خواتین کا مقام حقوق و فرائض سیرت طیّبہ ﷺ کی روشنی میں
لوگ اس صنفِ نازک کے جذبات سے کھیل کر اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
دنیا بھر میں آج خواتین اپنے حقوق کی جنگ میں مصروف نظر آتی ہیں اور اگر وسیع نظری اور کشادہ دلی سے دیکھا اور سوچا جائے تو وہ حق بہ جانب بھی ہیں۔ انہیں جو مقام و مرتبہ معاشرے میں ملنا چاہیے تھا وہ تاحال اس سے واقعی محروم ہیں۔ خواتین کے ساتھ واقعی تعصب برتا جاتا ہے اور ان کی حق تلفی ہو رہی ہے۔
کیا کوئی اس سچ سے انکار کرسکتا ہے کہ ان کا جسمانی، نفسیاتی اور جنسی استحصال عام ہے اور اس کے سدّباب کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں ہو رہے اور جو نظر آتا ہے وہ بس اتنا ہے کہ اسے صرف زبانی جمع خرچ کہا جاسکتا ہے۔ اور یہ بھی ایک حقیقت ہے جس کا انکار نہیں کیا جاسکتا کہ خواتین کے استحصال میں مغرب اور مشرق کی کوئی تفریق باقی نہیں رہی ہے، کہیں یہ حق تلفی سامنے ہے اور کہیں پوشیدہ، لیکن ہے ضرور۔
ایسے میں کچھ تنگ دل و کوتاہ نظر حقیقت حال سے نظریں چراتے ہوئے یہ کہتے رہتے ہیں کہ اِسلام عورت کو وہ کچھ نہیں دے رہا جو مغرب دے رہا ہے۔ تو پھر سوال یہ ہے کہ کیا عورتوں کے حقوق کے حوالے سے مغربی دنیا معیار ہے؟ تو پھر اس کا جواب بھی انہیں دینا چاہیے کہ مغرب میں خواتین تو بدترین تعصب کا شکار ہیں۔ اگر کوئی اس بات کو لاف زنی قرار دے تو انہیں چاہیے کہ وہ دنیا بھر میں اور بالخصوص یورپ میں ان تحاریک کو بہ غور دیکھے جو ان دنوں بھی وہاں برپا ہیں۔
اب بھی مٖغربی ممالک میں خواتین اپنی اجرتوں جو مردوں سے انتہائی کم ہیں پر شاکی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ان کا ہر طرح سے ناصرف ہر طرح سے استحصال کیا جاتا ہے بل کہ انہیں بھی تجارت کی شے سمجھا جاتا ہے اور پھر المیہ یہ بھی کہ جب تک وہ جوان ہے اس کی طلب ہے اور پھر جیسے ہی طلب ختم ہوئی وہ کسی اولڈ ہوم میں اپنی زندگی کے اذیت بھرے بدترین دن گزارنے پر مجبور ہوتی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ زرپرستوں نے ان خواتین کو جو خوش قسمتی سے ان کے جھانسے میں اب تک نہیں آئی انہیں مجبور کیا جارہا ہے کہ وہ بھی تہذیب مغرب کو قبول کریں اور ان کی تجوریوں کو بھرنے میں اپنے فطری حسن، صلاحیتوں اور جسم کو قابل فروخت بنانے کو آزادی نسواں کے نام پر قربان کردیں۔
سردست یہ ہمارا موضوع نہیں ہے لیکن اس تمہید کے بغیر ہم اپنی اصل بحث پر نہیں آسکتے۔ آئیے! ہم اس اعتراض کا جواب سیرت نبوی ﷺ کی روشنی میں تلاش کرتے ہیں کہ ''اِسلام عورت کو وہ کچھ نہیں دے رہا جو مغرب دے رہا ہے''
اسلام نے مرد و عورت کا فطری توازن قائم کرتے ہوئے ہدایت دی ہے کہ گھر کے نظام کا سربراہ مرد ہے اس لیے کہ نظم ایک ہاتھ میں ہو تو نظام درست چلتا ہے اور اگر اختیارات دو ہاتھوں میں تقسیم کر دیے جائیں تو نظام تباہ ہو جاتا ہے۔ نظم کا تقاضا یہ ہے کہ سربراہی کسی ایک کی ہو۔ اور یہ کہ عورت کے جتنے فرائض ہیں، ان سے ہٹ کر ان پر کوئی ذمے داری نہ ڈالی جائے۔
انسانی معاشرے کے حوالے سے اسلامی تعلیمات یہ ہیں کہ مرد اپنے گھر کے اخراجات کا کفیل ہے جب کہ عورت گھر کے اندرونی نظام کی ذمے دار ہے۔ ہاں بہ وقت ضرورت بیوی اپنے خاوند کا ہاتھ بٹا سکتی ہے اور خاوند بھی گھر کے اندرونی معاملات میں بیوی کی مدد کر سکتا ہے۔
اﷲ تعالیٰ نے مرد و عورت کے درمیان حقوق و فرائض کی یہ تقسیم ان کی نفسیات کو ملحوظ رکھتے ہوئے کی ہے۔ لیکن مغرب والوں نے عورتوں کو آزادی کے نام پر اِس بات پر اکسایا ہے کہ گھر کے اخراجات میں ہاتھ بٹانے کے لیے کمانا ان کے حقوق میں شامل ہے، اس بات کو انہوں نے مرد و عورت کے درمیان مساوات کا نام دیا ہے۔ دفتر میں جا کر کام کرنا، فیکٹری میں مزدوری کرنا، اور اسی طرح کے دیگر امور، یہ عورت پر اضافی ذمے داری ہے جنہیں حقوق کا پُرفریب نام دے دیا گیا ہے۔
سیرت طیبہ ﷺ کی روشنی میں خواتین کے حقوق و فرائض کا کیا تعین کیا گیا ہے اور ان کا سماجی مقام و مرتبے کے ساتھ ان کے مشورے اور رائے کو کیا اہمیت حاصل ہے، نیز یہ بھی کہ مساواتِ مرد و زن کے حوالے سے سیرت طیّبہ ﷺ ہمیں کیا درس اور حکم دیتی ہے۔۔۔۔۔ ؟
یہ ہیں وہ سوالات جو دور جدید میں ایک انتہائی اہم مباحث کا حصہ ہیں۔ مسلمانوں کا یہ ایمان و عقیدہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ ہی تمام مخلوقات کا خالقِ حقیقی ہونے کے ساتھ ان کی ضروریات، حقوق اور فرائض کا تقسیم کار ہے۔ رب تعالی نے اپنی تمام مخلوقات میں سے انسان کو اشرف المخلوقات کے اعزاز سے نوازا ہے اور انسان کی خوبیاں، کم زوریاں اور اِس کی بُودوباش کے تقاضے وہی جانتا ہے۔ زندگی گزارنے کے جو اصول و ضوابط، قوائد و قوانین جو اﷲ تعالیٰ نے مقرر فرما دیے ہیں بس وہی صحیح اور ہر نقص سے پاک ہیں اور یہ احکامات ہی فطرت انسانی کے لیے درست اور قابل عمل بھی ہیں۔
