آئی ایم ایف اور ترقی پذیر ممالک

مہنگائی کی آبیاری اس کی پرورش اسے مزید بڑھاوا دینے میں سماج کے بہت سے طبقے منظر عام پر آتے رہے۔

وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے پاکستانی عوام کی ترجمانی کرتے ہوئے کہا ہے کہ بجلی مہنگی نہیں ہوگی، آئی ایم ایف کی پالیسیاں ایسی ہیں کہ جس طرح سے آئی ایم ایف کہہ رہا ہے ایسے نہیں کرسکتے، ہمیں اپنے طریقے سے ریونیو بڑھانا ہوگا ، ان کا کہنا تھا کہ اس مرتبہ آئی ایم ایف نے ہم پر نہایت سخت شرائط لگائی ہیں، جن کی سیاسی قیمت بھی ہے۔

بات دراصل یہ ہے کہ پاکستان کی طرح دیگر ترقی پذیر ممالک بھی آئی ایم ایف کی کارستانیوں سے نالاں ہیں۔ 1973 کے بعد سے ترقی پذیر ممالک کی شدید مجبوری بن چکی تھی کہ وہ قرض لیں اور پھر بتدریج ان کے قرض لینے کی مقدار بھی بڑھتی گئی ساتھ ہی آئی ایم ایف کی طرف سے جن شرائط کو لاگو کیا جاتا وہ آئی ایم ایف کے ابتدائی مقاصد سے بالکل ہی خلاف ہوتے تھے۔

جب 1973 میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہونا شروع ہوا اس کے ساتھ ہی مختلف ممالک کو یہ نسخہ تھمایا گیا کہ وہ اپنی برآمدات میں اضافے کے لیے اپنی کرنسیوں کی قدر کم کرتے رہیں، اس طرح مختلف شرائط عائد کرنے کے ساتھ قرضوں کا اجرا کیا جاتا تھا۔ مختلف ممالک کی مالی صورتحال بگڑتی رہی بالآخر نتیجہ یہ نکلا کہ 1981 تک پہنچتے پہنچتے دنیا میں قرضوں کا بحران پیدا ہو گیا۔ اس دوران ایک سال بعد ہی بہت سے ترقی پذیر ملکوں نے محسوس کرلیا کہ اب تو وہ قرضوں پر سود بھی ادا نہیں کرسکتے۔

پاکستان میں صورتحال کچھ اس طرح تھی کہ 1979 میں پاکستان افغان جنگ کا حصہ بن چکا تھا۔ اس کے کچھ عرصے بعد ملک میں کہیں کہیں دھماکے بھی ہونا شروع ہوگئے جن میں کراچی صدر کے بم دھماکے نے برے اثرات مرتب کیے کہ ملک میں بتدریج سیاحت میں کمی ہونا شروع ہوگئی۔ ادھر دنیا 1982 میں اقتصادی بحران کے نتیجے میں زبردست کساد بازاری کے نرغے میں آگئی۔ جس کے تدارک کے لیے آئی ایم ایف نے اپنا پروگرام وضع کیا۔

دنیا کے بیشتر ملکوں جن میں خصوصاً ترقی پذیر ممالک کو یہ سندیسہ دیا گیا کہ وہ قرض کے طلب گار ہیں تو بجٹ خسارے کو کنٹرول کریں۔ نرم زرعی پالیسی کو سخت کریں اور کرنسی کی قدر کم کریں۔ آہستہ آہستہ فنڈز کے پروگرام اور کئی باتوں کے علاوہ جس طرح اپنے مقاصد سے ہٹتے ہوئے موقف کے باعث ترقی پذیر ملکوں میں یہ تاثر بڑھتا گیا کہ آئی ایم ایف پر امریکی کنٹرول میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے دنیا کی معیشتوں میں سے وہ معیشتیں جوکہ کمزور ہیں اور ان کی اکثریت بھی ہے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے ان تمام ملکوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔

پاکستان بھی ان میں شامل ہے کیونکہ ملک کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ پٹرولیم کی درآمدات کی ضرورت پڑ رہی تھی اس کے ساتھ ملکی زرعی پیداوار میں وافر مقدار میں پیداوار نہ ہونے کے سبب زرعی برآمدات اور زراعت پر مبنی صنعتوں کی برآمدات بھی تسلی بخش نہ تھی۔


ساتھ ہی ملکی ترقی کی خاطر ٹرانسپورٹ سے لے کر اشیائے سرمایہ کی درآمدات میں اضافے نے ملکی تجارتی خسارے کو دن دگنی رات چو گنی ترقی دینا شروع کردی اس طرح مالی معاملات بگڑتے چلے گئے قرض لینے کی بات ہوتی تو آئی ایم ایف حکام کے تیور بدلتے رہے نئی نئی شرائط کی رونمائی ہوتی رہی جسے سن کر عوام کے تیور بگڑتے رہے جب کہ حکام اس بات پر مصر ہوتے کہ یہ آخری کڑوی گولی ہے جسے نگلنا پڑے گا۔ اس طرح آئی ایم ایف کی طرف سے بجلی بم، گیس بم اور بہت کچھ عوام پر گرتے رہے۔ نتیجہ مہنگائی کا جن زور آور ہوکر بے قابو ہوتا چلا گیا۔

