینج پر قابض ہیں اور کے ایس ای 100 انڈیکس کمپنیوں کے ڈائریکٹرز کے بورڈ زیادہ تر ان خاندانوں کے قریبی لوگوں سے بھرا ہوا ہے ان میں سے بعض ان کے ملازم ہیں۔
پی آئی ڈی ای کے وائس چانسلر ڈاکٹر ندیم الحق اور امین حسین کے مطالعہ ''چھوٹا کلب: پاکستان کی معاشی منڈیوں کے تقسیم کار اور نیٹ ورک'' کے مطابق 2018 ء میں جب یہ ڈیٹا اکٹھا کیا گیا ، 31 خاندانوں کو کے ایس ای 100 پر غلبہ حاصل تھا ،اس مطالعے میں سٹاک مارکیٹ میں کارپوریٹ گروپوں اور ان کی ملکیت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
دوسرا یہ کہ کمپنی بورڈ آف ڈائریکٹرز کو کس طرح کمپنی کے ڈھانچے اور پیشہ ورانہ انتظام پر مالک اور اس کے خاندان کے اثر و رسوخ کی جانچ پڑتال کے لیے تشکیل دیا جاتا ہے، اس مطالعے میں اس بات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ ان خاندانوں کا کاروبار میں کافی حد تک اثر و رسوخ ہے جس کی وجہ غیر قانونی نجکاری اور ملٹی نیشنل قواعد و ضوابط کا فقدان ہے۔
مطالعے میں کہا گیا ہے کہ ڈاکٹر محبوب الحق نے 1967 میں 22 خاندانوں کی پاکستان میں مالی اجارہ داری کی نشاندہی کی تھی،50سال بعد اسٹاک مارکیٹ کی زیادہ تر دولت 31 خاندانوں کی ملکیت ہے یا وہ انھیں کنٹرول کر تے ہیں۔
بورڈز آف ڈائریکٹر میں ایسے ہی افراد شامل ہوتے ہیں جیسے کارپوریٹ سیکٹر سے تعلق رکھنے والے، کاروباری خاندانوں کے افراد ، سول سروس اور فوج کے رٹائرڈ اور حاضر افسر۔
مطالعے کے مطابق بورڈ آف ڈائریکٹر میں شمولیت پاکستان کے ایلیٹ کلب کی رکنیت کے مترادف ہے۔اس مطالعے میں اس نظریے کو چیلنج کیا گیا ہے کہ اسٹاک مارکیٹ مضبوط معیشت کی عکاس ہے اور پاکستان کا متحرک مالیاتی شعبہ ہے۔
اس مطالعے میں بتایا گیا ہے کہ اسٹاک ایکسچینج میں رجسٹرڈ کمپنیوں کے ڈائریکٹروں کا رابطے کا نیٹ ورک موجود ہے جو باعث تشویش امر ہونا چاہیے۔
پی آئی ڈی ای کے وائس چانسلر ڈاکٹر ندیم الحق اور امین حسین کے مطالعہ ''چھوٹا کلب: پاکستان کی معاشی منڈیوں کے تقسیم کار اور نیٹ ورک'' کے مطابق 2018 ء میں جب یہ ڈیٹا اکٹھا کیا گیا ، 31 خاندانوں کو کے ایس ای 100 پر غلبہ حاصل تھا ،اس مطالعے میں سٹاک مارکیٹ میں کارپوریٹ گروپوں اور ان کی ملکیت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
دوسرا یہ کہ کمپنی بورڈ آف ڈائریکٹرز کو کس طرح کمپنی کے ڈھانچے اور پیشہ ورانہ انتظام پر مالک اور اس کے خاندان کے اثر و رسوخ کی جانچ پڑتال کے لیے تشکیل دیا جاتا ہے، اس مطالعے میں اس بات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ ان خاندانوں کا کاروبار میں کافی حد تک اثر و رسوخ ہے جس کی وجہ غیر قانونی نجکاری اور ملٹی نیشنل قواعد و ضوابط کا فقدان ہے۔
مطالعے میں کہا گیا ہے کہ ڈاکٹر محبوب الحق نے 1967 میں 22 خاندانوں کی پاکستان میں مالی اجارہ داری کی نشاندہی کی تھی،50سال بعد اسٹاک مارکیٹ کی زیادہ تر دولت 31 خاندانوں کی ملکیت ہے یا وہ انھیں کنٹرول کر تے ہیں۔
بورڈز آف ڈائریکٹر میں ایسے ہی افراد شامل ہوتے ہیں جیسے کارپوریٹ سیکٹر سے تعلق رکھنے والے، کاروباری خاندانوں کے افراد ، سول سروس اور فوج کے رٹائرڈ اور حاضر افسر۔
مطالعے کے مطابق بورڈ آف ڈائریکٹر میں شمولیت پاکستان کے ایلیٹ کلب کی رکنیت کے مترادف ہے۔اس مطالعے میں اس نظریے کو چیلنج کیا گیا ہے کہ اسٹاک مارکیٹ مضبوط معیشت کی عکاس ہے اور پاکستان کا متحرک مالیاتی شعبہ ہے۔
اس مطالعے میں بتایا گیا ہے کہ اسٹاک ایکسچینج میں رجسٹرڈ کمپنیوں کے ڈائریکٹروں کا رابطے کا نیٹ ورک موجود ہے جو باعث تشویش امر ہونا چاہیے۔