انسانی مخلوق بھی دیگر مخلوقات کی طرح جوڑے کی شکل میں ہے، یعنی مرد اور عورت۔
عورت اور مرد سماج کے چار بنیادی رشتوں یعنی ماں، بہن، بیوی اور بیٹی کے ساتھ منسلک ہیں۔
آئیے! اب ہم حضور نبی کریم ﷺ کے ان رشتوں سے تعلقات پر نظر ڈالتے ہیں۔
رسول کریمؐ کا اپنی رضائی والدہ کے ساتھ کیسا تعلق تھا۔ رسول کریمؐ کی حقیقی والدہ تو بچپن میں ہی وفات پاگئی تھیں لیکن حضور ﷺ کی رضاعی والدہ حضرت حلیمہ سعدیہؓ صحابیہ تھیں۔ جب نبی کریمؐ کی والدہ آپؐ سے ملنے کے لیے آئیں تو آپؐ نے ان کے لیے اپنی چادر زمین پر بچھائی، اس پر انہیں بٹھایا اور خود ان کے سامنے دوزانو ہو کر بیٹھ گئے۔ حضورِ اکرمؐ نے اپنے عمل سے بتایا کہ ماں خدمت و احترام کی مستحق ہے۔
رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ''جنّت ماں کے قدموں تلے ہے۔'' (ابن ماجہ)
آپؐ نے ارشاد فرمایا: ''انسان کے حسنِ سلوک کی سب سے زیادہ مستحق اس کی ماں ہے۔'' حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے، ایک شخص رسول اﷲ ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور عرض کیا: اے اﷲ کے رسول ﷺ! میرے حسنِ سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟ آپؐ نے ارشاد فرمایا: تمہاری والدہ۔ اس نے عرض کیا: پھر کون؟ آپؐ نے ارشاد فرمایا: تمہاری والدہ۔ اس نے عرض کیا: پھر کون؟ آپؐ نے ارشاد فرمایا: تمہاری والدہ۔ اس نے عرض کیا: پھر کون؟ آپؐ نے ارشاد فرمایا: تمہارے والد۔'' (بخاری)
رسول کریمؐ کا اپنی بہن سے احسن سلوک:
جناب نبی کریمؐ کا نہ تو کوئی بھائی تھا اَور نہ کوئی بہن۔ غزوۂ حنین میں گرفتار ہونے والوں کے لیے بنو ھوازن کے وفد کے آنے پر حضور ﷺ نے سب کو رہا کر دیا۔ ان رہا ہونے والے قیدیوں میں سے ایک خاتون نبی کریمؐ کے پاس آئیں اور کہا: میں آپؐ کی بہن ہوں۔ آپؐ نے فرمایا: میری تو کوئی بہن نہیں ہے۔ وہ خاتون کہنے لگی کہ میں نے اور آپؐ نے حلیمہ سعدیہؓ کا دودھ پیا ہے، آپؐ کو شاید یاد نہیں ہے کہ آپؐ اور میں بچپن میں اکٹھے کھیلا کرتے تھے۔ رسول کریمؐ نے فرمایا: ہاں تم میری بہن ہو۔ آپؐ نے فرمایا: ''دودھ کا رشتہ بھی ایسے ہی ہے جیسے نسب کا رشتہ ہے۔'' حضورؐ نے اپنی رضائی بہن سے فرمایا: اگر تم اپنے بھائی کے ساتھ جانا چاہو تو میرے ساتھ مدینہ منورہ چلو، تمہارا بھائی تمہاری کفالت کرے گا، لیکن اگر تم واپس جانا چاہو تو میں تمہیں خالی ہاتھ واپس نہیں بھیجوں گا۔ خاتون نے واپس جانے کا فیصلہ کیا۔ چناں چہ رسول کریمؐ نے اس خاتون کو اپنی بہن ہونے کا اعزاز دیا اَور ایک دستے کے ساتھ تحائف دے کر رخصت کیا کہ میری بہن کو اس کے گھر پہنچا کر آؤ۔
نبی کریمؐ کا اپنی ازدواج سے حسن سلوک:
ارشادِ ربانی کا مفہوم: ''اور اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمہارے واسطے تمہاری ہی جنس سے عورتیں پیدا کیں، تاکہ تم ان کی طرف مائل ہو کر سکون حاصل کرو اور تم میں الفت و مودت پیدا کردی، جو لوگ غور کرتے ہیں، ان کے لیے ان باتوں میں بہت سی نشانیاں ہیں۔'' (الروم)
نکاح ایک نہایت پختہ عہد ہے، جس کے ذریعے اﷲ تعالیٰ نے زوجین کے درمیان ارتباط پیدا کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نکاح کے بعد فریقین میں سے ہر فرد کو ''زوج'' کہا جاتا ہے، چوں کہ ہر ایک دوسرے کا جوڑ ہوتا ہے۔ باری تعالیٰ نے اسی امر کی پُرحکمت تصویر کشی اس طرح کی ہے، مفہوم: ''وہ تمہارے لیے لباس ہیں اور تم ان کے لیے لباس ہو۔'' (البقرہ) اس میں لطیف اشارہ اس طرف ہے کہ زوجین کو باہم الفت و محبّت کے ساتھ اور ایک دوسرے کے لیے ستر پوشی کا ذریعہ بن کر رہنا چاہیے۔
لباس کے مقاصد میں سے ایک یہ ہے کہ اس کے ذریعے پردہ حاصل ہوتا ہے، اسی طرح میاں بیوی کو بھی ایک دوسرے کی عیب پوشی کا معاملہ کرنا چاہیے۔ لباس کا ایک مقصد زینت حاصل کرنا بھی ہے، اس سے معلوم ہوا کہ میاں بیوی کو ایک دوسرے کے لیے باعثِ زینت ہونا چاہیے، چوں کہ یہ دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم ملزوم ہوتے ہیں۔ میاں بیوی کے تعلق کے یہ دو فائدے نہایت اہم ہیں، اگر بیوی نہ ہو تو شوہر اپنے جنسی تقاضوں کی تکمیل کے لیے نہ جانے کہاں کہاں منہ مارتا پھرے۔ اس اذّیت سے ایک بات اور سمجھی جا سکتی ہے کہ جس طرح لباس انسان کے جسم کے سب سے زیادہ قریب ہوتا ہے ، اسی طرح انسانی زندگی میں میاں بیوی ایک دوسرے کے قریب ترین ہوتے ہیں۔ شوہر و بیوی دونوں کے حقوق مساوی ہیں، بہ جز ان چند باتوں کے جو مَردوں کے ساتھ ان کی فطرت کے لحاظ سے مختلف ہیں۔
