فیروز خان نون اور وقارء النساء نون

گوادر کے حصول کی قانونی اور سفارتی جنگ لڑنے والی شخصیات کی خدمات کا قصہ

پاکستان کے ساتویں وزیر اعظم فیروزخان نون کے 128 ویں یوم پیدائش پر خصوصی تحریر

KARACHI:
14 اگست 1947 ء کو پاکستان کے قیام اور آزادی پر پاکستان کے پہلے گورنر جنرل قائد اعظم محمد علی جناح اور پہلے وزیر اعظم نوابزادہ لیاقت علی خان تھے۔

قائد اعظم تو اب تک کی برصغیر کی تاریخ میں یکتا و بے مثل لیڈر ہیں، مگر لیاقت علی بھی کم نہ تھے، علی گڑھ سے بی ایس سی اور آکسفورڈ یونیورسٹی سے ایل ایل بی تھے، ریاست کرنال کے نوابزادہ تھے جب اُن کو 16 اکتوبر 1951 ء کو راولپنڈی میں شہید کیا گیا تو اُن کی جیب میں پچیس روپے اور تقریباً 125 روپے کا بینک بیلنس تھا آج خود امریکہ سے یہ ثبوت سامنے آگئے ہیں کہ لیاقت علی خان کو اس لیے شہید کیا گیا تھا کہ وہ پاکستان میں امریکہ کو روس کے خلاف کوئی فوجی اڈہ دینے کے خلاف تھے۔

اُنہوں اپنے امریکہ کے دور ے پر امریکی صدر کو اس مطالبے پر بہت تلخ جواب دیا تھا اور کہا تھا کہ پاکستان نے بھارت سے آدھا کشمیر امریکی امداد کے بغیر آزاد کر وایا تھا ۔ قائداعظم کی وفات کے بعد مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے جاگیردار گھرانے کے فرزند اور مسلم لیگ کے اہم رہنما خواجہ ناظم الدین جو قائد اعظم کے بعد ملک کے دوسرے جمہوری گورنر جنرل تھے اور پھر نہایت مکاری سے سے بیوروکریٹ غلام محمد نے اُن کو وزیراعظم بننے اور خود کو گورنر جنرل بنانے کی تجویز دے کر اُن کو 16 اکتوبر 1951 ء میں وزیر اعظم منتخب کروا کر خود گورنر جنرل بن گئے اور پھر ملک غلام محمد نے اُن کو 17 اپریل 1953 ء کو وزارت اعظمیٰ سے فارغ کر دیا۔

خواجہ ناظم الدین بھی لیاقت علی خان ، محمد علی بوگرا ، چوہدری محمد علی ، حسین شہید سہروردی، اسماعیل ابراہیم چندریگر اور فیروز خان نون کی طرح تحریک پاکستان میں قائداعظم کے ساتھی تھے۔ خواجہ ناظم الدین کے بعد تیسرے وزیراعظم محمد علی بوگرا تھے جن کا تعلق مشرقی پاکستا ن کے صاحب ِ حیثیت گھرانے سے تھا، محمد علی بو گرا 1953 ء سے1955 ء دو سال 3 مہینے 26 دن وزیر اعظم رہے ، لیکن یہ پہلے جمہوری دور کے واحد وزیر اعظم تھے جو ایوبی دورِ حکومت میں 1962 ء سے 23 جنوری1963 ء اپنی موت تک وزیر خارجہ بھی رہے۔

وہ یونیورسٹی آف کلکتہ سے بی ایس سی پو لیٹکل سائنس تھے، چوتھے وزیرِاعظم چوہدری محمد علی 12 اگست 1955 ء 12 ستمبر 1956 ء تک وزیراعظم رہے یہ جالندھر میں پیدا ہو ئے، پنجاب یو نیورسٹی سے بی ایس سی ،ایم ایس سی پو لیٹکل سائنس تھے اور سول سرونٹ رہے تھے، اِن کے بعد مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے رہنما حسین شہید سہروردی پاکستان کے پانچویں وزیراعظم ہوئے، وہ 12 ستمبر 1956 سے 17 اکتوبر1957 ء تک ایک سال ایک مہینہ پانچ دن وزیراعظم رہے ، پھر ملک کے چھٹے وزیراعظم اسماعیل ابراہیم چندریگر صرف 55 دن وزیر اعظم رہے اور ساتویں وزیراعظم فیروز خان نون 16 دسمبر1957 ء سے 7 اکتوبر 1958 تک صرف نو مہینے 21 دن وزیراعظم رہے ۔

فیروز خان نون، برطانوی ہند کے اُس وقت کے ڈسٹرکٹ خوشاب میں 7 مئی 1893 ء کو پیدا ہوئے، اُن کا خاندان اپنی دولت اور علم وفضل اور نیک نامی کے سبب پورے پنجاب میں مشہور تھا۔ اُن کے آباؤ اجداد بھٹی راجپوت تھے، جنہوں نے اسلام قبول کیا تھا۔ مقامی سطح پر اسکول کی تعلیم مکمل کر نے کے بعد اور 1912 ء میں برطانیہ جانے سے قبل وہ لاہور کے ایچیسن Aitchison کالج میں زیر تعلیم رہے، انڈین آفس نے برطانیہ میں اُن کی رہائش کے انتظامات برطانیہ کے Ticknall, South Derbyshire کے علاقے میں مشہور لارڈ زخاندان کے ہاںکئے تھے۔ لارڈ Thomas Brwick Lloyd Baker جن کا انتقال 1886 ء میں ہوا تھا ، برطانیہ کے اہم ماہر تعلیم سماجی اصلاح کار تھے۔

اُن کے دو بیٹے گران ویل ایڈن لارڈ باکراور ہنری لارڈ باکر تھے ۔ فیروز خان نون لادڑ فیملی کے ہاں ایک سال تک ٹھہرے ، پہلے اُنہوں نے آکسفورڈ یونیورسٹی میں داخلے کے لیے درخواست دی تو Balliol College باللیول کالج نے داخلہ نہیں دیا پھر Wadham College واڈہیم کالج نے داخلہ دے دیا ، اس ایک سال کے اندر فیروز نون کے اس خاندان کے ساتھ بہت قریبی مراسم ہو گئے اور اِن ہی کے توسط سے برطانیہ کے دیگر لارڈ خاندانوں سے بھی اُن کے روابط اور تعلقات بنے اور وقت کے ساتھ ساتھ یہ تعلقات گہرے ہوتے گئے ۔



