بھارت اور اسرائیل کی دشواریاں
بھارت میں بھی کورونا ویکسین کی تیاری کے حوالے سے بہت چرچا تھا لیکن کیا حالات انسان کے بس میں ہیں؟
اپریل کا مہینہ گزرگیا اورکورونا کی تیسری لہر کو شدت کے ساتھ لے کر ابھرا۔ کورونا کے ساتھ برطانوی وائرس کی یلغار نے اسے کچھ اور بھی خود سر بنا دیا یہ کس حد تک جا چکی ہے روزکی خبریں اور اعداد و شمار اسے ظاہر کر رہے ہیں۔
ایس او پیز پر زور دیا جا رہا ہے لیکن اس کے باوجود مسائل بڑھ رہے ہیں۔ غالباً اسرائیل وہ پہلا ملک تھا جس نے اپنے عوام کو ویکسین مکمل کروانے کا اعلان کیا تھا اس طرح وہ کورونا فری ملک بھی قرار دیا گیا تھا۔ پچھلے برس اسرائیل میں کورونا کے باعث لاک ڈاؤن اور اسی طرح کی سختیوں کو ناپسند کیا گیا تھا اور کیونکہ معاشی اعتبار سے وہ طاقتور ہے۔
لہٰذا انھوں نے یہ کارروائی کر ڈالی۔ اسی طرح بھارت میں بھی کورونا ویکسین کی تیاری کے حوالے سے بہت چرچا تھا لیکن کیا حالات انسان کے بس میں ہیں؟ کل کیا ہونے والا ہے بہت سی اسکیمیں، پالیسیز، سازشیں سب دھری کی دھری رہ جاتی ہیں کیونکہ سچ یہی ہے کہ انسان بالکل بے بس ہے کہ اس کے اختیار میں تو اپنی سانس بھی نہیں ہے۔
1949 میں تل ابیب میں پیدا ہونے والا نیتن یاہو بہ ظاہر ایک عام سا بچہ تھا لیکن 1963 میں جب اس کا خاندان امریکا منتقل ہوا تو اس کی شخصیت میں نکھار آتا گیا۔ اس نے بہترین لب و لہجے کے ساتھ انگریزی بولنا اور قائل کرنا سیکھ لیا، اٹھارہ برس کی عمر میں وہ اسرائیل واپس آیا اور اسرائیلی فوج میں خدمات انجام دیں۔ یہ وہی نیتن تھا جس نے 1968 میں بیروت ایئرپورٹ حملے کی کارروائی میں حصہ لیا اور 1973 میں مشرق وسطیٰ کی جنگ میں بھی شامل رہا۔ ان کارروائیوں سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ اپنی قوم سے مخلص تھا لیکن امریکا میں پرورش کے باعث اس کی شخصیت میں ایک نمایاں فرق آ چکا تھا۔
1976 میں نیتن کا بھائی جوناتھن یوگنڈا میں ایک آپریشن کے دوران ہلاک ہوا، جو ہائی جیک ہونے والے یرغمالیوں کو بچانے کی کوششیں کر رہا تھا اور یہاں سے اس کے خاندان کو شہرت ملنا شروع ہوئی، اس نے اپنے بھائی کے نام پر دہشت گردی کے خلاف ایک ادارہ بنایا اور 1982 میں اسرائیل کا ڈپٹی چیف آف مشن بنا، اس وقت تک وہ اپنے لوگوں میں خاصا مقبول ہو چکا تھا اور اسی مقبولیت کے باعث اس نے 1988 میں ملکی سیاست میں حصہ لیا اور انتخابات کے بعد پہلا اسرائیل کا وزیر اعظم بنا۔
