آزادی کا ’’ گیان ‘‘

ہفتے بھر کے دوران میرے گیان کی آزادی میں تین بڑے واقعات کا ذکر آج ضروری ہے۔

Warza10@hotmail.com

SYDNEY:
میں مطمئن ہوں کہ میری ذہنی آزادی کے گیان میں جہاں کارل مارکس کی فکر اور سو بھوگیان چندانی و کامریڈ امام علی نازش کی تربیت نے سوچ کے اُچار توانا کیے وہیں اسی فکر کو پانے کی تکمیل میں لیلی رضا سمیت میری بیٹیاں اور بلھڑیجی کی بیٹی ورثہ پیر زادو نے بھی میرے فکری گیان کی آزادی کو جلا بخشی اور آج بھی یہ سب سماج کی قدر میں اپنا باشعور حصہ ڈالنے میں مسلسل متحرک اور مضبوط ارادوں کے ساتھ کھڑی ہیں ، جس سے میرے شعور کی رو کے امکانات مسلسل روشن مستقبل کی جانب بڑھتے جارہے ہیں۔

ہفتے بھر کے دوران میرے گیان کی آزادی میں تین بڑے واقعات کا ذکر آج ضروری ہے ، جن میں عظیم فلسفی کارل مارکس ، سندھ سے کمیونسٹ پارٹی کے رکن دانشور سوبھو گیان چندانی اور قلم کی حرمت کی خاطر جان ، روزگار اور زندگی کو لاحق خطرات کے عذاب میں مبتلا وہ صحافی ہیں ، جن کے اظہار کی آزادی کے لیے عالمی یومِ صحافت ہر سال منایا جاتا ہے ، اس ہفتے کے دوران یہ تینوں ایسے واقعات ہیں جن کا شعوری و فکری گیان سمجھ کر ہی ہم انسان کی جینیاتی آزادی کے توانا اظہار کو سمجھ سکتے ہیں۔

کارل مارکس دنیا کے وہ عظیم سماجی سائنس دان اور سیاسی دانش ور ہیں جن کے غیر طبقاتی سماج قائم کرنے کے فلسفے کو تمام تر کوششوں سازشوں اور خود ساختہ مکروہ فریب پر مبنی ترقی کے باوجود عالمی سرمایہ دار دنیا شکست نہیں دے سکی ہے ، برطانیہ کے صحافی دانشور جان گرے نے مارکس کے افکار کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا کہ '' مارکس کے کمیونسٹ نظریات سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن سرمایہ دارانہ نظام سے متعلق وہ پیغمبرانہ حد تک صحیح تھا ، وہ نہ صرف سرمایہ دارانہ نظام میں مستقل طور پر پائے جانے والے عدم استحکام کو صحیح طور پر سمجھا تھا بلکہ وہ اِس نظام پر اپنے زمانے اور موجودہ دور کے معیشت دانوں کے مقابلے میں زیادہ گہری نظر رکھتا تھا۔''

سماجی اور سیاسی سائنس کی دانش میں آج بھی بیسویں صدی تک تمام تر ترقی کا دعویٰ کرنے والی سرمایہ دار دنیا ، محکوم طبقات کی بھوک و افلاس اور پسے ہوئے طبقات کی معاشی آزادی کا حل دینے سے اب تک قاصر ہے۔ آج بھی جرمنی کا یہ سپوت جس نے اپنے نظریے کے لیے شاہی تخت و تاج کو ٹھکرایا ، اپنی اولاد کی قربانی دینے میں اس کی جینی اس کی طاقت بنی ، مگر معاشی استحکام کے بعد جب مارکس پر کسمپرسی کے سائے منڈلائے اور اس کے بچے کی دوا دارو مشکل ہوگئی تو جینی نے مارکس سے ممتا بھرے لہجے میں کہا کہ '' مارکس یہ بچہ مر جائے گا '' مارکس کا فوری جواب تھا کہ '' جینی میں آنے والے اربہا بچوں کی زندگیوں کو محفوظ کرنے کا کام کر رہا ہوں۔