ارشادِ ربانی کا مفہوم ہے: ''عورتوں کا حق مَردوں پر ویسا ہی ہے، جیسے دستور کے موافق مَردوں کا حق عورتوں پر ہے، البتہ مَردوں کو عورتوں پر ایک درجے فضیلت ہے۔'' (البقرہ) البتہ اس فضیلت کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ عورت مرد کی غلام ہے، شوہر جو چاہے اس کے ساتھ سلوک کرے، بل کہ عورت کے بالمقابل مرد پر زیادہ ذمے داری ڈالی گئی ہے کہ وہ عورت کے حقوق کا لحاظ رکھے۔ ارشادِ ربانی کا مفہوم: '' مومنو! (اپنی) بیویوں کے ساتھ اچھے طریقے سے پیش آؤ۔ اگر وہ تمہیں (کسی معاملے میں) ناپسند ہوں، (تو) عجب نہیں کہ تم ایک چیز کو ناپسند کرو اور اﷲ تعالیٰ نے اس میں بہت سی بھلائی رکھ دی ہو۔'' (النساء) یہاں اﷲ تعالیٰ نے واضح ہدایت فرما دی کہ بیوی کے حقوق کشادہ دلی سے ادا کرتے رہنا اور ہر معاملے میں ان کے ساتھ احسان و ایثار کی روِش اختیار کیے رہنا۔
جناب نبی کریمؐ کی کل گیارہ جب کہ بہ یک وقت نو بیویاں تھیں۔ جناب نبی کریمؐ نے پچیس سال کی عمر میں حضرت خدیجہؓ کے ساتھ پہلا نکا ح کیا اس وقت حضرت خدیجہؓ کی عمر چالیس برس تھی۔ ام المؤمنین حضرت خدیجہ الکبریٰؓ پچیس سال تک تنہا آپؐ کی زوجہ محترمہ رہیں اور جب آپؐ پچاس برس کے تھے جب حضرت خدیجہؓ کا انتقال ہوا۔ باقی ازواجِ مطہرات میں حضرت عائشہؓ، حضرت حفصہؓ، ام حبیبہؓ، حضرت زینب بنت جحشؓؓ، حضرت صفیہؓ، حضرت جویریہؓ، حضرت سودہؓ، حضرت زینب ام المساکینؓ، حضرت ام سلمہؓ، حضرت میمونہؓ شامل ہیں۔ اپنی بیویوں سے آپؐ کا سلوک انتہائی محبت، ایثار اور خلوص کا رہا۔ رسول کریمؐ فرماتے ہیں: ''تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے ساتھ اچھا ہے اور میں اپنے گھر والوں کے ساتھ تم سب سے اچھا ہوں۔''
حضور نبی کریم ﷺ کا بیٹیوں کے ساتھ رشتہ:
زمانۂ جاہلیت میں مشرکین عورت کو کسی رتبے اور مقام کا اہل نہ سمجھتے تھے، اس لیے وہ لڑکی کے پیدا ہونے پر غضب ناک ہوتے، حالاں کہ وہ بھی جانتے تھے کہ نظامِ کائنات کے تحت شادیوں کے لیے لڑکی کی پیدائش ضروری ہے، لیکن اس کے باوجود جب ان کے ہاں بیٹی پیدا ہوتی تو وہ اسے زندہ در گور کر دیتے۔ قرآن کریم نے ان کے اس قبیح فعل کو اس طرح بیان کیا ہے، مفہوم: ''اور جب ان میں سے کسی کو بچی کی ولادت کی خبر دی جاتی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ پڑ جاتا ہے اور وہ غصّے میں گھٹتا جاتا ہے۔ وہ اس کی عار کی وجہ سے قوم سے چھپتا پھرتا ہے۔ وہ (سوچتا ہے کہ) آیا اس کو ذلت کی حالت میں لیے پھرے یا زندہ زمین میں دفن کر دے۔ خبردار! کتنا برا خیال ہے جو وہ کرتے ہیں۔'' (النحل)
اسلام نے بیٹیوں کو زندہ درگور کرنے پر روک لگا کر دورِ جاہلیت کی اس رسمِ بد کا قلع قمع کر دیا۔ اس معاشرہ میں جہاں بیٹی کی پیدائش کو ذلت و رسوائی تصور کیا جاتا تھا، آپؐ نے بیٹی کو احترام و عزت کا مقام عطا کیا۔ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ''جس شخص کے تین بیٹیاں ہوں اور وہ ان کی بہتر پرورش کرے، اور انھیں اپنی حیثیت کے مطابق پہنائے تو یہ لڑکیاں اس کے لیے آگ سے حجاب ہوں گی۔'' (ابن ماجہ)
ایک روایت میں فرمایا: جس شخص کے تین بیٹیاں ہوں، جن کے رہنے سہنے کا وہ انتظام کرتا ہو اور اُن کی تمام ضرورتیں پوری کرتا ہو اور اُن سے شفقت کا برتاؤ کرتا ہو تو یقیناً اس کے لیے جنّت واجب ہوگئی۔ ایک شخص نے پوچھا: اگر دو ہی (بیٹیاں) ہوں تو؟ آپؐ نے ارشاد فرمایا: خواہ دو ہی ہوں (ان پر بھی یہی بشارت ہے )۔ (ادب المفرد)
یہی نہیں بل کہ اسلام نے پہلی بار وراثت میں بیٹی کا حق جاری کیا۔ ارشادِ ربانی کا مفہوم: ''اﷲ تمھیں تمہاری اولاد (کی وراثت) کے بارے میں حکم دیتا ہے کہ لڑکے کے لیے دو لڑکیوں کے برابر حصہ ہے، پھر اگر صرف لڑکیاں ہی ہوں (دو یا) دو سے زاید، تو ان کے لیے اس ترکے کا دو تہائی حصہ ہے اور اگر وہ اکیلی ہو تو اس کے لیے آدھا حصہ ہے۔'' (النساء )
رسول اﷲ ﷺ نے اپنی تعلیمات سے بتایا کہ بیٹی شفقت و محبّت کی مستحق ہے۔ رسول کریم ﷺ کی چار بیٹیوں میں سب سے چھوٹی اور لاڈلی بیٹی حضرت فاطمہؓ جب آپؐ سے ملنے آتی تھیں تو آپؐ ان کے استقبال کے لیے کھڑے ہوجاتے تھے۔ یہ حضرت فاطمہ الزھراءؓ کے لیے آپؐ کی شفقت و محبت کا اظہار تھا۔ نبی کریم ﷺ نے بیٹیوں کو عار سمجھنے اور انہیں زندہ دفن کرنے والے معاشرے میں اپنی چاروں بیٹیوں کی پرورش کی، ان کے سر پر دستِ شفقت رکھا، ان کی شادیاں کرائیں اور دُنیا کو یہ عملاً بتایا کہ بیٹیوں کے ساتھ کیسا سلوک کیا جاتا ہے۔