مہنگائی کی آبیاری اس کی پرورش اسے مزید بڑھاوا دینے میں سماج کے بہت سے طبقے منظر عام پر آتے رہے جن میں ذخیرہ اندوز، اسمگلر اور دیگر مافیاز کا نام آتا ہے جن کی نقاب کشائی اگر کہیں کہیں ہو جاتی تو ان لوگوں کو دیکھ کر عوام انگشت بدنداں رہ جاتے۔ حکام بے بس رہ جاتے۔ ایوان اقتدار والے ان پر ہاتھ ڈالنے سے گریزاں رہتے۔ کہا یہ جاتا ہے کہ مختلف ادوار میں ہر کسی کو ان کا حصہ بقدر جثہ مل جاتا ہے تو پھر۔ یعنی جتنے منہ اتنی باتیں۔ لیکن ایک بات کہ آج کل کچھ نہ کچھ نکیل ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

آئی ایم ایف اپنے کئی مقاصد کے حصول کے لیے توازن ادائیگی میں بہتری لانے کے لیے ملکوں کو متعدد بار یہ نسخہ تھماتا رہتا ہے کہ شرح مبادلہ کی تبدیلی کے طریق کار کو اپنایا جائے لہٰذا اس مقصد کی خاطر متعدد ملکوں کو اپنی کرنسی کی قدر میں کمی لانا پڑتی۔ پاکستان تو اس سلسلے میں اتنا بے باک ہو چکا تھا کہ آئی ایم ایف سے مذاکرات سے قبل ہی مذاکرات کاروں کے چہرے کی ناگواری کو دیکھتے ہی کرنسی کی قدر میں وقت کے لحاظ سے نمایاں کمی کردیتا تاکہ مذاکرات خوشگوار ماحول میں ممکن ہو سکیں۔

لہٰذا کرنسی کی کم قدری کے باعث ترقی پذیر ممالک میں ایک طرف درآمدات کی قیمت بڑھتی اس طرح معاشی ترقی کی رفتار کم پڑ جاتی۔ یعنی لینے کے دینے پڑ جاتے۔ ایسے میں ہونا یہ چاہیے تھا کہ آئی ایم ایف ایسے پروگرام پیش کرتا جس سے ترقی پذیر ممالک کو زیادہ سے زیادہ وسائل منتقل کیے جاتے ان کی مالی حالت کو بہتر بنانے کے لیے مختلف اقدامات اٹھائے جاتے لیکن آئی ایم ایف کے وسائل کا بیشتر حصہ ترقی یافتہ ممالک کی جانب منتقل ہوتا رہا اور غریب ممالک کی غربت بڑھتی رہی۔

لہٰذا کئی بڑے معاشی ماہرین اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ ایک خسارے میں مبتلا ترقی پذیر ملک آئی ایم ایف سے قرض طلب کرتا ہے اور اگر اس کی شرائط تسلیم نہ کی جائیں تو وہ قرض نہیں دیتا۔ لیکن مسئلہ اس وقت پیدا ہو جاتا ہے جب دیگر ادارے حتیٰ کہ ترقی یافتہ ممالک بھی اس ملک کو براہ راست قرض دینے سے انکار کردیتے ہیں۔ آئی ایم ایف کی رضا مندی کے بعد یہ بات کہی جاتی ہے کہ اب دیگر اداروں حتیٰ کہ ملکوں سے بھی قرض لینے کی راہ ہموار ہو جاتی ہے۔

پاکستان کے نئے وزیر خزانہ نے اس سلسلے میں لگی لپٹی کے بغیر ہی آئی ایم ایف سے معاہدے پر نظرثانی کی درخواست کی ہے۔ اس وقت جس طرح کا عالمی معاشی ماحول ہے جوکہ کساد بازاری سے اور دنیا میں گزرے ہوئے کئی مالیاتی بحرانوں سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ اس دور میں عوام پر ہی ان شرائط کا برا اثر پڑتا ہے ساتھ ہی معیشت میں بے روزگاری میں مزید اضافہ اور دیگر معاشی خرابیاں پیدا ہونے کے سبب ان شرائط کو پورا کرنا محال ہے۔

لہٰذا آئی ایم ایف جس طرح ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ نرمی، رعایت اور سہولت کا طریق کار اپناتا ہے اسی طرح دیگر ترقی پذیر ملکوں اور خاص طور پر پاکستان کے ساتھ بھی نرم رویہ اپنائے تاکہ ملک جلد ازجلد 5 تا 6 فیصد شرح ترقی حاصل کرلے۔ بصورت دیگر آئی ایم ایف کی سخت ترین شرائط کورونا زدہ معیشت کے لیے انتہائی مضر ہوں گے۔
Load Next Story