2009 میں اس نے اپنے ایک انٹرویو میں فلسطین کی ریاست کے ساتھ اسرائیل کی موجودگی پر مشروط آمادگی ظاہر کی تھی لیکن گزرتے وقت نے اور کچھ اس کے ارد گرد کے لوگوں کے دباؤ نے اس کی سوچ کو بدل دیا یا مجبور کردیا کہ وہ اپنے کہے سے پیچھے ہٹ گیا اور 2019 میں اس نے صاف کہہ دیا کہ ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا۔ گو اس دوران اسرائیل کے دوسرے وزیر اعظم شیرون جو دنیا بھر میں ایک ناپسندیدہ شخصیت کے طور پر ابھرے تھے نیتن کو اس کے برخلاف دھیما محسوس کیا گیا تھا لیکن شدت پسندی کے بخار نے انھیں پیچھے کر دیا تھا لیکن شیرون کی بیماری کے باعث ایک بار پھر انھیں آگے آنے کا موقعہ ملا ۔
بات ہو رہی تھی کورونا کی یلغار کی، جس پر دعویٰ تھا اسرائیل کا وہ اس سے آزاد ہو چکا ہے، ربی شمعون کی مذہبی تقریبات پر اسرائیل کے ہیلتھ منسٹر کی جانب تنبیہ کی گئی تھی ، کیونکہ اس کی ویکسین کے باوجود دنیا بھر سے شواہد مل رہے ہیں اورکہا گیا تھا کہ پانچ سو سے زائد لوگوں کو ایک ساتھ جمع نہیں ہونا چاہیے لیکن پچھلے برس لوگوں نے کورونا کے باعث اس مذہبی تقریب کو اس طرح نہیں منایا تھا کہ جس طرح وہ ہر سال کرتے تھے لہٰذا اس سال کورونا فری کے باعث جہاں بہت سی پابندیوں کو اٹھا لیا گیا ، وہیں اس تقریب پر بھی عوام میں خاصا جوش و خروش تھا۔
ماؤنٹ میرون پر ہر سال کی طرح اس سال بھی کچھ زیادہ ہی رش تھا۔ ایک اندازے کے مطابق وہاں تقریباً ایک لاکھ عوام موجود تھے تب یہ حادثہ پیش آیا، مختلف باتیں سامنے آ رہی ہیں۔ کچھ کا کہنا ہے کہ ایک تنگ راہداری سے زیادہ لوگ گزرنے کے باعث کچھ لوگ پھسلے اور یوں ایک ہڑبونگ مچ گئی۔
کچھ کے مطابق اسٹیڈیم کے ایک حصے کے گرنے کے باعث لوگ ایک دوسرے پر گر پڑے اور یوں انسانی جانوں کا ضیاع ہوا جب کہ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ جیسے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ انسانی وجود فضا میں اچھل رہے ہیں، عالمی وبا کے اس گمبھیر ماحول میں حد سے زیادہ رش کے باعث ایس او پیز کی پیروی کو بالکل نظر انداز کردیا گیا۔ وہیں سیاسی لحاظ سے کچھ غیر مستحکم ہوتے نیتن یاہو نے آڑتھو ڈس کے رہنماؤں کو اس مذہبی تقریب کے منعقد کروانے کی مکمل یقین دہانی کروائی تھی اور اب ان کی یہ فراخ دلی ان کے گلے ہی پڑ گئی ہے ، جس کے نتیجے میں 45 سے زیادہ اموات اور ڈیڑھ سو سے زائد افراد زخمی ہوئے ہیں۔
یہ ایک بڑی عجیب سی صورتحال ہے کہ اسرائیل میں کورونا کے باعث تو نہیں البتہ مذہبی تقریب میں اس حادثے کے باعث اتنی انسانی جانیں گئیں اور زخمی ہوئیں۔ یہ اسرائیل کی تاریخ کا بڑا حادثہ ہے اب وہ اسے دکھ کے حوالے سے یاد رکھیں یا منائیں لیکن ایسا ہونا تھا اور ہوکر رہا۔ نیتن یاہو جو پہلے ہی اسرائیلی میڈیا کی نظروں میں کھٹک رہے تھے اب کیا کرتے ہیں اس حادثے کا الزام وہ کس کے سر تھوپیں گے؟
ادھر بھارت میں کنبھ کے میلے کے اجرا سے پہلے صدائیں ابھر رہی تھیں کہ کیا یہ میلہ اور اتنے سارے لوگوں کی شرکت ممکن ہوسکے گی لیکن بہت سے شدت پسند ہندو کورونا کے تیروں کو نظرانداز کرتے اپنی مذہبی رسومات کی ادائیگی کو ترجیح دے رہے تھے حالانکہ بہت سے ترقی پسند اور پڑھے لکھے لوگ اس میلے کے خلاف تھے۔