صالح اور نیک معاشرے کی بنیاد رکھنے میں عورت ہی پہلا مکتب ہے۔ حسن سلوک اور اچھے اخلاق سے پیش آنے کے سلسلے میں ماں کا حق، باپ سے زیادہ ہے۔ کیوں کہ بچے کی پیدائش اور تربیت کے سلسلے میں ماں کو زیادہ تکالیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اسلام نے ان تمام تکالیف کو سامنے رکھتے ہوئے ماں کو زیادہ حسن سلوک کا مستحق قرار دیا، جو اسلام کا عورت پر بہت بڑا احسان ہے۔
عرب کے بعض قبائل لڑکیوں کو دفن کردیتے تھے۔ آپؐ نے ان معصوموں کے ساتھ کی گئی ظلم و زیادتی پر جہنّم کی وعید سنائی اور ان لوگوں کو جنّت کی بشارت دی گئی جن کا دامن اس ظلم سے پاک ہو اور لڑکیوں کے ساتھ وہی برتاؤ کریں جو لڑکوں کے ساتھ کرتے ہیں اور دونوں میں کوئی فرق نہ کریں۔ نبی کریمؐ نے فرمایا: جس کا مفہوم یہ ہے کہ جس شخص کی لڑکی ہو وہ نہ تو اسے زندہ درگور کرے اور نہ اس کے ساتھ حقارت آمیز سلوک کرے اور نہ اس پر اپنے لڑکے کو ترجیح دے تو اﷲ تعالیٰ اسے جنّت میں داخل کرے گا۔
آپؐ نے فرمایا کہ انسان کی حیثیت سے مرد و عورت سب برابر ہیں۔ یہاں پر مرد کے لیے اس کی مردانگی قابلِ فخر نہیں ہے اور نہ عورت کے لیے اس کی نسوانیت باعثِ عار۔ مرد اور عورت دونوں اپنی خلقت اور صفات کے لحاظ سے فطرت کا عظیم شاہ کار ہیں۔ جو اپنی خوبیوں اور خصوصیات کے اعتبار سے کائنات کی افضل و اشرف ہستی ہیں۔ انسان کی ترقی کا دار و مدار علم پر ہے، کوئی بھی شخص یا قوم بغیر علم کے زندگی کی تگ و دو میں پیچھے رہ جاتی ہے اور مادی ترقی کا بھی کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ تاریخ کا ایک طویل عرصہ ایسا گزرا ہے، جس میں عورت کے لیے علم کی ضرورت و اہمیت کو نظر انداز کیا گیا اور اس کی ضرورت صرف مردوں کے لیے سمجھی گئی اور ان میں بھی جو خاص طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں صرف وہی علم حاصل کرتے تھے اور عورت علم سے بہت دُور جہالت کی زندگی بسر کرتی تھی۔
لیکن اسلام نے علم کے حصول کو فرض قرار دیا اور مرد و عورت دونوں کے لیے اس کے دروازے کھولے اور جو بھی اس راہ میں رکاوٹ و پابندیاں تھیں، سب کو ختم کردیا۔ اسلام مرد و عورت دونوں کو مخاطب کرتا ہے اور اس نے ہر ایک کو عبادت و اخلاق و شریعت کا پابند بنایا ہے جو کہ علم کے بغیر ممکن نہیں۔ علم کے بغیر عورت نہ تو اپنے حقوق کی حفاظت کرسکتی ہے اور نہ ہی اپنی ذمّے داریوں کو ادا کرسکتی ہے جو کہ اسلام نے اس پر عاید کی ہے، اس لیے مرد کے ساتھ عورتوں کی تعلیم بھی نہایت ضروری ہے۔
اسلامی معاشرے نے بعض حالتوں میں اسے مردوں سے زیادہ فوقیت اور عزت و احترام عطا کیا ہے۔ آپ ﷺ نے خواتین کے لیے فرمایا: ''مجھے دنیا کی چیزوں میں سے عورت اور خوش بُو پسند ہے اور میری آنکھ کی ٹھنڈک نماز میں رکھ دی گئی ہے۔''
عورت کا نان نفقہ ہر حالت میں مرد کے ذمے ہے۔ اگر بیٹی ہے تو باپ کے ذمے۔ بہن ہے تو بھائی کے ذمے، بیوی ہے تو شوہر پر اس کا نان نفقہ واجب کردیا گیا اور اگر ماں ہے تو اس کے اخراجات اس کے بیٹے کے ذمّے ہیں۔ عورت کا حقِ مہر ادا کرنا مرد پر بہ ہر صورت لازم قرار دیا گیا ہے۔ اسلام نے وراثت میں عورتوں کا باقاعدہ حصہ دلوایا۔ عورت کو مہر سے اور وراثت سے جو کچھ مال ملے، وہ پوری طرح سے اس کی مالک ہے پھر وہ اپنے مال کو جہاں چاہے خرچ کرے، اس پر کسی کا اختیار نہیں، چاہے تو اپنے شوہر کو دے یا اپنی اولاد کو یا پھر کسی کو ہبہ کرے یا خدا کی راہ میں دے، یہ اس کی اپنی مرضی ہے اور اگر وہ ازخود کماتی ہے تو اس کی مالک بھی وہی ہے، لیکن اس کا نفقہ اس کے شوہر پر واجب ہے، چاہے وہ کمائے یا نہ کمائے۔
شوہر کے انتخاب میں اسلام نے عورت کو بڑی حد تک آزادی دی ہے۔ نکاح کے سلسلے میں لڑکیوں کی مرضی اور ان کی اجازت ہر حالت میں ضروری قرار دی گئی ہے۔ اسلام نے عورت کو خلع کا حق دیا ہے کہ اگر ناپسندیدہ ظالم اور ناکارہ شوہر ہے تو بیوی نکاح کو فسخ کرسکتی ہے۔ نبی کریمؐ نے گھر کی عورتوں کے ساتھ مشورہ کرنے اور ان سے معاملات میں رائے لینے کی حوصلہ افزائی فرمائی۔ جناب نبی کریمؐ نے عورت کو یہ مقام دیا کہ وہ معاملات میں اپنی رائے دے سکتی ہے اور اس کی رائے کی حیثیت تسلیم کی جاتی ہے۔
آج ہر طرف حقوقِ نسواں کے نام پر ایک ہنگامہ بپا ہے اور لوگ اس صنفِ نازک کے جذبات سے کھیل کر اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایک طرف انہیں آزادی کے نام پر بر سرِ بازار لا کر کھڑا کر دیا گیا ہے اور دوسری طرف ان کے حقوق کے نام پر ایسے بے سروپا قوانین بنائے جا رہے ہیں جن سے گھر کا چین و سکون غارت ہوگیا ہے۔ ایسے ہی ضمیر فروشوں نے یہ راگ الاپنا بھی شروع کیا ہے کہ اسلام نے عورت کی آزادی صلب کر لی اور انھیں چہار دیواری میں بند کر دیا ہے۔
