فوجی کے لئے کوئی دعا نہیں
سب سے بدترین حصہ یہ تھا کہ ہماری آدھی قوم نے اس کو ہمار ے اپنے لوگوں کے خلاف جنگ قرار دے دیا۔
جب پاکستانی فوج نے ملک کے قبائلی علاقوں میں شورش کو کچلنے کے لیے بڑے پیمانے پر آپریشن شروع کیا تو اسے بہت بڑے نقصان کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ بنیادی طور پر آرمی گویلا جنگ لڑنے کرنے کے لئے صحیح تربیت یافتہ اور ہتھیاروں سے لیس نہیں تھی۔
سب سے بدترین حصہ یہ تھا کہ ہماری آدھی قوم نے اس کو ہمار ے اپنے لوگوں کے خلاف جنگ قرار دے دیا۔
وزیرستان میں جان دینے والے افسران اور سپاہیوں کے اہلخانہ کو بھی اس وقت ایک بڑے صدمے کا سامنا کرنا پڑا جب ان کے اپنے ہی ہم وطنوں نے ان جوانوں کی شہادت پر شک کا اظہار کیا۔ ان کے نزدیک ان سپاہیوں نے امریکا کی جنگ میں دوسرے مسلمانوں کے ساتھ لڑائی میں اپنی جانیں قربان کیں۔
اس ذہنیت کو تبدیل کرنے میں 12 سال لگ گئے اور کچھ لوگوں کے لئے اِس کا مطلب اپنی پوری جوانی کو اُس مقصد کے لئے قربان کرنا ہے جس کے لیے لوگ ، جن کے لیے انہوں نے اپنی زندگیاں خطرے میں ڈال دیں، نےانہیں کبھی کوئی کریڈٹ نہیں دیا ۔
یہ دکھ کی بات ہے لیکن ایک سپاہی کا کام لڑنا ہے، کوئی سوال پوچھنا نہیں ۔
بدقسمتی سے شہید ہونے اور نہ ہونے کی بحث ایک بار پھر شروع ہوگئی ہے۔ قوم نے پورا ڈرامہ دیکھا کہ طاقتور افراد نے ایک مذہبی جماعت کے رہنما کی جانب سے پیش کردہ تحریک کے لیے اور اس کے خلاف بحث کی۔ان شہید سپاہیوں کے رشتے داروں نے قومی ٹیلی وژن پر آکر اس رہنما کی شدید مذمت کی۔
لیکن ہم اس سارے شور میں اس سپاہی کے بارے میں بھول جاتے ہیں جو پہاڑ کی چوٹیوں پر طوفان، سردی اور گرمی میں ڈٹ کر نگرانی کرتا ہے، کبھی نہیں جھجکتا، نہ کبھی پیچھے ہٹتا ہے اور دشمنوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنی جگہ کھڑا رہتا ہے۔
تو آج میں نے اس کے لئے نہیں بلکہ اس کے بارے میں کچھ لکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ میری ایک کوشش ہے کہ تمام قارئین اس بات کا احساس کریں کہ اگر ایک موقع دیا جائے تو ایک سپاہی کے جذبات یہ ہوں گے۔
میری زندگی بھر کی کوششیں رائیگاں ہیں
میں غم میں ہوں، میرا دل درد میں ہے
میری طاقت میں نے کھودی، میرا سر شرم سے جھکا ہوا ہے
میرا ذہن دھندلا گیا ہے، میں یہ کھیل ہار گیا ہوں
لیکن چلیں ہم اس جہنم کے درمیان دیکھتے ہیں
میرے زخم کیا کہانی بیان کرتے ہیں
میں آج مرجاؤں گا، میرے لئے گھنٹیاں بج رہی ہیں
لیکن بلآخرمیری موت اس جادو کو توڑ دے گی
ساٹھ سال تک میں آپ کے ساتھ چلا
آپ کے ساتھ رہا، آپ کے لئے میں مرا