جہاں ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں لوگ جمع ہوکر ایک ساتھ دریائے گنگا میں نہاتے ہیں۔ اس سے پہلے بھارت میں مولانا سعد کی تبلیغی جماعت کے افراد پر انگلیاں اٹھ رہی تھیں یہ کوئی سالوں پہلے کی بات نہیں ہے ابھی پچھلے برس ہی جب مولانا سعد جو بھارت کی تبلیغی جماعت کا سرکردہ نام ہے ان کی گرفتاری کے لیے جگہ جگہ چھاپے مارے جا رہے تھے اور کہا جا رہا تھا کہ ان کی جماعت کے ارکان کورونا کی منتقلی کا باعث ہیں۔ بھارتی میڈیا ان پر چلا رہا تھا اور پھر کنبھ کے میلے پر باتیں سرگوشیاں بن کر رنگ برنگی سرکار میں اڑ گئیں، تب ہی رپورٹ آئی کہ پہلے ساڑھے چار سو اور پھر سترہ سو اور اب یہ اعداد و شمار بھارت میں کورونا کی بدترین صورتحال کے ساتھ دنیا بھر میں گونج رہے ہیں ۔
ایس او پیز کی پیروی کریں اس طرح جیسے ہمارے مذہب میں حکم ہے کہ ہم اس مذہب سے تعلق رکھتے ہیں جہاں میرے آقاؐ نے پانی پینے کی سنت سے لے کر کھانا کھانے، آرام کرنے اور دیگر زندگی کے امور میں عملی طور پر کرکے دکھا دیا کہ اسے اختیار کرو اور اسے چھوڑ دو۔ آج سائنسدان ان پر تجربات کر کے سمجھ رہے ہیں کہ کھانے میں (مایع) مکھی گر جائے تو اسے پورا ڈبو کرکیوں نکالو کہ مکھی کے ایک پر میں زہر ہے تو دوسرے میں تریاق۔ کہ اس طرح کی کئی دانشوری سے بھرپور عملیات ہمارے آقاؐ کی سنت کا حصہ ہیں جس کا تعلق اس پوری کائنات سے ہے سیاست سے نہیں اور دنیا کے فیصلے سربراہان مملکت نہیں رب العزت کرتے ہیں۔
ایس او پیز پر زور دیا جا رہا ہے لیکن اس کے باوجود مسائل بڑھ رہے ہیں۔ غالباً اسرائیل وہ پہلا ملک تھا جس نے اپنے عوام کو ویکسین مکمل کروانے کا اعلان کیا تھا اس طرح وہ کورونا فری ملک بھی قرار دیا گیا تھا۔ پچھلے برس اسرائیل میں کورونا کے باعث لاک ڈاؤن اور اسی طرح کی سختیوں کو ناپسند کیا گیا تھا اور کیونکہ معاشی اعتبار سے وہ طاقتور ہے۔
لہٰذا انھوں نے یہ کارروائی کر ڈالی۔ اسی طرح بھارت میں بھی کورونا ویکسین کی تیاری کے حوالے سے بہت چرچا تھا لیکن کیا حالات انسان کے بس میں ہیں؟ کل کیا ہونے والا ہے بہت سی اسکیمیں، پالیسیز، سازشیں سب دھری کی دھری رہ جاتی ہیں کیونکہ سچ یہی ہے کہ انسان بالکل بے بس ہے کہ اس کے اختیار میں تو اپنی سانس بھی نہیں ہے۔
1949 میں تل ابیب میں پیدا ہونے والا نیتن یاہو بہ ظاہر ایک عام سا بچہ تھا لیکن 1963 میں جب اس کا خاندان امریکا منتقل ہوا تو اس کی شخصیت میں نکھار آتا گیا۔ اس نے بہترین لب و لہجے کے ساتھ انگریزی بولنا اور قائل کرنا سیکھ لیا، اٹھارہ برس کی عمر میں وہ اسرائیل واپس آیا اور اسرائیلی فوج میں خدمات انجام دیں۔ یہ وہی نیتن تھا جس نے 1968 میں بیروت ایئرپورٹ حملے کی کارروائی میں حصہ لیا اور 1973 میں مشرق وسطیٰ کی جنگ میں بھی شامل رہا۔ ان کارروائیوں سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ اپنی قوم سے مخلص تھا لیکن امریکا میں پرورش کے باعث اس کی شخصیت میں ایک نمایاں فرق آ چکا تھا۔