یہی وہ لمحہ تھا جب جینی مارکس کی قوت بن کر مارکس کے فلسفے کی ہم رکاب بنی اور مارکس نے مظلوم طبقات کی نجات کے ''کمیونسٹ فلسفے'' کو دنیا میں روشناس کروایا ، جس سے آج بھی جبر کی تمام سرمایہ دار قوتیں خوف زدہ ہیں اور دنیا کے عوام کو تقسیم در تقسیم کرنے کے شکستہ نظریے میں جدید ٹیکنالوجی کا انجکشن لگا کر بھی سماجی اور معاشی ترقی نہیں دے پا رہی ہیں ، دنیا کے پسے ہوئے طبقات میں غربت اور بھوک و پیاس سے اضطراب بڑھ رہا ہے جس میں ٹیکنالوجی عام فرد کی روٹی اور صحت دینے کے انتظام سے مسلسل قاصر ہے ، یہی سرمایہ دارانہ سماج کی وہ شکست و ریخت ہے جس کی نشاندہی کرتے ہوئے مارکس نے کہا تھا کہ '' فلسفیوں نے اب تک دنیا کی صرف تشریح کی ہے، مسئلہ دراصل دنیا کو تبدیل کرنے کا ہے۔''

اسی تبدیلی کے خواب نے لاڑکانہ کے قریب گاؤں بندی کے سو بھوگیان چندانی کو اپنی تعبیر کی حاصلات میں ہندوستان کی تقسیم پر بھی ملک چھوڑنے نہ دیا اور اس نے یہ موقع مارکسی سوچ و فکر سے رد کیا اور خود کو سندھ دھرتی کے پسماندہ اور محروم عوام سے جوڑے رکھا۔سوبھو کا جنم متحدہ ہندوستان کی کمیونسٹ پارٹی کے جنم سے پانچ برس پہلے مئی 1920 میں ہوا ، سوبھو کی ابتدائی تعلیم کے بعد جب اساتذہ کے کہنے پر سوبھو این جے وی اسکول میں داخل ہوئے تو وہ ہندوستان کے مسلم کش فسادات میں محروم طبقات کے تحفظ کی علامت قرار پائے اور ڈی جے کالج کے زمانہ طالب علمی میں برطانوی سامراج کی قید کا نشانہ بنے۔


جس نے سوبھو کے اندر انقلابی جذبات کی جوت جگائی اور وہ مارکس کے فلسفے سے ایسے نتھی ہوئے کہ آخری دم تک کمیونسٹ ہونے پر فاخر رہے ، سوبھو کے کمیونسٹ گیان کو وسیع کرنے میں رابندر ناتھ ٹیگور کے شانتی نکیتن کا اہم کردار رہا اور یہی وجہ رہی کہ وہ مارکس وادی سوچ کے وہ پختہ کار کمیونسٹ ہوگئے جو سب سے کم عمری میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کی پولٹ بیورو کے رکن بنے ، تقسیم کے بعد جب سب ساتھی ہندوستان سدھارے تو سوبھو نے سندھ کے محروم طبقات کی جدوجہد میں حصہ لینے کو ترجیح دی اور سندھ سے تیاگ نہ لیا۔

بلکہ پاکستان کی کمیونسٹ پارٹی میں سب سے پہلے بنیادی رکن بنے اور مارکسی آدرش کی تکمیل کے لیے پارٹی کے سنگ ہو لیے ، مارکس کے فلسفہ حیات کی تکمیل میں سوبھو نے پسے ہوئے طبقات کا ساتھ دینے کی غرض سے وکالت کی اور محروم طبقات کی سیاسی حمایت کے ساتھ بلا معاوضہ قانونی مدد بھی جاری رکھی۔