اس دور فتن میں اس کی اشد ضرورت ہے کہ خواتین کو سیرت طیبہ ﷺ کا گہرا مطالعہ کرنا چاہیے۔ سیرت طیبہؐ ہمارے لیے اسوۂ حسنہ ہے اور یہی ہماری بنیاد بھی ہے۔ ہمیں اپنی اسلامی بنیادوں پر استقامت سے کھڑا رہنا چاہیے کہ یہی اس دور پُرفتن کے سیلاب بلاخیز سے ہماری حفاظت کرسکتا اور ہمیں مامون و محفوظ رکھ سکتا ہے۔
کیا کوئی اس سچ سے انکار کرسکتا ہے کہ ان کا جسمانی، نفسیاتی اور جنسی استحصال عام ہے اور اس کے سدّباب کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں ہو رہے اور جو نظر آتا ہے وہ بس اتنا ہے کہ اسے صرف زبانی جمع خرچ کہا جاسکتا ہے۔ اور یہ بھی ایک حقیقت ہے جس کا انکار نہیں کیا جاسکتا کہ خواتین کے استحصال میں مغرب اور مشرق کی کوئی تفریق باقی نہیں رہی ہے، کہیں یہ حق تلفی سامنے ہے اور کہیں پوشیدہ، لیکن ہے ضرور۔
ایسے میں کچھ تنگ دل و کوتاہ نظر حقیقت حال سے نظریں چراتے ہوئے یہ کہتے رہتے ہیں کہ اِسلام عورت کو وہ کچھ نہیں دے رہا جو مغرب دے رہا ہے۔ تو پھر سوال یہ ہے کہ کیا عورتوں کے حقوق کے حوالے سے مغربی دنیا معیار ہے؟ تو پھر اس کا جواب بھی انہیں دینا چاہیے کہ مغرب میں خواتین تو بدترین تعصب کا شکار ہیں۔ اگر کوئی اس بات کو لاف زنی قرار دے تو انہیں چاہیے کہ وہ دنیا بھر میں اور بالخصوص یورپ میں ان تحاریک کو بہ غور دیکھے جو ان دنوں بھی وہاں برپا ہیں۔
اب بھی مٖغربی ممالک میں خواتین اپنی اجرتوں جو مردوں سے انتہائی کم ہیں پر شاکی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ان کا ہر طرح سے ناصرف ہر طرح سے استحصال کیا جاتا ہے بل کہ انہیں بھی تجارت کی شے سمجھا جاتا ہے اور پھر المیہ یہ بھی کہ جب تک وہ جوان ہے اس کی طلب ہے اور پھر جیسے ہی طلب ختم ہوئی وہ کسی اولڈ ہوم میں اپنی زندگی کے اذیت بھرے بدترین دن گزارنے پر مجبور ہوتی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ زرپرستوں نے ان خواتین کو جو خوش قسمتی سے ان کے جھانسے میں اب تک نہیں آئی انہیں مجبور کیا جارہا ہے کہ وہ بھی تہذیب مغرب کو قبول کریں اور ان کی تجوریوں کو بھرنے میں اپنے فطری حسن، صلاحیتوں اور جسم کو قابل فروخت بنانے کو آزادی نسواں کے نام پر قربان کردیں۔
سردست یہ ہمارا موضوع نہیں ہے لیکن اس تمہید کے بغیر ہم اپنی اصل بحث پر نہیں آسکتے۔ آئیے! ہم اس اعتراض کا جواب سیرت نبوی ﷺ کی روشنی میں تلاش کرتے ہیں کہ ''اِسلام عورت کو وہ کچھ نہیں دے رہا جو مغرب دے رہا ہے''
اسلام نے مرد و عورت کا فطری توازن قائم کرتے ہوئے ہدایت دی ہے کہ گھر کے نظام کا سربراہ مرد ہے اس لیے کہ نظم ایک ہاتھ میں ہو تو نظام درست چلتا ہے اور اگر اختیارات دو ہاتھوں میں تقسیم کر دیے جائیں تو نظام تباہ ہو جاتا ہے۔ نظم کا تقاضا یہ ہے کہ سربراہی کسی ایک کی ہو۔ اور یہ کہ عورت کے جتنے فرائض ہیں، ان سے ہٹ کر ان پر کوئی ذمے داری نہ ڈالی جائے۔
انسانی معاشرے کے حوالے سے اسلامی تعلیمات یہ ہیں کہ مرد اپنے گھر کے اخراجات کا کفیل ہے جب کہ عورت گھر کے اندرونی نظام کی ذمے دار ہے۔ ہاں بہ وقت ضرورت بیوی اپنے خاوند کا ہاتھ بٹا سکتی ہے اور خاوند بھی گھر کے اندرونی معاملات میں بیوی کی مدد کر سکتا ہے۔
اﷲ تعالیٰ نے مرد و عورت کے درمیان حقوق و فرائض کی یہ تقسیم ان کی نفسیات کو ملحوظ رکھتے ہوئے کی ہے۔ لیکن مغرب والوں نے عورتوں کو آزادی کے نام پر اِس بات پر اکسایا ہے کہ گھر کے اخراجات میں ہاتھ بٹانے کے لیے کمانا ان کے حقوق میں شامل ہے، اس بات کو انہوں نے مرد و عورت کے درمیان مساوات کا نام دیا ہے۔ دفتر میں جا کر کام کرنا، فیکٹری میں مزدوری کرنا، اور اسی طرح کے دیگر امور، یہ عورت پر اضافی ذمے داری ہے جنہیں حقوق کا پُرفریب نام دے دیا گیا ہے۔
سیرت طیبہ ﷺ کی روشنی میں خواتین کے حقوق و فرائض کا کیا تعین کیا گیا ہے اور ان کا سماجی مقام و مرتبے کے ساتھ ان کے مشورے اور رائے کو کیا اہمیت حاصل ہے، نیز یہ بھی کہ مساواتِ مرد و زن کے حوالے سے سیرت طیّبہ ﷺ ہمیں کیا درس اور حکم دیتی ہے۔۔۔۔۔ ؟
یہ ہیں وہ سوالات جو دور جدید میں ایک انتہائی اہم مباحث کا حصہ ہیں۔ مسلمانوں کا یہ ایمان و عقیدہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ ہی تمام مخلوقات کا خالقِ حقیقی ہونے کے ساتھ ان کی ضروریات، حقوق اور فرائض کا تقسیم کار ہے۔ رب تعالی نے اپنی تمام مخلوقات میں سے انسان کو اشرف المخلوقات کے اعزاز سے نوازا ہے اور انسان کی خوبیاں، کم زوریاں اور اِس کی بُودوباش کے تقاضے وہی جانتا ہے۔ زندگی گزارنے کے جو اصول و ضوابط، قوائد و قوانین جو اﷲ تعالیٰ نے مقرر فرما دیے ہیں بس وہی صحیح اور ہر نقص سے پاک ہیں اور یہ احکامات ہی فطرت انسانی کے لیے درست اور قابل عمل بھی ہیں۔
انسانی مخلوق بھی دیگر مخلوقات کی طرح جوڑے کی شکل میں ہے، یعنی مرد اور عورت۔