فیروز آکسفور ڈ جانے سے قبل بھی وہاں فٹبال اور ہاکی کے اچھے کھلاڑی کے طور پر متعارف ہو چکے تھے اور پھر واڈہیم کالج میں 1916 ء میں ہسٹری اور فارسی میں گریجویشن کرنے تک وہ اپنے کالج کی فٹ بال ٹیم کے ایک اچھے کھلاڑی رہے اور Isis Club کی جانب سے بھی فٹبال کھیلتے رہے ، اس دوران جب وہ برطانیہ میں زیرتعلیم تھے وہ امریکہ کی یو نیورسٹیوں میں اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکہ بھی گئے اور کوششیں کیں مگر واپس آکسفورڈ آگئے۔ وہ کالج کی تعلیم کے دوران اپنی پُرکشش شخصیت کی وجہ سے انگریزاور ہندوستانیوں طالب علموں میں اپنا خاض اثرو رسوخ پیدا کر چکے تھے۔

اُن کے والد کی ہدایت کہ وہ بر طانوی کلچر کو اچھی طرح سمجھیں اس لیے وہ عموماً اعلیٰ سطحی تقریبات میں ضرور شرکت کیا کر تے تھے جہاں انگریزی ثقافت، تہذیب اور ادب کو سمجھنے کے مواقع میسر ہو تے تھے۔ یوں فیروز نون اپنی تعلیم کے دوران برطانیہ میں اعلیٰ طبقے میں اپنے دیگر ہم عصر ہندوستانیوںکے مقابلے میںکافی گہرے مراسم بنا چکے تھے پھر جب وہ 1916 ء میں بیرسٹر ان لا یعنی قانون کی ڈگری کے لیے لندن آئے تو یہاں بھی اِن مراسم میں اضافہ ہوا، واضح رہے کہ اِن لارڈ اور اہم شخصیات کی اکثریت آنے والے دنوں میں برطانیہ میں ہاوس آف لارڈز اور ہاوس آف کامن کی رکن رہی اور اقتدار میں وزارتوں پر فا ئز رہی۔

جب فیروز خان نون 1917 ء میں وہ واپس ہندوستان آئے تو ابھی 1914 ء سے شروع ہو نے والی جنگ عظیم اوّ ل کے ختم ہو نے میں ایک سال باقی تھا اور روس میں لینن اشتراکی انقلاب لے آئے تھے،1918 ء میں جنگ عظیم اوّل کے خاتمے پر جہاں ترکی کی سلطنت عثمانیہ بکھر گئی تھی اور 1919 ء میں فرانس کے محل وارسس پیلس میں معاہدہ وارسائی کے بعد شکست خوردہ جرمنی ذلت آمیز معاہدہ ِ وارسائی کی شکست کے بعد اپنے زخم چاٹ رہا تھا وہاں برطانیہ سمیت دیگر یورپی اتحادی بھی جنگ کے بڑے اخراجات اور نقصانات اٹھانے کے بعد کمزور ہو چکے تھے البتہ امریکہ دنیا کی غیر اعلانیہ سپر پاور بن گیا تھا۔

اب ہندوستان میں اقتدار پر قبضہ بر قرار رکھنے کے لیے انگریزوں کو اپنی نئی پالیسیوں اور اصلاحات کی ضرورت تھی کیونکہ ایک لاکھ انگریز چالیس کروڑ ہند وستانیوں پر جنگ عظیم اوّل کے بعد پرانے انداز ِ حکومت کی بنیاد پر قبضہ بر قرار نہیں رکھ سکتے تھے۔ یوں انگریروں نے ہندوستان میں کئی سیاسی انتظامی اصلاحات متعارف کروائیں اور اقتدار میں سیاسی بنیادوں پر مقامی نمائندگی کے ساتھ ساتھ فوج انتظامیہ اور عدلیہ میں بنیادی سطح پر آفیسر گریڈوں میں مقامی افراد کو بھی ایک خاص تناسب سے حصہ دینا شروع کر دیا، فیروز خان نون نے واپسی میں بطور وکیل ڈسٹرکٹ سرگودھا میں پریکٹس شروع کر دی اور بعد میں وہ لاہور ہائی کورٹ چلے گئے۔ 1920-21 ء میں وہ سیاست کے میدان میں آئے اور یونینسٹ پارٹی کے پلیٹ فارم سے پنجاب قانون ساز کے رکن منتخب ہوئے اس دوران وہ جوگندر سنگھ کے بہت قریب رہے۔ 1927 تا1931 وہ گورنر پنجاب Malcolm Hailey مالکولم ہیلے کی کابینہ میں رہے، جہاں وہ 1930 ء تک صوبائی وزیرِ بلدیات رہے۔ 1931 ء سے 1936 ء کے دوران فیروز نون گورنر جفری سکندر حیات ، ہاربٹ ولیم کی صوبائی کابیناؤں میں وزیرِ صحت اور وزیر تعلیم رہے۔

1930-32 ء یہ وہ زمانہ ہے جب جنگِ عظیم اوّل کے اثرات پوری دنیا کی معیشت اور اقتصادیات پر عالمی کساد بازاری کی صورت میں پڑے۔ دنیا بھر میں بے روزگاری اور غربت میںیک دم اضافہ ہوا، جس کے سبب یورپ کے بہت سے ملکوں میں سیاسی بحران بھی نمودار ہوئے اور اس کے اثرات برطانیہ کی سب سے اہم نو آبادی برصغیر پر بھی مرتب ہوئے۔ اسی دور میں فیروز خان نون صوبائی سطح کی سیاست سے آگے قومی اور بین الاقوامی سیاست میں ابھر کر سامنے آئے۔ 1932 ء میں تاج ِ بر طانیہ اور حکومت برطانیہ کی جانب سے اُن کو اعزازات ملنے لگے۔