جلتے ہوئے ریگستانوں میں، سردترین پہاڑوں پر
ہر محاز پر میں آپ کے لئے لڑا
1948 میں کشمیر یاد ہے
جہاں میں اس آخری دن تک لڑا تھا
1965میں لاہور جل رہا تھا
اور ہم شانہ بشانہ لڑے تھے
لیکن پھر1971کا سانحہ پیش آیا
جہاں ہم 5 ایک نہیں ہوسکے
دشمن ہنسا اور شو سے لطف اندز ہوا
ایک خونی ضرب میں ہم نے اپنے بھائیوں کو کھو دیا
ایک بار پھر کارگل میں آپ نے خون کے لئے کہا
ہم نے اتنا بہایا کہ وہ سیلاب بن گیا
آج میں وزیرستان میں لڑرہا ہوں
کیا یہ بھی پاکستان کا ایک حصہ نہیں ہے؟
جنگ میں مجھے آپ کی دعائیں نہیں ملتی ہیں
میں دلبرداشتہ ہو گیا جب میں آیا اور دیکھا
آپ ہنسے اور تالیاں بجائیں جب میری صفیں گریں
آپ وہ دن دیکھنا چاہتے ہیں جب میں سیدھا کھڑا نہیں رہوں گا
وہ ایک بار پھر ہمارے زخموں کو تازہ کرنا چاہتے ہیں
وہ ایک بار پھر ہمارے درد کو تازہ کرنا چاہتے ہیں
وہ ایک بار پھر ہمارے غم کو تازہ کرنا چاہتے ہیں
وہ ایک بار پھر ہماری تذلیل کرنا چاہتے ہیں
لیکن میں ایسا دوبارہ نہیں ہونے دوں گا
میں لڑتے ہوئے گر جاؤں لیکن پھر کھڑا ہوجاؤں گا
فرض نے ایک بار پھر مجھے پکارا ہے
میں ایک سپاہی ہوں میں ایک بار پھر جواب دوں گا
میں نے اپنی قوم کو مجھے چھوڑتے ہوئے دیکھا ہے
لیکن اس کے لئے اور اس ملک کے لئے میں دوبارہ کھڑا ہوا
میں وقار کے ساتھ اپنی مادر وطن کا دفاع کروں گا
اور میں صرف آپ کی دعائیں چاہتا ہوں
جاؤ مجھے چوڑ دو اگر یہی تم چاہتے ہو
میں پھر اعزاز کے ساتھ لڑتے ہوئے مر جاؤں گا
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
سب سے بدترین حصہ یہ تھا کہ ہماری آدھی قوم نے اس کو ہمار ے اپنے لوگوں کے خلاف جنگ قرار دے دیا۔
وزیرستان میں جان دینے والے افسران اور سپاہیوں کے اہلخانہ کو بھی اس وقت ایک بڑے صدمے کا سامنا کرنا پڑا جب ان کے اپنے ہی ہم وطنوں نے ان جوانوں کی شہادت پر شک کا اظہار کیا۔ ان کے نزدیک ان سپاہیوں نے امریکا کی جنگ میں دوسرے مسلمانوں کے ساتھ لڑائی میں اپنی جانیں قربان کیں۔
اس ذہنیت کو تبدیل کرنے میں 12 سال لگ گئے اور کچھ لوگوں کے لئے اِس کا مطلب اپنی پوری جوانی کو اُس مقصد کے لئے قربان کرنا ہے جس کے لیے لوگ ، جن کے لیے انہوں نے اپنی زندگیاں خطرے میں ڈال دیں، نےانہیں کبھی کوئی کریڈٹ نہیں دیا ۔
یہ دکھ کی بات ہے لیکن ایک سپاہی کا کام لڑنا ہے، کوئی سوال پوچھنا نہیں ۔
بدقسمتی سے شہید ہونے اور نہ ہونے کی بحث ایک بار پھر شروع ہوگئی ہے۔ قوم نے پورا ڈرامہ دیکھا کہ طاقتور افراد نے ایک مذہبی جماعت کے رہنما کی جانب سے پیش کردہ تحریک کے لیے اور اس کے خلاف بحث کی۔ان شہید سپاہیوں کے رشتے داروں نے قومی ٹیلی وژن پر آکر اس رہنما کی شدید مذمت کی۔