عورت اور مرد سماج کے چار بنیادی رشتوں یعنی ماں، بہن، بیوی اور بیٹی کے ساتھ منسلک ہیں۔
آئیے! اب ہم حضور نبی کریم ﷺ کے ان رشتوں سے تعلقات پر نظر ڈالتے ہیں۔
رسول کریمؐ کا اپنی رضائی والدہ کے ساتھ کیسا تعلق تھا۔ رسول کریمؐ کی حقیقی والدہ تو بچپن میں ہی وفات پاگئی تھیں لیکن حضور ﷺ کی رضاعی والدہ حضرت حلیمہ سعدیہؓ صحابیہ تھیں۔ جب نبی کریمؐ کی والدہ آپؐ سے ملنے کے لیے آئیں تو آپؐ نے ان کے لیے اپنی چادر زمین پر بچھائی، اس پر انہیں بٹھایا اور خود ان کے سامنے دوزانو ہو کر بیٹھ گئے۔ حضورِ اکرمؐ نے اپنے عمل سے بتایا کہ ماں خدمت و احترام کی مستحق ہے۔
رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ''جنّت ماں کے قدموں تلے ہے۔'' (ابن ماجہ)
آپؐ نے ارشاد فرمایا: ''انسان کے حسنِ سلوک کی سب سے زیادہ مستحق اس کی ماں ہے۔'' حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے، ایک شخص رسول اﷲ ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور عرض کیا: اے اﷲ کے رسول ﷺ! میرے حسنِ سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟ آپؐ نے ارشاد فرمایا: تمہاری والدہ۔ اس نے عرض کیا: پھر کون؟ آپؐ نے ارشاد فرمایا: تمہاری والدہ۔ اس نے عرض کیا: پھر کون؟ آپؐ نے ارشاد فرمایا: تمہاری والدہ۔ اس نے عرض کیا: پھر کون؟ آپؐ نے ارشاد فرمایا: تمہارے والد۔'' (بخاری)
رسول کریمؐ کا اپنی بہن سے احسن سلوک:
جناب نبی کریمؐ کا نہ تو کوئی بھائی تھا اَور نہ کوئی بہن۔ غزوۂ حنین میں گرفتار ہونے والوں کے لیے بنو ھوازن کے وفد کے آنے پر حضور ﷺ نے سب کو رہا کر دیا۔ ان رہا ہونے والے قیدیوں میں سے ایک خاتون نبی کریمؐ کے پاس آئیں اور کہا: میں آپؐ کی بہن ہوں۔ آپؐ نے فرمایا: میری تو کوئی بہن نہیں ہے۔ وہ خاتون کہنے لگی کہ میں نے اور آپؐ نے حلیمہ سعدیہؓ کا دودھ پیا ہے، آپؐ کو شاید یاد نہیں ہے کہ آپؐ اور میں بچپن میں اکٹھے کھیلا کرتے تھے۔ رسول کریمؐ نے فرمایا: ہاں تم میری بہن ہو۔ آپؐ نے فرمایا: ''دودھ کا رشتہ بھی ایسے ہی ہے جیسے نسب کا رشتہ ہے۔'' حضورؐ نے اپنی رضائی بہن سے فرمایا: اگر تم اپنے بھائی کے ساتھ جانا چاہو تو میرے ساتھ مدینہ منورہ چلو، تمہارا بھائی تمہاری کفالت کرے گا، لیکن اگر تم واپس جانا چاہو تو میں تمہیں خالی ہاتھ واپس نہیں بھیجوں گا۔ خاتون نے واپس جانے کا فیصلہ کیا۔ چناں چہ رسول کریمؐ نے اس خاتون کو اپنی بہن ہونے کا اعزاز دیا اَور ایک دستے کے ساتھ تحائف دے کر رخصت کیا کہ میری بہن کو اس کے گھر پہنچا کر آؤ۔
نبی کریمؐ کا اپنی ازدواج سے حسن سلوک:
ارشادِ ربانی کا مفہوم: ''اور اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمہارے واسطے تمہاری ہی جنس سے عورتیں پیدا کیں، تاکہ تم ان کی طرف مائل ہو کر سکون حاصل کرو اور تم میں الفت و مودت پیدا کردی، جو لوگ غور کرتے ہیں، ان کے لیے ان باتوں میں بہت سی نشانیاں ہیں۔'' (الروم)
نکاح ایک نہایت پختہ عہد ہے، جس کے ذریعے اﷲ تعالیٰ نے زوجین کے درمیان ارتباط پیدا کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نکاح کے بعد فریقین میں سے ہر فرد کو ''زوج'' کہا جاتا ہے، چوں کہ ہر ایک دوسرے کا جوڑ ہوتا ہے۔ باری تعالیٰ نے اسی امر کی پُرحکمت تصویر کشی اس طرح کی ہے، مفہوم: ''وہ تمہارے لیے لباس ہیں اور تم ان کے لیے لباس ہو۔'' (البقرہ) اس میں لطیف اشارہ اس طرف ہے کہ زوجین کو باہم الفت و محبّت کے ساتھ اور ایک دوسرے کے لیے ستر پوشی کا ذریعہ بن کر رہنا چاہیے۔
لباس کے مقاصد میں سے ایک یہ ہے کہ اس کے ذریعے پردہ حاصل ہوتا ہے، اسی طرح میاں بیوی کو بھی ایک دوسرے کی عیب پوشی کا معاملہ کرنا چاہیے۔ لباس کا ایک مقصد زینت حاصل کرنا بھی ہے، اس سے معلوم ہوا کہ میاں بیوی کو ایک دوسرے کے لیے باعثِ زینت ہونا چاہیے، چوں کہ یہ دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم ملزوم ہوتے ہیں۔ میاں بیوی کے تعلق کے یہ دو فائدے نہایت اہم ہیں، اگر بیوی نہ ہو تو شوہر اپنے جنسی تقاضوں کی تکمیل کے لیے نہ جانے کہاں کہاں منہ مارتا پھرے۔ اس اذّیت سے ایک بات اور سمجھی جا سکتی ہے کہ جس طرح لباس انسان کے جسم کے سب سے زیادہ قریب ہوتا ہے ، اسی طرح انسانی زندگی میں میاں بیوی ایک دوسرے کے قریب ترین ہوتے ہیں۔ شوہر و بیوی دونوں کے حقوق مساوی ہیں، بہ جز ان چند باتوں کے جو مَردوں کے ساتھ ان کی فطرت کے لحاظ سے مختلف ہیں۔