وہ آرڈر آف سینٹ جان آفیسر مقرر ہوئے۔ 1933 ء میں وہ اس سال کی آنر لسٹ میں نائٹ Knight قرار دئے گئے ۔1937 ء میں فیروز خان نون Knight نائٹ کمانڈر آف دی آرڈر آف دی انڈین امپائرKCIE مقرر ہوئے اور 1941 ء میں وہ Knight نائٹ کمانڈر آف آڈر آف دی اسٹار آف انڈیا مقرر ہوئے، اب سر فیروز خان نون جو 1936 ء میں صوبہ پنجاب کی قانون ساز کے رکن اور وزیر تھے یہاں سے مستعفٰی ہو کر برطانیہ میں ہند وستان کے ہائی کمشنر یعنی سفیر تعینات کر دئیے گئے۔

یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کۃ تاج برطانیہ نے دنیا کے تقر یباً 25 فیصد رقبے اور آبادی پر مشتمل اپنے مقبوضہ علاقوں یعنی آبادیات میں بہت سے مقبوضہ ملکوں کو مقامی سطح پر بھی ایک نیم جمہوری ڈھانچے کے تحت عوامی سطح کی برائے نام نمائندگی دی ہوئی تھی اور پھر اِن ملکوں کی ایک دولت مشترکہ بنائی تھی۔ کچھ مْقبوضہ ملک ایسے بھی تھے جن کو 1919 ء میں قائم ہو نے والی لیگ آف نیشن ( اقوام عالم ) میں بھی رکنیت دی ہوئی تھی اس اعتبار سے فیروز خان نون کو ہندوستان کی جانب سے برطانیہ میں سفیر مقرر کیا گیا۔

اب اگر چہ ہندوستان برطانوی ہندوستان ہی کہلاتا تھا مگر فیروز نون برطانیہ میں ہندوستان کے ہائی کمشنر تھے، اس حیثیت سے اِن کی ذمہ داریوں کا اندازہ اس سے لگا یا جا سکتا ہے کہ جب 1939 ء میں دوسری عالمی جنگ شروع ہوئی تو ہندوستان کی سیاست میںانڈین کانگریس جو 1935 ء کے قانونِ ہند کے تحت ہونے والے 1937 ء کے صوبائی انتخابات میں کامیاب ہوئی تھی اور ہندوستان کے گیارہ میں سے نو میں اپنی اکثریت کی بنیاد پر اور باقی دو صوبوں میں مسلم لیگ کے علاوہ دوسری سیاسی جماعتوں کے ساتھ مخلوط حکومت بنائی تھی اور پھر مسلمانوں کے ساتھ زیادتی بھی کی تھی، اِس کے لیڈر کرم چند موہن داس گاندھی اور پنڈت جواہر لال نہرو نے اس موقع پر انگریروں پر دباؤ ڈالا کہ وہ کانگریس سے یہ معاہدہ کریں کہ جنگ کے بعد وہ اقتدار کانگریس کو منتقل کر کے ہندوستان سے رخصت ہو جائیں گے اور اس مطالبے پر دباؤ ڈالتے ہوئے کانگریس نے صوبائی وزراتوں سے استعفٰی دے دیا اور انگریز حکومت کے خلاف تحریک شروع کر دی تو اس کے جواب میں قائد اعظم نے مسلمانوں کو اس تحریک سے دور رکھا اورکانگریس کی جانب سے اقتدار چھوڑنے پر یوم نجات منایا۔

اس موقع پر فیروز خان نون جو برطانوی وزیراعظم ونسٹن چرچل کے قریب تھے اُنہوں نے مشورہ دیا کہ وہ دباؤ میں آکر کانگریس کے مطالبات تسلیم نہ کریں کیونکہ ہندوستان کے مسلمان اس وقت برطانیہ کے ساتھ ہیں ۔ یوں اُنہوں نے اس حکمت عملی سے قیام پاکستان کا راستہ صاف کردیا۔ 1940 ء میں فیروز نون نے ایجپٹ پلان ( مصری منصوبے) کی بھرپور حمایت کی جس کے تحت لندن میں عظیم مسجد کی تعمیر تھی ،امریکہ کے 1924 ء کے ایکٹ آف امیگریشن کی وجہ سے برطانیہ اور اور امریکہ کے درمیان مسائل پید اہو گئے تھے ان مسائل کے حل کے لیے حکومتِ برطانیہ نے1941 ء میں ہندوستان کے سفیر فیروز خان نون کو ہدایت کی کہ وہ وا شنگٹن ڈی سی آفس میں برطانوی نمائندے نیول بٹلر Nevile Butler کے ساتھ مل کر اِس مسئلے پر امریکہ سے مذاکرات کرے ۔



امریکہ کی جانب سے برطانوی ہند کے شہریوں کے امریکہ میں داخلے پر پابندی عائد کی گئی تھی، دیگر مسائل میں امریکہ یہ چاہتا تھا کہ اُسے بلوچستان میں تیل کی تلاش اینگلو امریکن ٹریٹی 1938 ء کے تحت MFN بہت ہی پسندیدہ قوم کا درجہ دیتے ہو ئے امریکن پٹرولیم کمپنیوں کو بلوچستان میں تیل کی تلاش میں خصوصی رعایت اور سہو لتیں فراہم کی جائیں ۔ فیروز خان نون نے اس موقع پر ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا اس کی وجہ یہ تھی کہ ایک تو برطانوی ہند کی حکومت کو بلوچستان جیسے دور دراز علاقو ں خصوصاً ایران اور افغانستان سے ملحقہ سرحدی مقامات پر معاملات کو قابو میں رکھنے کے لیے مشکلات کا سامنا تھا، پھر امریکہ نے ہندوستانیوں کے امریکہ میں داخلے پر پابندی بھی عائد کر دی تھی ۔ فیروز نون یہ مذاکرات کر کے واپس آئے تو اُنہیں فوری طور پر وزیراعظم چرچل کی کابینہ میں شامل کرتے ہوئے پہلے سیکرٹری آف اسٹیٹ کی جانب سے انڈین آفس میں ملٹری ایڈ وائزر برائے انڈین آرمی افیئرز تعینات کیا گیا،اس کے بعد وہ وائسرائے کی ایگزیگٹو کونسل کابینہ میں لیبر منسٹر ہو گئے جہاں اُنہوں نے ایک بار پھر ہند وستان کی آزادی کے اعتبار سے اہم کردار ادا کیا اور وائسرائے کو اس بات پر قائل کیا کہ وہ آزادی کے مسئلے پر ہندوستان میں محمد علی جناح سمیت دوسرے مسلم لیڈروں سے اتفاق رائے کئے بغیر کوئی فیصلہ نہ کریں۔