1976 میں نیتن کا بھائی جوناتھن یوگنڈا میں ایک آپریشن کے دوران ہلاک ہوا، جو ہائی جیک ہونے والے یرغمالیوں کو بچانے کی کوششیں کر رہا تھا اور یہاں سے اس کے خاندان کو شہرت ملنا شروع ہوئی، اس نے اپنے بھائی کے نام پر دہشت گردی کے خلاف ایک ادارہ بنایا اور 1982 میں اسرائیل کا ڈپٹی چیف آف مشن بنا، اس وقت تک وہ اپنے لوگوں میں خاصا مقبول ہو چکا تھا اور اسی مقبولیت کے باعث اس نے 1988 میں ملکی سیاست میں حصہ لیا اور انتخابات کے بعد پہلا اسرائیل کا وزیر اعظم بنا۔
2009 میں اس نے اپنے ایک انٹرویو میں فلسطین کی ریاست کے ساتھ اسرائیل کی موجودگی پر مشروط آمادگی ظاہر کی تھی لیکن گزرتے وقت نے اور کچھ اس کے ارد گرد کے لوگوں کے دباؤ نے اس کی سوچ کو بدل دیا یا مجبور کردیا کہ وہ اپنے کہے سے پیچھے ہٹ گیا اور 2019 میں اس نے صاف کہہ دیا کہ ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا۔ گو اس دوران اسرائیل کے دوسرے وزیر اعظم شیرون جو دنیا بھر میں ایک ناپسندیدہ شخصیت کے طور پر ابھرے تھے نیتن کو اس کے برخلاف دھیما محسوس کیا گیا تھا لیکن شدت پسندی کے بخار نے انھیں پیچھے کر دیا تھا لیکن شیرون کی بیماری کے باعث ایک بار پھر انھیں آگے آنے کا موقعہ ملا ۔
بات ہو رہی تھی کورونا کی یلغار کی، جس پر دعویٰ تھا اسرائیل کا وہ اس سے آزاد ہو چکا ہے، ربی شمعون کی مذہبی تقریبات پر اسرائیل کے ہیلتھ منسٹر کی جانب تنبیہ کی گئی تھی ، کیونکہ اس کی ویکسین کے باوجود دنیا بھر سے شواہد مل رہے ہیں اورکہا گیا تھا کہ پانچ سو سے زائد لوگوں کو ایک ساتھ جمع نہیں ہونا چاہیے لیکن پچھلے برس لوگوں نے کورونا کے باعث اس مذہبی تقریب کو اس طرح نہیں منایا تھا کہ جس طرح وہ ہر سال کرتے تھے لہٰذا اس سال کورونا فری کے باعث جہاں بہت سی پابندیوں کو اٹھا لیا گیا ، وہیں اس تقریب پر بھی عوام میں خاصا جوش و خروش تھا۔
ماؤنٹ میرون پر ہر سال کی طرح اس سال بھی کچھ زیادہ ہی رش تھا۔ ایک اندازے کے مطابق وہاں تقریباً ایک لاکھ عوام موجود تھے تب یہ حادثہ پیش آیا، مختلف باتیں سامنے آ رہی ہیں۔ کچھ کا کہنا ہے کہ ایک تنگ راہداری سے زیادہ لوگ گزرنے کے باعث کچھ لوگ پھسلے اور یوں ایک ہڑبونگ مچ گئی۔