ارشادِ ربانی کا مفہوم ہے: ''عورتوں کا حق مَردوں پر ویسا ہی ہے، جیسے دستور کے موافق مَردوں کا حق عورتوں پر ہے، البتہ مَردوں کو عورتوں پر ایک درجے فضیلت ہے۔'' (البقرہ) البتہ اس فضیلت کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ عورت مرد کی غلام ہے، شوہر جو چاہے اس کے ساتھ سلوک کرے، بل کہ عورت کے بالمقابل مرد پر زیادہ ذمے داری ڈالی گئی ہے کہ وہ عورت کے حقوق کا لحاظ رکھے۔ ارشادِ ربانی کا مفہوم: '' مومنو! (اپنی) بیویوں کے ساتھ اچھے طریقے سے پیش آؤ۔ اگر وہ تمہیں (کسی معاملے میں) ناپسند ہوں، (تو) عجب نہیں کہ تم ایک چیز کو ناپسند کرو اور اﷲ تعالیٰ نے اس میں بہت سی بھلائی رکھ دی ہو۔'' (النساء) یہاں اﷲ تعالیٰ نے واضح ہدایت فرما دی کہ بیوی کے حقوق کشادہ دلی سے ادا کرتے رہنا اور ہر معاملے میں ان کے ساتھ احسان و ایثار کی روِش اختیار کیے رہنا۔
جناب نبی کریمؐ کی کل گیارہ جب کہ بہ یک وقت نو بیویاں تھیں۔ جناب نبی کریمؐ نے پچیس سال کی عمر میں حضرت خدیجہؓ کے ساتھ پہلا نکا ح کیا اس وقت حضرت خدیجہؓ کی عمر چالیس برس تھی۔ ام المؤمنین حضرت خدیجہ الکبریٰؓ پچیس سال تک تنہا آپؐ کی زوجہ محترمہ رہیں اور جب آپؐ پچاس برس کے تھے جب حضرت خدیجہؓ کا انتقال ہوا۔ باقی ازواجِ مطہرات میں حضرت عائشہؓ، حضرت حفصہؓ، ام حبیبہؓ، حضرت زینب بنت جحشؓؓ، حضرت صفیہؓ، حضرت جویریہؓ، حضرت سودہؓ، حضرت زینب ام المساکینؓ، حضرت ام سلمہؓ، حضرت میمونہؓ شامل ہیں۔ اپنی بیویوں سے آپؐ کا سلوک انتہائی محبت، ایثار اور خلوص کا رہا۔ رسول کریمؐ فرماتے ہیں: ''تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے ساتھ اچھا ہے اور میں اپنے گھر والوں کے ساتھ تم سب سے اچھا ہوں۔''
حضور نبی کریم ﷺ کا بیٹیوں کے ساتھ رشتہ:
زمانۂ جاہلیت میں مشرکین عورت کو کسی رتبے اور مقام کا اہل نہ سمجھتے تھے، اس لیے وہ لڑکی کے پیدا ہونے پر غضب ناک ہوتے، حالاں کہ وہ بھی جانتے تھے کہ نظامِ کائنات کے تحت شادیوں کے لیے لڑکی کی پیدائش ضروری ہے، لیکن اس کے باوجود جب ان کے ہاں بیٹی پیدا ہوتی تو وہ اسے زندہ در گور کر دیتے۔ قرآن کریم نے ان کے اس قبیح فعل کو اس طرح بیان کیا ہے، مفہوم: ''اور جب ان میں سے کسی کو بچی کی ولادت کی خبر دی جاتی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ پڑ جاتا ہے اور وہ غصّے میں گھٹتا جاتا ہے۔ وہ اس کی عار کی وجہ سے قوم سے چھپتا پھرتا ہے۔ وہ (سوچتا ہے کہ) آیا اس کو ذلت کی حالت میں لیے پھرے یا زندہ زمین میں دفن کر دے۔ خبردار! کتنا برا خیال ہے جو وہ کرتے ہیں۔'' (النحل)
اسلام نے بیٹیوں کو زندہ درگور کرنے پر روک لگا کر دورِ جاہلیت کی اس رسمِ بد کا قلع قمع کر دیا۔ اس معاشرہ میں جہاں بیٹی کی پیدائش کو ذلت و رسوائی تصور کیا جاتا تھا، آپؐ نے بیٹی کو احترام و عزت کا مقام عطا کیا۔ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ''جس شخص کے تین بیٹیاں ہوں اور وہ ان کی بہتر پرورش کرے، اور انھیں اپنی حیثیت کے مطابق پہنائے تو یہ لڑکیاں اس کے لیے آگ سے حجاب ہوں گی۔'' (ابن ماجہ)
ایک روایت میں فرمایا: جس شخص کے تین بیٹیاں ہوں، جن کے رہنے سہنے کا وہ انتظام کرتا ہو اور اُن کی تمام ضرورتیں پوری کرتا ہو اور اُن سے شفقت کا برتاؤ کرتا ہو تو یقیناً اس کے لیے جنّت واجب ہوگئی۔ ایک شخص نے پوچھا: اگر دو ہی (بیٹیاں) ہوں تو؟ آپؐ نے ارشاد فرمایا: خواہ دو ہی ہوں (ان پر بھی یہی بشارت ہے )۔ (ادب المفرد)
یہی نہیں بل کہ اسلام نے پہلی بار وراثت میں بیٹی کا حق جاری کیا۔ ارشادِ ربانی کا مفہوم: ''اﷲ تمھیں تمہاری اولاد (کی وراثت) کے بارے میں حکم دیتا ہے کہ لڑکے کے لیے دو لڑکیوں کے برابر حصہ ہے، پھر اگر صرف لڑکیاں ہی ہوں (دو یا) دو سے زاید، تو ان کے لیے اس ترکے کا دو تہائی حصہ ہے اور اگر وہ اکیلی ہو تو اس کے لیے آدھا حصہ ہے۔'' (النساء )
رسول اﷲ ﷺ نے اپنی تعلیمات سے بتایا کہ بیٹی شفقت و محبّت کی مستحق ہے۔ رسول کریم ﷺ کی چار بیٹیوں میں سب سے چھوٹی اور لاڈلی بیٹی حضرت فاطمہؓ جب آپؐ سے ملنے آتی تھیں تو آپؐ ان کے استقبال کے لیے کھڑے ہوجاتے تھے۔ یہ حضرت فاطمہ الزھراءؓ کے لیے آپؐ کی شفقت و محبت کا اظہار تھا۔ نبی کریم ﷺ نے بیٹیوں کو عار سمجھنے اور انہیں زندہ دفن کرنے والے معاشرے میں اپنی چاروں بیٹیوں کی پرورش کی، ان کے سر پر دستِ شفقت رکھا، ان کی شادیاں کرائیں اور دُنیا کو یہ عملاً بتایا کہ بیٹیوں کے ساتھ کیسا سلوک کیا جاتا ہے۔
صالح اور نیک معاشرے کی بنیاد رکھنے میں عورت ہی پہلا مکتب ہے۔ حسن سلوک اور اچھے اخلاق سے پیش آنے کے سلسلے میں ماں کا حق، باپ سے زیادہ ہے۔ کیوں کہ بچے کی پیدائش اور تربیت کے سلسلے میں ماں کو زیادہ تکالیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اسلام نے ان تمام تکالیف کو سامنے رکھتے ہوئے ماں کو زیادہ حسن سلوک کا مستحق قرار دیا، جو اسلام کا عورت پر بہت بڑا احسان ہے۔