1944-45 میں برطانوی وزیراعظم چرچل نے فیروز نون کو اپنے خاص شعبے محکمہ جنگ میں ہندوستان کی نمائندگی دیتے ہوئے پیسفک وارکونسل میں اے آر موڈالیر کے ساتھ تعینات کیا ،1945 ء میں اقوام متحدہ کے قیام پر چرچل نے فیروز نون کو اقوام متحدہ میں مشترکہ ہندوستان کا مستقل نمائندہ مقر رکیا اور اُنہوں نے سان فرانسسکو کیلیفورنیا میں اقوام متحدہ کے پہلے اجلا سوں میں شرکت کی ۔1946 ء میں فیروز خان نون نے انڈ ین پنجاب میں وزیراعلیٰ خضرحیات ٹوانہ کی مخالفت کرتے ہو ئے قائد اعظم کی قیاد ت میں مسلم لیگ میں شمولیت کی اور اپنی پارٹی یونینسٹ کا دھڑہ مسلم لیگ میں ضم کر دیا۔ اِن کی وجہ سے انتخابات میں مسلم لیگ کو پنجاب میں زبردست کامیابی حاصل ہوئی۔

1947 ء کی پاکستان کی پہلی قانون ساز اسمبلی میں وہ رکن قومی اسمبلی تھے قائد اعظم نے اُنہیں خصوصی وفد کے ساتھ سعودی عرب اور مشرق وسطیٰ کے ملکوں میں پاکستان کے تعارف اور اسلامی دنیا میں پاکستان کی اہمیت سے آگاہ کر نے کے لیے بھیجا۔1950 ء میں لیاقت علی خان نے اُنہیں مشرقی پاکستان کا گورنر بنا دیا بعد میں وہ 1953 ء کووزیر اعلیٰ پنجاب بنادئیے گئے، وہ کچھ عرصہ وزیرِ دفاع بھی رہے اور پھر 12 ستمبر 1956 کو وزیر خارجہ بن گئے اور اس کے ساتھ ہی 16 دسمبر 1957 ء کو پاکستان کے ساتویں وزیراعظم بن گئے اور 7 اکتوبر1958 ء کو صدر اسکندر مرزا کے حکم پر مارشل لا نافذ کیا گیا تو 1956 ء کا آئین منسوخ کر کے اُن کی حکومت کو برخاست کر دیا گیا، اگلے روز یعنی 8 اکتوبر 1958 ء کمانڈر انچیف اور چیف مارشل لا ایڈمنسٹیٹر فیلڈ مارشل محمد ایوب خان نے صدر اسکندر مرزا کو بھی اِن کے عہد ے سے فارغ کر دیا جن کے حکم سے جنرل ایوب خان نے ملک بھر میں پہلا مارشل لا نافذ کیا تھا ۔ قیام پاکستان سے 7 اکتوبر1958 تک 11 سال ایک مہینہ 22 کے دوران پاکستان کے سات وزرا اعظم رہے۔


قائدا عظم اورخواجہ ناظم الدین کے بعد گور نر جنرل ملک غلام محمد اور سکندر مرزا پہلے گورنر جنرل اور پھر 1956 کے آئین کے نفاذ کے بعد صدر رہے۔ دونوں سابق بیوروکریٹ نے ملک اور جمہوریت کو بہت نقصان پہنچا یا،اَن گیارہ برسوں میں ملک میں 1956 ء تک تو 1935 ء کا قانون ہند آئین کے طور پر نافذالعمل رہا اور برطانیہ کا بادشاہ پھر ملکہ ہی پاکستان کی آئینی سربراہ رہیں اور 1935 ء کے قانون میں اسمبلی تحلیل کرنے وزراء اعظم اور حکومتوں کو برخاست کرنے کے اختیارات کے ساتھ عدلیہ کے نظریہ ضرورت کے تحت 1951 ء سے 1956 ء تک کسی حکومت کو اطمینان سے کام کرنے نہیں دیا گیا اور جب 1956 ء کا آئین نافذ العمل ہوا تو پھر جوڑ توڑ کی سیاست جا ری رہی اور اختتام مارشل لا پر ہوا ۔اِن تمام حالات کے باوجود اِن ابتدائی گیارہ برسوں میں قائد اعظم اور لیاقت علی خان کے دور حکومت میں آدھا کشمیر اور گلگت بلتستان کے علاقے بھارت سے آزاد کر وا لئے گئے۔

پاکستان کا پہلا قومی بجٹ 1948-49 ء بجٹ 89 کروڑ 57 لاکھ روپے کا تھاجس کا خسارہ10 کروڑ تھا اس کے بعد 1969-70 تک کے بجٹ خسارے سے پاک بلکہ بچت کے بجٹ تھے۔ لیاقت علی خان کی حکومت نے آخری بجٹ 1951 ء میں پیش کیا جس کا حجم ایک ارب 59 کروڑ کا تھا آمدن ایک ارب 80 کروڑ تھی اور خسارے کی بجائے بچت 20 کروڑ 74 لاکھ تھی۔ محمد علی بوگرا جن کا تعلق مشرقی پاکستان سے تھا انہوںنے مشرقی اور مغربی پاکستان کو برابری کی بنیاد پر بوگرا فارمولہ دیا ، چوہدری محمد علی نے 1956 ء کا پارلیمانی آئین دیا ۔