کچھ کے مطابق اسٹیڈیم کے ایک حصے کے گرنے کے باعث لوگ ایک دوسرے پر گر پڑے اور یوں انسانی جانوں کا ضیاع ہوا جب کہ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ جیسے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ انسانی وجود فضا میں اچھل رہے ہیں، عالمی وبا کے اس گمبھیر ماحول میں حد سے زیادہ رش کے باعث ایس او پیز کی پیروی کو بالکل نظر انداز کردیا گیا۔ وہیں سیاسی لحاظ سے کچھ غیر مستحکم ہوتے نیتن یاہو نے آڑتھو ڈس کے رہنماؤں کو اس مذہبی تقریب کے منعقد کروانے کی مکمل یقین دہانی کروائی تھی اور اب ان کی یہ فراخ دلی ان کے گلے ہی پڑ گئی ہے ، جس کے نتیجے میں 45 سے زیادہ اموات اور ڈیڑھ سو سے زائد افراد زخمی ہوئے ہیں۔
یہ ایک بڑی عجیب سی صورتحال ہے کہ اسرائیل میں کورونا کے باعث تو نہیں البتہ مذہبی تقریب میں اس حادثے کے باعث اتنی انسانی جانیں گئیں اور زخمی ہوئیں۔ یہ اسرائیل کی تاریخ کا بڑا حادثہ ہے اب وہ اسے دکھ کے حوالے سے یاد رکھیں یا منائیں لیکن ایسا ہونا تھا اور ہوکر رہا۔ نیتن یاہو جو پہلے ہی اسرائیلی میڈیا کی نظروں میں کھٹک رہے تھے اب کیا کرتے ہیں اس حادثے کا الزام وہ کس کے سر تھوپیں گے؟
ادھر بھارت میں کنبھ کے میلے کے اجرا سے پہلے صدائیں ابھر رہی تھیں کہ کیا یہ میلہ اور اتنے سارے لوگوں کی شرکت ممکن ہوسکے گی لیکن بہت سے شدت پسند ہندو کورونا کے تیروں کو نظرانداز کرتے اپنی مذہبی رسومات کی ادائیگی کو ترجیح دے رہے تھے حالانکہ بہت سے ترقی پسند اور پڑھے لکھے لوگ اس میلے کے خلاف تھے۔
جہاں ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں لوگ جمع ہوکر ایک ساتھ دریائے گنگا میں نہاتے ہیں۔ اس سے پہلے بھارت میں مولانا سعد کی تبلیغی جماعت کے افراد پر انگلیاں اٹھ رہی تھیں یہ کوئی سالوں پہلے کی بات نہیں ہے ابھی پچھلے برس ہی جب مولانا سعد جو بھارت کی تبلیغی جماعت کا سرکردہ نام ہے ان کی گرفتاری کے لیے جگہ جگہ چھاپے مارے جا رہے تھے اور کہا جا رہا تھا کہ ان کی جماعت کے ارکان کورونا کی منتقلی کا باعث ہیں۔ بھارتی میڈیا ان پر چلا رہا تھا اور پھر کنبھ کے میلے پر باتیں سرگوشیاں بن کر رنگ برنگی سرکار میں اڑ گئیں، تب ہی رپورٹ آئی کہ پہلے ساڑھے چار سو اور پھر سترہ سو اور اب یہ اعداد و شمار بھارت میں کورونا کی بدترین صورتحال کے ساتھ دنیا بھر میں گونج رہے ہیں ۔
ایس او پیز کی پیروی کریں اس طرح جیسے ہمارے مذہب میں حکم ہے کہ ہم اس مذہب سے تعلق رکھتے ہیں جہاں میرے آقاؐ نے پانی پینے کی سنت سے لے کر کھانا کھانے، آرام کرنے اور دیگر زندگی کے امور میں عملی طور پر کرکے دکھا دیا کہ اسے اختیار کرو اور اسے چھوڑ دو۔ آج سائنسدان ان پر تجربات کر کے سمجھ رہے ہیں کہ کھانے میں (مایع) مکھی گر جائے تو اسے پورا ڈبو کرکیوں نکالو کہ مکھی کے ایک پر میں زہر ہے تو دوسرے میں تریاق۔ کہ اس طرح کی کئی دانشوری سے بھرپور عملیات ہمارے آقاؐ کی سنت کا حصہ ہیں جس کا تعلق اس پوری کائنات سے ہے سیاست سے نہیں اور دنیا کے فیصلے سربراہان مملکت نہیں رب العزت کرتے ہیں۔