لیکن ہم اس سارے شور میں اس سپاہی کے بارے میں بھول جاتے ہیں جو پہاڑ کی چوٹیوں پر طوفان، سردی اور گرمی میں ڈٹ کر نگرانی کرتا ہے، کبھی نہیں جھجکتا، نہ کبھی پیچھے ہٹتا ہے اور دشمنوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنی جگہ کھڑا رہتا ہے۔
تو آج میں نے اس کے لئے نہیں بلکہ اس کے بارے میں کچھ لکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ میری ایک کوشش ہے کہ تمام قارئین اس بات کا احساس کریں کہ اگر ایک موقع دیا جائے تو ایک سپاہی کے جذبات یہ ہوں گے۔
میری زندگی بھر کی کوششیں رائیگاں ہیں
میں غم میں ہوں، میرا دل درد میں ہے
میری طاقت میں نے کھودی، میرا سر شرم سے جھکا ہوا ہے
میرا ذہن دھندلا گیا ہے، میں یہ کھیل ہار گیا ہوں
لیکن چلیں ہم اس جہنم کے درمیان دیکھتے ہیں
میرے زخم کیا کہانی بیان کرتے ہیں
میں آج مرجاؤں گا، میرے لئے گھنٹیاں بج رہی ہیں
لیکن بلآخرمیری موت اس جادو کو توڑ دے گی
ساٹھ سال تک میں آپ کے ساتھ چلا
آپ کے ساتھ رہا، آپ کے لئے میں مرا
جلتے ہوئے ریگستانوں میں، سردترین پہاڑوں پر
ہر محاز پر میں آپ کے لئے لڑا
1948 میں کشمیر یاد ہے
جہاں میں اس آخری دن تک لڑا تھا
1965میں لاہور جل رہا تھا
اور ہم شانہ بشانہ لڑے تھے
لیکن پھر1971کا سانحہ پیش آیا
جہاں ہم 5 ایک نہیں ہوسکے
دشمن ہنسا اور شو سے لطف اندز ہوا
ایک خونی ضرب میں ہم نے اپنے بھائیوں کو کھو دیا
ایک بار پھر کارگل میں آپ نے خون کے لئے کہا
ہم نے اتنا بہایا کہ وہ سیلاب بن گیا
آج میں وزیرستان میں لڑرہا ہوں
کیا یہ بھی پاکستان کا ایک حصہ نہیں ہے؟
جنگ میں مجھے آپ کی دعائیں نہیں ملتی ہیں
میں دلبرداشتہ ہو گیا جب میں آیا اور دیکھا
آپ ہنسے اور تالیاں بجائیں جب میری صفیں گریں
آپ وہ دن دیکھنا چاہتے ہیں جب میں سیدھا کھڑا نہیں رہوں گا
وہ ایک بار پھر ہمارے زخموں کو تازہ کرنا چاہتے ہیں
وہ ایک بار پھر ہمارے درد کو تازہ کرنا چاہتے ہیں
وہ ایک بار پھر ہمارے غم کو تازہ کرنا چاہتے ہیں
وہ ایک بار پھر ہماری تذلیل کرنا چاہتے ہیں
لیکن میں ایسا دوبارہ نہیں ہونے دوں گا
میں لڑتے ہوئے گر جاؤں لیکن پھر کھڑا ہوجاؤں گا
فرض نے ایک بار پھر مجھے پکارا ہے
میں ایک سپاہی ہوں میں ایک بار پھر جواب دوں گا
میں نے اپنی قوم کو مجھے چھوڑتے ہوئے دیکھا ہے
لیکن اس کے لئے اور اس ملک کے لئے میں دوبارہ کھڑا ہوا
میں وقار کے ساتھ اپنی مادر وطن کا دفاع کروں گا
اور میں صرف آپ کی دعائیں چاہتا ہوں
جاؤ مجھے چوڑ دو اگر یہی تم چاہتے ہو
میں پھر اعزاز کے ساتھ لڑتے ہوئے مر جاؤں گا
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