اِن ساتوں وزرا اعظم میں سے کسی پر بھی اقربا پروری یا کرپشن کا کوئی الزام نہیں تھا اور نہ ہی اِن میں سے کسی نے جمہوری کلچر کو نقصان پہنچاتے ہوئے اپنی پارٹی کی قیادت کو یا وزارت عظمیٰ کو اپنی اولادوں میں وراثت کی شکل میں دیا۔ ان گیارہ برسوں میں پاکستا ن کو بیرونی قرضوں کے لیے کشکول لے کر بھیک نہیں مانگنی پڑی۔ امریکی ڈالر کی قیمت 1954 ء تا1957 ء تک 3.30 روپے اور1958 ء میں4.77 روپے رہی۔ 1951 ء میں لیاقت علی خان کے بعد جب خواجہ ناظم الد ین کی جگہ ملک غلام محمد گورنر جنرل ہو گئے تو پا کستا ن امریکی بلاک میں شامل ہو گیا اور بعد میں سیٹو ، سینٹو جیسے معاہدوں میں بھی شامل ہو گیا مگر پھر بھی پاکستا ن کا عالمی سطح پر وقار تھا ۔

20 دسمبر 2020 ء کو کوئٹہ سے میرے دوست اور حالیہ خان آف قلات کے کزن شہزادہ ذوالفقارجان معروف جرنلسٹ آل پاکستان جرنلسٹ یونین کے صدر بلوچستان جرنلسٹ یونین اور کوئٹہ پریس کلب کے کئی مرتبہ صدر رہے ہیں اُنہوں نے ایک بہت ہی معتبر بین الاقوامی نشتریاتی ادارے کی جانب سے گوادر پر بنائی گئی ڈاکومینٹری بھیجی، جس میں حیرت انگیز طور پر بہت سے حقائق کو جان بوجھ کر مسخ کر کے پیش کیا گیا اور کئی جگہوں پر ابہام پیدا کیا گیا اور شہزاد ہ ذوالفقار جان نے مجھ سے درخواست بھی کی میں کسی جگہ مناسب انداز میں تحقیق کی بنیاد پر اس کا جواب دوں، سو 7 مئی کو فیروز خان نون کے 128 ویں یوم ِپیدائش پر یہ مناسب موقع ہے کہ گوادر کے بارے عالمی سطح کے اس پروپیگنڈے کا جواب بھی دیا جائے۔

اس ڈاکومینٹر ی میں یہ کہا گیا کہ پہلے فیروز خان نون نے پارلیمنٹ کو یہ بتایا کہ سلطنتِ عمان نے گوادر کا علاقہ مفت پاکستان کو دیا ، پھر کہا کہ یہ بات سامنے آئی کہ پاکستان نے 30 لاکھ ڈالر کے عوض گوادر کو خریدا ، پھر یہ تاثردیا کہ ضلع گوادر میں چونکہ اس خاص رقبے میں ہندؤں کی تعداد زیادہ تھی اس لیے یہ رقبہ بھارت لینا چاہتا تھا اسی طرح اور بہت سے حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا۔

پھر بہت سے حلقوں میں یہ بات بھی مشہور کی گئی ہے کہ گودر انکلیو جو 2400 مربع میل یا 15 لاکھ ایکڑ سے زیاد ہ ہے یہ رقبہ مسقط و عمان کے شہزادے کو اُس وقت کے خان آف قلات میر نصیر خان نوری نے اپنی بیٹی سے شادی پر جہیز کے طور پر دے دیا تھا۔

اِن تمام با توں کی وضاحت کے لیے شہزادہ ذوالفقار نے مجھ سے کہا تھا، جہاں تک اِن غلط اطلاعات کا تعلق ہے تو غالباً ایک جانب تو اس کا مقصد یہ ظاہر کر نا ہے کہ تقربیاً 236 برسوں سے بلوچستان اور خان آف قلات کا گوادر کے اس سے حصے سے کوئی تعلق نہیں رہا یا پھر عالمی سطح پر یہ پروپیگنڈا کرنا کہ یہ سلطنت مسقط و عمان کے سلطان سید بن تیمور سے ستمبر 1958میں مفت حاصل کیا گیا اور چونکہ اُس وقت کے وزیر اعظم فیروز نون نے اِس کا تصفیہ بر طانیہ کے تعاون سے کروایا تھا لہٰذا یہ کبھی منسوخ بھی ہو سکتا ہے پھر ایک طرف یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ سابق شاہ ایران نے بھی کوشش کی تھی کہ امریکہ کے تعاون سے جس سے شاہ کے تعلقات بہت ہی اچھے تھے یہ علاقہ حاصل کر کے اس کو قریب واقع ایرانی بندرگاہ چابہار سے ملادیا جائے ، پھر بھارت کا دعویٰ کہ یہاں ہندو اکثریت تھی یہ تمام باتیں ریکارڈ کے مطابق درست نہیں ، میں 1992 ء 1995 ء تک گورنمنٹ کالج گوادر میں پڑھاتا رہا وہاں کسی بھی دور میں ہندو نہیں رہے۔

اب جہاں تک تعلق شاہ ایران رضاشاہ پہلوی کا تعلق ہے تو رضاشاہ 1941 ء میں اکیس برس کی عمر میں بادشاہ بنے تھے اور 1958 ء میں اِن کی عمر 37 برس تھی اور ایران باوجود تیل کی پیداوار کے پاکستان کے مقابلے پسماندہ اور غریب ملک تھا ۔ البتہ امریکہ سے اس کی قربت تھی، اُس وقت امریکہ کے صدر آئزن ہاور تھے جب بعض جگہ صدر نکسن سے اس معاملے میں شاہ کی جانب سے گوادر کے حوالے بات چیت کا ذکر ملتا ہے اور صدر نکسن 1968 ء تا 1974 صدر رہے ہاں یہ ضرور ہے کہ جب 1971-72 ء میں عرب امارات کو برطانیہ آزادی و خود مختاری دے رہا تھا تو کچھ علاقوں پر ایران کا دعویٰ تھا اور ایران نے کوشش کی تھی کہ یہ علاقے ایران کو مل جا ئیں، اُ س وقت امریکہ کے صدر واقعی نکسن تھے اور برطانیہ کے وزیراعظم ایڈورڈ ہیتھ تھے جو 1970ء تا1974 ء وزیراعظم رہے۔