عرب کے بعض قبائل لڑکیوں کو دفن کردیتے تھے۔ آپؐ نے ان معصوموں کے ساتھ کی گئی ظلم و زیادتی پر جہنّم کی وعید سنائی اور ان لوگوں کو جنّت کی بشارت دی گئی جن کا دامن اس ظلم سے پاک ہو اور لڑکیوں کے ساتھ وہی برتاؤ کریں جو لڑکوں کے ساتھ کرتے ہیں اور دونوں میں کوئی فرق نہ کریں۔ نبی کریمؐ نے فرمایا: جس کا مفہوم یہ ہے کہ جس شخص کی لڑکی ہو وہ نہ تو اسے زندہ درگور کرے اور نہ اس کے ساتھ حقارت آمیز سلوک کرے اور نہ اس پر اپنے لڑکے کو ترجیح دے تو اﷲ تعالیٰ اسے جنّت میں داخل کرے گا۔
آپؐ نے فرمایا کہ انسان کی حیثیت سے مرد و عورت سب برابر ہیں۔ یہاں پر مرد کے لیے اس کی مردانگی قابلِ فخر نہیں ہے اور نہ عورت کے لیے اس کی نسوانیت باعثِ عار۔ مرد اور عورت دونوں اپنی خلقت اور صفات کے لحاظ سے فطرت کا عظیم شاہ کار ہیں۔ جو اپنی خوبیوں اور خصوصیات کے اعتبار سے کائنات کی افضل و اشرف ہستی ہیں۔ انسان کی ترقی کا دار و مدار علم پر ہے، کوئی بھی شخص یا قوم بغیر علم کے زندگی کی تگ و دو میں پیچھے رہ جاتی ہے اور مادی ترقی کا بھی کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ تاریخ کا ایک طویل عرصہ ایسا گزرا ہے، جس میں عورت کے لیے علم کی ضرورت و اہمیت کو نظر انداز کیا گیا اور اس کی ضرورت صرف مردوں کے لیے سمجھی گئی اور ان میں بھی جو خاص طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں صرف وہی علم حاصل کرتے تھے اور عورت علم سے بہت دُور جہالت کی زندگی بسر کرتی تھی۔
لیکن اسلام نے علم کے حصول کو فرض قرار دیا اور مرد و عورت دونوں کے لیے اس کے دروازے کھولے اور جو بھی اس راہ میں رکاوٹ و پابندیاں تھیں، سب کو ختم کردیا۔ اسلام مرد و عورت دونوں کو مخاطب کرتا ہے اور اس نے ہر ایک کو عبادت و اخلاق و شریعت کا پابند بنایا ہے جو کہ علم کے بغیر ممکن نہیں۔ علم کے بغیر عورت نہ تو اپنے حقوق کی حفاظت کرسکتی ہے اور نہ ہی اپنی ذمّے داریوں کو ادا کرسکتی ہے جو کہ اسلام نے اس پر عاید کی ہے، اس لیے مرد کے ساتھ عورتوں کی تعلیم بھی نہایت ضروری ہے۔
اسلامی معاشرے نے بعض حالتوں میں اسے مردوں سے زیادہ فوقیت اور عزت و احترام عطا کیا ہے۔ آپ ﷺ نے خواتین کے لیے فرمایا: ''مجھے دنیا کی چیزوں میں سے عورت اور خوش بُو پسند ہے اور میری آنکھ کی ٹھنڈک نماز میں رکھ دی گئی ہے۔''
عورت کا نان نفقہ ہر حالت میں مرد کے ذمے ہے۔ اگر بیٹی ہے تو باپ کے ذمے۔ بہن ہے تو بھائی کے ذمے، بیوی ہے تو شوہر پر اس کا نان نفقہ واجب کردیا گیا اور اگر ماں ہے تو اس کے اخراجات اس کے بیٹے کے ذمّے ہیں۔ عورت کا حقِ مہر ادا کرنا مرد پر بہ ہر صورت لازم قرار دیا گیا ہے۔ اسلام نے وراثت میں عورتوں کا باقاعدہ حصہ دلوایا۔ عورت کو مہر سے اور وراثت سے جو کچھ مال ملے، وہ پوری طرح سے اس کی مالک ہے پھر وہ اپنے مال کو جہاں چاہے خرچ کرے، اس پر کسی کا اختیار نہیں، چاہے تو اپنے شوہر کو دے یا اپنی اولاد کو یا پھر کسی کو ہبہ کرے یا خدا کی راہ میں دے، یہ اس کی اپنی مرضی ہے اور اگر وہ ازخود کماتی ہے تو اس کی مالک بھی وہی ہے، لیکن اس کا نفقہ اس کے شوہر پر واجب ہے، چاہے وہ کمائے یا نہ کمائے۔
شوہر کے انتخاب میں اسلام نے عورت کو بڑی حد تک آزادی دی ہے۔ نکاح کے سلسلے میں لڑکیوں کی مرضی اور ان کی اجازت ہر حالت میں ضروری قرار دی گئی ہے۔ اسلام نے عورت کو خلع کا حق دیا ہے کہ اگر ناپسندیدہ ظالم اور ناکارہ شوہر ہے تو بیوی نکاح کو فسخ کرسکتی ہے۔ نبی کریمؐ نے گھر کی عورتوں کے ساتھ مشورہ کرنے اور ان سے معاملات میں رائے لینے کی حوصلہ افزائی فرمائی۔ جناب نبی کریمؐ نے عورت کو یہ مقام دیا کہ وہ معاملات میں اپنی رائے دے سکتی ہے اور اس کی رائے کی حیثیت تسلیم کی جاتی ہے۔
آج ہر طرف حقوقِ نسواں کے نام پر ایک ہنگامہ بپا ہے اور لوگ اس صنفِ نازک کے جذبات سے کھیل کر اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایک طرف انہیں آزادی کے نام پر بر سرِ بازار لا کر کھڑا کر دیا گیا ہے اور دوسری طرف ان کے حقوق کے نام پر ایسے بے سروپا قوانین بنائے جا رہے ہیں جن سے گھر کا چین و سکون غارت ہوگیا ہے۔ ایسے ہی ضمیر فروشوں نے یہ راگ الاپنا بھی شروع کیا ہے کہ اسلام نے عورت کی آزادی صلب کر لی اور انھیں چہار دیواری میں بند کر دیا ہے۔
اس دور فتن میں اس کی اشد ضرورت ہے کہ خواتین کو سیرت طیبہ ﷺ کا گہرا مطالعہ کرنا چاہیے۔ سیرت طیبہؐ ہمارے لیے اسوۂ حسنہ ہے اور یہی ہماری بنیاد بھی ہے۔ ہمیں اپنی اسلامی بنیادوں پر استقامت سے کھڑا رہنا چاہیے کہ یہی اس دور پُرفتن کے سیلاب بلاخیز سے ہماری حفاظت کرسکتا اور ہمیں مامون و محفوظ رکھ سکتا ہے۔