مجھے 1990 کی وہ شام اب تک یاد ہے جب میں سوبھو گیان چندانی کے بیٹے کنیوگیان کے فلیٹ واقع حسن اسکوائر میں ملنے گیا ، اس وقت سوبھو کے بیٹے کنیو گیان کے رجحانات کسی حد تک قوم پرستانہ شدت کے اثر میں تھے مگر سوبھو کمیونسٹ رجحانات پر تمام تر محبت کے باوجود اپنے بیٹے سے مصلحت کرنے پر تیار نہ تھے ، ایسی ہی دوسری ملاقات لاڑکانہ میں سوبھو گیان چندانی کے گھر پر ہوئی جب پارٹی کی جانب سے سوبھوکی خدمات مستعار لینے کی کوشش کی گئی ، جس پر سوبھو کا تاریخی جملہ مجھے آج تک یاد ہے کہ '' کمیونسٹ پارٹی میری تھی ، میری ہے اور میری رہے گی ، آپ کام کیجیے، میں پارٹی کے ہم قدم ہوں'' سوچتا ہوں کہ کمیونسٹ پٹاری میں مارکس وادی سوبھو گیان چندانی کی جب قربانیاں اور جدوجہد شامل ہے تو محروم طبقات کی آزادی کے '' گیان '' کو بھلا کیسے روکا جا سکتا ہے، سرخ سویرے کو محروم طبقات کی نجات کا مقدر بننے سے کیسے روکا جا سکتا ہے؟

صحافت کے میدان میں تمام تر رکاوٹوں اور پابندیوں کے باوجود کارل مارکس کو جرمن کا شاہی نظام نہ روک سکا ، مارکس کے اخبار پر پابندی لگی اس کے رسالے کو بند کیا گیا مگر مارکس نے صحافتی آزادی پر اس قہر و جبر کو نہ مانا تو اب بھلا کس طرح صحافت پر تھوپی جانے والی پابندیوں اور اظہار رائے کی بندشوں کو روکا جا سکتا ہے۔

آج بھی مارکس وادی صحافیوں فیض احمد فیض ، منہاج برنا ، نثار عثمانی ،آئی اے رحمان ، عبداللہ ملک ، صفدر میر ، حمید اختر ، ظہیر کاشمیری ، ابراہیم جلیس ، احمد علی خان ، احفاظ الرحمن اور عبدالحمید چھاپرا ایسے قلم و جدوجہد کے سفیروں کی قربانیاں ابھی زیادہ پرانی نہیں ہوئی ہیں ، سو کیسے اور کیونکر ان قد آور صحافیوں کے تسلسل اور قربانیوں کو برقرار رکھنے والی صحافت کسی بھی جبر سے اظہار رائے کی توقیر اور صحافت کو پابند سلاسل کرنے پر سمجھوتا کیوں کرے گی؟

آج کا صحافی کیوں کر اظہار رائے کی آزادی پر اپنے اسلاف کی قربانیوں کو بھولے گا ، گو ہر دور میں صحافت کے مقدس پیشے کو گدلا کرنے کی کوشش جاری رہیں ، آج بھی صحافت کو قید کی زنجیروں میں جکڑا جا رہا ہے ، مگر صحافیوں کے قتل ، اغوا ، دھمکیاں اور زخمی کیے جانے کا بہیمانہ سلوک اب دنیا سے پوشیدہ نہیں اور نہ یہاں کا صحافی یورپ کی اظہار رائے کی آزادی برقرار رکھنے کی تازہ قرارداد سے نا آشنا ہے۔

پاکستان کا صحافی جانتا ہے کہ جب مارکس کی فکری صحافت اور فلسفے کو سرمایہ اور طاقت نہ روک سکے تو پاکستانی صحافیوں میں ان کی آزادی کے گیان کو جبر سے روکنا ویسے بھی نا ممکن ہے ، کیونکہ اظہار رائے اور محکوم طبقات کی آزادی کے یہ دیوانے جانتے ہیں کہ سیاہ رات کے بعد کا سویرا ہی ان کا '' گیان'' ہے۔
Load Next Story