یوں شاہ ایران کی دلچسپی اُس وقت گوادر میں نہیں تھی البتہ عرب امارات کے کچھ علاقوں میں ضرور تھی ۔ تاریخی اعتبار سے دیکھیں تو سلطان بن احمد1783 ء میں اقتدار پر خاندانی جھگڑوں کے باعث عمان سے بلوچستان آئے اُس وقت بلوچستان پر خان آف قلات میر نصیر خان نوری کی خود مختارحکو مت تھی یہی نصیر نوری تھے جنہوں نے احمد شاہ ابدالی کے ہمراہ ہندوستان میں مرہٹوں کے خلاف جنگ لڑی تھی۔

ایک تاریخی واقعہ ہے کہ کسی حاسد نے نصیر خان نوری کی والدہ سے یہ کہا کہ اُس کے بیٹے نے میدانِ جنگ میں پیٹھ دکھائی ہے تو ماں نے شدتِ جذبات سے جواب دیا کہ میں نے اپنے بیٹے کو کبھی بغیر وضو کے دودھ نہیں پلا یا اِس لیے وہ کبھی ایسا نہیں کر سکتا۔

نصیرنوری بلوچستان کے سب سے طاقتور حکمران رہے، بلوچوں میں یہ روایت ہے کہ جب وہ کسی کو اپنے ہاں پناہ دیتے ہیں تو پھر اُس کی خاطر جان بھی قربان کر دیتے ہیں، پناہ میں آنے والے کو بلوچی زبان میں،، باہوٹ ،، کہا جاتا ہے ، میر نصیر خان نوری نے عمان اور مسقط کے اس جلا وطن حکمران سلطان بن احمد کو باہوٹ بنا کر بلوچی رسم کے مطابق گوادر میں2400 مربع میل تقریباً15 لاکھ ایکڑ کا وہ حصہ جو گوادر شہر ہے اور ہتھوڑے کی شکل میں سمندر میں ایک جزیرہ نما ہے ، دے دیا تھا تاکہ وہ اپنی گزر بسر کر سکے ۔ اب ذکر فیروزخان نون اور اُن کی بیگم وقار انسا نون کے اُس عظیم کردار کا ہے جس کے تحت اُنہوں نے گوادر کو دوبارہ حاصل کیا، وقارالنسا نون برطانیہ کے ایک اہم خاندان سے تعلق رکھتی تھیں جن کی پیدائش 1920 ء میں آسٹریلیا میں ہوئی تھی جب فیروز خان نون برطانیہ میں ہندوستان کے ہائی کمشنر تھے تو اِن کی ملاقات وکٹوریہ ریکھی نامی اعلیٰ تعلیم یافتہ خوبصورت اور بلند کردارخاتون سے ہوئی اور دونوں ایک دوسرے کو پسند کرنے لگے۔

1945 ء میں بمبئی میں فیروز نون نے وکٹوریہ ریکھی سے دوسری شادی کر لی اور شادی سے قبل ریکھی نے ا سلام قبول کر لیا اور اِن کا اسلامی نام وقارالنسا نون ہوگیا بعد میں اُنہیں وکی نون بھی کہا جاتا رہا۔ فیروز نون نے تاریخ میں ڈگری حاصل کی تھی اور عالمی اور قومی سیاست پر بھی اُن کا گہرا مطالعہ تھا پھر 1945 ء میں جب وہ اقوام متحدہ میں مستقل رکن بنے تو دوسری جنگ عظیم کے بعد بدلتی دنیا جغرافیائی اور سیاسی صورتحال کو دیکھتے ہو ئے اُنہیں قیام پا کستان ، کشمیر اور ساتھ ہی گوادر کی اہمیت کا اندازہ بھی تھا اور اُن کی سیاسی بصیرت مستقبل میں اس تناظر میں ہونے والے فیصلوں کے امکانات اور اندیشوں سے بھی واقف تھی، پھر خصوصاً جب نون نے قائد اعظم کی ہدایت پر سعودی عرب اور مشرقِ وسطیٰ کا دورہ کیا تو آج کی متحدہ عرب امارات ، سلطنت عمان، ایران ،بھارت کے تناظر میں وہ پاکستان کے بحیرہ عرب پر ساحل مکران میں 2400 مربع میل کے گوادر ا ینکلیو کی اہمیت سے خوب واقف تھے اور غالباً اس پر قائد اعظم اور اُن کے درمیان گفتگو بھی ہوئی ہوگی۔ اُس وقت کشمیر کی جنگ جاری تھی۔

1951 ء سے1953 ء کے دوران جہاں پاکستان کی سیاست لیاقت علی کی شہادت کے بعد اندرونی اور عالمی سازشوں کا شکار تھی وہاں سرد جنگ کے آغاز پر خصوصاً سوویت یونین کے ایٹمی قوت بننے اور کوریا کی جنگ سے امریکہ ، برطانیہ اور مغربی اتحادی پریشان تھے اسی دوران جہاں فیروز نون ملکی سیاست میں اہم کردار ادا کر رہے تھے وہاں اُن کو گوادر کی بھی فکر تھی ، 1954 ء میں امریکہ کے یونائیٹڈ اسٹیٹ جیالوجیکل سروے کی ایجنسی نے ساحل مکران پر سمندر ی سروے کیا جس میں انکشاف ہوا کہ گوادر اینکلیو پر سمندر کی گہرائی اتنی زیادہ ہے کہ یہاں بڑے سے بڑا جہاز بھی ساحل پر لنگر انداز ہو سکتا ہے،یہی وہ دور ہے جب فیرو خان نون اور اُن کی اہلیہ وقارالنساء نون نے گوادر سے متعلق تاریخی ،سیاسی اور جغرافیائی بنیادوں پر حقائق جمع کئے اور اِس پر تحقیقی کام شروع کیا۔ 1956 ء میں جب فیروز نون وزیرِ خارجہ ہوئے تو اُنہوں نے گوادر کے مقدمے پر علمی کام شروع کر دیا۔ برطانیہ میں دوسری جنگِ عظیم کے ہیرو وزیراعظم چرچل پہلی بار 1940 ء سے 1945 ء تک وزیراعظم رہے اور اس دوران نون اِن کے نہایت قریب رہے، اس کے بعد 1951 ء تا 1955 ء دوسری مر تبہ وزیراعظم رہے، اُن کی وفات 1965 ء میں ہوئی اور آخری وقت تک نون کے تعلقات چرچل سے تھے ۔

1955 ء سے 1963 ء تک ہیرلڈ میکلین بر طانیہ کے وزیر اعظم رہے جبکہ اسی دور میں 1953 ء سے 1961 ء ڈیوٹ آئزن ہاور امریکہ کے صدر رہے جو پاکستان سے بہت بہتر تعلقات کے حا می تھے۔ فیروز نون 16 دسمبر 1957 ء کو ملک کے ساتویں وزیر اعظم بن گئے۔

اب جہان تک تعلق چرچل کا تھا تو اُن کا سیاسی قد بہت بڑا تھا اور اُن کی موت تک برطانیہ میںاکثر بڑے فیصلے اُن کی مشاورت کے بغیر نہیں ہو تے تھے، اسی دور میں جب نون وزیر اعظم ہوئے تو بر طانیہ کے ہاوس آف لارڈز اور ہاوس آف کامن میں جو اراکین تھے اُن میں سے بیشتر سے فیروز نون اور بیگم وقار النساء نون کے ذاتی اور پرانے مراسم تھے پھر اِن دو برسوں میں فیروز نون نے اپنی بیگم وقارالنسا نون کے ساتھ مل کر گوادر کیس بھرپور طور پر لڑا ، 1956 ء میں جب اُنہوں نے وزارتِ خارجہ سنبھالی تو برطانیہ کے ساتھ گوادر کی سلطنت عمان و مسقط سے واپسی کے لیے بات شروع ہوئی تھی اور وقار النساء اُن کے ساتھ شریک تھیں پھر جب وہ وزیر اعظم بنے تو اُنہوں نے تمام ریکاڈر اور حقائق کے ساتھ وقار النسا نون کو برطانیہ بھیج دیا جہاں قیام کے دوران نہ صرف بارہا اُنہوں نے چرچل اور اُس وقت کے برطانوی وزیراعظم ہیر لڈ میکلین سے ملاقاتیں کیں بلکہ اپنے اور فیروز نون کے پرانے اور ذاتی تعلقات کی بنیاد پر مسلسل ہاؤس آف لارڈز اور ہاؤس آف کامن کے ممبران سے ملاقاتیں کیں اور ریکارڈ یوں پیش کیا کہ اٹھارویں صدی عیسوی میں خان آف قلات کی حکومت بشمول گوادر پورے بلوچستان پر تھی جو بہت وسیع علاقہ ہے۔

یہاں مکران اور ساحل پر مقامی گچکی قبائل کی شورشوں کی وجہ سے اُن کو مسائل کا سامنا تھا جس کا حل اُنہوں نے یہ نکالا کہ ایک معاہدے کے تحت اس علاقے کا کنٹرول گچکی قبائل کے سرداروں کے سپرد کر دیا جس کے تحت پورا علاقہ بدستور خان کی جاگیر رہے گا البتہ اس کا کنٹرول مقامی طور پر گچکی سرداروں کے پاس ہو گا جس کے عوض وہ یہاں سے حاصل ہونے والے ریونیو کا آدھا حصہ خود رکھ لیں گے اور آدھا خان آف قلا ت کو دیا جائے گا۔ 1783 ء میں سلطنت اومان و مسقط کا حکمران اپنے بھائی سے شکست کھا کر بلوچستان آیا اور خان آف قلات میر نصیر خان نوری سے پناہ کی درخواست کی تو ایک نیا معاہد ہ ہوا جس میں نصیرخان نوری نے یہ طے کیا کہ اس پورے علاقے کا کنٹرول بشمول گوادر اینکلیو حسب سابق گچکی سرداروںکے پاس رہے گا اور گوادر اینکلیو کا2400 مربع میل کا یہ حصہ اس کا آدھا حصہ گچکی سردار پہلے کی طرح اپنے پاس رکھیں گے اور باقی آدھا حصہ جو خان آف قلات کا ہے وہ عمان کے اس جلا وطن حکمران کو گزر اوقات کے لیے دے دیا جائے گا ،پندرہ سال بعد یہ حکمران واپس عمان چلا گیا اور معاملات خاندان میں طے پا گئے اور اُس کی حکمرانی بحال ہو گئی مگر عمان کے سلطان نے گوادر کا قبضہ نہیں چھوڑا۔

ایک حکمران کی شان کے مطابق نصیر خان نوری نے انتظار کیا اور خود سلطان عمان سے واپسی کا مطالبہ نہیں کیا مگر نصیر نوری کے بعد آنے والے خوانین نے واپسی کا مطالبہ کیا اور گوادر اینکلیو پر قبضہ کر لیا جس پر عمان کی فوجوں نے یہاں آکر دوبارہ قبضہ کیا۔ یہ چشمک زیادہ بڑھی تو برٹش کالونیل ایڈ منسٹریشن نے ثالثی کے بہانے اُس وقت یہ دعویٰ یہ کہہ کر عارضی طور پر سلطان عمان کے لیے مسترد کر دیا کہ بعض دیگر گو اہیاں بھی ان کے سامنے آرہی ہیں جن کے مطابق عرصہ دراز سے یہ علاقہ سلطان عمان کی جا گیر ہے بہرحال حتمی فیصلہ نہیںکیا اور اس خد مت کے عوض برطانوی پو للیٹکل ایجنٹ نے سلطنت ِ عمان سے یہ ایگر یمنٹ کیا کہ حتمی فیصلے تک گوادر کا انتظام بر طانیہ کے پاس رہے گا اور حسب سابق اومان کو آدھا ریونیو ادا کیا جائے گا اور انگریزی فوج گوادر میں داخل ہو گئی اور پھر سوا سو سال تک برطانیہ اس پر قابض رہا۔

قیام پاکستان کے وقت جب خان آف قلات میر احمدیار خان نے پاکستا ن سے اپنی ریاست کا الحا ق کیا تو پاکستان نے اسٹیک ہولڈر کی حیثیت سے گوادر کا معاملہ اٹھایا مگر کوئی شنوائی نہ ہوئی لیکن 1956ء تا1958ء بیگم فیروز خان نون بر طانیہ میں رہیں اور فیروز خان نون وزیر خارجہ اور پھر وزیر اعظم کی حیثیت سے دن رات کوشش کر تے رہے، اور موقف یہ اختیار کیا کہ اب بلوچستان چونکہ پاکستان کا حصہ ہے لہٰذا یہ علاقہ پاکستان کے حوالے کیا جائے ، متحرمہ نے ان دو برسوں میں ہاؤ س آف لارڈ کی حمایت حاصل کی، وزیراعظم ہیرلڈ میکیلن جو فیروز نون کے دوست تھے اُنہوں نے کلیدی کردار ادا کرتے ہوئے عمان و مسقط کے سلطان سعید بن تیمور کو اس پر آمادہ کیا تو اُنہوں نے حامی بھر لی مگر سودے بازی کا اشارہ دے دیا اور یہ طے پایا کہ 30 لاکھ ڈالر کی ادائیگی پر وہ گوادر پاکستان کے حوالے کر دیں گے ۔

اس سلسلے میں ملک فیروز خان نون اپنی خود نوشت سوانح حیات ''چشم ِ دید'' میں یوں لکھتے ہیں '' جہاں ملک کی حفاظت اور وقار کا مسئلہ درپیش ہو وہاں قیمت نہیں دیکھی جاتی ویسے بھی یہ رقم گوادر کی آمدنی سے محض چند سال میں ریکوور ہو جائے گی آج جب برطانیہ میں پاکستان کے ہائی کمشنر اکرام اللہ نے گوادر منتقلی کی دستخط شدہ دستا ویز میرے حوالے کی تو اُس وقت مجھے جو خوشی ہوئی اُس کا اندازہ آپ نہیں کر سکتے اس لیے کہ گوادر جب تک ایک غیر ملک کے ہاتھ میں تھا تب مجھے یوں محسوس ہو تا تھا گویا ہم ایک ایسے مکان میں رہتے ہیں جس کا عقبی کمرہ کسی اجنبی کے تصرف میں ہے اور یہ اجنبی کسی وقت بھی اسے پاکستان کے ایک دشمن کے ہاتھ فروخت کر سکتا ہے اور وہ دشمن اس سودے کے عوض بڑی سے بڑی رقم ادا کر سکتا تھا ۔

یوں 2400 مربع میل یا پندرہ لاکھ ایکڑ رقبے کا گوادر 8 ستمبر 1958 ء کو پاکستان کا حصہ بن گیا۔ یہ کام صرف اور صرف فیروز نون ہی کر سکتے تھے، اس کی ایک بنیاد ی وجہ برطانیہ 1912 ء سے لارڈز اور اہم شخصیات سے بنائے جانے والے تعلقات تھے۔ یہ شخصیات 1945 ء سے 1958 ء تک وزراعظم اور برطانوی حکومتوں میں اہم وزارتوں پر فائز رہیں، مگر افسوس ، تاریخ کے غدار ِ اعظم میر جعفر کے پڑپوتے اُس وقت کے صدر ِ پاکستان صدر اسکندر مرزا نے جب یہ دیکھا کہ اس کارنامے کی وجہ سے فیروز نون کی شہرت میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے اور عنقریب1956 ء کے آئین کے تحت ہو نے والے انتخابات میں وہ ہیرو کی حیثیت سے سامنے آئین گے تو اسکندر مرزا نے اپنے حکم سے ملک میں مارشل لاء نافذکر دیا۔ ملک فیروز خان نون اس کے بعد اتنے بدل ہوئے کہ سیاست سے کنارہ کش ہو گئے ۔ 1970 ء میں اپنے انتقال تک بس کتابیں لکھتے رہے ۔

گوادر کا ائیر پورٹ جو ملک کا سب سے بڑا ائیر پورٹ ہو گا اِس وقت تعمیر کے تقریباً آخری مراحل طے کر رہا ہے۔ ہماری وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے گذارش ہے کہ اس ایئر پورٹ کے مین انٹرنس پر ایک خوبصورت بڑا سا بورڈ یا دیوار پر گوادر اینکلیو کی 1783 ء سے 1958 ء تک کی پور ی تاریخ اور حقائق کو جلی حروف میں اردو اور انگریزی میں لکھ دیا جائے ۔

یوں گوادر ایئر پورٹ پر آنے اور جانے والا ہر شخص یہ دیکھے بھی اور پڑھے بھی ، یوں دنیا کے وہ ممالک جو بلوچستان کی تاریخ کو مسخ کرنا چاہتے ہوں یا کوئی اور منفی اراد ہ رکھتے ہوں اُن کے منفی مقاصد پورے نہ ہو سکیں۔ اسی گوادر شہر میں اہم سڑکوں اور مقامات میں سے کم ا ز کم تین میر نصیر خان نوری ، ملک فیروزخان نون اور بیگم وقارالنسا نون کے ناموں سے منسوب کی جائیں کیونکہ آج اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ بھی یہ نہیں جانتے کہ گوادر حقیقت میں ماضی میں بھی بلوچستان کا حصہ تھا اور اسی بنیاد ہمارے محسنِ ملت فیروز خان نون اور مادرِ مہر بان محترمہ وقار النسانون نے اِن ہی حقائق کی بنیاد پر سلنطتِ عمان سے گوادر اینکلیو دوبارہ حاصل کیا۔ آج جب گوادر تعمیر و ترقی اور پا کستان کی خوشحالی کا عنوان کہلا رہا ہے تو ہمیں اُن عظیم شحصیات کو فراموش نہیں کرنا چاہیے جن کی وجہ سے گوادر آج ہمارا ہے۔
Load Next Story